1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ہم نے خط لکھا

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از نایاب, ‏17 اپریل 2010۔

  1. نایاب
    آف لائن

    نایاب ممبر

    شمولیت:
    ‏2 دسمبر 2009
    پیغامات:
    131
    موصول پسندیدگیاں:
    114
    السلام علیکم
    کیسے ہیں سب اہلیان ہماری اردو
    انشااللہ سب رب سچے کی مہربانی سے بخیریت ہوں گے
    انشااللہ
    اک عرصے بعد حاضری دے رہا ہوں ۔
    کچھ خطوط بعنوان " ہم نے صنم کو خط لکھا "

    (001)

    [​IMG]

    لسلام علیکم
    میری عزیز از جان ہستی
    پوری طرح یاد نہیں کہ وہ کون سا موسم تھا، جب پہلی بار اس نے مجھے دیکھا اور مجھ پر مہربان ہوئی ۔ بس اتنا یاد ہے، میں بہت تنہا تھا ۔ انسانوں سے بھری ہوئی دنیا میں، رشتوں ناتوں سے بھرے ہوئے گھر میں، مین تنہا تھا ۔ایک بے چین تلاش تھی میرے اندر، معلوم نہیں کس کی ۔ ایک کھَولتا ہوا عشق تھا، پتہ نہیں کس سے ۔ ایک جاں لیوا فراق تھا، خبر نہیں کس کا ۔
    اس نے میرے تپتے ہوئے دل پر اپنا ٹھنڈک سے بھرا شبنمی ہاتھ رکھا ۔ اس نے مجھے بتایا کہ ہر جاگتا ہوا ذہن ،سوال کرتا ہے ۔ ہر دھڑکتا ہوا دل، محبت کرتا ہے ۔ اس نے مجھے بتایا کہ ہر آدمی کی ایک تلاش ہوتی ہے ۔ ایک عشق ہوتا ہے ۔ ایک فراق ہوتا ہے ۔ ہر آدمی کا ایک شہرِسبا ہوتا ہے ۔ پھر اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے میرے شہرِسبا کی طرف لے گئی ۔
    اور اب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    کیسا حیلہ کروں رات کٹتی نہیں
    ایک برزخ کھلا ہے میری روح میں
    اندھی الفت کی بے تاب سی سرخوشی
    دوڑتی ہے میرے جسم میں
    بےبیاں وصل کی لذتیں
    میرے احساس میں گل کھلاتی ہیں
    شب کچھ ڈھلکتی ہے
    اور ساتھ ہی
    میری پلکیں بھی خواب اور خواہش کی آغوش میں
    ڈوب جاتی ہیں​

    سنو !!! سنا ہے کہ یہ جو محبت ہوتی ہے یہ بدن میں نہیں بلکہ روح میں اک پھول کی صورت کھلتی ہے ۔ اور انسان اس کی خوشبو سے مہک کر کچھ ایسا مدہوش ہو جاتا ہے کہ تن بدن کی خبر نہیں رہتی۔ دیوانگی کچھ اس طرح سے اپنی لپیٹ میں لیتی ہے کہ کہیں لیلی کہیں مجنوں کہیں شیریں کہیں فرہاد کہیں سوہنی کہیں مہینوال کہیں ہیر کہیں رانجھا کہیں سسی کہیں پنوں بنا دیتی ہے ۔
    میں بھی اس جذبے کا اسیر ہو کر اس فلسفہ محبت کی اصل کی تلاش میں نکلا تو اک جہاں فسوں سے متعارف ہوا ۔ اس جہان ناپاٰیدار میں ہر قدم یہ گل تر اپنی پوری رعنائی سے کھلا نظر آیا ۔ ادب اور شاعری کے چمن کے ساتھ ساتھ فلسفے کے خشک صحرا میں بھی یہ جذبہ بصورت پھول کھلا نظر آیا ۔
    کلیتا خلیل جبران میں درج اقوال اپنی زبان سے پکارتے محسوس ہوٰے کہخلیل جبران جیسی ہستی بھی اس جذبے کی اسیر ہو کر اس راہ پرخار سے گزری تھی ۔۔
    اس نے کہا کہ
    “ جب محبت اشارہ کرے اس کے پیچھے جاؤ یہ کبھی نہ سوچو کہ اس کے راستے مشکل اور دشوارگزار ہیں ۔ اور جب محبت اپنے پروں میں لپیٹنا چاہے تو برضا و رغبت لپٹ جاؤ اور جب وہ تم سے بات کرے تو اس کا یقین کرو ۔ خواہ اس کی آواز تمہارے تمام مرغوب خوابوں کواس طرح منتشر کردے ۔ جس طرح نسیم شمالی باغیچہ کو ویران کر ڈالتی ہے ۔ یاد رکھو کہ محبت تمہارے سر پر تاج رکھتی ہےتو ساتھ ہی تمہیں سولی پر بھی چڑھا دیتی ہے ۔
    جس طرح وہ تمہاری روح کے سبزہ زار کو شاداب رکھتی ہے اس طرح وقتا ً فوقتا ً اس سبزہ زار کی بہت سی بے کار اور خودرو گھاس کو تراشتی اور چھانٹتی بھی رہتی ہے ۔
    محبت نہ کچھ لیتی ہے نہ کچھ دیتی ہے یہ صرف اپنے پن کے احساس سے نوازتی ہے ۔ یہ اپنے پن کا احساس ہی اس جذبہ محبت کا جوہر حقیقی ہے
    “ محبت قبضہ نہیں کرتی ، نہ اس پر قبضہ کیا جا سکتا ہے“ اورجب تم محبت کا اظہارکرو تو یہ کبھی نہ کہو کہ “ تم میرے دل میں ہو“ بلکہ کہو تو یہ کہو کہ “میں تمہارے دل میں ہوں“
    “اور کبھی یہ نہ سمجھو کہ تم محبت کو راستہ بتا سکتے ہو ۔ محبت تم کو راستہ بتاتی ہے، بشرطیکہ تم کو اس قابل پائے“
    پھر اگر تم محبت کرو، اور خوائشیں اور تمنائیں بھی رکھو تو گھل کر پانی ہوجاؤ ، اس بہتے چشمے کی طرح جو شب کی ظلمت کو اپنا نغمہ سنا تا ہے ، پھر اس درد کو پہچانو جو اس چشمے کے اندر سے ذوق پیدا کرتا ہے ۔
    اور محبت کے متعلق جو کچھ علم تم کو حاصل ہوجائے اس پر عمل پیرا ہوجاؤ“
    طلوع آفتاب کے وقت اس طرح بیدار ہوجاؤ کہ گویا “دل ایک پرند ہے “ “جو اپنے پر کھولے ہوئے آمادہ پرواز ہے“ اورشکر کرو کہ محبت کرنے کا ایک اور دن نصیب ہوا ہے“
    دوپیر کو جب تم آرام کرو تو اس آسائش کی ساعت میں بھی محبت کے کیف بے نہایت سے لطف اندوز ہو“
    محبت کے احسان مند اور شکر گزار ہوکر دن بھر کی محنت کے بعد شام کو گھر آؤ ۔ ۔ ۔ -“
    “پھر شب کو اس طرح اپنی آنکھیں بند کرو کہ دل محبوب کے لئے دعاؤں سے معمور ہو“ اور تہارے لبوں پر مدح توصیف کی ایک راگنی رقص کر رہی ہو ۔
    عشق بھی اسی محبت کی اک ایسی شاخ جو ہمیشہ دکھ کی دھیمی دھیمی آگ میں سلگتی رہتی ہے ۔ اور نگاہ عقل مند میں مردود کہلاتی ہے ۔ وہ اسے جذبہ محبت میں زیادتی کا نام دیتے ہیں ۔ لغت میں عشق ، دراصل ایک لیس دار پودے کا نام ہے جو کسی چیز سے چمٹ جائے تو اس کا ساتھ نہیں چھوڑتا ۔
    یہی حال عشق کا ہے کہ جس کو یہ جذبہ اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے وہ تاعمر اس اس آگ میں جل کر سوختہ ہونا قبول کر لیتا ہے مگر اسے چھوڑتا نہیں ۔
    اسی عشق بارے مرزا غالب نے فرمایا تھا کہ۔۔۔۔۔۔
    عشق نے غالب نکما کر دیا
    ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے
    یہ کسی وجود کا نام نہیں ، جذبے کا نام ہے۔ وجود چھن جاتے ہیں ، جذبے نہیں چھنتے ۔
    یہ ایک جذبہ ہے ۔ جس کا نام لیتے ہی لوگوں کے ذہنوں میں نرمی ، گداز لگاؤ کی طرف دھیان جاتا ہے ۔
    ابن صفی جیسے مشہور لکھاری تو فلسفے کو بھی اسی جذبے کی دین سمجھتے ہیں کہ ۔۔
    انسان ہمیشہ اس وقت فلسفیوں جیسی گفتگو کرتا ہے ، جب وہ اس جذبہ عشق کا اسیر ہوتے اپنے معشوق سے کسی صورت دکھ پاتا ہے اور اسی جذبے کے باعث اسے براہ راست برا نہیں کہہ سکتا تو وہ فلسفیوں جیسی گفتگو کرنے لگتا ہے ۔
    محبت انسان کاایک بنیادی اور فطری جذبہ ہے۔ انسانی وجود، رشتوں اور تعلقات میں یہ جذبہ بڑے جمال اور حسن کے ساتھ اپنا ظہور کرتا ہے۔خدا اور بندے ، اولاد اور والدین، دوست اور اقربا کے رشتوں کی ساری خوبصورتی نہ صرف اس جذبہ کی عطا کردہ ہے بلکہ ان رشتوں کو زندگی کے ہر امتحان میں اگر کوئی سرخرو کرتا ہے تو بلا شبہ یہی محبت کا جذبہ ہے۔
    محبت دل کے صحرا پر پہلی پھوار کی طرح برستی ہے۔بحر زندگی ایک نئے تلاطم سے آشنا ہوتاہے۔قدم بے اختیار کسی سمت اٹھتے ہیں۔نظر بے سبب کسی کو ڈھونڈتی ہے۔دل کی دھڑکن بلاوجہ تیز ہوجاتی ہے۔نگاہ پر بجلی سی کوندتی ہے۔ قلب جتنا بے چین ہوتا ہے دماغ اتنا ہی آسودہ رہتا ہے۔دل کو بارہا بے وجہ قرار ملتا ہے اور بے وجہ قرار ملنے سے دل بہت بے قرارسا رہتا ہے۔
    محبت ایک ایسی شی ہے جو ہر مخلوق کے اندر پائی جاتی ہے۔یہ اس کے اندر کی ایک ایسی عظیم طاقت ہے جو کسی بھی طرح کے دشمن کو زیر کرسکتی ہے۔بغیر محبت کے جذبہ کے کوئی بھی انسان مکمل نہیں ہو سکتا گرچہ وہ صدیوں تک زندہ رہے مگر بلوغت اور رسیدگی میں سوائے ایک شیر خوار کے کچھ بھی نہیں۔ محبت کے جذبے سے محروم افراد نہ تو کسی سے پیار کرتے ہیں اور نہ ہی ان کے اندر محبت کی حس ہوتی ہے۔ ایسے لوگ ہمیشہ اپنی انا کی تاریکی میں غرق رہتے ہیں۔
    ہر لمحہ خیر و شر میں کہیں اِک ساعت ایسی ہے جس میں
    ہر بات گناہ نہیں ہوتی سب کارَ ثواب نہیں ہوتا
    کبھی عشق کرو اور پھر دیکھو،اس آگ میں جلتے رہنے سے
    کبھی دل پہ آنچ نہیں آتی کبھی رنگ خراب نہیں ہوتا​


    (جاری ہے )
     
  2. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    جواب: ہم نے خط لکھا

    واہ بہت خوب ، کیا نئی نسل پہ مہربانی کرنے لگے ھیں مگرررررررررر انکو ایسی اردو کی سمجھ کیسے آئے گی
     
  3. قراقرم
    آف لائن

    قراقرم ممبر

    شمولیت:
    ‏25 مارچ 2010
    پیغامات:
    128
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    جواب: ہم نے خط لکھا

    نئی نسل کو سکھانے کیلئے ہی تو لکھ رہے ہیں حضرت ۔۔۔ لگتا ہے
    نسیم حجازی مرحوم سے متاثر ہیں۔۔۔۔
    مضمون پر ارتکاز کی ضرورت ہے ۔
    کثرت مشق سے آہی جائے گی ۔
     
  4. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہم نے خط لکھا

    اچھ الکھا ہے
     
  5. نایاب
    آف لائن

    نایاب ممبر

    شمولیت:
    ‏2 دسمبر 2009
    پیغامات:
    131
    موصول پسندیدگیاں:
    114
    جواب: ہم نے خط لکھا

    السلام علیکم
    آپ سب کا شکریہ
    سدا خوش ہنستے مسکراتے رہیں آپ سب آمین
    نیٹ گردی کے دوران اکثر ایسا ہوتا ہے کہ
    کویی جملہ کویی تحریر کویی شعر
    کچھ ایسے روشن جذبوں سے منور ملتا ہے
    جو نگاہ دل و دماغ کو روشن اور مہکا دیتا ہے ۔
    اور ہم اسے اپنی دل و دماغ کی ڈایری میں محفوظ کر لیتے ہیں ۔
    " ہم نے صنم کو خط لکھا "
    کچھ ایسی ہی تحریروں کا مجمعہ ہے ۔
    تحریر اک آٰینہ ہوتی ہے ۔
    اور ہم سب تحریر کے آٰینے میں اپنا ہی عکس دیکھتے ہیں
    تحریر چاہے کسی کی بھی ہو ۔۔۔۔۔


    انداز اپنے دیکھتے ہیں آئینہ میں وہ
    اور یہ بھی دیکھتے ہیں کہ کوئ دیکھتا نہ ہو
    - نظام شام پوری -

    آئینہ اپنے سامنے سے ہٹا
    یہ نہ ہو خود سے پیار ہو جائے
    - فنا بلند شہری -

    یہ آئینہ مجھے کس رخ پڑا نظر آیا
    میں اپنی عمر سے کتنا بڑا نظر آیا
    - رؤف امیر -

    آئینہ جب نہ انکے ہاتھـ آیا
    مسکرا کے میری غزل مانگی
    - گمنام -

    کتنا آسان ہے تصویر بنانا اونوں کی
    خود کو پاس آئینہ رکھنا کتنا مشکل ہے
    - عشرت آفرین -

    جب کسی سے کو‏ئ گلہ رکھتا
    سامنے اپنے آئینہ رکھتا
    - ندا فاضلی

    اپنی آگ کو زندہ رکھنا کتنا مشکل ہے
    پتھر بیچ آئینہ رکھنا کتنا مشکل ہے
    - عشرت آفرین -

    سامنے دنیا بھر کے غم ہیں اور ادھراک تنہا ہم ہیں
    سیکڑوں پتھر اور اک آئینہ کب تک آخر کب تک آخر
    - کاشف اندوری -

    آئینہ خانے میں آئے تھے بڑے فخر کے ساتھـ
    آنکھـ نیچی ہے آپنا چہرہ کہیں ہی نہیں
    - گمنام -


    یہ آئینہ ہے یہ تو سچ ہی کہے گا
    کیوں اپنی حقیقت سے کترا رہے ہو
    - سید راہی -

    اپنی صورت لگی پرائی سی
    جب کبھی ہم نے آئینہ دیکھا
    - سدرشن فاکر -

    غزل میری وہ آئینہ ہے جس میں جلوہ گر ہو کر
    حقیقت کا بھی چہرہ سوزِ پنہاں سے دمکتا ہے
    - فراق گورکھپوری


    جڑ دو چاندی چاہے سونے میں
    آئینہ جھوٹ بولتا ہی نہیں
    - کرشن بہاری نور -

    دل کے آئینہ میں اس طرح اترتی ہے نگاہ
    جیسے پانی میں لچک جائے کرن کیا کہنا
    - فراق گورکھپوری -


    بشکریہ
     
  6. نایاب
    آف لائن

    نایاب ممبر

    شمولیت:
    ‏2 دسمبر 2009
    پیغامات:
    131
    موصول پسندیدگیاں:
    114
    جواب: ہم نے خط لکھا

    سنو جاناں ::
    وہ شدید محبت جس کا میں اظہار کرتی تھی ۔ وہ
    بالکل جھوٹی اور بے بنیاد تھی۔ درحقیقت تم سے نفرت
    دن بدن بڑھتی جارہی ہے جوں جوں تم سمجھ میں آتے جا رہے ہو۔
    تمہارا گھٹیا پن اور بدفطرتی آشکارا ہوتی جا رہی ہے۔
    میرے دل میں یہ احساس پیدا ہوتا جا رہا ہے کہ آخر کار مجھے
    تم سے دوری اختیار کرنی چاہیئے۔ میں نے اس کا کبھی تصور بھی نہیں کیا کہ مجھے
    تمہارا شریکِ حیات ہونا چاہئیے کیونکہ تمہاری مسلسل ملاقاتوں نے
    تمہاری طینت اور بدفطرتی کو بے نقاب کر دیا ہے اور
    تمہارے اخلاق اور صفات کو ظاہر کر دیا ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ
    تمہاری خشونت طبع اور تند مزاجی تم کو تباہ کر دے گی۔
    اگر ہماری شادی ہو جائے تو بلاشبہ میری تمام عمر تمہارے ساتھ
    پریشانی اور بدبختی میں گزرے گی اور تمہارے بغیر میری زندگی
    نہایت کامیاب اور خوشگوار ہو گی۔
    سنو دلبر ""
    تمہیں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیئے کہ میری ہستی
    پر تم کبھی غلبہ نہیں پا سکتے۔ میری نفرت اور کدورت ہمیشہ
    تمہارے ساتھ ہے۔ یہ نکتہ تمہارے پیش نظر رہے اور معلوم ہو کہ
    جو کچھ میں نے تمہارے لئے کیا ہے اسے مذاق یا دل لگی نہ سمجھنا اور جان لو کہ
    میں اس خط کو صمیم قلب سے لکھ رہی ہوں۔۔۔۔ میرے لئے کس قدر افسوسناک ہے۔
    اگر تم اب بھی میری دوستی چاہتے ہو، میں نہایت نفرت اور بے زاری کے ساتھ چاہتی ہوں
    کہ تم میرے اس خط کا جواب نہ دو کیونکہ تمہارے خطوط سراسر
    جھوٹے اور مہمل ہیں اور میں انھیں یہ سمجھنے کے لئے بالکل تیار نہیں ہوں کہ وہ
    محبت وعنایت کا مرقع ہیں۔ قطعی طور پر جان لو کہ میں ہمیشہ تمہاری
    دشمن ہوں اور شدت کے ساتھ تم سے نفرت کرتی ہوں اور خوش فہمی میں نہ رہنا کہ میں تمہاری
    گہری وفادار دوست ہوں اور تمہارے ساتھ رشتہء محبت میں منسلک ہوں۔


    عقل عیار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے
    عشق بے چارا نہ ُملاّ ہے نہ زاہد نہ حکیم
    مَردِ درویش کا سرمایہ ہے آزادی و مرگ
    ہے کسی اور کی خاطر یہ نصابِ زر و سیم


    آپ نے اس خط کو پڑھا اور سرسری گزر گئے۔
    شاید آپ اسے نفرت بھرا خط سمجھیں اور کیوں
    نہ ہو اس میں شدت کے ساتھ نفرت کا اظہار کیا گیا ہے۔
    دراصل یہ خط ایک لڑکی کا ہے اپنے محبوب کے نام۔۔۔
    لیکن محض چھیڑ چھاڑ کی خاطر اس نے
    اس قسم کا طرزِ تحریر اختیار کیا ہے۔
    اس خط میں اس نے اپنے عشق کو بڑی عقیدت کے
    ساتھ بیان کیا ہے، اگر آپ کو یقین نہیں آتا تو اس کو دوبارہ پڑھئیے۔۔۔۔۔
    لیکن ذرا ایک ایک سطر چھوڑ کر۔۔۔۔۔

    بشکریہ



    ہماری ہر بات اور عمل اپنا اثر رکھتے ہيں
    جس طرح پانی ميں پتھر پھينکا جائے تو
    لہريں پيدا ہوتی ہيں جو دور تک جاتی ہيں ۔
    ہميں اپنی مرضی کے مطابق بولنے اور عمل
    کرنے کا حق ضرور ہے ليکن ہمارے بولے ہوئے الفاظ اور ہمارے عمل کے
    نتيجہ کی ذمہ داری بھی ہم پر ہی عائد ہوتی ہے ۔
    جلدی ميں اور غسے کے عالم میں بولے ہوئے الفاظ نے متعدد بار پيار کرنے والے
    کے درميان ديوار کھڑی کی ہے ۔
    بعض اوقات ہم کسی کے متعلق غلط سوچ قائم کرتے ہيں
    اور پھر غُصّے يا جذبات ميں آ کر جو منہ ميں آتا ہے کہہ ڈالتے ہيں ۔
    ايسے ميں اگر ہم توقّف کريں تو جلد ہی غصہ يا جذبات دھيمے پڑ جاتے ہيں
    اور اس کی جگہ رحمدلی يا تدبّر لے ليتا ہے ۔
    اسلئے غصے يا جذبات سے مغلوب ہو کر کچھ بولنا يا کوئی قدم اُٹھانا بڑی غلطی ہے۔
    بہتر يہ ہے کہ غصہ يا جذبات کے زيرِ اثر نہ کوئی بات کی جائے اور نہ کوئی عملی کام ۔
    عين ممکن ہے ايک آدھ دن ميں يا تو غصے کا سبب ہی ختم ہو جائے
    يا کوئی بہتر صورت نکل آئے ۔
    بلا شک انسان غصے کے جذبات سے یکسر چھٹکارا نہیں پا سکتا
    کیونکہ اگر انسان میں سے جذبات کو نکال دیا جائے تو وہی کچھ رہ جاتا ہے
    جو گنے میں سے رس نچوڑ لینے کے بعد رہ جاتا ہے ۔
    ایک معمولی پتھر پانی کو اس حد تک بےچین کر سکتا ہے کہ
    پانی لہر در لہر پھیلتا چلا جائے۔۔۔۔
    اور اس میں خود کو سمیٹنے کی بھی طاقت اور اختیار نہ ہو،
    انسان بھی جھیل کے پانی کی طرح ہے شاید یا شاید اس معمولی پتھر کی طرح ہے ۔۔۔
    مگر انسان دراصل ہے کیا۔۔۔۔؟؟؟
    پانی ہے جو طاقت کے باوجود بے اختیار ہے
    یا
    وہ پتھر جو چھوٹا ہونے پر بھی طاقت رکھتا ہے۔۔۔۔
    جو بھی ہے یہ ایک سوچ
    شاید خود کو اور اپنی ہستی کو کھوجنے کا ایک بہانہ ہے۔۔۔۔
    یا
    شاید مادیت سے آزادی حاصل کرنے کا ردعمل ہے
    شاید یہی فنا اور بقا کا قانون ہے
     
  7. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    جواب: ہم نے خط لکھا

    واہ بہت خوب کیا موصوفہ نے یہ ہدایت آپ کو بھی کی تھی کہ ایک لائن چھوڑ کے پڑھیں
     
  8. عارف عارف
    آف لائن

    عارف عارف ممبر

    شمولیت:
    ‏13 جنوری 2010
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    جواب: ہم نے خط لکھا

    السلام علیکم
    بہت خوب
    آپ کا بہت بہت شکریہ:a165::a165::a165::a165::a165::a165::a165:
     
  9. نایاب
    آف لائن

    نایاب ممبر

    شمولیت:
    ‏2 دسمبر 2009
    پیغامات:
    131
    موصول پسندیدگیاں:
    114
    جواب: ہم نے خط لکھا

    السلام علیکم
    کیا یہ خط عجیب و غریب نہیں ہے ۔؟

    بنام اللہ تعالی
    بمقام ہر جگہ موجود
    ہر قلب صافی میں سمایےہوئے
    عرش عظیم پر اس کرسی پر مستوی
    جس نے سب آسمانوں اور زمینوں کو گھیر رکھا ہے ​


    پاکستان
    براعظم ایشیا

    بسم اللہ الرحمن الرحیم​
    میرے پیارے اللہ میاں​

    اس سے پہلے کہ میں تیری خیریت دریافت کروں، اپنی حالت تیرے گوش گزار کرنا چاہتا
    ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ تُو بالکل خیر خیریت سے ہو گا کیونکہ دکھ، پریشانی اور
    تکلیفوں کے لیے تُو نے یہ زمین اور مخلوقات جو بنا دی ہیں۔ بس اسی لیے آج میں نے
    تجھے خط لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ میں تیرا زیادہ وقت بالکل نہیں لوں گا، مجھے
    معلوم ہے تُو بہت مصروف رہتا ہے۔ امید ہے کہ تو وقت نکال کر نہ صرف اسے پڑھے گا
    بلکہ میری حالات پر سنجیدگی سے سوچے گا بھی۔
    مجھے تو سمجھ نہیں آ رہی کہ کہاں سے شروع کروں۔ لوگ کہتے ہیں کہ تُو سب جانتا ہے،
    لیکن پھر بھی میں تجھے اپنا دکھ اور حالات بتانا چاہتا ہوں۔ کیا تجھے معلوم ہے کہ
    آج تیری اتنی بڑی کائنات میں زمین کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے کی آزادی کا جشن منایا جا
    رہا ہے؟ اس زمین کے ٹکڑے کا یعنی میرا نام “پاکستان“ ہے۔ آج میری باسٹھویں سالگرہ
    بڑے جوش و خروش سے منائی جا رہی ہے۔ نہ صرف آج بلکہ پچھلے اکسٹھ سالوں سے یہی ہوتا
    آ رہا ہے۔ اب تک تو میں یہ سب سہتا آیا تھا، لیکن اب مزید مجھ سے برداشت نہیں ہوتا۔
    اس خط کے ذریعے میں اپنا دکھ تجھ سے بیان کرنا چاہتا ہوں۔
    میرا وجود 1947 میں اسی دن آیا۔ میں بڑی مشکلوں اور بہت قربانیوں کے بعد آزاد ہوا۔
    تب سے اب تک کئی حکومتیں آئیں اور ختم ہو گئیں۔ ان سارے عرصے میں مجھے کوئی بھی
    مخلص رہنما نہ ملا، اور اگر کوئی ملا بھی تو اس کو دشمنوں نے راستے سے ہٹا دیا۔ ان
    سیاستدانوں نے مجھے دن بدن زوال کی طرف دھکیل دیا۔ اور میری حالت بد سے بدترین ہوتی
    گئی۔ ان سیاستدانوں کو اگر ایک طرف رکھیں تو اس میں بسنے والے عام انسانوں نے بھی
    مجھے بگاڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ - دین و مذہب سے دوری، فرقہ واریت،
    انتہاپسندی، بے حیائی، گانا بجانا، جھوٹ، فراڈ ، دھوکے، چوریاں، ڈاکے، دہشت گردی،
    خودکش حملے غرض یہ کہ کون سا غلط عمل نہیں ہے جو مجھ میں بسنے والوں نے نہیں کیا۔
    علامہ اقبال کیا خوب کہہ گئے۔
    میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر اُمم کیا ہے
    شمشیر و سناں اول ، طاؤس و رباب آخر
    اے اللہ، میں یہ جانتا ہوں کہ تُو اس وقت تک کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا، جب تک وہ
    اپنی حالت خود نہیں بدلتی لیکن اس سے پہلے کہ اس قوم کی ذرا سی لاپرواہی کے باعث
    میں ایک بار پھر غلامی کی زنجیروں میں جکڑ جاؤں۔ میری تجھ سے درخواست ہے کہ اپنی
    مصروفیت سے ذرا سا وقت نکال کر مجھ پر نظرِ کرم فرما لے، میں اس وقت سخت مصیبت،
    تکلیف میں ہوں، تیرے سوا مجھے اور کوئی دکھائی نہیں دیتا جو مجھ پر رحم کھائے۔ اے
    میرے اللہ، مجھ میں بسنے والوں کے گناہ اور کوتاہیاں معاف فرما دے، ان کو ایک تکلیف
    ملتی ہے تو میری تکلیف دگنی ہو جاتی ہے، مجھے اپنے لوگوں سے بہت پیار ہے، وہ مجھ سے
    ہیں تو میں ان سے ہوں۔ اس زمین کے ٹکڑے پر وہ لوگ بستے ہیں جو تیرے آخری رسول محمد
    صلی علیہ وآلہ وسلم کی امت ہیں، اپنے نبی کے صدقے ہی ان کی حالت پر رحم فرما دے۔
    اور مجھے مخلص رہنما عطا فرما دے۔ اور ان لوگوں کو متحد ہو کر رہنے توفیق عطا فرما
    دے۔ بس تُو صرف ایک بار رحم کی نظر سے دیکھ لے اور اس زمین پر اپنی رحمتوں کی بارش
    کر دے۔ مجھے اپنی ایک صدی مکمل ہونے کا شدت سے انتظار ہے۔ مجھے امید بلکہ یقین ہے
    کہ تب تک میں مکمل آزاد اور ترقی یافتہ ملک ہوں گا۔ اور میرے لوگ ہر برائی سے آزاد
    ہوں گے۔ وہ ہر وہ کام کریں گے جن میں ان کی اور میری بھلائی اور عزت ہو گی۔ ابھی
    مجھے وجود میں آئے صرف اکسٹھ سال ہوئے ہیں، لیکن اے اللہ میں صرف اتنا چاہتا ہوں کہ
    پیچھے جانے کے بجائے میرے لوگ مجھے آگے ہی لے کر جائیں، چاہے کچھوے کے ہی چال چلیں،
    لیکن صرف آگے ہی چلیں۔
    میں تجھ سے کہنا تو بہت کچھ چاہتا ہوں، لیکن سوچتا ہوں کہ تیرے پاس میرا خط پڑھنے
    کا وقت ہو گا بھی یا نہیں، کیا تُو اس کو پڑھ بھی سکے گا یا نہیں، اگر تُو نے پڑھ
    لیا تو مجھے جواب ضرور بھیجے گا، چاہے وہ کسی صورت میں ہی کیوں نہ ہو۔ پھر باقی
    باتیں دوسرے خط میں کہوں گا۔
    تیری زمین کا درد بھرا ایک ملک
    پاکستان​

    بشکریہ
     
  10. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    جواب: ہم نے خط لکھا

    واہ‌خوب نایاب جی

    اللہ پاکستان کو سلامت رکھے اور آ ؔپ کا یہ خط قبولیت کا درجہ پائے
     

اس صفحے کو مشتہر کریں