1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ہومیوپیتھک نکتئہ نظر

'جنرل سائنس' میں موضوعات آغاز کردہ از ذوالقرنین کاش, ‏19 مئی 2008۔

  1. ذوالقرنین کاش
    آف لائن

    ذوالقرنین کاش ممبر

    شمولیت:
    ‏25 اپریل 2008
    پیغامات:
    383
    موصول پسندیدگیاں:
    3
    سارس.علاج بے دوا

    Sars

    ہومیوپیتھک نکتئہ نظر

    پروفیسر ڈاکٹر سیّد مشتاق حسین

    (سابق ڈسٹرکٹ چیئرمین کمپلی منٹری میڈیسن)



    یہ تازہ بہ تازہ مرض ہے‘ جس کا علاقئہ طلوع جنوبی چین کا ایک صوبہ ہے‘ جہاں دیہی علاقوں میں جانوروں اور انسانوں کے رہن سہن میں قریبی رابطہ رہتا ہے اور جہاں نکاسی آب کا انتظام بھی صحیح نہیں ہے۔ یہ مرض کافی حد تک انفلوائنزا سے ملتا جلتا ہے جو متعدی ہونے کی وجہ سے وبائی شکل اختیار کرچکا ہے۔



    سارس اب تک تیس ممالک میں پھیل چکا ہے‘ جس سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ متاثر ہوئے ہیں اور تقریباً 774مریض جاں بحق ہوگئے۔ شرح اموات فی الحال تقریباً 6فیصد اور صحت یابی کی شرح% 94 فیصد ہے۔ چونکہ ابھی تک اس کا نہ علاج معلوم ہوا ہے اور نہ ٹیکے‘ اس لیے اس کے علاج کے لیے فی الحال انفلوائنزا کے علاج کا طریقہ استعمال ہورہا ہے اور روک تھام کو اہمیت دی جارہی ہے۔



    ذرائع ابلاغ نے اس مرض کی ہلاکت خیزی کو اس قدر اچھالا ہے کہ چین کا بالخصوص اور دوسرے متاثرہ ممالک کا بالعموم معاشی نقصان ہوا ہے‘ اسی لیے بعض حلقے اسے جراثیمی دہشت گردی کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔



    اس بیماری کا جرثومہ انفلوائنزا کے Corona Virusسے ملتا جلتا ہے اور تبدیل پذیر ہے۔کہا جاتا ہے کہ نزلے کا علاج کیا جائے تو تقریباً ایک ہفتے میں مریض ٹھیک ہوجاتا ہے اور اگر علاج نہ کیا جائے‘ صرف آرام کیا جائے‘ رقیق غذا دی جائے تو مریض سات دن میں ٹھیک ہوجاتا ہے‘ یعنی علاج طفل تسلی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔



    بے دوا علاج کے بنیادی اصول

    انسانی جسم ایک خود کار حیاتی مشین ہے‘ جسے اگر مناسب بنیادی غذا‘ صاف پانی اور تازہ ہوا میسر آتی رہے اور انسان بہ اعتدال اپنے ہاتھ پائوں ہلاتا اور آرام کرتا رہے اور اس کا اخراجی اور اخرازی نظام ٹھیک ہو تو بیماری اس کے قریب بھی نہیں پھٹکتی۔ اگر کوئی خرابی آ بھی جائے تو جسم خود بخود اپنا قبلہ درست کرلیتا ہے )اذا مرضت فھو الیشفین جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہ مجھے شفا دیتا ہے(

    بیماریاں دراصل قوانین قدرت کی خلاف ورزی‘ بے اعتدالیوں‘ غلط کاریوں اور خواہشات کو خدا بنا لینے سے پیدا ہوتی ہیں۔ انسانی جسم بیمار ہونے سے قبل روحانی بیمار ہوتا ہے ۔ یہ کیفیت کسلمندی (طبیعت گری گری) سے ظاہر ہوتی ہے۔ شاید اسی کے پیش نظر Christian Scientistsجو عیسائیوں کا ایک فرقہ ہے‘ ڈاکٹر سے علاج نہیں کراتا‘ بلکہ دعا و توبہ سے علاج کا قائل ہے اور حضرت عیسیٰ کو شفا دھندہ اور مردوں کا جلانے والا سمجھتا ہے۔



    علاج بے دوا کے ماہرین (Naturopaths)علاج کے لیے ادویات (بالخصوص کیمیاوی) کا استعمال نہیں کرواتے قدرتی اشیاءاستعمال ہوتی ہیں بلکہ اخراجی و اخرازی نظام کو متحرک کرکے داخلی صفائی اور حفظان صحت خارجی صفائی غسل‘ ٹھنڈی گرم سینکائی‘ فاقہ‘ زودہضم اور ہلکی غذا کا استعمال‘ چکنی مٹی کا لیپ‘ ورزش آبی اور آفتابی غسل جیسے طریقے استعمال کراتے ہیں۔

    میانہ رو انسان میں قوت مدافعت (Immunity)بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے‘ لیکن انسان اگر نفسیاتی‘ ماحولیاتی‘ معاشی تفکرات کے دبائو میں ہوتو اس کی قوت مدافعت کم ہوجاتی ہے اور وہ بیماری کا اثر جلد قبول کرلیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک خاندان ‘ ایک گائوں اور ایک شہر کے سب لوگ وبائی مرض میں مبتلا نہیں ہوتے۔ جو لوگ زیادہ کمزور قوت مدافعت رکھتے ہیں‘ وہ جلد بیماری کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ان میں سے صرف چند داعی اجل کو لبیک کہتے ہیں‘ باقی لوگ لوٹ پوٹ کر تندرست ہوجاتے ہیں۔ جو لوگ علاج کے بعد تندرست ہوجاتے ہیں وہ ادویات کے استعمال سے بیماری دب جانے کی وجہ سے متغرق امراض میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ان تکالیف کو عرف عام میں دواؤں کے ذیلی اثرات کہا جاتا ہے جو قصیر المیعاد یا طویل المیعاد ہوسکتے ہیں۔



    علامات و پھیلائو:

    سارس (Sars)کے تشخیصی علامات میں سب سے پہلے طبیعت میں اضمحلال ہے جو جراثیم کے داخل ہونے کے بعد ہوتا ہے‘ (Incubation)کا دورانیہ 3 سے 10 روز ہوتا ہے۔ گلے میں خراش کا احساس ہوتا ہے‘ چھینکیں آتی ہیں‘ ناک سے گاڑھی سفید یا رنگدار اور آنکھوں سے آبی رطوبت خارج ہوتی ہے‘ بھوک غائب ہوجاتی ہے‘ عضلات اور ہڈیوں میں درد ہوتا ہے‘ خشک کھانسی ہوتی ہے‘سانس رکنے لگتی ہے‘ تنفس میں ایسی تکلیف ہوتی ہے جیسے نمونیہ میں۔ سینے میں درد ہوتا ہے اور بعض اوقات آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے‘ مریض کو بخار 104oFتک پہنچ سکتا ہے۔ بخار اتارنے کے لیے ادویات دی جاتی ہیں جو قدرتی علاج کے اصول کے منافی ہیں‘ علاوہ ازیں مریض کو قبض بھی ہوسکتا ہے اور اسہال کی شکایت بھی۔

    سارس (Sars)کے جراثیم مریض کے کھانسنے اور چھینکنے سے ہوا میں معلق ہوجانے والے چھوٹے قطرات میں پائے جاتے ہیں اور وہاں سے گزرنے والے دوسرے افراد کے سانس کے ساتھ اس کے نظام تنفس میں داخل ہوجاتے ہیں۔ یہی قطرات گرد کی طرح میز کرسی دروازوں پر بیٹھ کر خشک ہوجاتے ہیں اور سارس (Sars)وائرس ہاتھوں کے ذریعہ چپک کر منہ کے راستے اعضائے ہضم میں داخل ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ خون پیشاب اور فضلے میں سارس (Sars)وائرس پایا جاتا ہے۔حفظان صحت کے لیے منہ اور ناک کو ڈھانکنے والے ماسک مریض اور عام لوگوں کو پہن لینا چاہئے۔ متاثرہ جگہوں پر جراثیم کش ادویات کا چھڑکائو بھی کرنا چاہئے۔



    سارس کی تین اہم خصوصیات ہیں جن کو اموات کا باعث تصور کیا جاتا ہے:

    ١۔ بخار کو طب جدید میں خطرے کی گھنٹی سمجھا جاتا ہے اور اسے انفیکشن کی پہچان گردانا جاتا ہے اور بخار کم کرنے کے لیے ادویات دی جاتی ہیں۔ قدرتی علاج کے ماہرین بخار کو جسم کی مدافعتی قوت کا اظہار سمجھتے ہیں۔ یہ وہ توانائی ہے جو جسم اور جراثیم کے جنگ و جدل میں خارج ہوتی ہے‘ لہٰذا قدرتی علاج کرنے والوں کے مطابق بخار کو ادویات سے دبانا مریض کے لیے نقصانات کا باعث ہوسکتا ہے۔ چونکہ جراثیم کو چھوٹ ملے گی اور نئے مصنوعی کیمیائی مادے جسم میں داخل ہوکر قوت مدافعت (Immunity)کو ضرر پہنچائیں گے۔

    ٢۔ اسہال: اس کی وجہ سے جسم میں پانی اور حیاتی نمکیات کی کمی ہو جاتی ہے اور بالآخر آبی کی کیفیت ہوسکتی ہے‘ جس سے موت واقع ہوسکتی ہے۔ بعض اوقات بخار اتارنے والی ادویات اور Antibioticsچونکہ نظام ہاضمہ میں داخل ہوتی ہیں‘ نظام انجذاب کو متاثر کرتی ہیں۔ یہ دوائیں دراصل مصنوعی مرض اسہال پیدا کرتی ہیں‘ جسے ادویات کے ذیلی اثرات کا نام دیا جاتا ہے۔

    ٣۔ سانس لینے میں تکلیف یا نمونیہ: یہ کیفیت تشویش ناک ہے۔ اس کی وجہ سے موت واقع ہوسکتی ہے۔ ایسی صورت میں مریض کو آکسیجن دی جائے اور Suctionکا طریقہ استعمال کیا جاسکتا۔

    طریقہ علاج بے دوا: سارس (Sars)نومبر کے آخر اور دسمبر کے شروع میںظاہر ہوا۔ یہ زمانہ جاڑے کی رخصت کا زمانہ ہے۔ اس زمانے میں عام انفلوائنزا کی طرح سارس کی بھی ابتدا ہوئی ہے۔سارس کے قدرتی علاج میں جسم کے Clearanceکا طریقہ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس موسم میں ناک و حلق کی صفائی ضروری ہے کہ سانس اور منہ کے ذریعہ داخل ہونے والے جراثیم حلق اور ناک کی نالی میں جمنے نہ پائیں۔ ناک میں پانی ڈالنے اور غراروں سے یہ عمل ممکن ہے۔ مسلمانوں میں وضو اس صفائی کو یقینی بناتا ہے۔

    بخار شروع ہوتے ہی مریض کو فاقہ شروع کرادیا جائے‘ تاکہ اس کی داخلی طاقت جراثیم سے لڑنے میں صرف ہو‘ کھانا ہضم کرنے میں نہیں۔ بھاری غذا بالکل نہ دیں‘ صرف سادہ نمک پانی‘ مالٹے موسمی اور دیگر موسمی پھلوں کا رس استعمال کرائیں۔ مریض کو مکمل آرام کرائیں۔ جب بخار ٹوٹ جائے یعنی درجہ حرارت نارمل ہوجائے تو مریض کو کھانے میں دو دن تک صرف تازہ پھل دیں‘ اس کے بعد پھلوں کے ساتھ کُنکنا دودھ دیں‘ پھر سبزیوں کا سوپ دیں‘ اس کے بعد عام غذا دیں۔ اس طریقہ کار سے بخار کا قدرتی دورانیہ بغیر کسی دوا کے پورا ہوجاتا ہے اور مریض کلی طور پر صحت یاب ہوجاتا ہے۔

    چونکہ سارس کا جرثومہ منہ سے بھی داخل ہوتا ہے‘ لہٰذا اعضائے ہضم کی صفائی بھی ضروری ہے۔ فاقے کے دوران پانی اور پھلوں کے رس کے علاوہ نیم گرم پانی بھی دیا جانا چاہئے اور 24گھنٹے میں کم از کم ایک بار ایک لیٹر سادے نیم گرم پانی سے حقنہ (Enema)لینا چاہئے۔ لیٹے رہنا چاہئے‘ حاجت محسوس ہونے پر بیت الخلا جانا چاہئے‘ لیکن اخراج کے لیے زور نہیں لگانا چاہئے۔

    بخار کم کرنے کے لیے بجائے دوائوں کے جسم پر تر کپڑا رکھنا چاہئے‘ تاکہ پانی کے تبخیر سے جسم کا درجہ حرارت کم ہو جائے‘ پٹیاں‘ چادریں ٹھنڈے پانی میں بھگو کر جسم کے اوپر لپیٹنا چاہئے۔

    نمونیہ اس بیماری کی آخری کیفیت ہوسکتی ہے اور دراصل ادویات کے ذیلی اثرات ہوسکتے ہیں۔ ایسی صورت میں تہہ کی ہوئی چادر ٹھنڈے پانی میں بھگو کر سینے پر لپیٹ کر اوپر سے کمبل کا کپڑا لپیٹ دیں اور مریض کو اوڑھا کر لٹا دیں۔ ایسے مریضوں کو نیم گرم آبی حقنہ (Enema)دینا فائدہ مند ہے۔



    یاد رکھنے والی باتیں:

    ان تمام طریقوں میں چند چیزیں سمجھ میں آتی ہیں:

    ١۔ مریض کی ساری طاقت مرض سے لڑنے میں صرف ہوتی ہے۔

    ٢۔ اس کے جسم سے نقصان دہ عناصر نکل جاتے ہیں۔

    ٣۔ دوائوں سے اجتناب کرنے سے جانبی اثرات نہیں ہوتے۔

    ٤۔ انسان کی قدرتی دفاعی صلاحیت بحال ہوجاتی ہے۔

    ٥۔ شفایاب ہونے کے بعد انسان درست ہوجاتا ہے۔



    Picture taken from:

    http://www.cell-research.com/20033/20033COVER.htm

    The picture is an art model of the novel coronavirus, modified from Dr. Kathryn. V. Holmes [N Engl J Med. 2003; 348(20):1948-51] by Prof. Yi Xue LI and Ye CHEN of Bioinformation Center, Shanghai Institutes for Biological Sciences, CAS
     
  2. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    بہت اچھا مضمون ہے۔
     
  3. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    ذوالقرنین کاش بھائی ۔ اتنا معلوماتی مضمون ارسال فرمانے کے لیے شکریہ ۔
     
  4. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    معلومات میں اضافہ کا شکریہ
     
  5. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    دیر سے پڑھنے کی معذرت کاش جی ، معلوماتی مضمون کے لئے بہت شکریہ
     
  6. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    ذوالقرنین کاش بھائی ۔
    اب ایسے ہی معلوماتی مضامین کے ساتھ دوبارہ پلٹ آئیے۔
    شکریہ ۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں