1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ہمیشہ زندہ رہنے کی خواہش

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏13 جنوری 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    ہمیشہ زندہ رہنے کی خواہش
    اخلاق احمد قادری

    عالمی رزمیے اور اقوام عالم میں کل چار دورشجاعت ہو گزرے ہیں۔ جن میں قدیم یونانی دورشجاعت (ہومر کی رزمیہ داستانوں کا دور تخلیق)، ہندوؤں کا دور شجاعت (رامائن و مہا بھارت کی تخلیق کا دور) اور شمالی یورپ کا ٹیوٹانی دور شجاعت شامل ہیں۔ مرزا ابن حنیف نے اپنی کتاب ’’دنیا کا قدیم ترین ادب‘‘ میں دور شجاعت کے متعلق لکھا ہے کہ دورشجاعت کا خاصہ یہ ہوتا ہے کہ اس وقت کا حکمران طبقہ اپنی شہرت اور نام وری کا بری طرح بھوکا ہوتا ہے۔ اسی خواہش سے مجبور ہو کر بادشاہ اور دوسرے چھوٹے بڑے حکمران اپنے درباروں میں بھانڈ اور گویے رکھتے تھے۔ درباری شاعر حکمرانوں کی مہمات اور کارناموں کو بیانیہ نظموں، گیتوں اور ترانوں کی صورت میں نظم کرتے۔ اسی قسم کی نظمیں یا گیت شاہی اور درباری تقریبات میں تفریح طبع کے لیے گائے جاتے تھے۔ یہی گیت اور نظمیں تبدیلیوں کے بعد دنیا کا رزمیہ ادب کہلائیں۔ مندرجہ بالا تین دور شجاعت ہومر کے رزمیوں ’’ایلیڈ‘‘ اور ’’اوڈیسی‘‘، ہندو رزمیوں ’’رامائن اور مہابھارت‘‘ اور ٹیوٹائی رزمیوں کی وجہ سے عالمی ادب میں مشہور چلے آتے تھے۔ اب عراق میں اہم ترین قدیم علمی انکشافات کے بعد سے تاریخ انسانی کا چوتھا مگر سب سے قدیم دور شجاعت اور اس سے متعلق ادب بھی ہزاروں سال تک زمین میں مدفون رہنے کے بعد ابھر کر سامنے آچکا ہے۔ اس ادب کی دریافت کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ انسانی تاریخ کا اولین معلوم دور شجاعت سومیری دور شجاعت تھا۔ یہ دور شجاعت آج سے پانچ ہزار سال پہلے ہو گزرا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں دوسرے تین ادوار نئے ہیں اور علی الترتیب تین ہزار سال25 سوسال اور 16 سو سال قدیم ہیں۔ دنیا میں رزمیہ شاعری کی تخلیق و تحریر کا سب سے پہلے آغاز سمیر میں ہوا تھا۔ کئی لحاظ سے یہ سومیری رزمیہ شاعری یونانی، ہندو اور ٹیوٹائی شاعری جیسی ہی ہے۔ تاہم کئی پہلوؤں میں مشابہت رکھنے کے باوجود سومیری رزمیہ شاعری مندرجہ بالا رزمیہ شاعریوں سے مختلف بھی ہے۔ سومیری رزمیہ نظمیں مختلف طوالت کی حامل انفرادی اور غیر مربوط کہانیوں کا مجموعہ ہیں۔ ان میں ہر کہانی ایک ہی واقعہ تک محدود ہوتی تھی۔ سمیری رزمیہ کہانیوں میں اولین سمیری ہیرو گل گامش کی کہانیاں بہت اہم ہیں۔ ان کہانیوں کو صدیوں بعد بابلی شاعروں نے ایک طویل داستان کی شکل دی جو ’’گل گامش کی داستان‘‘ کہلائی۔ یہ داستان دنیا میں اولین رزمیہ داستان ہے۔ یہ داستان مٹی کی لوحوں پر کندہ 1841ء میں ایک انگریز ماہر آثارقدیمہ کو نینوا سے آشوری بادشاہ بنی پال کی ذاتی لائبریری سے ملی۔ یہ رزمیہ پیکانی رسم الخط میں کل 12 لوحوں پر محفوظ ہے۔ ہر لوح پر 300 سطریں رقم ہیں۔ نینوا سے ملنے والی ان لوحوں کے علاوہ بھی اس داستان کے قدیم نسخے کئی اور زبانوں میں ٹکڑوں کی شکل میں دریافت ہوئے ہیں۔ کئی زبانوں میں ملنے کی وجہ سے اس داستان کی قدیم زمانے میں مقبولیت کا پتا چلتا ہے۔ سومیری ادب کی اس ارتقائی شکل نے وقت جیسی بے رحم قوت کو شکست دے دی ہے کیونکہ یہ کل سومیری دورشجاعت میں موجود تھی اور آج بھی موجود ہے۔ اس داستان میں زندگی کے دوسرے رنگوں کے ساتھ قنوطیت کا رنگ نمایاں ہے۔ ساتھ ہی اس میں حیات ابدی کے ازلی مسئلے کو اٹھایا گیا ہے۔ انسان ازل سے ایسی حیات کا خواہاں ہے جو ہمیشہ کے لیے ہو مگر اس کی یہ خواہش کبھی بھی پوری نہیں ہو سکی۔ ایسا ہی داستان گل گامش میں ہوتا ہے۔ گل گامش ریاست کلاب کا بادشاہ ہے۔ وہ شہر ارک کا بھی بادشاہ بن جاتا ہے لیکن رعایا اس کی جاہ طلبی اور ملک گیری سے تنگ ہے اور ان کی زبانوں پر شکوہ ہے کہ گل گامش جنگوں کی کثرت کی وجہ سے کسی شہری کو اس کے باپ اور بیوی کے ساتھ سکون سے نہیں رہنے دیتا۔ رعایا کی اسی شکایات کے ردعمل کے طور پر دیوتا انو دیوی ارورو کو ایک ایسا انسان پیدا کرنے کا حکم دیتا ہے جو گل گامش کے ہم سر اور مخالف کے طور پر سامنے آ سکے تاکہ گل گامش کی توجہ جنگوں سے ہٹ کر اس کی طرف ہو جائے اور رعایا سکھ کا سانس لے سکے۔ دیوی ارورو کی یہ تخلیق این کدو، ایک جنگلی انسان کے طور پر سامنے آتی ہے۔ لیکن تھوڑی سی مخالف کے بعد این کدو گل گامش کا دوست بن جاتا ہے اور دونوں کئی مہمات مشترکہ طور پر سر کرتے ہیں۔ پھر این کدو کی موت کے بعد یہ داستان ایک نیا موڑ لیتی ہے۔ گل گامش ابدی حیات کی تلاش میں نکلتا ہے اور عظیم سیلاب کے ہیرو اتنا پشتم سے ملتا ہے۔ اتنا پشتم اسے ایک ایسے پودے کے بارے میں بتاتا ہے جس کے کھانے سے بوڑھے جوان ہو جاتے ہیں ، واپسی کے سفر میں گل گامش سمندر کی تہ میں یہ بوٹا حاصل کر لیتا ہے۔ مگر راستے میں ایک باؤلی میں نہاتے ہوئے یہ بوٹا سانپ کھا جاتا ہے اور گل گامش کی محنت رائیگاں چلی جاتی ہے۔ داستان کی بارہویں لوح میں این کدو ایک بار پھر نمودار ہوتاہے اور گل گامش کو موت کی تاریک دنیا کے بارے میں بتاتا ہے۔ پھر گل گامش بھی میدان جنگ میں ایک بہادر کی موت کی تمنا لیے چل بستا ہے اور اس کا حیات ابدی حاصل کرنے کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوتااور انسان کے ہمیشہ سے فانی ہونے کا راز افشاں ہو جاتا ہے۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں