1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

یک نہ شد دو شد ۔

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از بےباک, ‏23 فروری 2009۔

  1. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    [​IMG]
    مولانا فضل الرحمن صاحب اکیلے ہی قابو نہیں آتے تھے کہ اب ان کے بھائی صاحب بھی اس کام میں ان کے مددگار بن گئے ،یہ لنک دیکھیں ا اور ملک کی قسمت کوسیں ۔
    ایک عرصے سے مولانا کا اصولی موقف جسے دوسرے لفظوں میں وصولی موقف کہنا چاہیے ،انہوں نے اب اپنے بھائی کو اس کار خیر میں شریک کر لیا ہے ،
    اس خبر کو ذرا غور سے پڑھیے ، انہیں جغادری ملاں کہنے میں کوئی حرج نہیں،جن کے اقوال اور اوصاف میں لالچ ، جھوٹ اور فریب شامل ہو،
    آپ سب کا مخلص:بےباک
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم بےباک بھائی ۔
    اچھے برے لوگ ہر طبقہ میں موجود ہوتے ہیں اور ہیں۔
    ہم سب کو اپنے اپنے گریبان میں جھانک کر اپنی اصلاح کرنا چاہیے۔
    اسی سے معاشرہ بہتری کی جانب گامزن ہوسکتا ہے۔
     
  3. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    نعیم صاحب : آپ نے بالکل بجا فرمایا، ہر معاشرے میں اچھے اور برےہوتے ہیں ، مگر ھائے ھمارے ملک کا نصیب ، کہ ہمیں چن چن کر لٹیرے ہی ملتے ہیں اور ہم ان کو اپنا نصیب سمجھ کر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں ،
    محترم یاد رکھیے ۔جو پگڑی سر پر باندھتے ہیں کم از کم اس کو صاف ہونا چاہیے ، ، یہ حکمران ہمارے سروں کے تاج ہوتے ہیں ،گفتار کے غازی کے ساتھ کردار کا غازی ہونا بھی ضروری ہے ،عوام الناس کا دین حکمرانو‌ں کے دین سے متاثر ہوتا ہے،
    تازہ ترین خبر یہ ہے کہ موصوف نے اپنی صفائٰ کے لیے سینیٹ کی کمیٹی کے سامنے پیش ہونے سے انکار کر دیا ہے،ان کو اپنی صفائی پیش کرنی چاہیے تھی ،

    آپ کا مخلص: بےباک
     
  4. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بےباک بھائی ۔ آپ کے جذبات بجا ہیں۔
    لیکن لیڈر کیا کسی معاشرے کے عکاس نہیں ہوتے ؟
    بش کے برا ہونے پر پوری دنیا میں امریکی عوام کو بھی بری نظر سے دیکھا جانے لگا تھا۔
    اور اب اسی امریکی عوام نے اس بش کو مسترد کرکے اپنے چہرے سے وہ کالک دھو ڈالا۔
    ہم تو پھر انہی کو لیڈر منتخب کرتے ہیں۔ انہی کے لیے جانیں دیتے ہیں۔ انہی کو کندھوں پر بٹھاتے ہیں۔
    انہی کو ووٹ اور سپورٹ دیتے ہیں۔
    اب اگر جواباً ہمارے اور ملک کے منہ پر کالک ملتے ہیں تو ہمیں اپنے آئندہ کے لیے سبق سیکھنا چاہیے۔
     
  5. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    جناب ہمارے یہاں بندے پسند کرکے لیے جاتے ہیں ، عوام تک چناؤ بھی مکاری کے سوا کچھ نہیں ، سب شکاری قسم کی پارٹیاں اپنے اپنے بندے ایک دوسرے کو بتا دیتے ہیں ، کہ اس مرتبہ اسے جتانا ہے ، اسے آگے لانا ہے ، اس لیے پھر ان کو بلا مقابلہ کامیاب کیا جاتا ہے ، باقی زندگی رہی تو اس پر مزید تبصرہ کروں گا ،
    مختصر ترین مثال تازہ ترین سینیٹ کے ارکان کا انتخاب ہے ، مک مکا کر یہ سب سینیٹ میں پہنچے ہیں ،

    آپ کا مخلص: بےباک
     
  6. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    ھم سب اسی معاشرے کا حصہ ھیں، ھمیں اس وقت ھمیں اپنی حالت بدلنے کی ضرورت ھے، اگر ھم اپنے اندر اگر 10 % بھی تبدیلی لے آئیں تو اپنے پیارے وطن کو کسی حد تک خوشحالی کے طرف لے جاسکتے ھیں،!!!!!!

    اس اپنے اندر تبدیلی کیلئے سب سے پہلے ھمیں اپنے گریبان میں جھانکنا ھو گا، اور یہ کم کز کم سوچنا ھوگا کہ،!!!!! ھم کیا اپنے اللٌٌہ تعالیٰ کے احکامات اور سیرت نبوی نبی اکرم :saw: (ص) پر عمل کرنے میں کتنا اپنا وقت صرف کرتے ھیں،؟؟؟؟؟
     
  7. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم ۔ بہت شکریہ سید بھائی ۔
    شاید میری گذارشات کو آپ نے مجھ سے بہتر انداز میں یہاں لکھ دیا ہے۔
    لیکن میرا موقف یہی ہے اور ہم پاکستانی قوم پچھلے 62 سال سے یہی کررہے ہیں
    کہ ہر الزام ، ہر ملبہ دوسرے کے کندھے پر پھینک کر خود اپنے فرائض کی بات ہی مت کریں۔
    جبکہ ہمیں سب سے پہلے اپنی اصلاح کرکے اپنے حصے کے فرائض ادا کرنے چاہیئں۔

    والسلام
     
  8. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    بہت شکریہ نعیم بھائی،!!!!!

    میں جو بھی کہتا ھوں اس پر میں خود بھی عمل کرنے کی اپنی پوری کوشش کرتا ھوں، اور جب اس سے مجھ کچھ اچھی تبدیلی نظر آتی ھے، تو کچھ اسے آگے بڑھا دیتا ھوں، میں اپنے آپ اس دنیا میں رھتے ھوئے سب کو بدل تو نہیں کرسکتا لیکن اپنے آپ کو بدلنے کیلئے جو کچھ مجھ سے بن پڑتا ھے، میں ضرور کرتا ھوں،!!!!!!

    یہ کوئی میں اپنی بڑائی یا اپنی اچھائی بیان کرکے اپنے آپ میاں مٹھو بننے کی کوشش نہیں کررھا ھوں، بلکہ ان لوگوں کے سوالوں کا جواب دے رھا ھوں جو یہ کہتے ھیں کہ ھم اپنے آپ کو کیسے بدل سکتے ھیں جب کہ سارا معاشرہ ھی برائیوں سے گھرا ھوا ھے،!!!!!

    جب بھی میں چھٹی جاتا ھوں، اپنے محلے میں ھوں یا کہیں بھی آتے جاتے میں ھر ایک کو "السلام و علیکم" ضرور کہتا ھوں، چاھے وہ چھوٹا ھو یا بڑا، جان پہچان ھو یا نہ ھو،!!!!!! کوئی جواب دے یا نہ دے، اس سے مجھے کوئی غرض نہیں لیکن اپنی طرف سے یہ فریضہ ھر ممکن ادا کرنے کی کوشش کرتا ھوں، اس سے کم از کم مجھے یہ فائدہ ضرور ھوا کہ مجھے مکان کی مرمت کیلئے اور چھوٹے موٹے ضروری کاموں کے لئے کچھ زیادہ بھاگ دوڑ نہیں کرنی پڑی، وہاں کے ھر شخص نے میری ھر ممکن مدد بغیر کسی اضافی معاوضہ کے کی، جیسے وہ سب میرے اپنے ھوں، جس کیلئے میں سب کا احسان مند ھوں،!!!!!!!!!!

    اس دفعہ کی چھٹی کا ایک ایسا واقعہ جس سے مجھے بہت ھی دلی سکون اور مسرت حاصل ھوئی وہ یہ کہ میں اپنی بالکونی سے اپنی گلی میں اکثر شام کے وقت بچوں کو کھیلتا دیکھ کر بہت خوش ھوتا ھوں، اس دفعہ دیکھا کہ کچھ اڑوس پڑوس کے دروازوں کے باھر پھیلے ھوئے کچرے سے ،کچھ ھوا کی شرارت کی وجہ سے بچوں کے پیروں میں کھیلتے ھوئے اس کچرے سے ایک تو بچوں کے پیر اور کپڑے گندے ھورھے تھے، دوسرے یہ کہ بچوں کے کھیل میں وہ کچرا الجھ بھی رھا تھا،!!!!!

    یہ ھر روز اسی طرح ھوتا رھا، اور میرا دھیان اس کچرے کی طرف نہیں گیا بلکہ بچوں کے کھیل ان کی شرارتوں اور لڑائی جھگڑے سے لطف اندوز ھوتا رھا، کبھی میرے صحن میں ان کے کھیلنے کی چیز آگرتی تو میں یا تو خود اٹھا کر دے دیتا یا بچوں کو اجازت دیتا کہ وہ صحن کا مین گیٹ کھول کر صحن سے اپنی مطلوبہ چیز لےجائیں، اس طرح میں اپنے محلے کے بچوں میں بہت ھی احترام کی نظروں سے دیکھا جانا، اور محلے سے جب بھی گزرتا وہ بچے مجھے " انکل سلام علیکم" کہنے میں پہل ضرور کرتے، اور میں بچوں کے سر پر شفقت سے ھاتھ پھیرتا ھوا ان کے سلام کا جواب اور دعائیں دیتا ھوا گزر جاتا،!!!!!!

    کچھ دن گزرنے کے بعد ایک بات میرے ذہن میں آئی اور میں خاموشی سے ایک کچرے تھیلا اٹھائے اور ھاتھ میں جھاڑو لئے، اس گلی کے آس پاس گھروں کے مین دروازوں کے سامنے جو کچرا پڑا تھا اسے صاف کرتے ھوئےتھیلی میں ڈال رھا تھا، اس سے پہلے کہ بچے کھیلنے آجائیں، اور اپنیبالکونی میں بھی ڈر کر دیکھتا رھا کہ میری بیگم نہ مجھے دیکھ لیں یا کوئی اور جسے میرے اس عمل سے کسی کو اعتراض ھو،!!!! یا کوئی بچہ نہ مجھے دیکھ لے،!!!!!!

    جس بات کا ڈر تھا وہی ھوا کہ تین چار بچے اپنے اپنے گھروں سے بھاگتے ھوئے نکل آئے، اور مجھ سے جھاڑو اور تھیالا لے لیا اور خود ھی گلی کو صاف کرنے لگے،!!!!!!! اس دن کے بعد میں نے اس گلی کو ھمیشہ ھی صاف پایا اور اس گلی کے بچے خود ھی صبح اسکول سے آنے کے فوراً بعد اس اپنی گلی کو صاف کرتے اور شام کو بھی اپنے کھیلنے سے پہلے اپنی گلی کو صاف ستھرا کردیتے، اب تو بچے اور بھی زیادہ صفائی کا خیال رکھنے لگے جس کی وجہ سے ان کی کھیلوں میں دلچسپیاں بھی بڑھ گئیں اور آپس کے لڑائی جھگڑوں سے بھی پرہیز کرنے لگے،!!!!!!!

    میں خود حیران پریشان تھا کہ یہ خیال مجھے پہلے دن سے کیوں نہیں آیا، اتنے دن ضائع ھوگئے، کم از کم میں اپنی گلی میں اپنے اس چھوٹے سے عمل سے بچوں میں ایک صفائی کاجذبہ پہلے سے ھی لے کر آجاتا،!!!!!!!

    میرے یہاں واپسی پر محلے کے بچوں نے مجھے دل سےخوشی سے میرے پاس آکر الوداع کہا اسکے علاوہ میں نے ھر کی آنکھوں میں آنسوؤں کی چمک بھی دیکھی،!!!!!!

    کیا،؟؟؟؟؟ ھم سب کم از کم یہ عہد نہ کرلیں کہ ھر روز کوئی نہ کوئی چھوٹی چھوٹی نیکیوں کو اپنا کر اپنی نیکیوں میں مزید اضافہ کریں، اور شروعات اپنے اپنے گھر سے نکلنے سے ہہلے اپنے اڑوس پڑوس کے گھر کے دروازوں پر سے کچرے کو اٹھا کر ایک طرف کردیں یا اسے کسی نذدیکی کچرا دان میں ڈال دیں، کیونکہ ھماری اسی گلی میں اپنا مکان بھی ھے، اور اس مکان کی رونق اس گلی کی چمک دمک سے ھی ھے،!!!!!!!!

    خوش رھیں،!!!!!!
     
  9. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    نعیم بھائی،!!!!!!!!

    میں اپنی ان تحریروں میں کچھ مزید اضافہ کرنا چاھوں گا کہ جو کچھ بھی برائیاں ھمارے معاشرے میں ھیں وہ ھماری خود کی پیدا کی ھوئی ھیں، ھم اپنا کافی وقت سیاست دانوں کی سیاست کی بحث میں مثبت پہلو کی طرف جائزہ لینے کے بجائے، انکے منفی کردار کے بارے میں بے فضول بحث میں لگ جاتے ھیں، جس کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ھوتا، اور ھم اپنی چھوٹی چھوٹی غلطیوں کی طرف کبھی توجہ نہیں دیتے، ھم اگر چاھیں تو اپنے آپ کی عادات اور اطوار کو ایک چھوٹی سی غلطی سے سدھار کر اپنے معاشرے میں کچھ تو بہتر صورت پیدا کرسکتے ھیں،!!!!!!!

    ھم اس دور میں کیوں ھیں،؟؟؟؟؟؟؟ میں خود بھی اپنے آپ سے سوال کرتا ھوں کہ وہ پرانا دور بھی دیکھا اور اب اس دور سے بھی گزررھا ھوں، کبھی کبھی میں یہ بھی سوچتا ھوں کاش کہ میں اس زمانے کے شروعات سے پہلے ھی اس دنیا سے گزر جاتا تو کتنی اچھی بات ھوتی،!!!!!!!

    ایک تو میں یہی کہوں کہ جو پرانے لوگ ھیں انہیں اس دور کی نئی نسل کو اپنے پرانے وقتوں کے حوالے سے سدھارنے کی کوشش کرنی چاھئے، اور آج کل کی نئی نسل کو بھی چاھئے کہ وہ اپنے بڑوں کی اچھی باتوں اور نصیحتوں ‌کو سنیں سمجھیں اور ان پر عمل کرنے کی کوشش بھی کریں،!!!!!

    یہ ھمارے اس گزرتے ھوئے دور کا کوئی قصور نہیں ھے، یہ ھمارا اپنا قصور ھے کہ ھم نے اپنی روایتوں کو بدل ڈالا اور اپنی قدروں کو کھو بھی چکے، ھم خود ھی اپنے بنائے ھوئے جال میں پھنستے جارھے ھیں، جس کا کہ ھمیں خود ھی اندازہ نہیں ھے، ھم نے خود اپنی ضروریات زندگی کے معیار کو جدید فیشن کے تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے بہت ھی زیادہ بڑھالیا ھے، جبکہ اس کے بغیر بھی زندگی رواں دواں رہ سکتی تھی، اور اپنے وسائل میں رھتے ھوئے بھی اپنی زندگی بہت ھی اھم ضروریات کو نئے تقاضوں کے مطابق پورا بھی کرسکتے تھے،!!!!! لیکن ھم مہنگائی کا رونا روتے بیٹھ جاتے ھیں،!!!!!!!

    ایک تو ھم نے کفائت شعاری اور میانہ روی کو بالائے طاق رکھ دیا ھے، بھوک سے زیادہ کھانے کو ترجیح، اور ضرورت سے زیادہ مقدار میں کھانے پینے کا سامان اپنے ریفریجریٹر میں ذخیرہ کرتے ھوئے ھر پکوان میں ایک نئی جدت کے ساتھ وافر مقدار میں کھانا پکانے کی تیاری کرکے ایک اچھی خاصی مقدار کو ضائع بھی کررھے ھیں،!!!!!

    اس کے علاوہ نت نئے فیشن، شادی بیاہ کی فضول رسومات سے متعلق کپڑے اور دوسری تیاریوں اور جدید ایجادات کا مارکیٹ میں دیکھ کر اسکے حصول کیلئے اپنے ایک دیوانے پن کا مظاہرہ کرتے ھوئے اپنی قلیل آمدنی کا ایک اچھا خاصہ بڑا حصہ اسکی نظر کردیتے ھیں،!!!!!! بچت نہ ھونے کے باوجود بھی آپ قرض لینے سے بھی نہیں چوکتے اور اپنے آپ کو قرض کی ادائیگی کے سلسلے میں بنکوں اور دوسروں لوگوں کو سود جیسی حرام چیز میں اپنے آپ کو ملوث کر لیتے ھیں،!!!!!!

    کیا ھم آپس میں مل بیٹھ کر آپس کے باھمی مشوروں سے ان تمام فضولیات کو روکنے میں کیا کوئی اقدام اٹھا نہیں سکتے، ایک چھوٹی سی مثال کہ کیا اپنے بچے کو ایک مہنگا ترین موبائل دینے کے بجائے ایک سادے اور سستے موبائل کی طرف اس کی رغبت نہیں کراسکتے، بجائے گوشت اور سبزیوں کے فضول ریفریجریٹر میں جمع کرنے کے کیا آپ روز اپنی ضرورت کے مطابق تازہ گوشت سبزی نہیں لا سکتے،!!!!!!

    کیا ضروری ھے کہ پینے کیلئے برف یا ریفریجریٹر کا ھی پانی پیا جائے، مٹی کے مٹکے کے پانی کا اپنا ھی ایک الگ صواد ھے،!!!!!!! کیا کبھی ھم نے کچھ اس بارے میں سوچا ھے،؟؟؟؟؟؟؟؟
     
  10. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم ۔ سید بھائی ۔
    بہت شکریہ کہ آپ نے اتنی اچھی باتیں اتنی تفصیل سے کیں اور ساتھ میں اپنے ذاتی کردار سے اس امر کا ثبوت بھی دیا کہ اگر انسان اپنے آپ کو درست کر لے یا خود درست ہو تو اپنے گردا گرد میں کچھ نہ کچھ مثبت تبدیلی ضرور لا سکتا ہے۔

    غالباً فراز نے کہا تھا

    شکوہ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
    اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

    ہم اپنے حصے کی ایک ننھی سی شمع تو جلاتے نہیں (الا ماشاءاللہ) اور چاہتے ہیں کہ سورج بن کر قومی افق پر چمکنا شروع ہوجائیں اور ہر طرف اجالا ہی اجالا ہوجائے۔ یورپ و دیگر ترقی یافتہ اقوام کے ممالک میں جا کر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہاں ہر کوئی قومی لیڈر نہیں‌ہوتا۔ بلکہ ہر کوئی اپنے محلے، اپنی گلی، اپنی بلڈنگ کی حد تک " قومیت " کا اظہار کرتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پورا ملک صاف ستھرا نظر آتا ہے۔

    ایک لیڈر اگر دغا باز نکلے تو اگلے الیکشن سے پہلے پہلے یا تو وہ خود ہی عوام کے ڈر سے استعفی دے دیتا ہے یا پھر اسے شرمناک انداز میں‌ عوامی رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔انگلینڈ میں‌ٹونی بلئیر/ گورڈن براؤن ۔۔ اور امریکہ میں بش / ابامہ کی مثال سامنے ہے۔
    ہماری قوم تو پچھلے 62 سالوں سے انہی خاندانوں کے ہاتھوں کھلونا بنی ہوئی ہے۔ نئی قیادت کو آزمانا تو دور کی بات، اس میں سے کیڑے نکالنے شروع ہوجاتے ہیں۔ انہی لیڈروں کو گالیاں بھی دیتے ہیں۔ انہی کی جھولی میں ووٹ بھی ڈالتے ہیں۔ بعد میں انہی سے جوتے کھا کر پھر گالیاں دینا شروع ہوجاتے ہیں۔ یہ ہمارا قومی شعور ہے۔

    اللہ تعالی ہمارے حال پر ، ہمارے ملک و ملت پر اپنا فضل و کرم فرمائے ۔ آمین
     
  11. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    ہم ہمیشہ اپنے سیاستدانوں اور لیڈروں کوکوستے رہتے ہیں۔ سچ پوچھیں تو ہمارے ہاں تقریبا ہر بندہ اوپر سے لیکر نیچے تک کرپٹ ہے۔ ہمیں معلوم بھی ہوتا ہے کہ فلاں بندہ غلط ہے لیکن پھر بھی اسی کو ووٹ دے کر اقتدار پر بٹھا دیتے ہیں۔ ہم لوگ چھوٹے چھوٹے فائدوں کے لئے ملک کا نقصان کردیتے ہیں۔کوئی یہ کہتا ہے کہ فلاں بندہ اقتدار میں آکر ہمارے محلے کی سڑک بنوا دے گا یا میرے بیٹے کو سرکاری نوکری دلوا دے گا یا میرا فلاں پراجیکٹ پاس کروا دے گا۔ اس لئے اسے ووٹ دو۔

    ہم ایسے لوگوں کو آگے لاتے ہیں جو نااہل ہوتے ہیں۔ مختصرا یہ کہ ہم بے حس ہوتے ہیں۔ قوم وہ تباہ نہیں ہوتی جن کے لیڈر برے ہوں بلکہ وہ قومیں تباہ ہوتی ہیں جن کے اچھے لوگ خاموش تماشائی بن جائیں اور بے حس ہوجائیں۔ برے لوگ تو ہمارے معاشرے میں آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔

    جس قوم کے سربراہان یہ کہتے ہوں کہ وعدے قرآن وحدیث نہیں ہوتے۔ اس قوم میں مولانا عطاالرحمن اور مولانا پٹرول و ڈیزل جیسے لیڈر ہی ہوسکتے ہیں۔
     
  12. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    ھمارا ملک ھمارے گھر جیسا ھے، جہاں بہن بھائیوں میں ھر اختلاف کے باوجود گھر میں کوئی مشکل کھڑی ھوجائے تو سب ایک جان ھو کر اس مشکل کا حل تلاش کرتے ھیں نہ کہ گھر کو توڑ پھوڑ کر بربادی کی طرف لے جاتے ھیں،!!!!!!

    اور ھم تو کتنے خوش نصیب ھیں کہ ھم سب نے مسلمان گھرانے میں آنکھ کھولی اور ھمیں ھمارے آباؤاجداد نے کتنی جان و مال اور اپنی عزت کی قربانیوں کے بعد ایک آزاد اسلامی ملک ھمارے ھاتھ میں دیا، کیا ھم اپنے اس گھر کی بربادی چاھیں گے،؟؟؟؟؟؟؟

    ھم مسلمان ھونے کے ناطے اپنے پیارے نبی(ص) :saw: کی سیرت نبوی پر عمل کیوں نہیں کرسکتے،؟؟؟؟؟؟؟

    میں اپنے والد کے ایک محب وطن پاکستانی ھونے کے ناطے ایک ان ھی کی زبان سے سنا ھوا ان کے ساتھ گزرا ھوا واقعہ سناتا ھوں، کہ وہ پاکستان بننے سے پہلے برٹش آرمی میں تھے، جب پاکستان بنا تو سب فوجیوں سے پوچھا گیا کہ آپ کونسی آرمی کو جوائن کرنا چاھتے ھیں پاکستان آرمی یا انڈین آرمی،!!!!!! تو میرے والد ان لوگوں میں سے ایک مجاھد تھے جنہوں نے پاکستان آرمی کو جوائن کرنے کا عہد کیا، اور پھر انہیں اس بات پر بھی فخر تھا کہ انہیں پاکستان میں 1962 میں ریزرو سروس میں آنے کے باوجود ایمرجنسی صورت حال میں میں 1965 اور 1971 کی جنگ میں بھی اپنے ملک پاکستان کی خدمت کے لئے موقع دیا گیا، اور وہ خوشی خوشی اپنے وطن پر قربان ھونے کیلئے لاھور کے واگہہ بارڈر پر پہنچ گئے تھے،!!!!!!!

    اللٌہ تعالیٰ ھم سب کو اللٌہ تعالیٰ کے احکامات اور سیرت نبوی (ص)‌ :saw: کی سنت پر عمل کرنے کی توقیق عطا فرمائے، اور ھمارے پیارے وطن پاکستان کی حفاظت فرمائے، آمین ثمہ آمین،!!!!!!!!!!
     
  13. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    ماشاءاللہ عبدالرحمن صاحب ، بہت ہی خوب لکھا،
    راشد احمد صاحب ، آپ نے بڑی صاف اور کھلی بات لکھی ، اور یہی حقیقت ہے ، اللہ ہمیں عقل سلیم دے تاکہ ہم پہچان سکیں ، خود احتسابی بھی کریں اور لیڈران گرامی کو بھی تلقین کی جائے ،شکریہ آپ دونوں پیارے ساتھیوں کا ؛: :dilphool:

    آپ سب کا مخلص :بےباک
     

اس صفحے کو مشتہر کریں