1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ہمیں تم پے فخر ہے "ڈاکٹر عافیہ صدیقی "

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از m aslam oad, ‏2 مارچ 2010۔

  1. m aslam oad
    آف لائن

    m aslam oad ممبر

    شمولیت:
    ‏15 جنوری 2010
    پیغامات:
    224
    موصول پسندیدگیاں:
    8
    نصف شب کا وقت تھا۔ کراچی شہر میں دن کی رونقیں سمٹ چکی تھیں۔ بہت سے لوگ بستروں پر دراز ہوچکے تھے۔ کچی بستیوں کے تھکے ہارے مکین تو کب کے پاﺅں پسار کر سورہے تھے جبکہ ماڈرن آبادیوں کے بعض گوشوں میں ابھی تک دن کا سماں تھا۔ ایسے میں گلشن اقبال کے ایک مکان کے سامنے ذرا مختلف نوعیت کی گہماگہمی دکھائی دے رہی تھی۔ لوگوں کا اچھا خاصا مجمع اکٹھا تھا۔ ان میں کئی افراد کے کاندھوں پر کیمرے لٹک رہے تھے۔ بعض کے ہاتھوں میں مائک تھے۔ کچھ کی انگلیوں میں پین دیے ہوئے تھے۔ کئی ایک اپنے موبائل فون کانوں سے لگائے ادھر ادھر رابطے کررہے تھے۔ میرے ساتھ کھڑے صاحب بڑے دکھ بھرے لہجے میں بتارہے تھے: ”ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکی عدالت نے مجرم قرار دے دیا ہے۔ ہم ان کے گھر کے سامنے کھڑے ہیں۔ یہاں پریس کانفرنس ہونے والی ہے۔“ لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ مکان کا گیٹ کھول دیا گیا اور مجمع اندر چلا گیا۔ صحافی حضرات سب سے آگے تھے۔ اتنے میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی مکان کے اندرونی حصے سے نمودار ہوئیں۔ میڈیا کے نمایندوں نے فوراً اپنے مائک آگے کردیے۔ حسب عادت تابڑ توڑ سوال کرنے لگے۔ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں چپ کرایا اور سب کے سوالات کے جوابات کو چند جملوں میں سموتے ہوئے کہا: ”الحمدللہ! میری بہن ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو آج امریکی عدالت نے مجرم قرار دے کر اپنی اسلام دشمنی کا کھلا مظاہرہ کردیا ہے۔ ہم اس فیصلے پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ اس فیصلے کے ذریعے امریکا نے خود اپنے مکروہ چہرے سے نقاب اتار دیا ہے۔ دنیا نے دیکھ لیا ہے امریکا ایک بے بس، بے گناہ، معصوم عورت کو صرف مسلمان ہونے کی بنا پر سزا دے رہا ہے۔“ ”ڈاکٹر صاحبہ! کیا آپ کو توقع تھی امریکی عدالت سے ایسا فیصلہ ہوگا؟“



    ایک صحافی نے سوال کیا۔ ”کیوں نہیں، مجھے تو یقین تھا وہ ایسا ہی کریںگے۔ کیونکہ عدالتیں ان کی اپنی ہیں، وکلا ان کے ہیں۔ وہاں ایک مسلمان کو انصاف دلانے والا کون ہے؟ اس لیے ہمیں یقین تھا وہ یہی ظالمانہ فیصلہ کریں گے، مگر شاید انہوں نے یہ سمجھا ہو کہ اس فیصلے سے ہم حواس باختہ ہوجائیں گے۔ ہمارے گھروں میں ماتم برپا ہوجائے گا۔ الحمدللہ! ایسا ہرگز نہیں ہوا۔ ابھی جب یہ خبر آئی تو میں نے سب سے پہلے اللہ کا شکر ادا کیا۔ امی جان کو بتایا اور دو رکعت نفل پڑھ کر اپنے رب سے جو عرض کرنا تھا کردیا۔ ہم اس کی رضا پر راضی ہیں۔ شاید اللہ کویہ پسند نہیں تھا کہ دنیا امریکا سے انصاف کا ایک فیصلہ ہوتا دیکھے۔ اللہ تعالیٰ نے عافیہ کی رہائی کے لیے کوئی اور انداز پسند کیا ہوگا اور ہم بھی اس پر راضی اور خوش ہیں۔“ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی جس ایمانی اعتماد اور مو منانہ حوصلے سے بات کر رہی تھیں، اسے سن کر مجھ جیسے مسلمانوں کو اپنے ایمان کی کمزوری پر رونا آرہا تھا۔ سچ تو یہ ہے اس گھرانے نے ایمان اور اسلام کی خاطر جو قربانیاں دی ہیں۔ اس کی بدولت ان کے عزائم ہمالیہ سے زیادہ بلند اور فولاد سے زیادہ مضبوط ہوگئے ہیں۔ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی صاحبہ کی گفتگو کا ایک ایک لفظ اسی عزیمت، استقلال اور یقین کی کیفیت کی غمازی کررہا تھا۔ میں اس لمحے سوچ رہا تھا جس قوم میں ڈاکٹر عافیہ اور ڈاکٹر فوزیہ جیسی بیٹیاں ہوں اسے دنیا کی کوئی قوم شکست نہیں دے سکتی۔ اگرچہ نام نہاد مسلمان حکمرانوں نے ایمان کو متاع بازار سمجھ کر فروخت کیا ہے اور دشمنوں کے تزویری منصوبوں کی تکمیل میں آلہ کار بن کر دنیا و عقبیٰ برباد کی ہے مگر اس اسلام کے خزاں رسیدہ گلشن کی زمین بانجھ نہیں ہوئی۔ اس خاکستر میں کتنی ہی چنگاریاں اب بھی سلگ رہی ہیں۔ ابھی میں انہی سوچوں میں غلطاں تھا کہ تکبیر کے نعرے فضا میں گونجنے لگے۔



    ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی والدہ محترمہ عصمت صدیقی تشریف لارہی تھیں۔ انہیں دیکھ کر موقع پر موجود اہلیانِ کراچی جذبات سے بے اختیار ہوکر اللہ اکبر اور امریکا مردہ باد کے نعرے بلند کررہے تھے۔ ”میرے بیٹو!“ محترمہ عصمت صدیقی کی آواز گونجی۔ ایسی آواز جس میں ملال تھا نہ اضمحلال۔ ایک توانا صدا جیسے صحرا میں صوتِ رحیل.... ”آج تمہیں یہاں دیکھ کر میں کتنی خوش ہوں۔ میں اپنے جذبات کا اظہار نہیں کرسکتی۔ آپ سب اپنی بہن ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے اظہارِ یکجہتی کے لیے یہاں تشریف لائے ہیں۔ آج جب امریکی عدالت نے میری بیٹی کو مجرم قرار دے دیا ہے تو مجھے اس پر کوئی افسوس نہیں ہوا، کوئی پچھتاوا نہیں ہوا۔ میں اپنے اندر آج پہلے سے بڑھ کر توانائی محسوس کررہی ہوں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے میں.... جو برسوں سے بیمار چلی آرہی تھی.... آج نئے سرے سے زندہ ہوگئی ہوں۔ میری ساری کمزوری، ساری بیماری کافور ہوگئی ہے۔ میں اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں جس نے میری بیٹی کے ذریعے قوم کے لیے اتنے بیٹوں کو بیدار کردیا۔ جس نے میری بیٹی کے ذریعے امریکا کا اصل چہرہ بے نقاب کردیا۔ میری یہ بات آپ یاد رکھیں، آج کی تاریخ لکھ کر رکھ لیں آج اس شرمناک فیصلے کے ساتھ ہی امریکا کا ڈاﺅن فال شروع ہوگیا ہے۔“ تکبیر کے نعرے ایک بار پھر بلند ہوئے۔ ”امریکا مردہ باد“ اور ”قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ زندہ باد“ کے نعروں نے ماحول کو ایک بار پھر گرمادیا۔ ”امی جان! آپ یہ بتایئے آپ نے عافیہ بہن کی تربیت کیسے کی تھی؟ کن باتوں کا خیال رکھا تھا؟ ان کا کردار اتنا مضبوط کیسے بن کر سامنے آیا ہے؟“ ایک نوجوان صحافی نے عقیدت بھرے لہجے میں پوچھا۔ ”مےرے بیٹے! میں نے اپنے بچوں کو ہمیشہ اس بات کی تاکید کی ہے کہ ایمان پر کبھی سودا نہ کرنا۔ ایمان سب سے بڑی دولت ہے۔ میں نے یہ تعلیم دی ہے ہم اپنے اصول کبھی نہ بدلیں۔ مفادات کے لیے کبھی سودا بازی نہ کریں۔ میرے خاندان کی تاریخ آپ کو معلوم نہیں۔ میرے دادا برٹش دور میں ایک دیانت دار آفیسر تھے۔ اٹارنی جنرل تھے، مگر جب ایک موقع پر ان کے سامنے قومی حمیت اور اصولوں کے تحفظ کا سوال کھڑا ہوا تو انہوں نے بلا تامل اتنے بڑے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ آج عافیہ کا جو کردار اور رویہ ہے اس میں اس خاندانی تربیت کا پورا اثر ہے۔“ ”امی جان! یہ بتایئے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا کیا ردعمل ہے؟“



    صحافی حضرات محترمہ عصمت صدیقی صاحبہ کو جس طرح ”امی جان“ کہہ کر مخاطب کر رہے تھے، یہ اس بات کی دلیل تھی کہ الحمد للہ میڈیا سے وابستہ افراد کی بھی قومی اور ایمانی غیرت جاگی ہوئی ہے۔ ”بیٹے! اس کا ردعمل کو آپ جان چکے ہیں کہ اس نے کھل کر کہہ دیا یہ امریکا نہیں یہودیوں کا فیصلہ ہے جو اسرائیل نے کیا ہے۔“ ”امی جی! یہ بتایئے کیا ڈاکٹر عافیہ کی بازیابی کے لیے رحم کی اپیل کی جاسکتی ہے؟“ ایک صحافی نے پوچھا۔ ”اللہ نہ کرے کہ ایسا کبھی ہو۔“ محترمہ عصمت صدیقی صاحبہ نے گرج کر کہا۔ ”اللہ وہ دن نہ دکھائے کہ ہم اتنے ذلیل ہوجائیں کہ امریکیوں سے رحم کی بھیک مانگنے پر مجبور ہوں۔ رحم کی اپیل نہ ہم کریںگے نہ عافیہ، ہم خدا کے انصاف پر یقین رکھتے ہیں اور اس کا رحم و کرم ہمارے لیے کافی ہے۔“ محترمہ عصمت صدیقی صاحبہ نے اپنی گفتگو ختم کرتے ہوئے کہا۔ میں نے دیکھا موقع پر موجود ان صحافی دوستوں کی آنکھوں میں بھی نمی تیررہی تھی جو برسوں برے سے برے حالات کی رپورٹنگ کرتے کرتے شاید پتھردل بن گئے تھے۔ میں نے برسوں سے جنہیں کبھی ایک آنسو بہاتے نہیں دیکھا تھا۔ آج عزم اور خلوص سے بھرپور چند ایمانی جملوں کی حرارت ان کے دلوں کو موم کرچکی تھی۔ ڈاکٹر عافیہ کے گھرانے والو! تم عظیم ہو۔ قوم کو تم پر فخر ہے۔ تمہارا وجود سلطنت باطل میں پرچم حق کے بلند رہنے کی دلیل ہے۔



    ڈاکٹر عافیہ کون ہیں؟؟

    ڈاکٹر عافیہ صدیقی 2 مارچ 1972ءکو کراچی کے متوسط طبقے کے ایک تعلیم یافتہ گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد محمد صدیقی پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر تھے۔ عافیہ کا گھرانہ خاصا دینی ہے۔ ڈاکٹر عافیہ حافظ قرآن ہیں۔ انہوں نے اپنی محنت اور ذہانت کے بل بوتے پر امریکا کی صفِ اول کی یونیورسٹی MIT سے 1995ءمیں علم حیاتیات کے شعبے سے ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد امریکی ریاست Massachusetts کے ایک اور اعلیٰ تعلیمی اور تحقیقی ادارے Brandies سے علم الاعصاب (دماغی علوم) سے متعلقہ شعبے سے تحقیق کے بعد پی ایچ ڈی کی اعلیٰ سند حاصل کی۔ اسی دوران ان کے کچھ تحقیقی مضامین بھی شائع ہوئے۔ تعلیم کے دوران ہی عافیہ نے ایک پاکستانی ڈاکٹر امجد خان سے شادی کرلی جو بوسٹن میں مقیم تھا لیکن کچھ عرصے بعد دونوں میں جدائی ہوگئی۔ اس کے بعد عافیہ صدیقی اپنے بچوں کے ساتھ اپنی والدہ کے ہاں رہنے لگیں، جو گلشن اقبال میں رہائش پذیر تھیں۔ 30 مارچ 2003ءکو عافیہ صدیقی اپنی والدہ کے گھر سے کراچی ایرپورٹ کے لیے ٹیکسی میں سوار ہوئیں۔ وہ راولپنڈی کی فلائٹ لینا چاہتی تھیں۔ ان کے ساتھ تین بچے تھے۔ بڑا بیٹا چار سال کا، اس سے چھوٹی ایک بیٹی اور سب سے چھوٹا فقط ایک ماہ کا بیٹا۔



    اس
    وقت عافیہ صدیقی کی عمر تیس سال تھی۔ ایک رپورٹ کے مطابق گھر سے ایرپورٹ تک کے راستے میں انہیں پکڑکر بچوں سمیت ایف بی آئی کے حوالے کردیا گیا۔ امریکی ذرائع ابلاغ نے ایف بی آئی کے حوالے سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو القاعدہ سے قریبی تعلق رکھنے والی مبینہ دہشت گرد قرار دیتے ہوئے
    بقےہ صفحہ (ب) پر ملاحظہ فرمائےں
    ان کی گرفتاری کو میڈیا میں اُچھالا۔ عافیہ کی والدہ عصمت صدیقی اور بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کو اس وقت علم نہیں تھا کہ عافیہ او ران کے بچوں کے ساتھ کیا ہوا؟
    تاہم یہ خبر سننے کے بعد دونوں ماں بیٹی نے اس وقت کے وزیر داخلہ فیصل صالح حیات سے عافیہ اور بچوں کی بازیابی کی درخواست کی۔ ساتھ ہی عافیہ کی والدہ نے بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کو یہ بھی بتایا کہ انہیں چند موٹر سائیکل سواروں نے دھمکی دی ہے اگر وہ بچوں اور عافیہ کی سلامتی چاہتی ہیں تو ان کی پراسرار گمشدگی کا کسی سے ذکر نہ کریں۔ اسی دوران ایک پاکستانی نژاد برطانوی شہری ”معظم بیگ“.... جو بگرام جیل اور گوانتا ناموبے میں رہ چکا تھا.... کی ایک کتاب منظرعام پر آئی جس میں ایک خاتون قیدی کا ذکر تھا جو بگرام جیل میں قیدیوں اور جیل اہلکاروں کے لیے ایک سوالیہ نشان بنی ہوئی تھی۔ ادھر برطانوی نومسلم خاتون صحافی ایوان ریڈلی نے بھی اس قیدی کا ذکر کیا اور اسے ”گرے لیڈی آف بگرام“ کا نام دیا۔ 7 جولائی 2008ءکو برطانوی صحافی ریڈلی نے اسلام آباد میں انکشاف کیا کہ عافیہ صدیقی بگرام جیل میں قید ہیں اور ان کے ساتھ انسانیت سوز سلوک ہوا ہے۔ 5 اگست 2008ءکو چھتیس سالہ عافیہ صدیقی کو نیویارک کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ امریکی حکام کے مطابق عافیہ کو 17 جولائی 2008ءکو افغان سیکورٹی فورسز نے گورنر غزنی کے دفتر کے باہر سے ایسی دستاویزات کے ساتھ گرفتار کیا جن میں بم بنانے کی ہدایات درج اور کچھ سیال مادے تھے۔ ان پر یہ الزام لگایا گیا کہ انہوں نے بگرام جیل میں امریکی فوجیوں پر گولی چلائی اور جوابی حملے میں وہ شدید زخمی ہوئیں۔ تجزیہ نگاروں اور قانونی ماہرین نے امریکی کہانی کو ناقابلِ یقین کہا ہے۔ اسلام آباد کی عدالت عالیہ میں بھی ایک درخواست میں کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کو ڈالروں کے عوض امریکیوں کے ہاتھ فروخت کیا گیا ہے۔ دسمبر 2009ءمیں بالآخر کراچی پولیس نے عافیہ صدیقی اور ان کے بچوں کے 2003ءاغوا کا مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج کر لیا۔ بدھ 4 فروری کو امریکی جیوری نے ان پر فردِ جرم عائد کردیا ہے۔

    http://www.islamicupdates.com/iu/in...57:-q-q&catid=29:2010-02-14-07-51-45&Itemid=6
     

اس صفحے کو مشتہر کریں