1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

یوسفی نہ رہے لیکن عہد یوسفی رہے گا

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏19 جولائی 2018۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    یوسفی نہ رہے لیکن عہد یوسفی رہے گا

    [​IMG]


    مشتاق احمد یوسفی کی کاٹ دار تحریر، سماج اور انسانی نفسیات پر گہری نگاہ، اردو تہذیب سے جڑی کئی نئی روایات کو جنم دینا، اردو ادب میں ان کے بلند مرتبے کی آئینہ دار اور موجب تھیں۔ ان کی شہرہء آفاق کتب چراغ تلے، خاکم بہ دہن، زرگزشت، آبِ گم اور شام شعرِ یاراں تھیں۔
    انہیں اردو ادب میں کارہائے نمایاں انجام دینے پر حکومت پاکستان کی جانب سے سن 1999 میں ستارہ امتیاز اور 2002 میں ہلال امتیاز سے نوازا گیا۔
    مشتاق احمد یوسفی چار ستمبر 1923 کو جے پور میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے پیشہ ورانہ بینکر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ اردو ادب میں انہیں ان کے غیرعمومی اسلوب اور انتہائی نئے طرز کے پیرائے میں طنز و مزاح کی تخلیق کی بنا پر صفِ اول کے قلم کاروں میں گردانا جاتا تھا۔
    مشتاق احمد یوسفی کے والد جے پور میں گریجویشن تک تعلیم حاصل کرنے والے پہلے مسلمان تھے۔ مشتاق یوسفی کے گھرانے نے سن 1956 میں پاکستان ہجرت کی اور ان کا زیادہ تر وقت کراچی میں گزرا۔
    اردو شاعری کی روایت ہے کہ کسی مشاعرے کی صدارت ہمیشہ کوئی شاعر ہی کرتا ہے، تاہم مشتاق احمد یوسفی کی اردو زبان پر گرفت اور ادبی قد کی بنا پر انہیں مشاعروں کی صدارت تک دے دی جاتی تھی۔ سن دو ہزار سات میں بھی مشتاق احمد یوسفی کو ایسی ہی ایک شعری نشست کی صدارت دی گئی۔ کراچی کے علاقے ڈیفنس میں شاعری کی اس نجی نشست میں شہر بھر کے شعراء شریک تھے۔ کچھ نوآموز شاعر بھی تھے، سو کہا گیا کہ سبھی افراد اپنا اپنا تعارف کرا دیں۔
    ایسے میں معروف شاعر خالد معین نے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا، ’میرا نام خالد معین ہے اور میرا تعلق جنگ گروپ سے ہے۔‘
    ان کی تقلید میں ان کے برابر بیٹھے راشد نور نے کہا، ’میرا نام راشد نور ہے اور میرا تعلق نوائے وقت گروپ سے ہے۔‘ ان سے آگے مشتاق احمد یوسفی بیٹھے تھے، کہنے لگے، ’میرا نام مشتاق احمد یوسفی ہے اور میرا تعلق کسی گروپ سے نہیں ہے۔‘
    ان کے اس جملے پر چاروں جانب سے واہ واہ کی صدائیں بلند ہونے لگیں اور وہاں موجود تمام شاعر ایک لمحے میں ہر گروپ سے جیسے آزاد سے ہو گئے۔
    یوسفی صاحب کو ادیب اور شعراء عموماﹰ اپنے گھیرے میں لیے رکھتے اور سبھی کی خواہش ہوتی کہ یوسفی یا تو کسی تقریب میں شریک ہو جائیں، ان کی کسی کتاب کا دیباچہ لکھ کر اس کتاب کو امر کر دیں یا کسی کتاب کے فلیپ کے لیے ہی چند کلمات تحریر کر دیں۔
    مشتاق احمد یوسفی اردو زبان و ادب کا ایک ایسا ستارہ تھے، جو ایک طویل عرصے تک ’عہد یوسفی‘ بن کر تابندہ رہے گا۔

    • [​IMG]
     

اس صفحے کو مشتہر کریں