1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ہمارا حوصلہ دیکھو ہم ایسے گھر میں رہتے ہیں

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از سموکر, ‏20 جون 2006۔

  1. سموکر
    آف لائن

    سموکر ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    859
    موصول پسندیدگیاں:
    8
    ہمارا حوصلہ دیکھو ہم ایسے گھر میں

    عطا الحق قاسمی

    قارئین

    جاپان میں خودکشی کی روایت بہت پرانی ہے اور یہ کسی ندامت یا عزت نفس پر حرف آنے کے نتیجے میں باقاعدہ اعلان کرکے کی جاتی رہی ہے۔ اس خودکشی کو ہراکری (Harakiri) کا نام دیا گیا ہے۔ جاپان کے دو نوبل پرائز یافتہ عظیم ادیبوں مشی ما اور کاداباتا نے بھی اناکی خاطر ہراکری کی تھی۔ ہمارا جنرل یحییٰ خاں سقوط ڈھاکہ کے بعد خودکشی کرنے کی بجائے اپنی صدارت برقرار رکھنے کی کوشش کرتا رہا اور مرا تو 21توپوں کی سلامی دی گئی اور پاکستان کے پرچم میں لپیٹ کر دفن کیا گیا۔ جنرل نیازی بھی پوری بے غیرتی کے ساتھ زندہ رہا۔ اسی طرح ریلوے کے حادثات میں ہزاروں لوگوں کے جاں بحق ہونے پر، دہشتگردی کی کامیاب وارداتوں پر، آلودہ پانی کی زد میں آنے کی وجہ سے سیکڑوں ہلاکتوں پر، کسی بھی ذمے دار کے چہرے پر عرق ندامت تک نظر نہیں آیا۔ ہمارے ہاں لوگ سڑکوں پر کیڑوں مکوڑوں کی طرح مرتے ہیں، ہزاروں قتل ہوتے ہیں، ڈاکہ زنی ہوتی ہے، عصمتیں لوٹی جاتی ہیں مگر کتنے لوگ ہیں جنہیں ان جرائم کی سزا ملتی ہے یا کوئی غیرت مند جس کا ضمیر جاگ اٹھے اور وہ اپنے گناہوں سے تائب ہو جائے اور اس کے ساتھ سزا کا بھی طالب ہو؟ شاید ہمارے درمیان کوئی بھی ایسا فرد موجود نہیں۔ ندامت کے اظہار کے لئے خودکشی تو دور کی بات ہے۔ تاہم جاپان میں خودکشی کی شرح میں اضافے کا رجحان ماضی کی روایت کا تسلسل نظر نہیں آتا بلکہ اس کی وجوہات کچھ اور لگتی ہیں۔ اس ضمن میں حتمی بات تو ماہرین ہی بتا سکتے ہیں میں تو صرف مفروضوں کا سہارا لے سکتا ہوں۔ میرے نزدیک اس کی ایک وجہ جاپانیوں کا احساس تنہائی ہے۔ نیز یہ کہ وہ اپنے دکھ دوسروں کے ساتھ بہت کم SHARE کرتے ہیں۔ بے پناہ صنعتی ترقی کے نتیجے میں فیملی یونٹ پر یقینا زد پڑتی ہے، کنبے کے افراد الگ الگ شہروں یا الگ الگ گھروں میں جا بستے ہیں اور ان کے احساس تنہائی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ مجھے لگتا ہے جاپانیوں خصوصاً ان کی نئی نسل کے افراد کو صنعتی ترقی کے بعد اس صورتحال کا سامنا ہے۔ وہ بالغ ہوتے ہی اپنے والدین سے الگ ہو جاتے ہیں۔ وہ چونکہ بے حد حساس قوم کے فرد ہیں نیز اپنے مسائل بہت کم کسی کے ساتھ SHARE کرتے ہیں لہٰذا اس کا نتیجہ خودکشی کی صورت میں نکلتا ہے۔ ایک بہت دور کا مفروضہ یہ بھی ہے کہ ایک جنگجو قوم کو دوسری جنگ عظیم کے بعد جس طرح شرمناک شرائط کاتابع بنایا گیا اور ان کے اپنے سلیبس میں تبدیلیاں کروا کے خود انہی کو مجرم ٹھہرانے کے لئے انہیں یہ بتایا گیا کہ اگر جاپان دوسری جنگ عظیم میں پرل ہاربر پر قبضہ نہ کرتا تو امریکہ ہیروشیما اور ناگاساکی پر بم نہ گراتا تو شاید ان کی اجتماعی شعور اور لاشعور میں چلاگیا ہے۔ اس ہزیمت پر اپنے احساسات کا اظہار داخلیت پسندی اور دیگر وجوہات کے سبب نہیں ہو پاتا۔ بس کبھی کبھار نشے کی حالت میں دل کی بات زبان پر آ جاتی ہے۔ میں نے جاپانیوں سے زیادہ محنتی، اپنی فوجی شکست کو صنعتی فتح میں تبدیل کرنے والی ایماندار اور بلند حوصلہ قوم اور کوئی نہیں دیکھی۔ ان کی دیانت کے حوالے سے جاپان کے ممتاز پاکستانی تاجر حاجی عابدحسین نے مجھے بتایا کہ گزشتہ برس تقریباً 96ہزار بٹوے لوگ گم کر بیٹھے، ان میں سے 94 ہزار بٹوے انہیں واپس مل گئے۔ اسی طرح لاکھوں کی تعداد میں گم شدہ چھتریاں بھی پوری تعداد میں واپس مالکوں کے پاس آ گئیں۔ دیانت اور ایمانداری کی دوسری بہت سی روشن مثالیں ان کی مصنوعات کے معیار کے حوالے سے ہمارے سامنے ہیں اور اس معیار پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا گیا۔ اس سے جہاں ٹیکنالوجی میں ان کی مہارت کا پتہ چلتا ہے، وہاں یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ جاپان کا صنعتکار اور بزنس مین اپنے صارفین کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچاتا۔ جاپانیوں کی بلند حوصلگی کا یہ عالم ہے کہ وہاں 24گھنٹوں کے دوران چار ہزار چار سو چوالیس زلزلے آتے ہیں مگر یہ چیز انہیں کسی خوف میں مبتلا نہیں کرتی بلکہ جب زلزلے کے دوران کوئی ٹی وی سیٹ نیچے گر جاتا ہے تو وہ اس پر ہنس پڑتے ہیں۔ ویسے بھی جاپان میں زلزلہ پروف عمارتیں بنائی گئی ہیں۔ وہ غالباً سات یا آٹھ اسکیل تک کا زلزلہ برداشت کرسکتی ہیں جس کے نتیجے میں یہ زلزلے وہاں تباہی نہیں مچاتے۔ میں اس حوالے سے علمائے کرام سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ جو قوم ٹیکنالوجی میں ترقی کرلے اور زلزلے سے ہونے والی تباہی کا تدارک کرنے میں کامیاب ہو جائے تو کیا یہ سمجھا جائے گا کہ ان کی بستیوں میں کوئی گنہ گار نہیں بستا؟ کیونکہ ہمارے ہاں حالیہ زلزلے کے دوران جہاں پوری قوم غمزدہ تھی، وہاں اس کا شکار ہونے والوں کے زخموں پریہ کہہ کر نمک چھڑکا گیا کہ یہ سب ان کے گناہوں کا نتیجہ ہے۔ بہرحال جاپان چوبیس گھنٹے زلزلوں کی زد میں رہتا ہے مگر خوفزدہ نہیں ہوتا جبکہ ہمارا مرحوم شاعر اقبال ساجد کہتا ہے جہاں بھونچال بنیادِ فصیل و در میں رہتے ہیں ہمارا حوصلہ دیکھو ہم ایسے گھر میں رہتے ہیں یہ بھونچال لاقانونیت کا بھونچال ہے۔ جاپان میں بادشاہت ہے مگر وہاں قانون کی حکمرانی ہے۔ ہمارے ہاں ”جمہوریت“ ہے مگر عملی طور پر بادشاہت نافذ ہے اور یہ واقعی ہمارا حوصلہ ہے کہ ہم ایسے گھر میں رہ رہے ہیں جو اب آسیب زدہ سا لگنے لگا ہے۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہمارے ”عامل“ خود جنوں بھوتوں سے جا ملتے ہیں۔
     
  2. پٹھان
    آف لائن

    پٹھان ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    514
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    عطا الحق قاسمی اچھا لکھتے ہیں
     

اس صفحے کو مشتہر کریں