1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

‏‏زرداری،مکاری اوروفاداری

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از آزاد, ‏22 مارچ 2009۔

  1. آزاد
    آف لائن

    آزاد ممبر

    شمولیت:
    ‏7 اگست 2008
    پیغامات:
    7,592
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    ‏‏زرداری،مکاری اوروفاداری
    [​IMG]

    [​IMG]
    عامر احمد خان​
    بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لندن​

    پاکستان کے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کی طرف سے نو مارچ سن دو ہزارسات میں چیف جسٹس کی معذولی اور ان کے ساتھ اپنے عہدوں سے مستعفی ہونے والے ججوں کی بحالی کے لیے دو سال سے جاری وکلاء تحریک کی بلآخر کامیابی کے بعد ملک میں پیدا ہونے والی صورت حال پر بی بی سی اردو سروس کے مدیر عامر احمد خان کا تجزیہ۔ تجزیہ تین اقساط میں شائع کیا جارہا ہے۔ اس کی دوسری قسط ملاحظہ ہو:

    آصف علی زرداری جب سے پاکستان کے صدر بنے ہیں انہوں نے اپنے ہر انٹرویو اور تقریباً ہر بیان میں کہا ہے کہ ان کا ہر فیصلہ اور ہر قدم بینظیر بھٹو کی وضع کردہ سیاست کے اصولوں کی روشنی میں لیا جاتا ہے۔

    وہ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ انہیں جب بھی مشکل فیصلوں کا سامنا ہوتا ہے وہ خود سے یہی سوال کرتے ہیں کہ اگر بینظیر بھٹو زندہ ہوتیں تو ایسی صورتحال میں کیا کرتی۔ اگر واقعی ایسا ہے تو کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ان کی مقتول رہنما کی سیاست کو ان سے کہیں زیادہ ان کے سب سے بڑے سیاسی حریف میاں نواز شریف زندہ رکھے ہوئے ہیں؟

    یہ پاکستانی سیاست کا کمال ہے کہ ملک کے دو بڑے سیاستدانوں نے جلا وطنی میں اپنی سیاست کی مکمل تشکیل نو کی۔ میاں نواز شریف کے نئے سیاسی اوتار کی داستان آپ اس تجزیاتی سلسلے کے پہلے حصے میں پڑھ چکے ہیں۔ اب ایک نظر بینظیر بھٹو کے سیاسی فلسفے پر۔

    میاں نواز شریف کی طرح وہ بھی پہلے دن سے ہی پاکستانی سیاست کو اپنا خداداد حق بلکہ جاگیر سمجھتی تھیں۔ ان کے لیے نہ تو پارٹی کے لیے نو سال تک جنرل ضیا نامی عذاب بھگتنے والے پارٹی کارکنوں کی کوئی حیثیت تھی اور نہ ہی انہیں جمہوری اصولوں کے تحت ضیائی نظام کی باقیات ختم کرنے میں کوئی دلچسپی۔ حصول اقتدار ان کی سیاست کا واحد محور تھا بالکل جیسے کوئی بپھرا ہوا جاگیردار اپنی چھنی ہوئی جاگیر دوبارہ حاصل کرنے کے لیے بے تاب ہوتا ہے۔

    شاید اسی لیے انیس سو چھیاسی میں وطن لوٹنے کے بعد وہ کسی اور سیاستدان کو خاطر میں نہ لائیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ انہیں پاکستان کے سیاسی نظام پر جنرل ضیاء کی چھاپ کی گہرائی کا اندازہ تو ضرور ہو گیا لیکن کیونکہ اقتدار کی سیاست کی پیچیدگیاں ان کی سمجھ سے بالاتر تھیں اس لیے ان کا رد عمل ایک سیاستدان سے زیادہ ایک کھلاڑی کا رہا۔ اس وقت ان کا حریف میاں نواز شریف نہ سیاستدان تھا اور نہ کھلاڑی۔ اس وقت کا نواز شریف محض قسمت کی وہ بگڑی ہوئی اولاد تھی جس کی سیاست اوپر قدرت اور نیچے فوج کے انٹیلیجنس ادارے آئی ایس آئی نے سنبھالی ہوئی تھی۔

    ظاہر ہے بینظیر بھٹو نے قدم قدم پر مات کھائی۔ معاملہ خواہ صوبے میں وفاق سے تعینات کیے گئے افسروں کا اٹھا یا بھارت میں جاری سکھ بغاوت کی پاکستانی حمایت کا، بینظیر بھٹو اپنی مرضی نہ کر پائیں۔ بھنا کر حمید گل جیسے جہادی جرنیل کو آئی ایس آئی سے نکال پھینکا لیکن اس کے ڈیڑھ سال بعد ہی اپنی حکومت کھو بیٹھیں۔

    اپنی پہلی برطرفی سے بطور ایک سیاستدان تو بینظیر زیادہ نہ سیکھ سکیں لیکن بطور ایک کھلاڑی وہ چند اہم نتیجوں پر پہنچیں۔ لہٰذا جب انیس سو ترانوے میں میاں نواز شریف اپنے ہی بچپنے کی نظر ہوئے تو بینظیر بھٹو نے نسبتاً واضح اہداف کے ساتھ دوبارہ اقتدار سنبھالا۔

    اس بار پنجاب میں براہ راست حکومت کرنے کی بجائے انہوں نے منحرف نواز لیگی میاں منظور وٹو کا سہارا لیا، بھارت کے ساتھ تعلقات پر سخت جارحانہ رویہ اپنایا اور پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کو رام کرنے کے لیے شمالی کوریا سے پاکستان کے میزائیل پروگرام کے لیے مدد لی۔ سیاسی کھیلوں کے پے در پے پینتروں میں ان کو نہ تو اپنی سیاست یاد رہی اور نہ ہی ایک فعال حکومت قائم کرنے کی ضرورت اور اہمیت کا احساس رہا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بھائی قتل ہوا، ایک بار پھر حکومت چھنی، شوہر پھر جیل جا بیٹھا اور خود جلا وطن ہوئیں۔

    دوسری برطرفی کے بعد بینظیر بھٹو کو آئی ایس آئی سے نفرت ہو گئی یہاں تک کہ وہ اپنے انٹرویوز میں بھی کہنے لگیں کہ پاکستان کی سیکیورٹی انتظامیہ بے لگام ہو چکی ہے۔ اب وہ آئی ایس آئی کو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی بھارت دشمنی سے لے کر میاں نواز شریف کی سیاسی کامیابیوں سمیت پاکستان میں ہونے والی تمام سیاسی برائیوں کی جڑ سمجھتی تھیں۔ اور اسی بنیاد پر وہ جلا وطنی میں اپنی سیاست کی تشکیل نو کرنے لگیں۔

    سوئس عدالتوں می اپنے خلاف قائم مقدمات سے نمٹنے کے لیے انہوں نے جنرل پرویز مشرف سے رابطے کھلے رکھے، امریکی انتظامیہ میں اپنے خلاف پائے جانے والے خدشات کو بتدریج زائل کیا، امریکی انتظامیہ میں آئی ایس آئی کے خلاف بڑھتے ہوئے شکوک و شبہات کو اپنے مفاد میں استعمال کیا اور اپنے شوہر کو جیل سے رہا کروا لیا۔

    لیکن ان تمام اقدامات سے کہیں زیادہ اہم ان کا یہ فیصلہ ثابت ہوا کہ وہ ہر حالت میں پارٹی سیاست میں متحرک رہیں گی۔ آٹھ سال کی لمبی جلا وطنی میں بھی ان کے کسی کارکن یا رہنما کو ان تک رسائی حاصل کرنے میں مشکل کی شکایت نہ ہوئی۔ دو ہزار سات کے وسط تک بینظیر بھٹو اپنے شوہر کو جیل سے چھڑا چکی تھیں، جنرل مشرف کی سیاست اپنے آخری دموں پر تھی، میاں نواز شریف اور بینظیر بھٹو فوج کو سیاست میں نہ آنے دینے کا عہد کر چکے تھے اور پوری دنیا ان کو پاکستان کی سیاست میں پھر سے فعال دیکھنے پر مجبور ہو چکی تھی۔

    اٹھارہ اکتوبر دو ہزار سات کو جب بینظیر بھٹو واپس لوٹیں تو عوام جنرل مشرف کی قاف لیگ، ملک کے حقیقی سیاستدانوں کے خلاف ان کی محاذ آرائی اور ملک بھر میں جا بجا ہونے والے خود کش حملوں سے عاجز آ چکے تھے۔ اسی لیے جب انہوں نے قومی مفاہمت کا نظریہ پیش کیا تو سوائے چند دل جلے مبصروں کے کسی نے ان کی مخالفت نہ کی اور نہ ہی ان کی مفاہمتی پالیسی کو موقع پرستی کہا۔

    دوسری جانب بینظیر بھٹو بھی آٹھ سال پہلے ملک چھوڑنے والی مغرور و متکبر سیاستدان نہیں بلکہ لیاری میں اپنے مقتول محافظوں کے گھروں میں ان کی ماؤں اور بہنوں کے ساتھ بیٹھ کر رونے والی شفیق رہنما بن چکی تھیں۔ جس رانی کا خطاب سندھی ان کو کب سے دے چکے تھے اب وہ اپنی ہر ادا میں وہی رانی نظر آتی تھیں۔ ایک سیاسی مسیحا جسے پاکستان کے گلتے سڑتے ناسوروں کے لیے مرہم کا کام کرنا تھا۔

    اپنے قتل سے چند دن پہلے ایک صحافی نے بینظیر بھٹو سے پوچھا کہ وہ اپنی سکیورٹی کے بارے میں اتنی لاپرواہ کیوں ہیں۔ اب سب کچھ پھر پہلے جیسا ہو چکا ہے نا، انہوں نے جواباً کہا۔ بینظیر کا یہ اوتار اس قدر بھرپور تھا کہ غیر رسمی محفلوں میں بڑے بڑے فوجی جرنیل بھی ماننے پر مجبور ہو گئے کہ اب صرف وہ ہی ملک کو سنبھال سکتی ہیں۔

    شاید اسی لیے ان کے قتل پر صرف لوگ ہی نہیں روئے، لوگوں کے دل روئے۔ کسی نے کہا آج میری بہن گئی، کوئی بولا آج میری ماں مری۔ پورا ملک ایک برباد عاشق کی طرح سوگوار ہوا جیسے ہر کسی کو یقین ہو کہ اس بار بینظیر بھٹو اقتدار کی خاطر نہیں بلکہ عوام کی خاطر ملک لوٹی تھیں - شاید یہ جانتے ہوئے کہ انہیں قتل کر دیا جائے گا۔

    بینظیر بھٹو کے قتل سے یوں لگا جیسے پاکستان یکایک برسوں پیچھے چلا گیا ہو۔ سیاسی افق پر پھر ماضی کی تاریکیوں نے غلبہ کیا اور جب اٹھارہ فروری کے انتخابات سے یہ تاریکی چھٹی تو قوم کو اس میں سے آصف علی زرداری کا ہشاش بشاش چہرہ جھانکتا ملا۔

    یہ آصف علی زرداری کون تھا؟ کیا یہ انیس سو چھیاسی والی بینظیر بھٹو کا ایک روپ تھا جسے پارٹی وراثت میں ملی تھی اور جو اقتدار کو اپنا خداداد حق سمجھتی تھی؟ یا یہ انیس سو ترانوے والی بینظیر کا اوتار تھا جو اقتدار کی خواہش کے لیے ابلیس ابن ابلیس سے بھی اتحاد کر سکتی تھی؟ یا پھر یہ دو ہزار سات والی بینظیر کا نیا جنم تھا جو محاذ آرائی کے زخموں سے چور پاکستان پر مفاہمت کا مرہم رکھنے لوٹی تھی؟

    جس وقت آصف علی زرداری نے صدر بننے کا ارادہ کیا اس وقت پاکستان میں ایک عام رائے یہ تھی کہ انہیں براہ راست اقتدار سے باہر رہتے ہوئے صرف پارٹی امور پر توجہ دینا چاہیے اور یوں وقت کے ساتھ ساتھ اپنے سیاسی قد کاٹھ کو بڑھاتے ہوئے پارٹی کے دل میں جگہ بنانی چاہیے۔ لیکن ان کے صدر بننے کے فیصلے میں انیس سو چھیاسی والی بینظیر کا روپ نظر آیا۔

    پھر جب آصف علی زرداری نے میاں نواز شریف کے ساتھ اپنے تحریری معاہدوں کی دھجیاں اڑاتے ہوئے کہا کہ سیاسی معاہدے قران یا حدیث نہیں ہوتے تو قوم نے ان میں انیس سو ترانوے والی بینظیر کی جھلک دیکھی جو حصول اقتدار کی خاطر شیطان سے بھی ڈیل کرنے کو تیار تھیں۔

    کیا کبھی پاکستان کو آصف زرداری میں دو ہزار سات والی بینظیر کی جھلک بھی نظر آئے گی یا نہیں؟ یہ کہنا مشکل ہے۔ حقیقت خواہ کچھ بھی ہو، اس وقت پاکستان کی سیاسی حقیقت یہی ہے کہ آصف علی زرداری کی تاحال سیاست صرف اور صرف مکاری پر مبنی رہی ہے۔ اس میں ابھی تک نہ تو پارٹی، نہ سیاسی حلیفوں، نہ ملک اور نہ ہی بینظیر سے وفاداری کا کوئی عنصر سامنے آیا ہے۔

    اور صدر زرداری کے مسائل بینظیر بھٹو کے مقابلے میں کہیں زیادہ سنگین ہیں۔ بینظیر بھٹو کو سیاسی مکاری کے مختلف مراحل سے گزر کر ملک و قوم سے وفاداری کی منزل تک پہنچنے میں بیس سال کا عرصہ لگا۔ آصف علی زرداری کے پاس اتنا وقت کہاں۔ ان کو جو بھی کرنا ہے آج ہی کرنا ہے۔ صدر بننے سے لے کر اب تک قوم نے صرف ان کی سیاسی مکاری دیکھی ہے۔ اب انہیں اپنی پارٹی پر، اپنے سیاسی حلیفوں پر، اپنے بیرون ملک حمایتیوں پر اور سب سے بڑھ کر اپنی قوم پر ثابت کرنا ہے کہ اب تک جو ہوا وہ ان کی غلطی اور سیاسی ناسمجھی کا نتیجہ تھا۔

    اور ایسا کرنے کے لیے اگر ان کا خیال ہے کہ بینظیر بھٹو کی طرح ان کے پاس بھی بیس سال ہیں تو یہ بڑی خام خیالی ہو گی۔ بینظیر بھٹو کے قتل نے پاکستان میں سیاسی قتل و غارت کی ایک نئی روایت شروع کی ہے جو اس سے پہلے صرف چھوٹی چھوٹی فرقہ وارانہ یا لسانی جماعتوں میں پائی جاتی تھی۔ اور ضروری نہیں کہ اس نئی روایت کے پاسبان مذہبی جنونی ہوں۔ یہ کوئی بھی ہو سکتا ہے۔

    صدر آصف علی زرداری کو یاد رکھنا ہو گا کہ بینظیر بھٹو کو لگنے والی گولی تو شاید ایک ہی ہو لیکن اسے چلانے والے ہاتھ سینکڑوں بلکہ ہزاروں بھی ہو سکتے ہیں۔ آج کے پاکستان میں یہ بھی ممکن ہے کہ ان ہاتھوں کی پہنچ وہاں تک ہو جہاں فرشتوں کے بھی پر جلتے ہیں۔

    اور ان ہاتھوں کے سامنے آصف علی زرداری کی واحد ڈھال کسی اصول، کسی نظریے سے وفاداری ہے نہ کہ وہ سیاسی مکاری جو انہیں بدتریج ایک گہری کھائی کے کنارے دھکیل لائی ہے۔ اب انہیں فوراً اپنی راہ بدلنا ہو گی کیونکہ جس راستے پر وہ اب تک چلتے آئے ہیں اس پر آگے صرف اندھیرا ہے۔
     
  2. حسن رضا
    آف لائن

    حسن رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جنوری 2009
    پیغامات:
    28,857
    موصول پسندیدگیاں:
    592
    ملک کا جھنڈا:
    آزاد بھائ ہمیشہ کی طرح‌اچھی شیئرنگ کی :dilphool:
     
  3. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    شئیرنگ کے لئے شکریہ
     
  4. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    آزاد بھائی ۔ مختصر لیکن اچھا تجزیہ جاری ہے۔
     
  5. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    اچھا کالم ہے

    ایک عدد کالم میرے اوتار میں موجود بندے کے لئے بھی لکھ ڈالیں۔
     
  6. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    :soch: اگر آزاد بھائی نے کہہ دیا کہ پہلے اپنے دعوے کو ثابت کریں تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟
     
  7. آزاد
    آف لائن

    آزاد ممبر

    شمولیت:
    ‏7 اگست 2008
    پیغامات:
    7,592
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    :soch: اگر آزاد بھائی نے کہہ دیا کہ پہلے اپنے دعوے کو ثابت کریں تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟[/quote:181gi5pi]
    نعیم بھائی آپ نے میرے دل کی بات کہہ ڈالی :201: :201: :201: :201: :201: :201: پہلے اِس بات کو ثابت کیا جائے کے یہ "بندے کا پُتر" ہی ہے کے کسی "۔۔۔۔۔۔" کا پُتر(دوست، احباب، خالی جگہہ اپنی مرضی سے پُر کر لیجئے، سوچ پر کوئی قید نہیں۔۔۔۔) :201: :201: :201:
     
  8. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    یہ بندے کا پتر تو ہے لیکن حرکتیں‌کچھ اور بتاتی ہیں کہ ۔۔۔۔۔۔
    :201: :201:
     

اس صفحے کو مشتہر کریں