1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

۔ ۔2021 ء میں سیاسی درجہ حرارت کیسا رہیگا؟ ۔۔۔۔۔۔۔ خاور گھمن

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏8 جنوری 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    ۔ ۔2021 ء میں سیاسی درجہ حرارت کیسا رہیگا؟ ۔۔۔۔۔۔۔ خاور گھمن

    ۔2020 ء پاکستان سمیت دنیا بھر کیلئے بہت بھاری رہا، کورونا وائرس کے حملے جاری رہے ، عام عوام کی زندگیاں بری طرح متاثر اور کاروبار بند ہونے سے لاکھوں لوگوں کی نوکریاں ختم ہوئیں۔
    کورونا کے باجود حکومتی کارکردگی تعمیراتی صنعت اور ٹیکسٹائل کے شعبے میں تو بہتر دیکھنے میں آئی تاہم مہنگائی اوربے روزگاری میں مسلسل ا ضافہ ہو رہاہے۔ مسائل معاشی ہوں یا سیاسی ، حکومت 2021 ء میں ان کوساتھ لیکر ہی داخل ہو ئی ہے۔پی ڈی ایم وزیر اعظم کے ا ستعفے کیلئے 31 جنوری کی ڈیڈ لائن دے چکی ہے، مارچ میں سینیٹ انتخابات اور اس سے پہلے2 قومی اور 5 صوبائی اسمبلیوں کی خالی نشستوں پر ضمنی انتخابات ہونے ہیں۔ یوں نئے سال کا آغاز بھی سیاسی اعتبار سے ہنگامہ خیز رہنے کی توقع ہے ۔کلی طور پر نہ تو پی ڈی ایم کامیاب ہوتی نظر آرہی ہے اور نہ حکومت ؟ یہ کہنا درست نہیں ہو گا کہ اپوزیشن کی جاری تحریک سے حکومت کو کوئی فرق نہیں پڑیگا۔ تو پھر ہوگا کیا؟

    اس صورتحا ل میں شہر اقتدار میں موجود سیاسی منظر نامے کو قریب سے دیکھنے والوں سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ ملکی سیاسی ماحول میں سردست کوئی فوری تبدیلی ممکن نہیں، البتہ حکومت لاکھ انکار کرے دونوں اطراف میں کچھ لین دین ضرور ہوگا۔وہ ممکنہ سیاسی لین دین کیا ہو سکتا ہے جو موجودہ سیاسی بحران کے خاتمے کی وجہ بنے گا؟اس پر ایک وفاقی وزیر سے جب بات ہو ئی تو ان کا کہنا تھا حکومت تو ہر سطح پر مذکرات کیلئے تیار ہے۔ انتخابی اصلاحات ہونی ہیں یا پھر نیب کے موجودہ قانون میں کچھ تبدیلیاں یہ سب کچھ پارلیمینٹ کے اندر ہی ہوگا۔ جس کے سادہ سے معنی ہیں حکومت کہیں نہیں جارہی۔

    وفاقی وزیر نے ایک بہت اہم بات کی کہ اگر اداروں کے سیاسی کردار کے حوالے سے بھی کوئی بات چیت ہو گی تو اس کیلئے بھی دونوں ہائوسز پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جا سکتی ہے جس میں سول سوسائٹی سمیت متعلقہ اداروں کے نمائندگان کو بھی بلایا جا سکتاہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پی ڈی ایم کے مطالبے پر ہم استعفے دے کر گھر چلے جائیں اور اس کے بعد بات چیت ہو۔ فرض کریں ہم اگر ان کی بات مان لیتے ہیں تو پھر طے ہونیوالے معاہدے پر عملدرآمد کون کروائے گا؟ وفاقی وزیر کا کہنا تھا اپوزیشن والے چاہتے ہیں کہ تحریک انصاف پوری طرح موجودہ سسٹم سے لا تعلق ہو جائے،نیب کے سارے مقدمات یکدم ختم کر دئیے جائیں اور اس کے بعد معاملات آگے بڑھیں۔ قانون اور آئین کی حکمرانی اگر یہ لوگ چاہتے ہیں تو اس کا واحد راستہ پارلیمان سے ہو کر ہی گزرتا ہے۔

    اس سوال پر کہ کیا بند دروازوں کے پیچھے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کسی قسم کے رابطے ہو رہے ہیں ؟ ایک اور وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان رابطے ہمیشہ رہتے ہیں لیکن کیا یہ رابطے نتیجہ خیز ہونگے اس پر کچھ نہیں کہا جا سکتا، تاہم تمام سیاسی جماعتیں ہر طرح کے کشیدہ ماحول میں سیاسی حل ہی ڈھونڈنا چاہتی ہیں۔

    یہی سوالات اورخدشات جب کچھ اپوزیشن کے لوگوں کے سامنے رکھے تو ان کے مطابق ایسا تو نہیں ہو سکتا کہ تحریک کو اس نہج پر لانے کے بعد ہم چپ چاپ گھر چلے جائیں گے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کے سیاسی اثرات تمام پی ڈی ایم جماعتوں کیلئے خوفناک ہو سکتے ہیں۔ اس لیے اگر کسی کا خیال ہے کے اتنے جلسے اور تقریریں کرنے کے بعد ہم منہ بند کرکے اپنے گھروں کو چلے جائیں گے تو یہ غلط ہے۔

    (ن )لیگ کے ایک رہنما کے مطابق ماضی میں تحریک انصاف کی (ن) لیگ حکومت کیخلاف احتجاجی تحریک کا بھی ایک درمیانی حل نکالا گیا تھا جو کہ آئینی اور قانونی تھا اور اس کے بعد سیاسی عمل آگے بڑھا۔ اس بار بھی ایسا ہی ہوگا تو ملک آگے چل سکے گا۔

    سیاسی مبصرین کے مطابق موجودہ سیا سی لڑائی اگر اسی طرح آگے بڑھتی رہی تو اس کی ہار جیت کا فیصلہ سیاستدان نہیں کوئی اور کرے گا؟ اور ملک ایک با رپھر ایک نئے بحران کی جانب چل پڑے گا۔ اس لیے جتنا جلد دونوں اطراف پارلیمینٹ میں بیٹھ کر بات چیت کا آغاز کریں ملک اور جمہوریت کیلئے اتنا ہی ا چھا ہوگا۔

    ہر طرح کے مؤقف کو سامنے رکھتے ہوئے میرا ذاتی تجزیہ یہ ہے کہ حکومت کو بہر حال پہل کرنی پڑیگی اور اپوزیشن کیساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنا ہی پڑیگا۔ حکومت کو قانون اور آئین کے اندر رہتے ہوئے اپوزیشن کو کوئی ریلیف دینا پڑتا ہے تو اس میں حرج نہیں۔ وزیر اعظم کو بھی یہ حقیقت ماننا ہو گی کہ اڑھائی سال میں اپنی تمام تر کوششوں کے باو جود وہ اس ملک میں وہ تبدیلی نہیں لا سکے جس کے وہ دعوے کرتے آئے ہیں، سابقہ حکومتوں کی نااہلی اپنی جگہ ، حکومت ابھی تک متعدد ایسے کام ہی نہیں کر سکی جو ناگزیرتھے۔یوں اپنی ساری کوتاہیوں کا ملبہ اپوزیشن پر ڈالنے کا بیانیہ اب مزید نہیں چلے گا۔

    دانشمندی کا تقاضا یہی ہے کہ حکومت 5 سال پورے کرے۔ اور اس کے بعد عوام وزیراعظم عمران خان کی کارکردگی کا جائزہ اپنے ووٹ کے ذریعے لیں۔ اپوزیشن کیلئے بھی یہی مناسب ہوگا کہ وہ موجودہ حکومت کو اپنا وقت پورا کرنے دے بصورت دیگر تحریک انصاف سڑکوں پر ہو گی کہ اسے اگر پوری ٹرم مل جاتی تو وہ اپنے تمام وعدے پورے کردیتے۔ اب دیکھتے ہیں نیا سال ملکی سیاست میں کچھ نیا پن لاتا ہے یا پھر ہم گول دائرے میں ہی گھومتے رہیں گے۔




     

اس صفحے کو مشتہر کریں