1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ہمارے علما ء اور عوام الناس سے سوال

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از طاہرا مسعود, ‏1 نومبر 2007۔

  1. طاہرا مسعود
    آف لائن

    طاہرا مسعود ممبر

    شمولیت:
    ‏31 جنوری 2007
    پیغامات:
    89
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    [[align=right:2p1gydpv]color=blue]sabki Khdmat maiN Assalaamo Alaikum w.w

    kuch sawaal thay maire zehan mainiss per kuch muntashir khayaalat yakjaa kiye haiN . apnee aara se zaroor nawaaziye gaa.
    wassalam
    [/color][/align:2p1gydpv]

    [​IMG]

    [​IMG]

    [​IMG]

    [​IMG]

    [​IMG]

    [​IMG]
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم طاہرا بہن !

    آپ کا مضمون بہت فکر انگیز اور آپ کی پختہ قلمکاری کا شاہکار ہے۔

    آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے ایک اہم سلگتے ہوئے موضوع پر قلم اٹھا کر بہت سارے ذہنوں کو بیداری کی لہر دی ہے جو کہ قابلِ تحسین امر ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کو دین اسلام کو اسکی روح سمیت سمجھنے کی اور اس پر کاملاً عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

    اگر آپ کا یہ مضمون ٹائپ ہوتا تو مجھے حوالہ جات و اقتباسات لکھنے میں آسانی ہوجاتی ۔ لیکن خیر اس کے بغیر ہی گذارا ہو جائے گا ۔۔۔۔۔

    میں آپکے پہلے چند ایک پیرا گرافس سے متفق ہوں‌کہ اسلام میں زبردستی نہیں ہے اور نہ ہی جبراً کسی پر اسلام یا کوئی بھی نظامِ زندگی نافذ کیا جاسکتا ہے۔ اور نہ ہی ہمیں تعلیمات و سنت نبوی :saw: میں کہیں بھی ایسی رہنمائی ملتی ہے۔

    لیکن میری بہن ! اگر ہم بنظر غور پوری دنیا میں مسلمان طبقے کی طرف سے تشدّد کی لہر کا جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہوجائے گا کہ امت مسلمہ کا سوادِ اعظم اس سوچ کے مخالف ہے ۔ اور ایک مخصوص نکتہ نظر کے حامل مولویان حضرات اسلام کو بزور بارود نافذ کرنے کی نہ صرف فکر رکھتے ہیں بلکہ جہاد کے نام پر ہزارہا بے گناہ انسانوں اور مسلمانوں کی جانوں سے بھی کھیل چکے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کے بڑے اس امت کے دل سے محبت و ادبِ رسول :saw: نکالنے کے لیے نوروبشر، حاضر وناظر، نبی کا علمِ غیب، میلاد منانا بدعت ، نعرہ یارسول اللہ شرک :saw: ، بارگاہ رسالت :saw: میں سلام بدعت اولیاء کے مزارات منبع شرک، اور اس طرح کے درجنوں الزامات لگا کر امت کے سواد اعظم کے اس عقیدہ کو جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم کے دور سے لے کر قدیم آئمہ و صالحین میں قائم رہا ، پچھلے سو یا سوا سو سال سے حجاز کو سعودیہ بنانے والے اور نجد سے نکلنے والے ایک فتنے نے امت مسلمہ کو ورغلانے کی کوشش کی۔ اسی متعصبانہ عقیدے کے حامل لوگوں نے پچھلی صدی عیسوی میں امت مسلمہ کا اپنے نبی آخر الزماں :saw: سے قلبی و حُبّی تعلق توڑنے کی بھرپور کوشش کی۔

    اس مقصد کے لیے سعودیہ سے لاکھوں ریال کے سالانہ وظائف پوری عرب دنیا اور بالخصوص برصغیر میں بانٹے گئے۔ 1970 سے پہلے تک صوبہ سرحد میں اسلامی مدرسے 50 سے 70 کی تعداد میں تھے۔ جبکہ روس افغان جنگ کے دوران اور ضیاء الحق کے دور کے بعد امریکی ڈالرز اور سعودی ریال سے بنائے جانے والے مدرسے 5000 کی تعداد کو پہنچ گئے۔۔۔۔ اور صرف ایک خاص مکتبہ فکر کے ۔۔۔ اور سب کو معلوم ہے کہ وہ خاص الخاص مکتبہ فکر کونسا ہے جس کی خصوصیات اوپر بیان ہو چکی ہیں۔ ان مدارس میں پروان چڑھنے والے “طالبان“ اور انکے آئیڈیل رہنما مسٹر اسامہ بن لادن کی امریکہ سے محبت کے ثبوت مائیکل مور کی فلم “فارن ہائیٹ 9-11 “ سے بخوبی واضح ہوتے ہیں۔ اسکے علاوہ بھی گوگل ویڈیو اور Youtube.com پر درجنوں فلمیں دستیاب ہیں جن سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ طالبان کے امریکن سی-آئی-اے اور اسامہ کے بش فیملی سے کیسے گہرے دوستانہ اور کاروباری تعلقات تھے اور آج بھی ہیں۔

    رہ گیا سواد اعظم جو نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام :rda: اہلبیت اطہار :as: کی محبت و ادب اور انکی اتباع پر گامزن ہو کر آگے بڑھتا رہا اسکے خانقاہی نظام ، صوفیانہ سلاسل اور روحانیت کی تعلیم و تربیت دینے والے مدارس کے بڑھنے کی شرح 5000 کے مقابلے میں شاید چند درجنوں میں ہو گی۔ کیونکہ انکے پاس امریکی ڈالرز اور سعودی ریال کی امداد نہیں تھی ۔

    ماننا پڑے گا کہ ساری امت مسلمہ میں سے چند ہزار فتنہ پرور لوگ ہیں جو اسلام کی غلط تشریح کر کے اسے دنیا بھر میں بدنام کرنے پر تُلے بیٹھے ہیں۔ اور دشمنانِ اسلام کو اسلامی ممالک پر حملہ کرنے کے لیے مناسب وجوہات feasiblity اور justification مہیا کرنے کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔

    اور یہی وہ طبقہ ہے جس نے قیام پاکستان کی بھی سخت مخالفت کی تھی اور قائد اعظم کو معاذ اللہ کافر اعظم تک کہہ دیا تھا۔ آج وہی طبقہ اپنے کندھوں پر کلاشنکوف اٹھا کر پوری دنیا کو اسلام سے بیزار کرنے کی ٹھانے ہوئے ہے۔

    اگر ان لوگوں کے پاس اسلام کا صحیح شعور ہوتا تو اسامہ صاحب افغانستان میں جہادی تربیتی کیمپس قائم کرنے کی بجائے اور پہلے سے مرتی ہوئی افغانی قوم کے بچوں کو مزید مارنے کی بجائے اپنے وسائل سے انہیں تعلیم و تربیت کے مواقع مہیا کرتے، سسکتی ہوئی انسانیت کے لیے ہسپتال اور طبی سہولیات بہم پہنچانے کے اہتمام فرماتے ۔۔۔ لیکن ان کا ایجنڈا امریکی ایجنڈا تھا۔ امریکہ آج سے کئی برس پہلے وسطی ایشیائی ریاستوں سے تیل کے ذخائر امریکہ پہنچانے کی اور مسلمانوں کی بیخ کنی کرنے کی منصوبہ بندی کر چکا تھا۔ سو اس نے اسامہ اور ہمارے صوبہ سرحد میں اسکے حواریوں کے ذریعے جان بوجھ کر ایسے ذہن کے لوگ تیار کروائے جنہیں سارے کا سارا اسلام “کلاشنکوف اور بم “ میں نظر آتا ہے۔

    آپ نے مزارات پر شرک کی بات کی تو میں اتفاق کرتا ہوں کہ جاہل لوگوں نے ان عظیم صوفیاء کی تعلیمات کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔ لیکن معاف کیجئے گا جس طرح پانچ انگلیاں کبھی برابر نہیں ہوتی اسی طرح قرآن و سنت کی کاملاً پیروی کرنے والے اولیاء اور انکے خانوادے آج بھی موجود ہیں اور قیام پاکستان کے وقت بھی برصغیر کے انہی مشائخ و علمائے حق نے قائد اعظم کا ساتھ دیا تھا۔ تصوف اور خانقاہی سلاسل نے آغاز اسلام سے لے کر آج تک پوری دنیا میں اسلام کی حقیقی روح کو پیش کر کے اسلام کی جڑیں مضبوط کی ہیں۔

    روسی ریاستوں سے لے کر ایشاء تک ، مشرقی یورپ سے لے کر افریقہ و مصر سے لے کر ترکی تک ہر جگہ اولیائے کرام کے فیض سے مشرف بہ اسلام ہونے والے کروڑوں مسلمان آج بھی انہی بزرگوں کی تعلیمات سے اپنے ایمان کو مضبوط رکھے ہوئے ہیں۔ البتہ جہاں‌جہالت کی وجہ سے چند مفاد پرستوں نے ان سلاسل کا نام بدنام کیا ہے انکی اصلاح ضرور کی جانی چاہیئے۔

    یورپ اور مغرب میں رہنے والے لوگ جنہیں ترکی، بوسنیائی اور رشین سٹیٹس کے مسلمانوں کو دیکھنے یا انکے خیالات سننے کا موقع ملا ہو وہ بخوبی جانتے ہیں کہ ان مسلمانوں کے اندر آج بھی روحانیت اور اولیاء و صالحین کا احترام زندہ ہے۔

    کلاشنکوف یا کسی اسلحہ کو برائے حفاظت اور کلاشنکوف یا کسی اسلحہ بردار کو بطور محافظ رکھنا سنت رسول :saw: سے ثابت ہے البتہ ایسے کلاشنکوف برداروں سے معاشرے میں بدامنی اور دہشت پھیلانا کسی صورت بھی جائز نہیں۔

    بلاشبہ اسلام میں انسانی حقوق کا تحفظ پہلے آتا ہے اور سزائیں‌آخری مرحلے پر آتی ہیں۔ خلفائے راشدین :rda: کے طرز عمل سے اس سلسلے میں سنہری رہنمائی میسر آتی ہے۔

    اسلام کے بقیہ سماجی ، معاشی و معاشرتی تعلیمات سے صرفِ نظر کر کے صرف سزاؤں والا اسلام “محمدی اسلام “ نہیں بلکہ دراصل “ سعودی میڈ“ اسلام ہے اور یہ مخصوص تشدد پسند طبقہ اسی سعودی اسلام کو پوری دنیا میں نافذ‌کر کے اسلامی تعلیمات کو بدنام کرنا چاہتا ہے۔

    کہنے کو بہت کچھ ہے لیکن ۔۔۔۔۔۔ آئندہ کبھی سہی

    آخر میں یہی دعا کروں گا کہ اللہ تعالی ہم سب کو ایمان کی سچی دولت اور روشنی عطا فرمائے جس سے ہم پوری دنیا میں اسلام کا وقار بلند کر سکیں۔ آمین
     
  3. مسز مرزا
    آف لائن

    مسز مرزا ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مارچ 2007
    پیغامات:
    5,466
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    ماشاءاللہ بھئی آپ دونوں نے بہت ہی اچھی تحاریر بھیجی ہیں۔ میری طرف سے مبارکباد قبول کیجیئے! میں آپ کی بات سے مکمل اتفاق کرتی ہوں کہ کچھ لوگوں نے واقعی تصوف کو بدنام کیا ہوا ہے۔ حالانکہ اگر دیکھا جائے تو قرآن کی صحیح سمجھ تصوف کے ذریعے ہی آتی ہے۔ نعیم بھائی آپ کی بات درست ہے کہ ساری انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔ آپ کے اور طاہرہ مسعود بہن کی تحریروں نے بہت کچھ سمجھنے میں مدد دی الحمد للہ!!! جزاک اللہ!!!
     
  4. مسز مرزا
    آف لائن

    مسز مرزا ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مارچ 2007
    پیغامات:
    5,466
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    آمین ثم آمین!!!
     
  5. طاہرا مسعود
    آف لائن

    طاہرا مسعود ممبر

    شمولیت:
    ‏31 جنوری 2007
    پیغامات:
    89
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    محترم بھائی صاحب

    اسلام علیکم ورحمتہ اللہ و بر کاتہ
    آپ کی تمام باتین نہایت معقول ہیں۔ یہ بھی صحیح ہے کہ غلط نظریا ت کے حامل لوگ کم ہیں مگر نمک گو تھوڑی مقدار میں بھی ہو ہمیشہ آٹے پر حاوی ہو جاتا ہے۔ ًظمون پر یتنی گرانقدر معلومات فراہم کرنے کے لیے ممنون ہوں۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ ک مشاہدہ اور مطالعہ اس پر کافی وسیع ہے اور آپ نے بہت عمیق نظری سے اس کا تجزیہ فرمایا ہے۔ شکریہ
    سدا خوش رہیں
    والسلام
     
  6. عقرب
    آف لائن

    عقرب ممبر

    شمولیت:
    ‏14 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    3,201
    موصول پسندیدگیاں:
    200
    طاہرا جی ۔ اور نعیم بھائی ۔

    آپ دونوں کے مضامین سے آپکے اندر ملت اسلامیہ کے لیے محبت اور درد کی عکاسی کرتے ہیں۔ دونوں مضامین بہت سبق آموز اور غوروفکر کے قابل ہیں۔

    طاہرا جی کی باتیں بہت حد تک درست لگیں۔ بعض نام نہاد علماء نے واقعی اسلام کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور سادہ لوح‌مسلمان انکے پیچھے لگ جاتے ہیں۔

    نعیم بھائی ۔ آپ نے جس تحقیق اور مشاہدہ سے امت کے اندر فتنہ پھیلانے والے عناصر کی نشاندہی کی ہے وہ لائق تعریف ہے ۔

    اللہ تعالی آپ دونوں کو بلکہ ہم سب مسلمانوں کو دین کی صحیح‌سمجھ عطا فرمائے۔ آمین
     

اس صفحے کو مشتہر کریں