1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

یہ اگر ضبط کا آنسو تھا تو ٹپکا کیوں۔۔۔؟ ۔۔۔ عرفان اقبال

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏7 فروری 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    یہ اگر ضبط کا آنسو تھا تو ٹپکا کیوں۔۔۔؟ ۔۔۔ عرفان اقبال

    آنسوکسی ایک حالت کے پابند نہیں ،خوشی ہو یا غم ان کا وجود برابر اہمیت رکھتا ہے

    آنسولفظ ایسا ہے کہ سنتے یا لکھتے انسان کانپ جاتا ہے۔ انسانی فطرت میں خوشی اور غم کا وجود ازل سے ابد تک رہے گا لہٰذا کسی بھی حالت میں انسان ان سے باہر نہیں نکل سکتا۔ کہا جاتا ہے کہ خوشی کی نسبت غم اور پریشانی کا وجود خوشی سے دوگنا ہوتا ہے لیکن میں رب تعالیٰ کے نظام نے آنسوؤں کو کسی ایک حالت کے تحت پابند نہیں کیا بلکہ دونوں حالتوں میں چاہے خوشی ہو یا غم ان کا وجود برابر اہمیت اور پہچان رکھتا ہے۔ دکھ درد اور پریشانی میں آنسوؤں کا نکلنا گویا معمول ہے لیکن خوشی اور فرط جذبات میں بھی انسان ان کے ضبط میں بے اختیار ہو جاتا ہے۔ جس کی بدولت انسان اپنا کتھارسس (احساس اور جذبات کا اظہار ) کرتا ہے بقول شاعر
    میں تو اس بات سے ڈرتا ہوں کہ وہ پوچھ نہ لے
    یہ اگر ضبط کا آنسو تھا تو ٹپکا کیوں
    بچے کی پیدائش پر اس کے آنسوؤں کا تحفہ ماں کے لیے پرمسرت موقع ہے۔ جس کا استقبال بھی بعض دفعہ ماں انہی آنسوؤں سے کر رہی ہوتی ہے یعنی ایک طرف جہاں بچہ دنیا میں آنے پر رو رہا ہوتا ہے تو بالکل اسی لمحے اس کی ماں ایک زندہ بچے کی ماں بننے پر خوشی سے رو رہی ہوتی ہے۔ قطع نظر اس بات سے کہ بچے کے آنسو کا نکلنا اس بات کا استعارہ ہے کہ دنیا میں ہر انسان نے آنسو بہانے ہیں۔
    آنسوؤں کانکالنا ہر آنکھ کے بس کی بات نہیں اور نہ ہی ان کے وجود کی گہرائی ہر آنکھ سمجھ سکتی ہے،یہ تو بس فطری جذبات یا احساس ہیں۔ آنسوؤں کی قدر ہمیشہ اسے ہوتی ہے جس نے آنسو بہائے ہوں۔ میں سائنسی نقطہ نظر سے آنسوؤں کے نکلنے کے پراسیس کو بیان نہیں کیا جا سکتا کہ کہاں سے شروع ہوتے ہیں اور کیسے نکلتے یا جذب ہوتے ہیں لیکن اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ جب انسان اچھے سے رولیتا ہے تو اس کا من ہلکا ضرور ہو جاتا ہے۔ اس کا درد اور غم پریشانی مصیبت ختم تو نہیں ہوتے لیکن آنسو نکالنے کے بعد اس پر پریشانی کا دباؤ کافی حد تک ختم ہو جاتا ہے۔ آنسوؤں کے اسباب میں بہت سی چیزیں شامل ہیں ان میں نمایاں مقام محبت کا ہے۔ چاہے وہ انسان سے ہو یا متاع زندگی کے ساز و سامان سے۔ زندگی میں ہر چیز کا کوئی نہ کوئی معیار اور قیمت ہوتی ہے۔ آنسوایسے نایاب ہوتے ہیں کہ ان کے لیے نہ تو معیار کا مقام مقرر کیا جاسکتا ہے نہ ہی ان کی قیمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان کا حقیقی مقام تو یہ ہے کہ یہ اللہ کی محبت اور چاہت میں بہائے جائیں۔ ان کی قیمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بزرگ اور بڑے بڑے اولیاء کرام گوشۂ نشینی کرتے تھے اور وہاں جاکے تنہائی میں روتے تھے تاکہ دنیا کے مصائب و آلام ختم کر سکیں ۔
    فطرت انسانی بھی عجیب مزاج کی حامل ہے۔ سمجھنے پر آئے تو چہرے کے تیور سمجھ لیتی ہے نظر انداز کر نے پہ آئے تو آنسو تک دکھائی نہیں دیتے۔ بقول شاعر
    کسی کے ایک آنسو سے ہزاروں دل تڑپتے ہیں
    کسی کا عمر بھر رونا یونہی بیکار جاتا ہے
    کسی بھی انسان کی بے بسی بے کسی کے اظہار کے لیے الفاظ کی نہیں بلکہ آنسوؤں کی ضرورت ہوتی ہے۔ آنسو محبت کے اظہار کی آخری نشانی ہیں۔ کہتے ہیں کہ عورتیں آنسو بہانے میں بہت مشہور ہیں لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان کی بے بسی اور بے کسی کی یہ آخری حد ہوتے ہے۔ آج کل ہم اپنی زندگی میں لوگوں کے دو گروہ دیکھتے ہیں نمبر1رونے والے اور نمبر2 رلانے والے۔ بدبخت لوگ ہیں وہ جو کسی کے آنسو کی وجہ ہوتے ہیں کیونکہ حقوق العباد کے بارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ ضرور سوال کریں گے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ آنسوؤں سے مزین دعائیں کبھی رائیگاں نہیں جاتیں البتہ ان کی قبولیت کے اوقات آگے پیچھے ہو سکتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں انسان کو امید کے دامن کو مضبوطی سے تھامے رکھنا چاہیے۔ایسے میں کم از کم اتنا خیال توکریں کسی کو خوشیاں نہیں دے سکتے تو کوئی بات نہیں لیکن کم از کم آنسوؤں کی وجہ آپ نہ بنیں۔ زندگی خدا کی نعمت ہے خدارا لوگوں سے جیتے جی یہ نعمت نہ چھینیں۔ ۔۔


     

اس صفحے کو مشتہر کریں