1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ہزار گنجی کا خیمہ میوزیم: کوئٹہ کے مذہبی عالم کا انوکھا شوق

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏28 نومبر 2018۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    عام طور پر تو یہ دیکھا جاتا ہے کہ پرانی اور استعمال شدہ اشیا سے لوگ جان چھڑانا چاہتے ہیں یا ان کو اونے پونے فروخت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن پاکستان کے صوبے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے حاجی عبد الہادی بنگلزئی نے الگ کی روش اپنائی ہے۔

    پیشے کے اعتبار سے مذہبی عالم، حاجی عبد الہادی بنگلزئی کو پرانی اشیا اکٹھا کرکے انھیں محفوظ کرنے کا شوق ہے تاکہ نئی نسل کے نوجوانوں کو پرانے زمانے کے لوگوں کی رہن سہن اور ان کے زیر استعمال اشیاء سے روشناس کرایا جا سکے۔

    کوئٹہ کے نواحی علاقے ہزارگنجی میں ان کے گھر میں ایک چھوٹے سے مدرسے کے ساتھ ساتھ ایک چھوٹا ساعجائب گھر بھی ہے ۔اس عجائب گھرکے لیے بلوچی ثقافت پر مبنی ایک ماحول بھی بنایا گیا ہے۔

    [​IMG]
    عبد الہادی بنگلزئی کہتے ہیں کہ 'انہوں نے خلیجی ممالک میں عربوں میں پرانی اشیا اکٹھا کرنے کا شوق دیکھا۔ اس کی وجہ سے مجھ میں بھی پرانی ثقافتی اشیاء کو محفوظ بنانے کا شوق پیدا ہوا۔'

    ان کا کہنا ہے کہ جو چیزیں ان کے پاس ہیں ان میں سے بعض کے لیے ان کو دور دراز کے علاقوں میں بھی جانا پڑا جبکہ بعض چیزیں ان کو دوستوں نے لا کر دیا ۔

    انہوں ایک ایسا برتن دکھایا جوان کے بقول بچے 30 روپے میں بیچ رہے تھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ کہ 'ایک دوست نے اسے دیکھا تو اس نے مجھے لا کر دیا تو ہم نے اس کی لیبارٹری میں جانچ کرائی۔'

    [​IMG]
    عبد الہادی بنگلزئی نے دعوی کیا کہ لیبارٹری کے مطابق معلوم ہواکہ وہ برتن 180 سال پرانا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ 'دوست بہت ساری چیزیں یہ کہہ کر تحفتاً دیتے ہیں کہ یہ چیزیں عبد الہادی کے پاس ہوں گے تو زندہ یعنی محفوظ رہیں گے۔'

    گھی کو محفوظ رکھنے کے لیے ان کے پاس ایک ایسا برتن بھی ان کے پاس ہے جو کہ ان کے بقول اونٹ کی کھال سے بنایا گیا ہے ۔ عبد الہادی بنگلزئی کا دعویٰ ہے کہ یہ ایک ایسی چیز ہے جو شاید کسی اور کے پاس نہ ہو۔

    ان کا کہنا ہے کہ اسے انہوں نے قلات کے علاقے نرمک سے حاصل کیا ۔ 'یہ ایک عمر رسیدہ شخص کے پاس تھی ۔ اُس نے مجھے بتایا کہ یہ ان کی دادی کا بنایا ہوا ہے۔ اس بوڑھے آدمی کی عمر سے انہوں نے یہ اندازہ لگایا کہ یہ بھی 150 یا 160سال پرانا ہے۔'

    [​IMG]
    عبد الہادی بنگلزئی نے بتایا کہ اس میں نہ کوئی جوڑ ہے اور نہ کوئی پیوند ۔ صرف اس کا ڈھکنا لکڑی کا بنا ہوا ہے۔ اس کی یہ بھی خوبی ہے کہ چوہا اس کو کاٹ نہیں سکتا۔'

    ان کا کہنا تھا کہ پرانے زمانے میں ناپ تول کے لیے جو چیزیں استعمال ہوتی تھیں وہ بالکل ایسی نہیں جو کہ آج استعمال ہوتی ہیں ۔

    [​IMG]
    عبد الہادی کے گھر بنے ہوئے اس چھوٹے سے عجائب گھر میں لکڑی سے بنی ہوئی برتن نما ایسی چیزیں بھی موجود ہیں جو کہ پرانے ادوار میں ناپ تول کے لیے استعمال ہوتی تھیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ ڈھائی کلو کے لیے جو چیز استعمال ہوتی تھی اس کو براہوی زبان میں چھوتڑہ جبکہ پانچ کلو کے لیے استعمال ہونے والی چیز کو سرک کہا جاتا ہے۔'

    [​IMG]
    اس کے علاوہ ان کے پاس دیگر چیزیں بھی ہیں جن میں ریاست قلات میں استعمال ہونے والے سکوں کے علاوہ انگریزوں کے دور اور اس کے بعد کے سکے اور کرنسی نوٹ بھی ہیں۔

    شاید اس کام کو بعض لوگ درد سری کا کام سمجھتے ہوں لیکن یہ حاجی عبد الہادی کا شوق ہے۔

    وہ کہتے ہیں کہ ہمارے آباؤ اجداد کی بودوباش کس طرح کی تھی، وہ نئی نسل کے لوگ بالکل بھول چکے ہیں۔

    'میں نے یہ کام اس لیے شروع کیا ہے تاکہ نئی نسل کے لوگوں کو یہ معلوم ہو کہ ہمارے آباؤ اجداد کس طرح کی چیزیں استعمال کرتے تھے۔'

    [​IMG]
    انھوں نے بتایا کہ ان کے بہت سارے دوست اور ساتھی بھی یہاں آتے ہیں۔'پکنک منانے کے ساتھ ساتھ یہ چیزیں اور ماحول دیکھ کر ان کی پرانی یادیں بھی تازہ ہوجاتی ہے اور اس سے میرا شوق بھی پورا ہوجاتا ہے۔'
     
    ساتواں انسان نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں