1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

یہ مذہبی عدالتیں

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از محمداکرم, ‏7 دسمبر 2011۔

  1. محمداکرم
    آف لائن

    محمداکرم ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مئی 2011
    پیغامات:
    575
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    [​IMG]

    پیارے دوستو! ہمارے معاشرے میں موجود تنگ نظری اور انتہا پسندی کے رویّے ہمارے درمیان نفرت کی دیواریں کھڑی کر رہے ہیں ، جس سے معاشرے کا امن وسکون تباہ ہوکر رہ گیا ہے۔ روز بروز فروغ پاتی ہوئی فرقہ وارانہ مخاصمت، کفر وشرک کے فتوے ، خودکش حملے اور اپنی ہر جائزوناجائز بات کو اسلحہ کے زور پر منوانے کے بڑھتے ہوئے رجحانات ہمارے معاشرے کیلئے زہرقاتل کا درجہ رکھتے ہیں، جنکے خلاف پوری قوم کو شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی تناظر میں لکھی ہوئی ایک خوبصورت تحریر آپکی نذر ہے:

    یہ مذہبی عدالتیں!
    تحریر: محمد صديق بخارى

    جس گھر میں اسے ایک معزز مہمان کی حیثیت حاصل ہوا کرتی تھی اور جس کے در و دیوار اور مکین و مکاں سب کے سب اس کے لیے دیدہ و دل فرشِ راہ کیے رہتے تھے، آج اُسی گھر میں وہ ایک ملزم بلکہ مجرم کی حیثیت سے حاضر کیا گیا تھا۔ جج صاحب منصبِ قضا پر جلوہ افروز ہو چکے تھے اور جیوری کے افراد بھی اپنی اپنی نشستوں پر براجمان۔ جج وہ شخص تھا جس کے ساتھ اس کی زندگی کے پندرہ برس گزر ے تھے۔ جو اس کے کردار کو بطور مثال بیان کیا کرتا تھا اوراس لمحے سے قبل اس کی امانت و دیانت کی گواہی دینے کے لیے بھی ہر وقت تیار رہتا تھا۔ جیوری میں ایک تو وہ صاحب تھے جن کی آنکھوں میں ہر وقت اس کے لیے محبت اور احترام کے چراغ فروزاں رہا کرتے تھے اور جو اس مکاں کے مالک بھی تھے جہاں یہ عدالت لگی تھی اور دوسرے وہ صاحب جو اسے وقت کا ولی قرار دیا کرتے تھے۔ باقی کچھ مولوی نما چہرے تھے جن سے وہ ناآشنا تھا مگر اندازہ ہو رہا تھا کہ انہیں اس لیے زحمت دی گئی ہے کہ بوقت ضرورت سند رہے۔

    جج صاحب گویا ہوئے ، تمہیں ہمارے چند سوالوں کے جواب دینے ہیں۔

    ملزم: میں آپ کے سوالوں کے جواب دینے کا پابند نہیں ہوں۔

    جج : نہیں ، تمہیں جواب دینے ہیں اور ہاں یا نہ میں دینے ہیں۔

    ملزم: ہر بات کا جواب ہاں یا نہ نہیں ہوتا۔

    جج: لیکن ہماری شرط ہے کہ ہاں یا نہ میں جواب دو۔

    ملزم: اگر میں آپ سے یہ کہوں کہ کیا اب آپ نے اپنی ماں کو مارنا بند کر دیا ہے ؟ اس کا جواب ہاں یا نہ میں دو ،تو آپ کیا کہیں گے ؟

    جج: وقت ضائع نہ کرو ہمارے سوالوں کا جواب دو ہمیں فیصلہ کرنا ہے۔

    ملزم : کس بات کا فیصلہ ؟

    جج: تمہارے کفر اور اسلام کا۔

    ملزم : میں اپنے اسلام کے لیے آپ کے فیصلے کا محتاج نہیں ہوں۔ میرے لیے یہ بات کافی ہے کہ اللہ کے دفتروں میں میرا نام مسلمان لکھا رہے۔

    جج: لیکن ہمیں فیصلہ کرنا ہے۔ یہ بتاؤ کہ تم فلا ں شخص کو اچھا سمجھتے ہو اور تم نے اس کے بارے میں تعریفی کلمات لکھے ہیں؟

    ملزم : بالکل لکھے ہیں۔

    جج: لیکن وہ شخص تو کافر ہے اور ان تعریفی کلمات کی وجہ سے تم بھی دائرہ ایمان سے باہر ہو گئے۔

    ملزم : کیا آپ اس شخص سے ملے ہیں؟

    جج: نہیں۔

    ملزم : کیا آپ نے اس کی کوئی کتاب یا تحریر پڑھی ہے ؟

    جج: نہیں۔

    ملزم: کیا آپ نے اس کی کوئی تقریر سنی ہے ؟

    جج: نہیں۔

    ملزم: تو کس بنا پر آپ اسے کافر قرار دیتے ہیں؟

    جج: بس ہم کہتے ہیں کہ علما کی یہی رائے ہے۔ تم یہ بتاؤ کہ تم اپنی غلطی تسلیم کرتے ہو اور اپنے الفاظ واپس لینے کے لیے تیار ہو؟

    ملزم : میں نے بہت سوچ سمجھ کر یہ جملے لکھے ہیں اور میں انہیں واپس لینے کے لیے تیار نہیں۔ البتہ آپ کی آخرت کی حوالے سے یہ درخواست ہے کہ آپ جسے کافر کہہ رہے ہیں وہ شخص ابھی زندہ ہے۔ اس سے ملنے کا موقع موجود ہے آپ اس سے مل کراپنی غلط فہمی دور کر لیں ورنہ آخرت میں جواب دہ ہونا ہو گا۔

    جج: بس بس، ہمیں نصیحت نہ کرو۔ جیوری سے مخاطب ہو کر : دیکھیں جنا ب یہ شخص اپنے الفاظ واپس لینے کو تیار نہیں۔ آپ گواہ رہیں۔

    جج: یہ بتاؤ کہ موسیقی حرام ہے یا حلال؟

    ملزم :موسیقی کے بارے میں میرا پورا ایک نقطہ نظر ہے۔

    جج: ہاں یا نہ میں جواب دو۔

    ملزم: میں نے پہلے بھی عرض کیا کہ ہر بات کا جواب ہاں یا نہ نہیں ہوتا۔ موسیقی کے بارے میں میرا ایک نقطہ نظر ہے۔ میرے جواب کے لیے وہ سننا ہو گا۔

    جج: لیکن میں نے سنا ہے کہ تم اسے حرام نہیں سمجھتے ؟

    ملزم : میں ہی نہیں امام غزالی بھی نہیں سمجھتے اور موجودہ دور میں طاہر القادری بھی نہیں سمجھتے اور آپ کے تمام صوفیا تو ہمیشہ اس سے اشتغال رکھتے رہے ہیں اور آج بھی رکھے ہوئے ہیں۔

    جج: تو تم امام غزالی پر بھی الزام لگا رہے ہو؟

    ملزم: تحقیق فرما لیں۔ ہماری تاریخ میں بہت سے علما اس بات کے قائل رہے ہیں اور ہیں کہ موسیقی کے حرام ہونے کے بار ے میں کوئی نص قطعی نہیں ہے جبکہ حرام قرار دینا نص قطعی کا محتاج ہوتا ہے۔ قرآن و سنت اس بارے میں خاموش ہیں۔ اور جن احادیث کی وجہ سے لوگ موسیقی کو حرام قرار دیتے ہیں ان پر علمائے حدیث کی بہت جرح ہے۔ البتہ اس میں اشتغا ل ایک ناپسندیدہ امر ہے کہ یہ دنیا کے قریب کرتی ہے اور بعض اوقات اخلاقی مفاسد کو بھی جنم دیتی ہے۔ اگر موسیقی اخلاقی بگاڑ کا ذریعہ بنے تو واقعی ناجائز ہے لیکن ملکی، قومی، جنگی اور خاندانی تہواروں پر اس سے کام لینا ممنوع نہیں۔ تمام مسلم ممالک کے قومی ترانے موسیقی ہی سے بجائے جاتے ہیں، آپ وہاں نہیں کہتے کہ موسیقی حرام ہے؟

    جج: زیادہ تقریر نہ کرو ہاں یا نہ میں جواب دو۔ تصویر جائز ہے یا ناجائز؟

    ملزم: اس کے بارے میں بھی پورا نقطہ نظر ہے آپ کو وہ سمجھنا اور سننا چاہیے۔

    جج : ہاں یا نہ بتاؤ۔

    ملزم : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک کی وجہ سے تصویر کو حرام قرار دیا تھا کیونکہ اُس زمانے میں تصویر شرک کا ذریعہ تھی۔ چونکہ اب یہ شرک کا ذریعہ نہیں اس لیے وہ حرمت بھی نہیں۔ البتہ آج بھی تصویر کی عزت کی جائے اور اس سے شرک برآمد ہونے لگے تو وہ حرام ہو گی۔

    جج: جناب گواہ رہیں یہ شخص موسیقی کی طرح تصویر کو بھی حرام نہیں سمجھتا۔ اچھا یہ بتاؤ کہ سر پر ٹوپی لینا جائز ہے یا ناجائز۔

    ملزم: یہ مباحات کا مسئلہ ہے اس میں جائز یا ناجائز والی بات ہی نہیں۔

    جج۔ ہاں یا نہ بتاؤ۔

    ملزم : میں نے بتا دیا۔

    جج: دیکھیں جناب یہ رسول اللہ کی اس سنت کے بارے میں بھی کیا کہتا ہے۔ لاحول ولا قوۃ۔ یہ تو دائرے سے نکل گیا۔

    ملزم : اچھا جناب میں تو دائرے سے نکل گیا، اب مزید بیٹھنے کا فائدہ نہیں، چلتا ہوں۔ کل قیامت کو بات ہو گی۔

    اس ''عدالت'' سے نکلتے ہوئے ملزم نے دیکھا کہ جج سمیت تمام ''ارکان عدالت'' ایک مخلص مسلمان کو دائرہ ایمان سے نکالنے پر طمانیت کا اظہار کر رہے تھے۔

    قارئین کرام ! ان چند سوالوں پر جس شخص کو دائرہ ایمان سے خارج قرار دیا گیا، وہ، ایسا شخص ہے جو اس بات کا قولی اور عملی اقرار کرتا ہے کہ اللہ ایک ہے، محمدصلی اللہ علیہ وسلم، اللہ کے نبی برحق اور آخری پیغمبر ہیں، وہ فرشتوں پر، اللہ کی کتابوں پر، روزآخرت پر اور تقدیر پر بھی کامل ایمان رکھتا ہے۔ تمام ارکان اسلام کو نہ صرف صحیح سمجھتا ہے بلکہ ان پر حسب توفیق عمل پیرا بھی ہے۔ اخلاقی برائیوں سے بچاؤ کی بھی ہر ممکن کوشش کرتا ہے اور مختلف حوالوں سے نیکی کو پھیلانے کی بھی سعی کرتا رہتا ہے لیکن چونکہ وہ کوئی رنگ لگانے کو تیار نہیں، کسی مسلک کا قلاوہ اپنے گلے میں ڈالنے پر آمادہ نہیں اور اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خود کو کسی کا غلام بنانے پر مائل نہیں اور نہ ہی کوئی جماعتی مسلکی گروہی وابستگی رکھنا پسند کرتا ہے اس لیے ایک حلقے کی طرف سے ضروری سمجھا گیا کہ اس کو اسلام ہی باہر نکال کیا جائے۔ قصور یہ تھا کہ اب یہ شخص اس حلقے کا ممبر نہ رہا تھا۔ اب اس نے اپنی رائے بتدیل کر لی تھی اور اب وہ یہ ضروری نہ سمجھتا تھا کہ آخرت میں کامیابی کے لیے کسی مسلک یا حلقے کا ممبر بنا جائے اور اس کے لیے دن رات ایک کیے جائیں۔ البتہ وہ پہلے بھی یہ سمجھتا تھا اور اب بھی یہ سمجھتا ہے کہ آخرت کی کامیابی کے لیے بس ایک ہی حلقے کا ممبر ہونا ضروری ہے اور وہ ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا حلقہ۔

    یہ ہے ہمارے معاشرے میں مذہبی عدم رواداری اور عدم برداشت کی ہلکی سی جھلک۔ گروہی اور جماعتی وابستگیوں نے عدالتوں کا رو پ دھار لیا ہے۔ اسلام کا آفاقی دائرہ تنگ ہوتے ہوتے جماعتی دائرے تک سمٹ کر رہ گیا ہے۔ بلکہ اس سے بھی بھیانک صورت حال یہ ہے کہ اب یہ دائرہ شخصی وفاداری تک محدود ہونا شروع ہو گیا ہے۔خود ساختہ عقائد اور مزعومات پر لوگوں کے ایمان تولے جا رہے ہیں۔ چند ظواہر کا نام دین رکھ دیا گیا ہے، چند سوالوں پر لوگ ایمان سے محروم کیے جا رہے ہیں اور دو چار باتوں کا عدم اتفاق یا اختلاف ایمان اور کفر کا اختلاف بن گیا ہے۔
    یا حسرتا! ایک زمانہ تھا کہ لوگ دوسروں کو دین میں داخل کر کے خوشی کا اظہار کیا کرتے تھے اور ایک زمانہ یہ ہے کہ اپنوں کو دین سے باہر کر کے خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے۔

    دوسروں کی بات سننے اور سمجھنے کی روایت کے خاتمے نے دہشت گرد اور خود کش بمبار پیدا کیے ہیں۔ یہ ایسے ہی تھوڑا جان دے دیتے ہیں؟ انہیں یقین دلایا جاتا ہے کہ مرتے ہی تم جنت میں ہو گے البتہ اس کے لیے کسی دشمنِ اسلام کو مارنا ضروری ہے اور دشمن اسلام ہر وہ شخص ہے جو آپ سے اختلاف رکھتا ہے۔

    اے اہل پاکستا ن! ابھی وقت باقی ہے۔ آؤ سب مل کر شعوری بیداری کی مہم چلائیں۔ مدارس کو نفرت کی فیکٹریاں بننے سے روکیں، ایک دوسرے کی بات سننے سمجھنے کی روایت کو آگے بڑھائیں، اپنی نسلوں کوبرداشت، تحمل اور وسیع الظرفی کی اقدار سکھائیں، علما کو ان کے صحیح منصب سے آگاہ کریں اور مسلمانوں کا رشتہ صرف اور صرف محمد الرسول اللہ سے استوار کریں۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو وہ وقت دور نہیں کہ جب پاکستان کے گلی محلوں میں ہر فرقہ دوسرے فرقے کے خلاف عدالتیں لگائے گا۔ لوگوں کو نہ صرف دین کے دائرے سے باہر کرے گا بلکہ ان کو سزائیں بھی دے گا۔ یا د رکھو کہ مذہبی عدالتوں کا آغاز ہمیشہ ایسے ہی ہوا کرتا ہے لیکن پھر ان کو'' سپین کے عقوبت خانے'' بنتے دیر نہیں لگتی اور پھر ایسے معاشروں میں مچھر چھانے جاتے ہیں اور اونٹ نگلے جاتے ہیں، داڑھیوں کے سائز ناپ کر ایمان کی پیمایش کی جاتی ہے، سر کی ٹوپی بلکہ اس کا رنگ دیکھ کر تقوے کا معیار طے کیا جاتا ہے اورمردوں کی شلواریں اور عورتوں کے برقعے دیکھ کر ان کے نیک و بد ہونے کا اعلان کیا جاتا ہے۔ ''یسوعوں'' کے لیے صلیبیں گاڑی جاتی ہیں، ''یحیوں'' کے سر طباق میں رکھ کر محبوباؤں کو پیش کیے جاتے ہیں اور ''محمدیوں '' کے لیے طائف کے بازار گرم کیے جاتے ہیں۔ اور آخر میں معاشرے میں مذہب کے نام پر اگر کچھ بچتا ہے تو وہ ہوتا ہے خون، چیخیں، آہیں اور سسکیاں اور یا پھر ہتھکڑیاں، زنجیریں ، بیڑیاں، طوق اور سلاسل۔


    بشکریہ: ماہنامہ سوئے حرم
    http://www.suayharam.org/2010/Apr10/editorial.htm
     
  2. محمداکرم
    آف لائن

    محمداکرم ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مئی 2011
    پیغامات:
    575
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یہ مذہبی عدالتیں

    قارئین کرام ! ایسا ہی ایک سچہ واقعہ ہمارے ایک دوست کے ساتھ بھی پیش آیا تھا ، جسکی روداد اس لنک پر موجود ہے:
    آپ دائرہ اسلام سے خارج ہوگئے
    http://www.oururdu.com/forums/showthread.php?t=11274
     
  3. محمد رضی الرحمن طاہر
    آف لائن

    محمد رضی الرحمن طاہر ممبر

    شمولیت:
    ‏19 اپریل 2011
    پیغامات:
    465
    موصول پسندیدگیاں:
    40
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یہ مذہبی عدالتیں

    اسلام کو بدقسمتی سے چند نام نہاد علمائے سوء نے باغیچہ اطفال بنا رکھا ہے ۔
    اللہ تعالی ہمیں ہدایت کے ساتھ رکھے
    اور ہدایت والوں کے ساتھ رکھے
    ۔۔
    بہت ہی خوبصورت دلوں کو جھنجھوڑتی ، شعوری کی کھڑکیاں کھولتی ، تنگ نظری کے قفل توڑتی عدالت ۔۔۔۔

    اللہ آپ کو خوش رکھے ۔۔
     
  4. خوبصورت
    آف لائن

    خوبصورت ممبر

    شمولیت:
    ‏9 اکتوبر 2011
    پیغامات:
    6,517
    موصول پسندیدگیاں:
    35
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یہ مذہبی عدالتیں

    دکھ ہوتا ہے ایسے اسلام کے ٹھیکیداروں کے من گھڑت فتوے سن کر۔۔ جو اپنے سوا کسی کو مسلمان ہی نہیں سمجھتے۔۔ پہلے میں‌ کچھ نہیں جانتی تھی۔۔ میرے لئے اتنا ہی کافی تھا کے میں مسلمان ہوں۔۔ لیکن مسلمانوں میں بھی کیا کیا ہو چکا ہے یہ جان کر بہت دکھ ہوا۔۔ ویسے اچھا بھی ہوا ہے۔۔ اگر مجھے کچھ غلط باتیں‌پتا نا چلتیں تو میرے دل میں صحیح باتیں‌جاننے کی خواہش بھی پیدا نا ہوتی۔۔
    اچھی شیئرنگ ہے۔۔ اکرم جی۔۔ میں نے ہمیشہ آپ کی پوسٹز سے بہت کچھ سیکھا ہے۔۔ :n_thanks:
     
  5. الکرم
    آف لائن

    الکرم ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جون 2011
    پیغامات:
    3,090
    موصول پسندیدگیاں:
    1,180
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یہ مذہبی عدالتیں

    اِن نام نہاد مُلاؤں‌کو کیا کہیں
    انہوں نے اُس اسلام کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی کہ جِس کی بُنیادوں میں خاندانِ نبوّت خُون شام ہے ! شاید جنت اور دوزخ انہوں نے زر خرید کی ہوئی ہے !
     
  6. محمدمعروف
    آف لائن

    محمدمعروف ممبر

    شمولیت:
    ‏31 جولائی 2011
    پیغامات:
    26
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یہ مذہبی عدالتیں

    یقینا اختلافات کی وجہ سے امت مسلمہ مسائل سے دوچار ہے اللہ سے دعا ہے کہ اللہ امت مسلمہ کو حق کی سمجھ عطا فرمائے اور تمام شرور و فتن سے محفوظ رکھے اور جو لوگ اسلام کا لبادہ اوڑھے لوگوں میں‌منکرات پھیلاتے ہیں اللہ ان کو بھی ہدایت دے اگر ان کے مقدر میں ہدایت نہیں تواللہ امت مسلمہ کو ایسے فسادیوں سے پاک کردے۔ آمین
     

اس صفحے کو مشتہر کریں