1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

یہ غازی ۔ یہ تیرے پراسرار بندے ۔۔۔ تحریر فاروق حسین شاہ

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از نعیم, ‏12 ستمبر 2014۔

  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے
    تحریر : فاروق حسین شاہ
    میں نے زندگی میں بہت سی شخصیات کا قریب سے مطالعہ کیا ہے۔ بالخصوص دینی ذوق کی حامل شخصیات کا۔ ان میں سے ایک شخصیت ڈاکٹرطاہرالقادری کی ہے۔ پاکستانی دینی کلچر اور ذہنیت کو سامنے رکھا جائے تو ڈاکٹرقادری جیسی باصلاحیت و علمی شخصیت کے لیے دنیا ہی جنت بن سکتی تھی۔
    ڈاکٹر طاہرالقادری اگر چاہتے تو پیرومرشد بن کر پاکستان میں کہیں بیٹھ جاتے۔ مریدین آتے۔ پائوں دابتے۔ نذر نیاز کرتے۔ حکومت کی جانب سے بڑی بڑی جائیدادیں لے کر اپنے بال بچوں کو جائیداد کا وارث بناتے۔بادشاہ اپنی حکومتوں کی مضبوطی کے لئے در پر حاضر ہوتے اور فقیر کی خانقاہ میں ہر وقت ہاتھ چومنے والوں کی قطاریں لگی رہتیں۔

    یہ ہمیشہ سے بہت آسان اورمنفعت بخش کام رہا ہے۔

    پاکستان میں ہر جگہ ایسے پیر و فقیر مل جاتے ہیں جن کی جائیدادیں کروڑوں اربوں میں ہیں۔ جن کے مریدین کا سلسلہ دنیا کے ہر ملک میں پھیلا ہوا ہے۔ اور جن سے کسی بھی حکومت کو کبھی بھی کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ کسی نہ کسی بہانے ہر حکومت سے اپنا حصہ وصول کرتے رہتے ہیں۔

    طاہرالقادری کا علمی مقام و مرتبہ بین الاقومی سطح کا ہے۔ وہ چاہتے تو ان کی درگاہ پر نذرونیاز کا سلسلہ شاید ہر درگاہ سے زیادہ ہوتا۔ لیکن انہوں نے آسان اور منفعت بخش راستہ چھوڑ کر دشوار گزار راستے کا انتخاب کیوں کیا؟ وہ پیری فقیری کے آسان ترین راستے کی بجائے مصطفوی انقلاب کی پرخار راہوں پر کیوں چل پڑے۔ اس کا جواب علامہ اقبال کچھ یوں دیتے ہیں:

    نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری
    کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری

    طاہر القادری محل کیا شاید کئی محلات بنا سکتے تھے۔جیسا کہ کئی پیران کرام کے محلات پاکستان کے ہر بڑے شہر میں دستیاب ہیں۔ لیکن ڈاکٹرقادری نے ایسا کچھ نہیں کیا۔
    انہیں قوم کا درد، کسی بھی خانقاہ میں بیٹھنے نہیں دیتا۔ ان کی ڈیوٹی لگانے والوں کو اندازہ تھا کہ اس آزمائش پر صرف وہی پورا اتر سکتے ہیں کہ اب وہ اسی کی دہائی کا اکیلا طاہرالقادری نہیں۔ اس نے کئی دہائیوں کی محنت شاقہ کے بعد مصطفوی انقلاب کے نام پر جینے اور جان قربان کرنے والوں کی تین نسلیں تیار کر دی ہیں۔ اب ان کی آواز بڑے بڑے ایوانوں سے ٹکراتی ہے تو اس آواز میں چھ مہینے کا شیرخوار بچہ بھی شامل ہوتا ہے اور اسی سال کا بوڑھا بھی۔ اس آواز میں نوجوان بیٹوں اور بیٹیوں کی بھی آواز شامل ہوتی ہے اور مردوخواتین کی بھی۔

    لوگوں نے گالیاں دیں۔ راہ میں مشکلات کھڑی کیں۔ کاتب تقدیر نے موسم کی سختیوں سے، جان و مال کے نقصان سے طاہرالقادری کے بیٹوں اور بیٹیوں کو خوب آزمایا ہے۔ لیکن وہ آج بھی تن کر کھڑے ہیں۔ اسی جوش سے۔ اسی جذبے سے۔ اسی سرشاری سے۔

    اور اب وہ معلم قوم بن کر پوری قوم کو تعلیم دے رہے ہیں۔ سراٹھا کر جینے اور اپنا حق چھین لینے کی تعلیم۔ ان کے انقلابی لیکچر، کشمیر سے کراچی تک اور کوئٹہ سے خیبر تک، ہر روز لائیو دیکھے اور سنے جا رہے ہیں۔ ہوٹلوں میں بیٹھے چائے پیتے کھانا کھاتے مزدور ہوں کہ گھر کے واحد ٹی وی کے سامنے بیٹھا پورا خاندان، ہر جگہ لوگ انہیں غور سے سن رہے ہیں۔ اور سوچ رہے ہیں کہ طاہرالقادری ٹھیک کہتے ہیں۔ یہاں غریب اور امیر کے لئے انصاف یکساں نہیں۔

    طاہرالقادری اور اس قبیلے کے دیگر لوگ جب خانقاہوں سے باہر نکل آتے ہیں تو پھر ان کی واپسی فاتح کی حیثیت سے ہوتی ہے۔ نظریاتی فتح ہی حقیقی فتح ہوتی ہے۔ اور طاہرالقادری کو نظریاتی محاذوں پر ہر روز شاندار فتح مل رہی ہے۔ مقابلے میں صف آراء لوگ، ان کے نظریات کو جھٹلانے کی سکت ہی نہیں رکھتے۔ الزام تراشیوں اور بہتان کی سیاست کرنے والے ہر قدم پر عبرت ناک شکست سے دوچار ہو رہے ہیں۔

    شاباش طاہرالقادری!
    آپ نے جمود توڑا ہے۔
    مصطفوی انقلاب کے لئے آپ نے خانقاہیں چھوڑ کر رسم شبیری ادا کرنے کا حق ادا کر دیا ہے۔
    ہم خوش ہیں کہ ہم اس دور میں زندہ ہیں جب ہم اپنی آنکھوں سے مصطفوی انقلاب کے رنگ میں رنگے لاکھوں لوگوں کو شاہراہ دستور پر خیمے سجائے دیکھ رہے ہیں۔
    تنقید کرنے والوں سے صرف اتنی گذارش ہے کہ کبھی ایک دن اس دھرنے میں جاکر وہاں لوگوں کی آنکھوں میں انکے جذبات کو ایمانداری سے پڑھیں۔
    آپ بھی اللہ اکبرکا نعرہ بلند کریں گے۔

    تحریر: فاروق حسین شاہ
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری
    کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری
    بہت اعلیٰ جناب بہت شکریہ
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں