1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ہمارا مسئلہ پکوڑے ہیں ۔۔۔

'قہقہے، ہنسی اور مسکراہٹیں' میں موضوعات آغاز کردہ از مخلص انسان, ‏16 جون 2016۔

  1. مخلص انسان
    آف لائن

    مخلص انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏10 اکتوبر 2015
    پیغامات:
    5,415
    موصول پسندیدگیاں:
    2,746
    ملک کا جھنڈا:
    پکوڑا کس قوم کی ایجاد ہے اور پہلی بار اسے کہاں ، کس کے پاس اور کیا کرتے دیکھا گیا ؟
    مورخین کی اکثریت اس پر خاموش ہے ۔ ان کی خاموشی کس سبب ہے ؟
    اس پر بھی پراسرار سی خاموشی ہے ۔ ممکن ہے مورخین پکوڑا کھانے میں مصروف ہو گئے ہوں ۔ یا پھر کھانے کے بعد چکنائی کی وجہ سے قلم نہ پکڑا جاتا ہو اور پھسل پھسل کر نکل جاتا ہو۔ بہرحال وجہ جو بھی ہو اس کا نقصان یہ نکلا کہ ہم پکوڑے کے نقطہ آغاز کے بارے میں الجھن کا شکار ہو گئے ۔
    ایک مورخ نے اس کا موجد ایک مکرانی کو قرار دیا جس نے بیسن کی کچھ ٹکیاں بلاوجہ تیل میں پھینکیں اور چولہا جلانا بھول گیا ۔ پھر جب کافی دیر تک وہ نہ پکیں تو مکرانی غصے میں " پکو۔۔۔ ڑے " چلایا اور بس یہی پکوڑوں کا نقطہ آغاز ہے ۔
    یہ روایت البتہ مجہول ہے اور اس کا روای بھی ۔ نیز وہ مکرانی بھی مجہول معلوم ہوتا ہے اور اس کے پکوڑے بھی ۔
    اپنے نقطہ نظر کو ثابت کرنے کیلئے ہم ' پہیہ ' کی ایجاد سے استدلال لیتے ہیں جس نے نقل و حمل کو ہمیشہ کیلئے تبدیل کر دیا ۔ اب حالانکہ یہ حضرت ادریس علیہ السلام کی ایجاد ہے مگر انگریز سائنسدانوں کا اسرار ہے کہ یہ غار میں بسنے والے کسی مجہول کے دماغ کا شاخسانہ ہے ۔ انگریزوں کی یہ روایت مذکورہ بالا پکوڑے کی روایت جتنی ہی معتبر ہے ۔
    پکوڑوں کے بارے میں ایک اور روایت بھی پتہ لگتی ہے کہ بابا آدم کی گیارہویں یا تیرہویں نسل میں ایک نوجوان پیدا ہوا جو سیر و سیاحت کا دلدادہ تھا ۔ ایک روز سیر کرتے کرتے وہ دنیا کے کنارے پر جا پہنچا جس کے آگے کوہ قاف شروع ہوتا تھا ۔ نوجوان کی نظر جب اس طرف پڑی تو پریوں کے ایک جھرمٹ کو کوئی کھیل کھیلتے پایا ( کھیل پر اختلاف ہے ، بعض کا کہنا ہے یہ چھپن چھپائی یا پکڑم پکڑائی جیسا کوئی کھیل تھا اور بعض دور جدید کے روشن خیال تاریخ دانوں نے اسے کرکٹ یا فٹ بال ثابت کرنے پر زور دیا ہے ، خیر یہ کھیل ہمارا مسئلہ نہیں، ہمارا مسئلہ پکوڑے ہیں ) ۔ اب نوجوان ان میں سے ایک پری پر فی الفور دل ہار گیا اور ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مطلوبہ پری کو پریوں کی شہزادی ہی کہا جائے ورنہ اگر اسے پریوں کی بھنگن ، جمعدارنی وغیرہ لکھا گیا تو تاریخ کے بد مزہ و کرکرا سا ہو جانے کا اندیشہ ہے ( یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس دل پھینک نوجوان کی نسل سب سے زیادہ پاکستان میں پروان چڑھی ، خیر یہ بھی ہمارا مسئلہ نہیں، ہمارا مسئلہ پکوڑے ہیں ) ۔ اب نوجوان اور پری کے بیچ یہ مسئلہ درپیش تھا کہ نوجوان کوہ قاف نہیں جا سکتا تھا اور پری ہماری دنیا میں نہیں آ سکتی تھی ۔ نوجوان کے کوہ قاف قدم نہ رکھ سکنے کی وجہ اس کی جسمانی ساخت تھی اور پری کے دنیا میں قدم نہ رکھنے کی وجہ بھی نوجوان کی جسمانی ساخت تھی ( بعض مورخین نے لکھا ہے کہ نوجوان بیحد فربہ یعنی اوور ویٹ تھا ، بعض نے کہا ہے کہ کثرت سیاحت کے باعث بالکل کانٹا نما ہو گیا تھا ، خیر یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے ، ہمارا مسئلہ پکوڑے ہیں ) ۔ نوجوان مایوس ہو کر لوٹ آیا اور ایک قریبی جنگل میں گھس گیا کہ بقیہ زندگی آہیں بھرتے گزاری جائے ۔ ابھی چند ایک ہی آہیں بھری تھیں ایک زناٹے دار پتھر سر پر آ لگا اور سر پھٹ گیا ۔ دیکھا تو ایک عمر رسیدہ خبطی نما بڑھیا ہاتھوں میں کئی پتھر لیے اس کا نشانہ لے رہی ہے ۔ ایک کے بعد ایک مصیبت سے نبرد آزما ہونے پر نوجوان کا دل بھر آیا اور زار و قطار رونے لگا ۔ بڑھیا کو بھی یہ دیکھ کر رحم آ گیا اور اس نے بقیہ پتھر ذرا آہستہ مارے پھر نوجوان سے اس کے بے مقصد واویلا کرنے کی وجہ دریافت کی ( بعض مورخین نے لکھا ہے کہ وجہ معلوم ہونے پر بڑھیا نے چند ایک پتھر مزید مارے ، بعض کا کہنا ہے کہ بڑھیا کافی ' سپورٹیو ' تھی ، خیر یہ ہمارا مسئلہ نہیں ۔۔۔ ) ۔ نوجوان کی دکھی داستان سن کر بڑھیا نے نوجوان کو ایک گہرا برتن دیا اور کچھ ترکیب بتائی ۔ نوجوان خوشی خوشی سر ہلاتا واپس کوہ قاف کی سرحد پر چلا گیا اور عین پری کے سامنے برتن رکھ کر کچھ بنانے لگا ۔ بس یہی پکوڑے تھے اور ان کی خوشبو سونگھ کر پریاں دیوانہ وار کوہ قاف چھوڑ کر باہر آ گئیں ۔ نوجوان نے کھلے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک کو بھی انکار نہ کیا اور پورے غول کو اپنے ساتھ لے کر واپس ہو لیا ۔ واپسی میں سوچا کہ اپنی محسنہ یعنی بڑھیا کو سلامی دیتے ہوئے لوٹا جائے سو اس سے آخری ملاقات کی اور جاتے جاتے کہا " اپنا نام تو بتا دیجیے تاکہ اپنے بچوں کو داستان سنانے میں آسانی رہے ، صرف عمر رسیدہ ، خوفناک سی بڑھیا کہ دینے سے داستان سنانے کا مزہ نہیں آئے گا ۔ بڑھیا نے جوابا دو چار پتھر اور تاک کر مارے اور اپنا نام " زبیدہ آپا " بتایا ۔
     
    آصف احمد بھٹی، نعیم، راحت تسنیم اور 3 دوسروں نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. مخلص انسان
    آف لائن

    مخلص انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏10 اکتوبر 2015
    پیغامات:
    5,415
    موصول پسندیدگیاں:
    2,746
    ملک کا جھنڈا:
    راوی لکھتا ہے کہ چونکہ اس زمانے میں ' حقوق نسواں ' دلوانے والی امریکی این جی اوز کا قیام نہیں ہوا تھا لہذا اس نوجوان کو متعدد شادیوں پر کسی نے طعنے دے دے کر پریشان نہیں کیا نہ ہی کسی پری نے بدظن ہو کر طلاق لی اور تا دم حیات سب مل کر ہنسی خوشی پکوڑے کھاتے رہے ۔
    ویسے ہمیں اس روایت پر بھی کافی شکوک و شبہات ہیں ۔۔۔ آپ کو بھی پڑھتے ہوئے کئی شک گزرے ہوں گے ۔ لہذا اسے بھی معتبر نہیں مانا جا سکتا ۔ مگر دل شکستہ نہ ہوں ۔ نقطہ آغاز کی تصدیق نہ ہونے کے باوجود بھی پکوڑے کے بارے میں کئی ایسی دلچسپ تاریخی باتیں ہیں جو سننے سے تعلق رکھتی ہیں ۔
    کہتے ہیں کہ ہندوستان میں پہلے پکوڑا آیا ۔ پھر انگریز آیا ۔ اور آخر میں مرغا آیا ۔ انڈے کا معلوم نہیں کب آیا ۔ سو ایک بار ایک انگریز نے رمضان میں مسلمانوں کو تنگ کرنے کا سوچا اور افطار سے چند گھڑی قبل مسلمانوں کے ایک گروہ کے پاس جا پہنچا جو روزہ کھلنے کے منتظر تھے ۔ انگریز نے نخوت بھرے انداز میں ان سے پوچھا کہ آخر انہیں اس طرح پورے دن بھوکے پیاسے رہ کر ملتا کیا ہے ؟ مسلمان حیرت سے ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے اور انگریز انہیں لاجواب جان کر مزید تقریر جھاڑنے لگا ۔ آخر ایک بزرگ نے نوجوان کو سرگوشی کرتے ہوئے پوچھا " یہ کہ کیا رہا ہے ؟ " نوجوان نے آہستگی سے جواب دیا " بابا معلوم نہیں انگریزی میں کیا لگا ہوا ہے ، شاید اس کا بھی پکوڑے کھانے کا دل کرتا ہو گا ۔ " چنانچہ انگریز کو فورا دو لذیذ پکوڑے پکڑا دیے گئے ۔
    راوی لکھتا ہے کہ انہیں کھا کر انگریز پر عجیب رقت طاری ہو گئی ۔ پھر بقیہ ساری زندگی اس نے گوشہ نشینی میں گزاری اور اکثر اس کے حجرے میں سے رو رو کر جنت کے پکوڑے طلب کرنے کی آوازیں آتیں ۔ اس انگریز کے مرنے کے بعد ایک روز ایک عورت قبرستان گئی تو الٹے پیروں واپس لوٹ آئی اور بے ہوش ہو گئی ۔ جب ہوش میں آئی تو چند گھڑی ادھر ادھر دیکھا اور پھر بے ہوش ہو گئی ۔ دم کرنے کی خاطر مولوی صاحب کو بلایا گیا تو عورت نے ہوش میں آنے کے بعد مولوی صاحب کو بتایا کہ انگریز کی قبر سے پکوڑے تلنے کی بو اور چیخوں کی آوازیں آتی ہیں ۔ مولوی صاحب نے عورت کو خصوصی تلقین کی کہ ایسی باتوں پر پردہ ڈالنا چاہیئے اور اسے ہرگز کسی کو بتانا نہیں چاہیئے ۔ سو چند دنوں میں یہ خبر پورے ہندوستان میں پھیل گئی اور خوب چرچا ہوا ۔
    اس میں مگر قصور پکوڑے کا ہرگز نہ ہوا بلکہ اس انگریز کا ہوا جس نے اپنے نفس کو پکوڑے کا غلام بنائے رکھا اور ' پکوڑوی خواہشات ' میں کھویا رہا ۔
     
    آصف احمد بھٹی، نعیم، شعیب گناترا اور 2 دوسروں نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. مخلص انسان
    آف لائن

    مخلص انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏10 اکتوبر 2015
    پیغامات:
    5,415
    موصول پسندیدگیاں:
    2,746
    ملک کا جھنڈا:
    پکوڑے بالکل معصوم نہیں ہوتے ۔ ان کی وجہ سے اکثر لوگوں میں جھگڑا بھی ہو جاتا ہے ۔ کہتے کہ جب دوبئی محض ایک صحرا تھا تو اس کے بیچوں بیچ ایک پاکستانی اور ایک عربی کو لڑتے ہوئے دیکھا گیا ۔ عربی کا کہنا تھا کہ " بکوڑے ہوتے ہیں بکو مت " اور پاکستانی کا کہنا تھا کہ " پکوڑے ہوتے ہیں پکاؤ مت " ۔ قریب تھا کہ معاملہ ہاتھا پائی تک جا پہنچتا کہ اچانک وہاں سے ایک عثمانی (ترکی) کا گزر ہوا ۔ صورتحال دیکھ کر وہ بھاگا بھاگا گیا اور کہیں سے ایک پکوڑوں کا تھال لے آیا ۔ پکوڑے کھاتے ہی عربی و پاکستانی کا غصہ جاتا رہا ، یہاں تک کہ جب تک تھال آدھا ہوا دونوں شیر و شکر ہو چکے تھے ۔ عربی پکوڑا اٹھا کر پاکستانی کے منہ میں ڈالتا اور کہتا " لو حبیبی پکوڑا کھاؤ " اور پاکستانی عربی کے منہ میں ڈالتا اور کہتا " نہیں شیخ تم بکوڑا کھاؤ " ۔
    پکوڑے ختم ہونے کے بعد البتہ انہیں دوبارہ دست گریباں دیکھا گیا ۔
    طبی اعتبار سے پکوڑوں کا کوئی اعتبار نہیں ۔ انہیں کھا کر بھی طبیعت خراب ہو جاتی ہے اور نہ کھا کر بھی ۔ یونانی حکیم جالینوس کا کہنا ہے کہ پکوڑا پہلے درجے میں گرم ، دوسرے درجے میں مرطوب اور تیسرے میں گرم و مرطوب ہے ۔ البتہ پاکستان میں مشہور یونانی دوا خانہ چلانے والے حکیم پپو صابری کا کہنا ہے کہ جالینوس نے پکوڑوں پر یہ تبصرہ پکوڑے کھانے کے بعد کیا اور اس وقت وہ حالت مستی میں تھے ورنہ ایسی لغو بات نہ کرتے ۔ حقیقت یہ ہے کہ پکوڑا پہلے درجے میں بھی پکوڑا ہی ہوتا ہے ، دوسرے درجے میں بھی اور تیسرے درجے میں بھی پکوڑا ، پکوڑا ہی ہوتا ہے ۔
    پکوڑوں کے درجات پر اور بھی کئی لوگوں نے کچھ کہا مگر وہ بھی کچھ خاص قابل اعتبار لوگ نہیں ۔
    پاکستان میں پکوڑوں پر بھی اختلاف پایا جاتا ہے مگر یہ اختلاف جھگڑے کا باعث نہیں بنتا بلکہ باعث رحمت و برکت ہے ۔ مثلا اگر آپ کے ہاں پالک کے پکوڑے بنتے ہیں تو کسی ایسے پڑوسی کے ہاں بھیج دیں جس کے ہاں یہ قسم نہیں پائی جاتی ۔ وہ اس مختلف پکوڑے پر جھگڑا نہیں کرے گا بلکہ کچھ دنوں بعد ایک پلیٹ میں آپ کے ہاں کوئی نئی قسم کا پکوڑا بھیجے گا ۔ اس طرح مختلف پکوڑے اسلامی معاشرے میں امن اور محبت کا باعث بن سکتے ہیں سو اس ترکیب پر عمل ضرور کیجیے گا !
    ( بشکریہ : M I K )
     
    آصف احمد بھٹی، نعیم، شعیب گناترا اور 2 دوسروں نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    پھر پتا چلا کچھ یا ٹیویں ہی ہیں
     
  5. شعیب گناترا
    آف لائن

    شعیب گناترا ممبر

    شمولیت:
    ‏16 جون 2016
    پیغامات:
    5
    موصول پسندیدگیاں:
    7
    ملک کا جھنڈا:
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. مخلص انسان
    آف لائن

    مخلص انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏10 اکتوبر 2015
    پیغامات:
    5,415
    موصول پسندیدگیاں:
    2,746
    ملک کا جھنڈا:
    شکریہ شعیب گناترا بھائی
    ہم آپ کی توجہ دلانے پر شکر گزار ہیں ، دراصل ہم نے یہ تحریر گوگل کے ایک پیج یا شاید کسی گروپ " ایم آئی کے " میں پڑھی تھی سو اس لئے تحریر کے آخر میں بشکریہ ایم آئی کے لکھ دیا تھا ۔ ۔ ۔ آپ کی دی ہوئی لنک پر فراز عادل بھائی کی تھوڑی بہت تحریریں پڑھیں ، کافی مزیدار ہیں
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں