1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ہمت کے بادبان سے نکلی ہوا

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از صدیقی, ‏22 فروری 2012۔

  1. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    ہمت کے بادبان سے نکلی ہوا
    ہمت کے بادبان سے نکلی ہوا ایک شخص کاماجرا جونئی دُنیا،نیا آسمان ڈھونڈنا چاہتا تھا مگردوستوں کی آرا راہ میں حائل ہو رہی تھی سلطان یوسف،ریاض ،سعودی عرب کل جس وقت ہم نے علی الصباح ناشتے پر بیگم صاحبہ کو اپنے تئیں اس اہم فیصلے کی اطلاع دی، اس وقت وہ چائے کا گھونٹ پینے ہی کو تھیں۔ چونک کر بولیں ’’کیا کہا میں سمجھی نہیں، ذرا دوبارہ کہیے۔ ‘‘ ہم نے زور دیتے ہوئے اپنی بات دہرائی ’’یہی کہ اب ہم بھی رسائل و جرائد میں لکھا کریں گے۔ ‘‘ بیگم منہ بنا کر بولیں ’’ہمیں تو آج معلوم ہوا کہ فلمی رسالے پڑھنے سے بھی کوئی قلمکاربن جاتا ہے۔‘‘ ’’فلمی رسالے کیوں ؟‘‘ ہم نے انھیں قائل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ’’کیا آپ نے ہمیں اخبار پڑھتے نہیں دیکھا ؟ اور یہ جو موٹی موٹی کتابیں الماری میں سجی ہوئیں ہیں یہ آپ کو نظر نہیں آتیں؟‘‘

    بیگم کب ہار ماننے والی تھیں، چمک کر بولیں ’’دیکھا ہے مگر یہ بھی دیکھا ہے کہ سارے اخبار میں یا تو آپ معمے بھرتے رہتے ہیں یا یہ دیکھتے ہیں کہ نئی فلم کون سی اور کہاں لگی ہے اور جہاں تک الماری میں سجی ہوئی کتابوں کا تعلق ہے تو خدا جھوٹ نہ بلوائے جس دن سے ہم اس گھر میں منتقل ہوئے اس وقت کی سجی کتابوں کو ہم نے آج تک آپ کو چھوتے نہیں دیکھا۔ ہا ں خوابوں میں اگر پڑھتے ہوں تو اس کا میں کہہ نہیں سکتی۔‘‘ ’’اب ایسا بھی مت کہو ‘‘ ہم ذرا جھینپ کر بولے ’’ہم نے کل ہی اردو خط کتابت کی کتاب سے عبداللہ کو ایک خط لکھوایا تھا۔‘‘ خط کے ذکر سے ہم ایک ہی جست میں ماضی کی حسین یادوں میں پہنچ گئے۔ جب وہ حسن جہاں سوز ایک چاند کا ٹکڑا ہماری زندگی میں آیا تھااور ہمارے درمیان خط کتابت ہوتی تھی۔ ہمار ے منہ سے بے ساختہ نکلا ’’خیر خط تو ہم نے بہت لکھے ہیں۔‘‘ وہ ہمارے معنی خیز انداز پر چونک کر بولیں’’ کس کو لکھے ہیں ؟ کون ہے وہ؟ کہاں رہتی ہے وہ کلموہی؟‘‘ انھوں نے سوالوں کی بوچھاڑ کردی۔ ان کی تیز آواز ہمیں ماضی کی حسین یادوں سے دوبارہ کھینچ لائی اور ہمیں ہوش آیا کہ ہم تو بیگم سے باتیں کر رہے ہیں ’’دوستوں کو او ر کس کو۔‘‘ ہم نے فورا سنبھل کر بات بنائی۔ ’’جھوٹ ،میں جانتی ہوں آپ کے لچھن۔‘‘ پھر ہماری طرف جھک کر ذرا رازدارانہ انداز میں پوچھا ’’کم از کم مجھے تو بتا دیں۔‘‘

    ان کی آنکھوں میں شرارت تھی۔ ’’کیا بتا دیں؟‘‘ ہم نے گھور کر پوچھا ’’ ائے یہی کہ جو کچھ آپ چھپنے کے لئے بھیجیں گے وہ لکھوائیں گے کس سے؟ اب میں تو آپ کی مدد کرنے سے رہی۔‘‘ ’’کیا مطلب؟ ‘‘ہم آنکھیں نکال کر بولے ’’آپ کو پتا ہے ہم اپنی کلاس میں مضمون لکھنے میں اول آتے تھے۔‘‘ بیگم کے منہ میں چائے کا گھونٹ تھا، یہ سنتے ہی انھیں آچھو لگ گیا ،بڑی مشکل سے اپنی ہنسی پہ قابو پا کر بولیں ’’اوہو اب سمجھی آپ لکھیں گے آج ہم نے چڑیا گھر کی سیر کی یا مثلا ہمارے اسکول کی کرکٹ ٹیم کیسے جیت گئی یا مثلا…‘‘ وہ کچھ سوچنے لگیں۔ ’’ بس بس‘‘ ہم نے ہاتھ اٹھا کرکہا ’’ ہم سمجھ گئے آپ ہم کو نرا گاؤ دی سمجھ رہی ہیں‘‘ ہم نے ذرا غصہ ہو کرکہا لیکن مجال ہے جو ان پر ہمارے اس غصے کا کوئی اثر ہو ا ہو۔ کہنے لگیں ’’خیر گاؤدی والی بات میںتو ذرا شک کے امکانات ہیں مگر بات یہ ہے کہ آپ ٹھیرے نرے کاہل، دھلائی کے کپڑوں کی فہرست بنانی ہو یا گھر کا سودا لانا ہو، آپ فہرست تو عبداللہ سے بنواتے ہیں اب اتنا لمبا مضمون آپ کے نازک ہاتھوں سے کہاں لکھا جائے گا۔ ‘‘

    زچ ہو کر ہم نے کہا ’’ آپ لمبا مضمون لمبا مضمون اس طرح دہرا رہی ہیںجیسے ہم کوئی دو ڈھائی کلو میٹر لمبا مضمون لکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔‘‘ یہ کہہ کر ہم وہاں سے اٹھے اور بیگم کو ہنستا چھوڑ کر دفتر کے لیے چل دیے مگر دل میں سوچتے رہے کہ آخر یہ بیویاں اتنی احمق کیوں ہوتی ہیں اور مزے کی بات یہ کہ احمق ہوتے ہوئے بھی ہر بیوی اپنے شوہر کوہی احمق سمجھتی ہے۔ ہمیں وہ بات یاد آگئی کہ ایک جج اسی بات پر خودکشی کرنے پر تیار ہوگیا تھا کہ میں تو سارا سارا دن دوسروں کے فیصلے کرتا ہوں اور جب گھر آتا ہوں تو بیوی کسی نہ کسی بات پر کہہ دیتی ہے آپ تو بے وقوف ہیں۔ جج نے سوچا توپھر ایسی زندگی جینے سے کیا فائدہ۔ شام کو واپسی پر ہم اپنے پیارے دوست خلیق صدیقی سے مشورہ کرنے پہنچ گئے ’’یار ہم نے ایک اراد ہ کیا ہے۔‘‘ خلیق تھوڑا پریشان ہو کر بولے ’’ اللہ خیر کرے آپ کے ارادے فیصلے اور پھر عمل سب ہی بڑے خطرناک ہوتے ہیں۔‘‘ ہم نے ماتھے پر بل ڈالتے ہوئے کہا’’ کیوں ؟ ایسی کیا بات ہے؟‘‘ ’’کچھ نہیں یار۔‘‘ انھوں نے ہمارا کندھا تھپتھپایا ۔ ’’بس ایسے ہی کہہ رہا تھا ، ہاں اب بتاؤ کیا معاملہ ہے؟‘‘ ’’خلیق بھائی بات یہ ہے ‘‘ ہم ذرا مطمئن ہو کر بولے ’’کہ ہم جب بھی اخبار یا کسی رسالے میں کوئی چیز پڑھتے ہیں تو بخدا ہمارا دل چاہتا ہے کہ ہم بھی کچھ لکھیں۔ اس لیے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اب ہم بھی ان رسالوں اور اخباروں میں ’’آرٹیکلز‘‘ لکھنا شروع کر دیں۔‘‘

    ہم نے محض رعب ڈالنے کی خاطر دانستہ مضمون کا لفظ استعمال کرنے سے اجتناب کیا۔ مگر یہ سننا تھا کہ خلیق بھائی نے بے ساختہ زور کا قہقہہ لگایااور ہماری امیدوں پر اوس ڈالنے والے انداز میں بولے’’ مجھے دوست سمجھتے ہو؟‘‘ ’’اسی لیے تو آپ سے مشورہ کرنے آئے ہیں مگر آپ کی تو بتیسی ہی اندر نہیں ہو رہی ، جیسے ہم کوئی لطیفے سنا رہے ہوں۔‘‘ ہم نے ناراض ہونے والے انداز میں کہا۔ ’’بات یہ ہے۔‘‘ خلیق بھائی خلیقانہ انداز میں بولے ’’ لکھنے کے لیے صرف خواہش ہی کافی نہیں ہوتی بلکہ اتنی موٹی موٹی کتابیں نہ صرف پڑھنی پڑتی ہیں بلکہ سمجھنی بھی ہوتی ہیں۔ ‘‘ انھوں نے ہاتھ کے اشارے سے ہمیں ڈرانے کی کوشش کی ۔

    ’’اور یہ دونوں کام آپ کے بس کے نہیں لگتے اور پھر وقت بھی خاصا دینا پڑتا ہے جو آپ کے پاس ہے نہیں کیونکہ اگر آپ لکھنے کا کام شروع کر دیں گے تو پھر آپ کے بہت سے اہم کام رہ جائیں گے مثلا کبوتروں کی دیکھ بھال کون کرے گا؟ شطرنج کس سے کھیلیں گے اور ہاں وہ جو باون کے باون پتے آپ کے بغیر اُداس ہو جائیں گے، ان کا کیا ہوگا؟‘‘ ان کے ساتھ عتیق بھی بیٹھے ہوئے تھے ۔انھوں نے بھی اپنا حصہ ڈالنا ضروری سمجھا، بولے ’’چھوڑو یا ر یہ کن چکروں میں پڑ گئے، آؤ گھر چلیں کیرم کی ایک بازی لگاتے ہیں۔‘‘ خلیق اور عتیق دونوںبھائیوں نے اتنے پُر اثر انداز میں نقشہ کھینچا کہ ہمیں بھی اپنا شوق حماقت لگنے لگا۔ واپسی پر ہماری ملاقات نہایت شفیق و محترم مربی و محسن انیس صاحب سے ہوگئی۔ انھوں نے ہمیں دیکھتے ہی پوچھا ’’کیوں حضرت کہاں ہو اتنے دنوں سے اور یہ چہرے سے تولگتا ہے کسی بات کا سوگ منایا جار ہا ہے قصہ کیا ہے آخر ؟‘‘ ہم نے اپنا ارادہ اور بیگم اور دوستوں کے تبصرے سے آگاہ کیا۔ سارا قصہ سن کر وہ بے ساختہ ہنس دیے اور بولے’’دوسروںکے مشورے،ہمت بندھانے کے بجائے اکثرہمت توڑنے کے کام آتے ہیں۔‘‘ ہم نے ٹھنڈی سانس لی۔واقعی ہمارے دوستوں کے مشورے ہماری ہمت کے بادبان سے ساری ہواتونکال ہی چکے تھے
     

اس صفحے کو مشتہر کریں