1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

یہ ’طوائف‘ اور ’طوائف الملوکی‘ کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ ۔۔۔ اطہر ہاشمی

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏13 دسمبر 2019۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    ایک باراں دیدہ سیاستدان نے گزشتہ دنوں مشورہ دیا ہے کہ ’نیا کٹّا‘ نہ کھولا جائے۔ یہ کٹّا کون ہے جو پہلے کبھی ہٹا، کٹا تھا؟ اس کی تفصیل میں جاکر ہم کوئی سیاسی کٹا نہیں کھولنا چاہتے، چنانچہ لفظ ’کٹا‘ کی بات کرتے ہیں۔

    اردو میں استعمال ہونے والے جن الفاظ میں ’ٹ‘ آجائے تو سمجھ لیں کہ یہ ہندی سے درآمد کردہ ہیں لیکن اردو میں یہ کثیر المعنیٰ ہیں۔ مذکورہ سیاستدان نے کٹا کھولنے کی جو بات کی ہے تو پنجابی میں اس کا مطلب چھوٹی بوری یا تھیلہ ہے، جیسے آٹے کا کٹا۔ اس کو انگریزی اصطلاح کے مطابق ’پنڈورا باکس کھولنا‘ کہا جاسکتا ہے، جو آئے دن کھلتا رہتا ہے اور اس میں سے بلائیں برآمد ہوتی رہتی ہیں۔ بلا پر ایک شعر بلاوجہ یاد آگیا، تھوڑی سی ترمیم کے بعد

    آسماں سے جو کوئی تازہ بلا آتی ہے

    پوچھتی سب سے ’اسی‘ گھر کا پتا آتی ہے

    یہ گھر کون سا ہے، ہمیں کیا معلوم۔ لیکن اسی گھر سے بلائیں تقسیم کی جاتی ہیں کیونکہ یہ بلندی پر ہے۔ پنجابی میں بھینس کے بچے کو کٹّا کہتے ہیں لیکن یہ اردو میں بھی عام ہے۔ پنجابی ہی کا ایک محاورہ ہے ’کٹّا چونا‘ یعنی کٹے سے دودھ حاصل کرنا، مراد ہے ناممکن کام۔ لوگوں کو خوشحال بنانے کے لیے کٹّوں کی تقسیم کا منصوبہ روبہ عمل ہے۔

    کٹّے کی مؤنث کٹّی ہے لیکن وہ کام کی ہوتی ہے کہ بڑی ہوکر بھینس بن جاتی اور دودھ دیتی ہے۔ مگر کٹّا صرف کاٹ کر کھانے کے کام آتا ہے۔ کچھ ممالک میں بھینسے کو بھی ہل میں جوت دیتے ہیں۔ بھارت میں گاڑی میں جوتا جاتا ہے جو جھوٹا بوگی کہلاتی ہے، ہم نے بھی اس میں سفر کیا ہے۔ اردو میں شاید موٹا جھوٹا کا اشارہ اسی طرف ہو جیسے ’ہٹا کٹا‘۔ موٹا جھوٹا عام طور پر ادنیٰ لباس یا غلے کے لیے استعمال ہوتا ہے، جیسے موٹا جھوٹا پہننا، یا موٹا جھوٹا کھانا۔

    کٹّا ہندی میں بطور صفت نہایت مضبوط، پکّا کو کہتے ہیں جیسے ’کٹّا مسلمان‘۔ تاہم اردو میں اس کے لیے ’کٹّر‘ مستعمل ہے۔ اب کوئی ’کٹّا مسلمان‘ کی اصطلاح استعمال نہیں کرتا، تاہم لغت میں موجود ہے۔ اس پر تشدید نہ ہو اور صرف کٹا ہو تو مطلب بدل جائے گا، اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں۔ البتہ ایک لفظ ہے ’کٹا جانا‘ یعنی شرمندہ ہونا، خفیف ہونا۔ مثلاً ’شرم سے کٹا جاتا ہوں‘۔ اسی سے ایک اور لفظ ہے ’کٹا چھنی‘ یعنی لڑائی بھڑائی، مارپیٹ، دشمنی۔ حکومت اور اس کے مخالفین میں یہ کٹا چھنی عام ہے۔ کٹا چھنی مؤنث ہے لیکن اس کی ایک بہن بھی ہے یعنی ’کٹی چھنی‘۔ مطلب اس کا بھی یہی ہے: نوک جھونک جو عداوت سے ہو۔ سانس لینے کے لیے داغؔ کا شعر سن لیجیے

    بے طرح ہے نگاہ سے دل کی کٹی چھنی

    بے ڈھب ہے گرم معرکۂ کارزار آج

    بھینس پالنے والے جانتے ہیں کہ گنڈاسے سے کٹا ہوا چارا بھی کٹی کہلاتا ہے، اور اگر اس میں کھل وغیرہ ملادی جائے تو سانی، کٹی کہلاتا ہے۔

    بچے ایک دوسرے سے خفا ہوکر کُٹی بھی کرلیتے ہیں، بعض ’ک‘ پر پیش اور بعض زبر لگا کر۔ یہ شاید خفگی کی نوعیت پر منحصر ہو۔ لغت کے مطابق جو بچے دوستی ختم کرتے ہیں تو وہ دانتوں کو ناخن سے کھٹک کر کہتے ہیں کہ ’کٹی ہمیں قید، تمہیں چھٹی‘۔ لیکن اب ایسے بچے کہاں رہے جو ’مقفیٰ‘ کٹی کریں۔


    سنڈے میگزین (یکم تا 7 دسمبر) میں ایک مضمون کی سرخی ہے ’نفرتوں کے عذاب سہہ کر‘۔ 2 ’ہ‘ لگانے سے تو تلفظ ’سہے‘ ہوجائے گا۔ مناسب تھا کہ صرف ’سہ‘ سے کام چلالیا جاتا۔ ایسے کئی الفاظ ہیں جن میں غیر ضروری طور پر ایک ’ہ‘ بڑھادی جاتی ہے مثلاً تہہ خانہ، تہہ خاک وغیرہ۔ زانوئے تلمذ تہ کیا جاتا ہے، تہہ نہیں۔

    اسی شمارے میں بجائے خود ایک ادبی شخصیت جو ادبی پروگراموں کی رپورٹنگ کرتے ہیں، انہوں نے نعتیہ مشاعرے کی روداد میں لکھا ہے ’گفتگو کا لب و لباب‘۔ یقین ہے کہ انہیں لب اور لباب کا مطلب آتا ہوگا اور بیچ میں ’و‘ کمپوزر نے لگادیا ہوگا۔ ایسی غلطیوں پر مرزا غالب تو فرشتوں کا شکوہ کرتے تھے کہ ’پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق‘۔ تاہم اب مضمون نگار اپنی غلطیاں کاتب یا کمپوزر پر ڈال کر دامن بچالیتا ہے۔

    معروف ادیب اور کالم نگار جناب حسین پراچہ نے ہماری ایک تحریر کے حوالے سے لاہور سے یاد کیا ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ وہ 30 برس سے لکھ رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے خط میں لکھا کہ ’’میں نے ایک بار لکھا ’القبہ الصخرہ‘، مگر کمپوزر نے اسے ’القحبہ الصخرہ‘ کردیا۔ قحبہ کا عربی میں جو مطلب ہے وہ آپ سے پوشیدہ نہیں‘‘۔ عربی میں تو اس کا مطلب کھانسنے والی ہے اور مادہ اس کا قحب ہے۔

    ہم نے پہلے کہیں لکھا ہے کہ طوائفیں کھانس کر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی تھیں، اس لیے قحبہ کا لفظ وجود میں آیا۔ خود طوائف کا مطلب گھومنے والی ہے جس کا پنجابی ترجمہ ’گشتی‘ بہت فصیح ہے۔ طوائف ہی سے طوائف الملوکی بنا ہے۔ حسین پراچہ صاحب برسوں سعودی عرب میں رہے ہیں، انہیں مطلب معلوم ہے۔ حسین پراچہ نے ہمارے کسی کالم کا حوالہ دیا ہے جس میں کالم نگار علی عمران جونیئر نے کسی کے حوالے سے ’ہر ممالک‘ لکھا ہے، اور پراچہ صاحب کا گمان ہے کہ علی عمران کا اشارہ غالباً اس طالب علم (پراچہ صاحب) کی طرف ہے، جبکہ ایسی فاش غلطی کا سرزد ہونا میرے قلم سے ممکن نہیں۔

    ہوسکتا ہے حسین پراچہ صاحب نے عاریتاً کسی اور کا قلم لے لیا ہو۔ اب ہمیں یاد نہیں کہ اس کالم میں کیا لکھا تھا، لیکن اس کا ایک فائدہ تو ہوا کہ فقیر حسین پراچہ صاحب نے ایک پرتقصیر کو یاد کیا کہ دل کو کئی کہانیاں یاد آکے رہ گئیں۔ ان کے قلم سے غلطیوں کا صدور نہیں ہوتا ہوگا، لیکن ہم خود غلطیاں کرجاتے ہیں اور عالم فاضل لوگ ان کی نشاندہی کرتے ہیں۔

    جہاں تک لُب اور لُباب کا معاملہ ہے تو اپنے قارئین کے لیے ایک بار پھر وضاحت کریں کہ یہ ’لب لباب‘ ہے، اور اس میں ’و‘ نہیں آتا جو ’اور‘ کے معنی دیتا ہے۔ لُب عربی کا لفظ ہے (بتشدید حرفِ آخر) مطلب ہے: ست، خلاصہ، مغز، اور لباب کا مطلب ہے: مغز یا ست، خالص، ہرچیز کا لب لباب یعنی ست کا ست۔آسان الفاظ میں ’عطر کا عطر‘۔

    جناب شفق ہاشمی کئی زبانوں کے ماہر اور بہت شفیق انسان ہیں۔ انہوں نے توجہ دلائی ہے کہ ہمزا کے آخر میں الف نہیں بلکہ ’ہ‘ آتی ہے یعنی ’ہمزہ‘۔ ان کی بات درست ہے گوکہ ہمیں لغت دیکھ کر سہو ہوگیا تھا۔ انہوں نے ایک مشورہ یہ بھی دیا ہے کہ ’کڑاہی میں سر دیا تو موسلوں کا کیا ڈر‘۔ یہ موسلی ہے، موسل نہیں۔

    یہ تو چھوٹے بڑے کا فرق ہے تاہم ہمیں یاد آتا ہے کہ اصل محاورہ ’اوکھلی میں سر…‘ ہے، کڑاہی میں نہیں۔ کڑاہی کا محاورہ تو یہ ہے کہ ’پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں‘۔

    اوکھلی یا اوکھل ہندی کا لفظ ہے اور مطلب ہے: لکڑی یا پتھر کی گہری کونڈی جو زمین میں گڑی ہوتی ہے اور اس میں غلہ وغیرہ ڈال کر موسل سے کوٹتے ہیں۔ اوکھلی میں سر دینا کا مطلب ہے: خود ہی خطرے میں پڑنا۔ کچھ حکمران بھی اس کے عادی ہیں۔ یہ جو موسلادھار بارش ہوتی ہے اس میں بھی ’موسلا‘ کا مطلب موسل ہے یعنی بہت موٹی بوندیں۔​
     
    intelligent086 اور ساتواں انسان .نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    گزشتہ سے پیوستہ
    ’واضح فرق نمایاں ہے‘ ٹھیک نہیں، یا تو واضح لکھ دو یا پھر نمایاں!
    اطہر ہاشمی
    خوشی ہوتی ہے جب کوئی بھی اردو کے املا اور صحتِ زبان کے حوالے سے کچھ لکھتا ہے۔ ہمیں بھی سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ 25 اکتوبر کے ایک اخبار میں ایسی ہی ایک کوشش محترم علی عمران جونیر کی طرف سے نظر سے گزری۔

    انہوں نے کئی اصلاحات کی ہیں، تاہم ان سے ایک گزارش ہے۔ انہوں نے لکھا ہے ’ایڈریس کو اردو میں پتا لکھا جاتا ہے جب کہ کچھ نوجوان صحافی ’پتہ‘ لکھتے ہیں‘۔

    یہاں تک تو بات پتے کی ہے، لیکن آگے لکھتے ہیں ’پتہ درخت والا پتّہ ہوتا ہے‘۔ ان کی خدمت میں عرض ہے کہ یہ بھی پتّا ہے، پتّہ نہیں۔ اسی طرح جسم کا ایک عضو پِتّا (پ بالکسر) ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے پِّتا پانی ہوگیا۔ غالباً خوف سے پھٹ جاتا ہوگا۔ لغت کے مطابق ان تینوں الفاظ پتا، پتّا اور پِتّا کے املا میں آخر میں الف آتا ہے۔ بڑا مشہور شعر ہے

    پتّا، پتّا، بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
    جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے

    ایک مشورہ سب کے لیے ہے۔ ’گاہے بگاہے‘ صحیح ہوگا، لیکن بہتر ہے کہ گاہے گاہے استعمال کیا جائے جیسے اس مصرع میں ہے ’گاہے گاہے باز خواں ایں دفتر پارینہ را‘۔ دفتر کی جگہ قصہ پارینہ بھی پڑھا ہے، قارئین کو جو پسند آئے۔

    ’گاہ‘ فارسی کا لفظ ہے اور اردو نظم میں یہ ’گہ‘ بھی استعمال ہوتا ہے۔ مرکبات میں بھی مستعمل ہے جیسے صبح گاہ، سحر گاہ، شام گاہ۔ مکان اور جگہ کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ جیسے شکار گاہ، سجدہ گاہ۔ گاہ کبھی کے معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے جیسے میرؔ کا شعر ہے

    گہ کمر میں تھی لچک، گاہ تھی اعضا میں پھڑک
    گہ جواں گاہے پیر، گہ دم کودک (کودک بچے کو کہتے ہیں)

    فارسی میں گاہ بگاہ بھی استعمال ہوا ہے یعنی وقت بے وقت۔ گاہے گاہے کو گاہے ماہے بھی لکھا جاتا ہے یعنی کبھی کبھی۔

    پِتّا ہندی کا لفظ اور مذکر ہے۔ اس عضو کو فارسی میں زہرہ کہتے ہیں چنانچہ پِتّا پانی ہونا کی جگہ زہرہ آب ہونا کہا جاتا ہے۔ مطلب اس کا تحمل، تاب، طاقت، حوصلہ، جگر کے علاوہ غصہ، تیزی، جوش کے معنوں میں بھی آتا ہے۔ پِتّا پِت سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں صفرا۔ صفراوی مزاج آدمی بہت تیز ہوتا ہے اور ہر کام میں عجلت کرتا ہے۔ جلیل مانکپوری کا شعر ہے

    چاہت کی جو تلخیاں اٹھائے
    پتا پانی ہو آدمی کا

    داغ دہلوی کا شعر بھی سنتے (یا پڑھتے) چلیں

    اپنا پتا ہم نے مارا دوست کی خاطر سے آج
    غصہ آیا تھا بہت دشمن کی صورت دیکھ کر

    حاصل یہ کہ پتا کسی کے سراغ کے معنوں میں ہو، برگِ شجر ہو یا پتّا عضوِ جسم ہو، ان سب کے آخر میں الف آتا ہے، ’ہ‘ نہیں۔

    ایک بہت جسیم و قدیم کالم نگار ہیں جو بلامبالغہ 60 برس سے لکھ رہے ہیں۔ ان کو پڑھ پڑھ کر ہم نے اردو سیکھی۔ وہ کالم نگاری کی آبرو ہیں اور کالم نگار کی تعریف پر پورا اترتے ہیں، کیونکہ باقی تو مضمون نگار اور مقالہ نگار بن گئے ہیں۔ تاہم کبھی کبھی وہ زبان کی غلطی کرجاتے ہیں حالانکہ ایک بڑے عالمِ دین کے بیٹے ہیں۔

    انہوں نے 26 اکتوبر کے ایک کالم میں ’دنیا کے ہر ممالک‘ لکھا ہے۔ ہمارا یہ مقام نہیں کہ حق کی اس عطا کو کوئی مشورہ دے سکیں لیکن دوسروں کو اس غلطی سے بچانے کے لیے کہے دیتے ہیں کہ ’ہر‘ کے ساتھ واحد آتا ہے جمع نہیں۔ یعنی ہر ممالک کے بجائے ہر ملک لکھنا چاہیے تھا یا تمام ممالک۔

    محترم رضا علی عابدی اردو زبان و بیان پر بھرپور عبور رکھتے ہیں۔ ان کے ریڈیو پروگراموں سے ہم نے صحیح اردو بولنا سیکھا ہے۔ تاہم انہوں نے اپنے آبائی علاقے کے دورے میں علاء الدین علی احمد صابر کلیری کا ذکر کرتے ہوئے وہی غلطی کی ہے جو اب بہت عام ہوگئی ہے یعنی ’علائوالدین‘۔ محترم، علائوالدین میں ’و‘ نہیں آتا خواہ وہ علاء الدین صابر ہوں یا علاء الدین ہمدم۔ یہ تو ان کو بھی پتا ہوگا کہ ’و‘ عموماً ’اور‘ کے لیے آتا ہے، گویا علائوالدین لکھنے کا مطلب ہوا علاء اور دین۔ ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ منڈی بہاء الدین ہو یا بہاء الدین زکریا یونیورسٹی، ان میں ’و‘ کا دخل غلط ہے۔

    26 اکتوبر کے ایک اخبار میں بہت اچھے کالم نگار نے لکھا ہے ’جائز فرائض کی بجا آوری‘۔ عزیزم، یہ ناجائز فرائض کون سے ہوتے ہیں؟ کیا صرف ’فرائض کی بجا آوری‘ لکھنے سے کام نہیں چلتا؟ فرائض ہیں تو جائز ہی ہوں گے۔

    گزشتہ دنوں ایک اخبار میں ایسا ہی دلچسپ جملہ پڑھنے کو ملا ’واضح فرق نمایاں ہے‘۔ بھائی، اگر فرق واضح تھا تو نمایاں ہی ہوگا۔ واضح اور نمایاں میں سے ایک لفظ کا انتخاب کرلیتے۔ دونوں کا استعمال تو لفظوں کی فضول خرچی ہے اور فضول خرچی کسی چیز کی بھی ہو، اچھی نہیں۔

    ٹی وی اینکرز تو غلط تلفظ پر پنجابی اصطلاح میں ’گج‘ گئے ہیں، لیکن بعض بہت پڑھے لکھے افراد جو ٹی وی پروگرام میں آتے ہیں وہ بھی پیٹ بھر کر تلفظ کی غلطیاں کرتے ہیں اور اس غلطی کا کوئی تعلق علاقے سے نہیں ہوتا۔ یعنی اہلِ پنجاب اگر ’ق‘ کو ’ک‘ کہیں تو نظر انداز کیا جاسکتا ہے، مگر زیر، زبر کی غلطی کا تعلق کسی علاقے سے نہیں ہے۔

    مثلاً ایک بہت پڑھے لکھے شخص جناب پرویز رشید ہمیشہ اِضافہ کو اَضافہ کہتے ہیں، یعنی الف کے سر پر زبر رکھ دیتے ہیں۔ وہ تو پی ٹی وی کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔ اگر وہ اِضافہ کو اَضافہ اور اِشارہ کو اَشارہ نہ کہیں تو کیا فرق پڑے گا؟ ایسے اور کئی الفاظ ہیں جن کا تلفظ ٹی وی چینلوں کے تعاون سے بگاڑا جارہا ہے۔

    شیخ زاید بن سلطان النہیان ایک خلیجی ریاست کے سربراہ ہیں۔ اردو اخبارات میں ان کا نام عموماً زید لکھا جارہا ہے، شاید اس لیے کہ اردو میں زاید منفی معنوں میں استعمال ہوتا ہے جیسے ضرورت سے زائد۔ اردو میں زائد کا مطلب ہے زیادہ، فضول، بچا ہوا۔ اور زائیدہ فارسی میں صفت ہے جس کا مطلب ہے پیدا کیا ہوا، جَنا ہوا۔ نوزائیدہ اردو میں عام ہے لیکن شیخ زاید فارسی کا نہیں عربی کا لفظ ہے۔

    کراچی میں شیخ زاید کے نام پر اسپتال بھی ہے اور ایک جامعہ بھی۔ چنانچہ انہیں شیخ زید نہیں لکھنا چاہیے۔ لیکن ان کی کنیت ’النہیان‘ کا کیا مطلب ہے؟ اسلام آباد سے ضرار خان نے خیال ظاہر کیا ہے کہ نہیان کا مصدر ’نہی‘ ہوسکتا ہے۔ ایسا ہی ہے یعنی ’نہی عن المنکر‘۔ برائیوں کی نفی کرنے والا، روکنے والا۔ تاہم ایک عربی دان نے اس کا مادہ ’نہایت‘ بتایا ہے جو عربی میں ’نہایہ‘ لکھا جاتا ہے۔ مطلب یہ کہ کسی بھی کام کو انتہا تک پہنچانا۔

    منیٰ میں دو بورڈ لگے ہوئے ہیں ’البدایہ اور النہایہ‘۔ یعنی ابتدا اور انتہا۔ یہ علامتیں منیٰ کی حد بندی کے لیے ہیں تاکہ ناواقف لوگ منیٰ کی حدود سے باہر قیام نہ کریں۔ برسبیل تذکرہ میدانِ عرفات کی حدود بھی مقرر ہیں اور امام صاحب جہاں کھڑے ہوتے ہیں وہ جگہ عرفات سے باہر ہے۔

    اجل اور اَجل دونوں ایک ہی طرح لکھے جاتے ہیں لیکن ان کے تلفظ اور معانی میں فرق ہے۔ اَجَلّ میں ’ل‘ پر تشدید ہے جس کا مطلب ہے بہت بزرگ، بڑا ذی شان۔ عام طور پر علما کے ساتھ لکھا جاتا ہے ’فاضل اجلّ‘۔ اس کا مطلب ہے بہت بزرگ شخص۔ جب کہ اَجَل بھی عربی کا لفظ ہے لیکن اس کا مطلب ہے وقت، موت کا وقت، قضا۔ یہ مونث ہے۔ آتشؔ کا شعر ہے

    موسمِ گل نہیں آتا ہے اجل آتی ہے
    گور سے تنگ ہوا جاتا ہے زنداں مجھ کو

    جس کو موت آیا چاہتی ہو اسے بھی اجل رسیدہ کہتے ہیں۔ جلال کا شعر سن لیں

    پکارا کوچہ قاتل میں مجھ کو دیکھ کے دل
    اجل رسیدہ ارے تُو کہاں نکل آیا

    اجل کسی کے سر پر بھی کھیلتی ہے۔ کھیل کے میدان ختم ہوتے جارہے ہیں تو یہی ہوگا۔​
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    بہت بہت شکریہ
     
    intelligent086 نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    پسند اور جواب کا شکریہ
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں