1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ہم کہاں کھڑے ہیں

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از صدیقی, ‏21 دسمبر 2011۔

  1. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    ہم کہاں کھڑے ہیں

    الطاف حسن قریشی

    منظم ہو کر عوام قیادت سنبھالیں​


    عوام نے ۲۰۰۸ء کے انتخابات میں جن جماعتوں اور افراد کے سر پر نمائندگی کا تاج رکھا تھا، ان میں سے بیشتر اصحاب شہریوں کی جان و مال کی حفاظت، زندگی کی بنیادی ضرورتوں کی فراہمی اور وطن کی سربلندی میں بُری طرح ناکام رہے ہیں۔ وہ اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے محلاتی جوڑ توڑ، اپنے قریبی رشتہ داروں، جیل کے ساتھیوں اور غیر ملکی ریستوران کے منیجروں پر بڑے بڑے مناصب کی فیاضانہ بخشش اور ملکی دولت کی لوٹ کھسوٹ میں شبانہ روز مصروف رہے۔ اُن کے ذریعے کرپشن، نااہلی، بدنظمی اور عوامی اُمنگوں اور مسائل سے بے تعلقی کا خوفناک وائرس حکومت کی پوری مشینری میں سرایت کرتا گیا؛ چنانچہ قومی سیاست، ملکی معیشت اور انتظامی ڈھانچہ شدید انتشار کا شکار ہیں اور ہماری قومی خودمختاری اور ملکی سلامتی شدید خطرات میں گھری ہوئی ہے جبکہ ہمارے بہادر اور جفاکش عوام بدترین حکمرانی کے ہاتھوں بلبلا اُٹھے ہیں۔ سالہا سال سے مشکلات برداشت کرتے، ذلت و رسوائی سے دوچار ہوتے اور ظلم کی چکی میں پستے ہوئے رہنے سے ان کے اندر یہ شعور پیدا ہوا ہے کہ انھیں اپنی قسمت سنوارنے کے لیے خود آگے بڑھنا اور اپنی اجتماعی قوت کا منظم اظہار کرنا ہوگا۔

    وہ حضرات جو اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں، وہ اشرافیہ جو ملکی وسائل کے بڑے حصے پر قابض ہے وہ منصب دار جو حادثے کے طور پر ایوانِ ہائے اقتدار میں براجمان ہیں، وہ غالباً ملک اور عوام سے انتقام لینے پر تلے ہوئے ہیں۔ وہ ادارے اور وہ محکمہ جو عام شہریوں کو آسا نیاں فراہم کرنے اور قومی یک جہتی کو فروغ دینے کا فریضہ بڑی خوش اسلوبی سے ادا کرتے آئے تھے، سب سے پہلے ان ہی میں لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کیا گیا اور ان کے معاملات انتہا ئی نااہل اوربدعنوان افراد کے سپرد کر دیے گئے۔ نتیجہ یہ کہ جو شعبے ہر سال اربوں کا منافع کمانے کے علاوہ اعلیٰ درجے کی قومی خدمات سرانجام دے رہے تھے، وہ قرضوں کے بوجھ تلے ہانپ رہے ہیں۔ پاکستان ریلوے کا دردناک انجام ہمارے سامنے ہے۔ یہ غریب اور کم آمدنی والے شہریوں کے لیے ایک شہر سے دوسرے شہر اور ایک صوبے سے دوسرے صوبے تک جانے کا سب سے محفوظ اور سب سے کم خرچ ذریعہ تھا۔ مال گاڑیوں کے ذریعے تجارتی درآمدشدہ اربوں کا سازوسامان ایک علاقے سے دوسرے علاقے تک پہنچتا تھا۔ ہماری افواج کے لیے بھی پاکستان ریلوے سب سے قابل اعتماد نظامِ مواصلات کی حیثیت رکھتا تھا ۔ جناب غلام احمد بلور نے جب سے اس وزارت کا قلم دان سنبھالا ہے، مسافر گاڑیاں بند ہوتی جا رہی ہیں، ریلوے انجن دم توڑ چکے ہیں اور ایک روز اُنھوں نے مژدہ سنایا کہ انھیں فوری طور پر چالیس ارب نہ دئیے گئے، تو چند ہی روز میں تمام ٹرینیں چلنا بند ہو جائیں گی۔

    اُن کے اس روح فرسا بیان پر اُن کی سخت گرفت ہونے کے بجائے جناب وزیراعظم نے انھیں قسط وار مالی وسائل فراہم کرنا شروع کر دیے، کیونکہ ان کی بدترین نااہلی، بدعنوانی اور عوام دشمنی میں وفاقی حکومت بھی اس اعتبار سے برابر کی شریک ہے کہ پیپلز پارٹی جسے اسمبلی میں سادہ اکثریت بھی حاصل نہیں ، اُسے اقتدار پر قابض رہنے کے لیے اے۔این۔پی کی حمایت درکار ہے، اس لیے اس نے اپنے سیاسی حلیفوں کے سنگین جرائم سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں اور اس امر کا پورا پورا اہتمام کیا گیا ہے کہ ملک میں احتساب کا ایک مؤثر نظام قائم نہ ہونے پائے۔ غضب خدا کاکہ ہماری پارلیمنٹ نے بھی ریلوے کی گرتی ہوئی صحت پر کسی تشویش کا اظہار کیا نہ اس امر کی تحقیقات کرائی اور یہ مواخذہ بھی نہیں کیا کہ چین سے غیر معیاری انجن کیوں خریدے گئے اور جو خراب ہوتے گئے ان کی فوری مرمت کا ایک قابل اعتماد نظام کیوں قائم نہیں کیا گیا۔ قومی مفادات اور عوامی ضرورتوں سے اس درجہ بے حسی اورسفاکانہ بے اعتناعی سے یہ ثابت ہوا کہ ہمارے اربابِ اختیار عوام کے مینڈیٹ سے محروم ہوچکے ہیں۔ بھارت نے اس سال اپنے ریلوے کے ذریعے ۶۵ارب کا منافع کمایا ہے جبکہ ہمارے ناخدائوں نے اسی معیار کے ہمارے ریلوے سسٹم کوبالکل ناکارہ بنا دیا ہے۔ اِس تباہی کے ذمہ داراہل منصب پر عوامی طاقت اور قومی سلامتی کے ادارے مضبوط ہاتھ ڈالنے والے ہیں کیونکہ جنگ کی صورت میں ہماری افواج کو نقل و حرکت میں بڑی دشواری کا سامنا ہوگا جبکہ بھارت راجستھان میں بڑے پیمانے پر جنگی مشقیں کرکے پاکستان کو ایک سخت پیغام دے رہا ہے۔

    یہ اعزاز بھی موجودہ حکومت کے حصے میں آیا ہے کہ وہ پی۔آئی۔اے جو ایک زمانے میں دنیا کی اچھی فضائی کمپنیوں میں شمار ہوتا تھا اور جس نے گلف اور سنگاپور کی فضائی کمپنیوں کے قیام اورہوابازوں کی تربیت میں بنیادی کردار ادا کیا تھا، آج زوال کی ایک اندوہناک تصویر پیش کر رہا ہے۔ اس کی ورکشاپ اور اس کے انجنیئرایسی کمال شہرت اور صلاحیت کے مالک تھے کہ شرقِ اوسط کے علاوہ مشرقی ایشیا کی فضائی کمپنیاں اپنے جہاز مرمت کے لیے کراچی بھیجتی تھیں اور بہت ساری فضائی کمپنیوں کو پی۔آئی۔اے کیٹرنگ سروس فراہم کرتا تھا۔ اب اُس کے زیادہ تر طیارے آئے دن ٹیکنیکل خرابی کی وجہ سے اپنا سفر جاری نہیں رکھ سکتے اور مسافروں کے لیے ناقابل تصور مشکلات کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ آج حالت یہ ہے کہ اس کے طیارے ایک ایک کرکے ناقابل استعمال ہوتے جا رہے ہیںاور اعلیٰ مناصب پر نا اہل، بد قماش اور کرپٹ افسروں کی بڑے بڑے مشاہروں پر تعیناتی اور سال سال بھر کی تنخواہوں اور مراعات کی پیشگی ادائی اور شاہ خرچیوں کے باعث پی۔آئی۔اے قرضوں کے بوجھ تلے بیٹھ گیا ہے اور پاکستان کی رسوائی کا باعث بنا ہوا ہے۔ اس رسوائی کا جناب آصف علی زرداری اور اُن کی حکومت کی صحت پر کوئی اثر دکھائی نہیں دیتا اور وہ مطمئن ہیں کہ ان کے ذاتی جاں نثاروں کو اربوں کمانے کا خوب موقع ملا ہوا ہے۔ اخلاقی پستی اور ڈھٹائی کی انتہائی شرمناک اور منحوس مثالیں قائم ہو رہی ہیں جن سے ملکی معیشت کے پیندے میں بہت بڑا سوراخ ہوچکا ہے۔

    پاکستان میں صنعتوں کے فروغ کے لیے مسٹر بھٹو نے روس کے ساتھ کراچی میں اسٹیل مل لگانے کا معاہدہ کیا تھا جو یقینی طور پر ایک بہت بڑا بریک تھروثابت ہواتھا۔ امریکہ پاکستان میں فولاد کا کارخانہ لگانے کا سخت مخالف تھا۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے ماہرمعاشیات پروفیسر اشفاق علی خاں اس خیال کا بڑی استقامت کے ساتھ پرچار کرتے رہے کہ وطن میں صنعتوں کا جال بچھانے کے لیے اسٹیل مل ایک بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے جو پاکستان میں بہت جلد لگنا چاہیے۔ کراچی میں پاک اسٹیل مل کا افتتاح ہوا تو قومی حلقوں میں خوشی اور امید کی لہر دوڑ گئی۔ اس ادارے کو جب تک دیانت دار اور اچھے منتظمیں میسر آتے رہے اُس وقت تک ملکی اقتصادیات کو تازہ خون ملتا رہا ، مگر بدقسمتی سے ایم۔کیو۔ایم اور پیپلزپارٹی کے مصاحبین اسے کھوکھلا کرنے میں لگے رہے، چنانچہ جناب شوکت عزیز کی حکومت نے ۲۰۰۶ء میں اسے نجی شعبے میں دینے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت کے ایم۔ڈی لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم خاں نے سپریم کورٹ میں یہ بیان داخل کیا کہ پاک اسٹیل مل کے ۲۳؍ارب کے اثاثے ہیں اور اس کی توسیع کے منصوبے زیرِتکمیل ہیں۔ سپریم کورٹ نے حکومت کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا ۔ اس کے بعد ایم۔ڈی میجر جنرل (ر) جاوید حالات میں مزید بہتری لے آئے۔ زرداری حکومت نے قومی اہمیت کا یہ ادارہ حریص، بدنیت اور نااہل افراد کے سپرد کر دیا جو اس کا جسم گدھوں کی طرح نوچتے رہے۔ وہ اب اربوں کا مقروض ہے اور ملکی معیشت پر ناقا بلِ برداشت بوجھ بن چکا ہے ۔ شاید اب اس کا پبلک سیکٹر میں چلتے رہنا محال ہوگیا ہے۔ اب صرف اقربا پروری اور بدعنوانی کے کارخانے دن رات عوام کی ہڈیوں سے نکالے ہوئے تیل سے چل رہے ہیں۔

    روزمرّہ کی بنیادی ضرورتوں کی فراہمی اور ترقی اور خوشحالی کی منزلوں تک رسائی کے لیے توانائی ایک لازمی عامل کی حیثیت رکھتی ہے۔ پیپلزپارٹی کی حکومت ۲۰۰۸ء میں قائم ہوئی اور اس نے پیداوار اور طلب میں بڑھتے ہوئے فاصلے پر قابو پانے پر کوئی سنجیدہ توجہ نہیں دی اور فقط ان منصوبوں پر کام کیا جن سے بھاری کمیشن حاصل ہوسکتا تھا۔ رینٹل پاوراسٹیشن کے معاہدے بڑی عجلت میں کیے گئے اور اربوںکی پیشگی ادائیاں ہو گئیں لیکن ان سے اب تک ایک میگاواٹ بجلی بھی پیدا نہیں ہوئی۔ بجلی اور پانی کے وزیرجناب راجہ پرویز اشرف نے اعلان کردیا کہ دسمبر ۲۰۰۹ء سے لوڈ شیڈنگ ختم ہو جائے گی لیکن اس میں ہوشربا اضافہ ہوتاگیامگر دُکھ کی بات یہ ہے کہ عوام کو فریب دینے کے جرم پر انھیں کوئی سزا نہیں دی گئی اور وہ اپنی آنے والی نسلوں کے لیے بہت سا مال بنا کر ایک طرف ہوگئے۔ منصوبہ بندی کے فقدان اور نا اہل افراد کو امانتیں سپرد کرنے کا یہ نتیجہ نکلا کہ اکتوبر۲۰۱۱ء میں پنجاب کے بیشتر شہروں میں بیس گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ ہونے لگی اور کراچی بھی زد میں آگیا۔ سی۔این۔جی کی شدید قلت کے پیشِ نظر اس کے اسٹیشن ہفتے میں تین روز کے لیے بند کر دئیے گئے اور اسی طرح سوئی گیس کی عدم دستیابی سے فیصل آباد میں ٹیکسٹائل کے کارخانے آخری دموں پر ہیں۔ کراچی کی صنعت بیٹھ گئی ہے اور پیداوار کا پہیہ سست، بے روزگاری اور مہنگائی کا عفریت پھیلتا جا رہا ہے اورعام آدمی کا سکون نگلتا جا رہا ہے۔ ملک میں اگر معاشرتی عدل کا نظام قائم ہوتا تو ہماری اشرافیہ سخت ترین سزا کی سزاوار قرار پاتی اور عوام دشمنی پر حکمرانوں کو سرِعام کوڑے لگائے جاتے۔ اب یہ وقت آن پہنچا ہے کہ کڑے احتساب کی ٹکٹیاں لگنے والی ہیں۔

    وہ حکومتیں جو بنیادی اشیا کی قیمتیں مقرر کرنے اور ان کی کوالٹی کنٹرول میں بری طرح ناکام رہیں، بازار میں جعلی دوائیاں فروخت ہورہی ہیں، تعلیم اور صحتِ عامہ کے حالات ناگفتہ بہ ہیں، اچھی حکمرانی کے سارے نشانات مٹا دئیے گئے ہیں، آج ان کے خلاف عوام کے اندر ناقابل بیان حقارت اور نفرت پھیل رہی ہے۔ ان دنوں دراصل حکومت میں معمول کے فرائض ادا کرنے کی بھی صلاحیت نہیں رہی کیونکہ جمہوری انداز سے معاملات چلانے کے بجائے ایک مافیا نے اقتدار پر قبضہ جما رکھا ہے۔ سندھ کے وزیراعلیٰ جناب قائم علی شاہ کے پاس ایک درجن کے لگ بھگ وزارتیں ہیں جو پیر پگاڑا کے ارشادات کی رو سے بھنگ پیئے رہتے ہیں۔ اسی طرح پنجاب کے وزیراعلیٰ جناب شہباز شریف وزارتوں سے لدے پھندے ہیں اوریہ تاثر عام ہے کہ ان کی اجازت کے بغیر کوئی وزیر اپنے اختیارات استعمال نہیں کرسکتا۔ ہر مہذب معاشرے میں حکومت امنِ عامہ کے بعد سب سے زیادہ توجہ تعلیم، صحت اور پبلک ٹرانسپورٹ پر دیتی اور اُن میں بہتری لانے کے لیے تحقیق اور منصوبہ بندی کرتی رہتی ہے۔ پنجاب کے وزیرتعلیم پر غالبًاچار پانچ غیر متعلقہ وزارتوں کابارہے جس میں ٹرانسپورٹ کی وزارت بھی شامل ہے۔اس لیے تعلیم کا محکمہ زبوں حالی کا شکار ہے اور پنجاب کے چار سیکنڈری بورڈز نے گیارویں جماعت کے امتحانات کے نتائج میں جس بے عقلی، بے بصیرتی اور مافیا گردی کا مظاہرہ کیا ہے اس کے ردِعمل میں طلبہ سڑکوں پر نکل آئے اورذمہ دار اتھارٹی پانچ روز تک اپنے غلط اقدامات کے دفاع میں دلائل دیتی اور نوجوانوں کے اشتعال میں اضافہ کرتی رہی اور جب یہ احتجاج طوفان کی شکل اختیار کرنے لگے تو وزیرتعلیم نے چار بورڈز کے نتائج منسوخ کیے جبکہ اگلے روز حکومت نے تمام بورڈوں کے نتائج منسوخ کرکے دو ماہ بعد دوبارہ نتائج کے اعلان کا یقین دلایا اس جرم کی سزا کسی کو تو ملنی چاہیے جو لاکھوں طلبا کو اذیت پہنچانے اور ان کا قیمتی وقت ضائع کرنے کا باعث بنا ہے۔

    پنجاب میں وزارت صحت کا بار بھی وزیراعلیٰ اٹھائے ہوئے ہیں اور وہ اپنی گوناگوں مصروفیات میں اس طرح پھنسے رہتے ہیں کہ انھیں حفظانِ صحت کے لیے ایک دور رس منصوبہ بندی کے لیے وقت نہیں ملتا۔ پی۔ایم۔اے لاہور نے جون میں سپرے کرانے کی ضرورت پر زور دیا تھا اور ڈینگی بخار کے خطرے سے بروقت آگاہ کیا تھا مگر حکومت کی عدم دلچسپی کے باعث سپرے وقت پر نہ ہوسکا اور کڑی نگرانی کی عدم موجودگی میں چھڑکائو کے لیے جو دوا استعمال کی گئی وہ غیر معیاری اور غیر مؤثرثابت ہوئی۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے کہرام سا مچ گیا اور ہسپتال مریضوں سے بھر گئے۔ روزانہ دس پندرہ اموات کی خبریں نشر ہونے لگیں۔ بلاشبہ جناب وزیراعلیٰ نے اس دوران غیر معمولی قوتِ کار اور انتظامی صلاحیت کا ثبوت دیا، عوام کے اندر زبردست آگاہی پیدا کی اور ہسپتالوں میں آسانیاں فراہم کرنے پر توجہ دی مگر یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ ہم ایک خودکار نظام کیوں قائم نہیں کر پاتے اور وقتی اچھل کود کو حقیقی اور دیرپا کامیابی کیوں تصور کر لیتے ہیں اور ایک وزیرِصحت کا تقرر کیوں عمل میں نہیں آتا ہے؟

    آبادی کے لحاظ سے سندھ پاکستان کا دوسرا بڑا صوبہ ہے۔ صوفی شاعر بھٹائی کے محبت بھرے نغموں سے معمور اس خطے میں کراچی سالہا سال سے قتل و غارت کی آماجگاہ بنا ہوا ہے اور موجودہ حکومت کے عہد میں خون ریزی اور غارت گری میں بڑا اضافہ ہوا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ سندھ حکومت میں جو سیاسی جماعتیں شامل ہیں، وہ سپریم کورٹ کے مشاہدات کی رو سے ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، اغوا اور تشدد کی کارروائیوں میں ملوث ہیں جو اقتدار کی خاطر آپس میں تعاون بھی کر رہی ہیں۔ اقتدار کا کھیل خوفناک بھی ہے اور سفاک بھی۔ پیپلزپارٹی کا زیادہ تر وقت اپنے سیاسی حلیفوں کی نازبرداری میں گزرتا ہے کہ ان کی حمایت کے بغیر وہ ایک لمحے کے لیے اقتدار میں نہیں رہ سکتی۔ ایم۔کیو۔ایم وقفے وقفے سے روٹھ کر حکومت سے باہر آجاتی ہے ۔ یہ اہلِ اقتدار کی سنگ دلی کی انتہا تھی کہ جب امریکی ہیلی کاپٹر اسامہ بن لادن کو گرفتار کرنے ایبٹ آباد میں اترے تھے، تقریبًا اسی وقت ایوان صدر میں پیپلزپارٹی اور قاف لیگ کے درمیان ہونے والے معاہدے پر جشن منایا جا رہا تھا اور اسامہ بن لادن کی ہلاکت سے امریکہ کو عظیم فتح کا پیغام دیا جارہا تھا۔

    اس پُراسرار اور ڈرامائی کھیل میں حکومت کے اہم ادارے اپنے فرائض سے غافل ہوگئے جس کے نتیجے میں سندھ کے وسیع و عریض علاقوں میں بارشوں کے پانی نے تباہی مچادی جو گزشتہ سال کے ہلاکت خیز سیلاب سے کہیں زیادہ ہے۔ اس بار میرپورخاص، نواب شاہ، بدین اور ٹھٹھہ مہینوں سے پانی کے اندر ڈوبے ہوئے ہیں اور ہماری حکومت کا اعتبار اٹھ جانے سے غیر ملکی ممالک نے امداد سے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ میاں نواز شریف کی قیادت میں پنجاب سے امدادی سامان اندرونِ سندھ پہنچ جاتا ہے جوقومی یک جہتی کے لیے ایک اچھا شگون ہے۔ حکومت سندھ اور وفاقی حکومت پریشان حال اور بے کس آفت زدگان کی امداد اور بحالی میں خاطر خواہ دلچسپی نہیں لے رہیں جس کے سبب عوام کے اندر ان کے خلاف سخت بے زاری بڑھتی جا رہی ہے۔ سندھ کی فلاحی تنظیمیں اپنے ہم وطنوں کی خدمت کے لیے سرگرم دکھائی دیتی ہیں اور جماعت اسلامی اور جماعت الدعوہ بھی امدادی ٹیموں کے ساتھ پہنچی ہوئی ہیں جبکہ فوج نے مختلف مقامات پر امدادی کیمپ لگا رکھے ہیں۔ کئی مہینوں پر محیط اس عذاب نے سندھ کے سیاسی کلچر پر بہت گہرا اثر ڈالا ہے اور پیپلزپارٹی کی جڑیں اکھڑنے لگی ہیں۔ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے ایم۔کیو۔ایم اور پیپلزپارٹی کے مفاد پرست گروہ پر کاری ضرب لگائی ہے اور غالبًا سندھ حکومت میں کوئی بڑی تبدیلی آنے والی ہے۔ اخبارات میں اس نوع کی قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں کہ جناب قائم علی شاہ کی جگہ صدر زرداری اپنی بہن فریال تالپور کو وزیراعلیٰ مقرر کرنے والے ہیں جو پہلے ہی سے تمام فیصلے کر رہی تھیں۔ اب عوام کے اندر خاندانی موروثیت کا تاثر مزید گہرا ہوجائے گا۔

    پاک امریکہ تعلقات میں جو ایک سخت مرحلہ آیا ہے، اس میں ہماری حکومت کی چالاکیوں اور دو عملیوں کابھی خاصا عمل دخل ہے۔ جناب یوسف رضا گیلانی نے آئی۔ایس۔آئی کو وزا رتِ داخلہ کے ماتحت کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری کردیا جبکہ کیری لوگر بل کے ذریعے پاک فوج کو امریکی مفادات کے زیراثر لانے کی کوشش کی گئی، مگر عسکری قیادت نے سخت مزاحمت کی اور قومی سوچ کو اپنے حق میں ہموار کیا۔ اس پر امریکہ نے بڑی مہارت سے سیاسی و عسکری قیادت میں پھوٹ ڈالنے کے لیے مختلف حربے استعمال کیے، تاہم ۲۹ستمبر کو منعقد ہونے والی اے۔پی۔سی نے فوجی قیادت اور آئی۔ایس۔آئی کو بڑی تقویت پہنچائی اور قوم کی متفقہ آواز نے امریکی قیادت کا غرورمتزلزل کر ڈالا۔ ہیلری کلنٹن جو اعلیٰ فوجی قیادت کے ساتھ اسلام آباد آئیں، انھیں ماضی کے سخت مؤقف سے پیچھے ہٹتے ہوئے یہ اعلان کرنا پڑا کہ ہم اب امن کو موقع دیں گے اورالزام تراشی کے بجائے باہمی احترام اور مشترکہ مقاصد کی بنیاد پر آپس میں تعاون کریں گے۔ انھیں جنرل کیانی کے اس بیان کے ساتھ بھی اتفاق کرنا پڑا کہ پاکستان کسی بھی طور عراق اور افغانستان نہیں اور اسے اپنے مفادات کے تحفظ کا پورا حق پہنچتا ہے۔

    دونوں ملکوں کی قیادت کے مابین جو مذاکرات ہوئے، ان سے ناتجربے کار حنا ربانی کے وزیرِخارجہ بنا دینے کی غلطی کے منفی اثرات سامنے آئے ہیں۔ جناب صدر زرداری نے ایک انتہائی نازک موڑ پر ہماری خارجہ پالیسی کوایک بڑے خطرے سے دوچار کردیا ہے۔ محترمہ حناربانی کھر دہلی گئیں تو بھارتی میڈیا نے انھیں چٹکیوں میں اُڑا دیا اور اُن کی آرائش و زیبائش پر طرح طرح کے افسانے شائع کیے۔ وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے گئیں، تو اس شکایت کے ساتھ گھر لوٹیں کہ ان کی باتوں کوغلط معانی پہنا ئے گئے۔ امریکی وزیرِخارجہ ہیلری کلنٹن کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں اُن کی زبان لڑکھڑانے لگی۔ ایک منجھی ہوئی، دوربین اور عالمی سطح پر بہت قدآور امریکی خاتون وزیرِخارجہ کے سامنے ہوٹل منیجمنٹ کی شُدبُد رکھنے والی ہماری وزیرِخارجہ بہت بے وزن محسوس ہوئیں۔ جناب صدرزرداری کو اپنی انا سے باہر آکرخارجی امور ایک بالغ نظر اورمعتبر شخصیت کے حوالے کرنے چاہئیں کیونکہ ہمیں اس وقت اپنی بقا کا مسئلہ درپیش ہے۔

    اس مرحلے پر مسٹر بھٹو مرحوم کی اہلیہ اور بے نظیر بھٹو شہید کی والدہ محترمہ نصرت بھٹو کے انتقال پُر ملال نے سیاسی واقعات کے بہائو کا رخ وقتی طور پر تبدیل کردیا ہے۔ پیپلزپارٹی کی قیادت کو اپنی گرتی ہوئی ساکھ اور اپنی سیاسی قوت کو بحال کرنے کا موقع ملے گا یا اسے ایک نئی آزمایش کاسامنا کرنا پڑے گا۔ وہ ایک بہادر اور پُرعزم سیاسی بصیرت کی حامل شخصیت تھیں اورمزدوروں، سیاسی کارکنوں اوراپنے عوامی رابطوں کی بدولت خواتین سے بہت قریبی تعلق رکھتی تھیں۔ عوام کے ساتھ اس گہرے روابطے نے آمریت کے دور میں پیپلزپارٹی کو بڑی حد تک متحد اور منظم رکھا۔ یہ بیگم نصرت بھٹو کی سیاسی بصیرت اور اعلیٰ فراست ہی تھی کہ انھوں نے ۱۹۸۱ء میں جناب مفتی محمود، ائیرمارشل اصغر خان، مولانا احمد شاہ نورانی، خان عبدالولی خان اور غوث بخش بزنجو کے ساتھ مل کر بحالی ٔ جمہوریت کی تحریک (ایم۔آر۔ڈی) کی بنیاد رکھی اور سیاست کی شمع کو گل ہونے نہیں دیا۔ اس کے نتیجے میں پیپلزپارٹی کو ۱۹۸۸ء کے انتخابات میں کامیابی حاصل ہوئی اور اُن کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو پاکستان کی وزیراعظم بنیں۔ محترمہ نصرت بھٹو جس قدر بلند ہمت اور پُر عزم خاتون تھیں، اسی قدر انھیں پہاڑ جیسے صدمے برداشت کرنا پڑے۔ اُن کے بیٹے شاہ نواز کی پُراسرار موت کے بعد ستمبر ۱۹۹۶ء میں اُن کے بیٹے میر مرتضیٰ بھٹو کو ۷۰کلفٹن کے بالکل سامنے جس طرح گولیوں سے چھلنی کیا گیا، اس حادثے نے ان کے اعصاب شل کر دئیے تھے اورانھوں نے اپنی بیٹی کی نااہل حکومت پر کڑی تنقید کی تھی جس نے ان سے پارٹی کی قیادت بھی چھین لی تھی۔ اس جان لیوا صدمے کے بعد اُن کی صحت گرتی گئی، دُبئی میں سالہا سال بے ہوش رہیں اور ۲۳؍اکتوبر ۲۰۱۱ء کو اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔ اللّٰہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ہمارے سیاست دانوں کو ان کی خوبیاں اپنانے کی توفیق عطا کرے۔

    اس تلخ حقیقت کے باوجود جاگیرداروں، تنگ نظر منصوبہ سازوں، بے رحم سرمایہ داروں، خود غرض سیاست دانوں اور اسلام کی حقیقی روح سے نابلد مذہبی پیشوائوں نے ہمارے عوام کو فروعی اختلافات اور نسلی، لسانی اور صوبائی تعصبات میں تقسیم کیے رکھا اور ان کی جسمانی، ذہنی اور تخلیقی نشوونما پہ بہت کم توجہ دی گئی مگر وہ بلا کے ذہین، جفاکش اور قومی مفادات کا گہرا شعور رکھتے ہیں۔ ہمارے عامۃالناس گزشتہ ایک سال سے عالمِ عرب میں اُٹھنے والی آزادی کی تحریکوں اور ان سے اُبھرنے والے مناظر ٹی۔وی پر دیکھ رہے ہیں اور ان کے اندر بھی اپنے بے حس، بے لگام اور پرلے درجے کے نااہل اور بدعنوان حکمران طبقے کے خلاف بغاوت کا رجحان پرورش پا رہا ہے۔ لوگ بجلی کی لوڈشیڈنگ، پولیس کے مظالم اور بدترین حکمرانی کے خلاف مظاہرے بھی کرنے لگے ہیں اور انقلاب کی بات بلند آہنگ میں کرنے لگے ہیں۔ میاں نواز شریف، جناب عمران خان، جناب منورحسن اور اب ڈاکٹر ذوالفقار مرزا اور جناب ممتاز بھٹو بھی ایک عظیم تبدیلی کی نوید سُنا رہے ہیں۔ جلسے ہو رہے ہیں اور مختلف شہروں میں ریلیاں نکالی جا رہی ہیں جن میں ’’گوزرداری گو‘‘ کا عوامی کورس شروع ہے۔ ہمارے بیشتر سیاسی قائدین قوم کو اُمید کی روشنی دینے اور اس کے اندرفکری اور سیاسی وحدت پیدا کرنے کے بجائے آپس ہی میں ایک دوسرے پر جھپٹ رہے ہیں۔ عوام جلد سے جلد تبدیلی چاہتے ہیں مگر وہ ابھی تک انارکی پھیلانے کے حق میں نہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ سیاسی عمل اور فیصلہ سازی میں اُنھیں بھرپور کردار ادا کرنے کا پورا پورا موقع دیا جائے۔

    اس سے قبل کہ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوجائے اور وہ بے قابو ہو کر مصر اور تیونس کی طرح عوام لاکھوں کی تعداد میںسڑکوں پر نکل آئیں، اس لیے ہمارے حکمرانوں، مذہبی راہنمائوں، ہمارے سیاست دانوں اور ہمارے مذہبی زعماء کو سرجوڑ کر بیٹھنا اور قومی اور ملکی امور میں عوام کی مؤثر نمائندگی اور عملی تقاضوں کے قابل عمل خدوخال مرتب کرنا ہوں گے۔ اس ضمن میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ وہ سیاسی جماعتیں جو ملک میں جمہوریت کو پائیدار دیکھنے کی آرزومند ہیں، وہ اپنے اندر جمہوریت کو فروغ دیں اورنچلی سطح تک اندرونی انتخابات کے ذریعے پارٹی کے عہدے دار چنے جائیں اور انہی کے ذریعے صوبائی اور قومی اسمبلی کے انتخابات کے لیے اُمیدواروں کا چنائو کیا جائے۔ اس طرح سوسائٹی کے پڑھے لکھے اور سیاسی شعور سے مالا مال افراد سیاسی جماعتوں کا حصہ بننے میں ایک اعزاز محسوس کریں گے اور سیاسی جماعتیں جو اب خاندانی وراثت کانمونہ پیش کر رہی ہیں، عوام کے اندر اپنی جڑیں مضبوط کر سکیں گی۔

    آج کے تناظر میں اس بات کو بڑی اہمیت حاصل ہوگئی ہے کہ تمام پبلک اداروں کے کلیدی عہدوں پر تقرریاں ایگزیکٹیو پر چھوڑنے کے بجائے اُن کا اختیار ایک پارلیمانی کمیٹی کو دیا جائے جس میں تمام پارٹیوں کی نمائندگی موجود ہو اور وہ حکومت کی طرف سے نامزد افراد کی پوری طرح چھان بین کرے اور پبلک ہیرنگ (Public Hearing) کے ذریعے مجوزہ افراد کے کوائف معلوم کیے جائیں۔ اس کمیٹی کی سفارش پر وزیراعظم تقرری کا نوٹیفیکیشن جاری کریں۔ آج بڑے عہدے حاصل کرنے کا نرخ پچاس کروڑ تک جا پہنچا ہے۔ اس کرپشن کی فوری روک تھام وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔

    نواز شریف کی یہ تجویز صائب معلوم ہوتی ہے کہ قومی پالیسیاں حکومت اپوزیشن اور عسکری قیادت کے باہمی مشورے سے بنائی جائیں اور جن پر پوری یکسوئی اور ہم آہنگی سے عمل درآمد کیا جائے۔ اس تجویز کی عملی شکل یہ بنتی ہے یہ کہ وزیراعظم کی سربراہی میں ایک نیشنل سیکورٹی کونسل قائم کی جائے جس میں قومی سلامتی کے علاوہ اہم عہدوں پر تقرریوں کے معاملات اور اقتصادی اور خارجی امور باہمی رضامندی سے طے کیے جائیں۔ اس کونسل کا ایک مضبوط سیکرٹریٹ ہونا چاہیے جو اُبھرنے والے مسائل پر تحقیقی کام کرتا اور اہل امراء سے مشورے حاصل کرتا رہے۔ یہی کونسل یہ بھی طے کر سکتی ہے کہ اچھی حکمرانی کن کن اقدامات اور طویل المیعاد منصوبوں کئے ذریعے فروغ پاسکتی ہے۔

    سیاسی جماعتوں، حکومت اور پارلیمنٹ کو راہ راست پررکھنے کے لیے سول سوسائٹی کو ایک فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔ پروفیشنل اپنے اپنے شعبوں کی بہتری کے لیے رائے عامہ ہموار کریں، تعلیم اور صحت پر خصوصی توجہ دیں اور میڈیا اور عدلیہ کے ذریعے اور حکمرانوں، بیوروکریٹس اور منصوبہ سازوں کے موثر احتساب کو یقینی بنائیں۔ اس طرح قیادت عوام کی طرف منتقل ہو جائے گی اور یوں قائم ہوگی عوام کی حقیقی جمہوریت۔

    بداعمالیوں کے گھپ اندھیرے میں چند اچھی خبریں منظرِعام پر آئی ہیں جن سے اُمید بندھتی ہے کہ پاکستان ایک روشن مستقبل کی طرف پیش قدمی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پہلی اچھی خبر یہ ہے کہ ہمارا ملک اقوامِ متحدہ کی سیکورٹی کونسل کا غیرمستقل ممبر منتخب ہوا ہے۔ جو اس حقیقت کا مظہر ہے کہ اُسے اقوامِ عالم میں معقول حمایت حاصل ہے۔ دوسری اچھی خبر یہ ہے کہ انٹیلی جنس بیورو جو انٹیلی جنس کا ایک مقتدر سول ادارہ ہے اُس کی سربراہی پولیس کے نہایت دیانت دار ، فرض شناس اور بااُصول اعلیٰ پولیس افسر جناب آفتاب سلطان کے سپرد کی گئی ہے۔ اس سے یہ تاثر قائم ہوا ہے کہ حکومت میں اعلیٰ سطح پر ایک ذہنی تبدیلی آ رہی ہے۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں