ذات کی تیرگی کا نوحہ ہیں شعر کیا ہیں، دروں کا گریہ ہیں میں سمندر کبھی نہیں تھی مگر میرے پیروں میں سارے دریا ہیں اب ترے بعد یہ مری آنکھیں رنج کا مستقل ٹھکانہ ہیں اے مرے خواب چھیننے والے !!! یہ مرا آخری اثاثہ ہیں جو ترے سامنے بھی خالی رہا ہم تری دید کا وہ کاسہ ہیں کھیل یا توڑ اب تری مرضی ہم ترے ہاتھ میں کھلونا ہیں عید کے دن یہ سوگوار آنکھیں بدشگونی کا استعارہ ہیں ہم اُداسی کے اس دبستاں کا آخری___ مستند حوالہ ہیں فریحہ نقوی