1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ہائیکورٹ حملہ : میں تیار تھا کہ آئیں اور مجھے جان سے مار دیں ، جسٹس اطہر من اللہ

'خبریں' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏17 فروری 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    ہائیکورٹ حملہ : میں تیار تھا کہ آئیں اور مجھے جان سے مار دیں ، جسٹس اطہر من اللہ

    جے آئی ٹی تشکیل، ایس ایس پی سربراہ، آئی ایس آئی، ایم آئی، آئی بی کے نمائندے شامل ،جوڈیشل کمیشن کی استدعا مسترد ، پاکستان بارنے کارروائی کی حمایت کردی،ملوث لوگوں کو مثالی سزا ملنی چاہیے :چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ
    اسلام آباد ہائی کورٹ حملہ کیس کی تحقیقات کیلئے چیف کمشنر اسلام آباد نے ایس ایس پی انویسٹی گیشن کی سربراہی میں جے آئی ٹی تشکیل دے دی، چیف کمشنر آفس کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق جے آئی ٹی میں انٹیلی جنس اداروں آئی ایس آئی، ایم آئی اور آئی بی کے نمائندوں سمیت سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس سی ٹی ڈی، ایس پی صدر زون،ایس ڈی پی ا و تھانہ رمنااورایس ایچ اومارگلہ ممبر ہوں گے ، جے آئی ٹی حملے میں شامل وکلا کی نشاندہی کیلئے اسلام آباد ہائی کورٹ اور اسلام آباد ڈسٹرکٹ بار سے معاونت لے گی۔ دوسری طرف اسلام آبادہائیکورٹ نے ہائیکورٹ حملہ اور بے گناہ وکلا کو ہراساں کیے جانے سے متعلق درخواست پر سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا۔چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی عدالت سے جاری حکم نامہ میں کیاگیاہے کہ حملہ ناقابل فراموش واقعہ ہے جسے منطقی انجام تک پہنچائیں گے ،8فروری کو اس عدالت کی اتھارٹی کو چیلنج کیا گیا،بار پر اعتبار ہے وہ تفتیشی ٹیموں کو ملوث وکلا کے نام فراہم کریں گی ،بے قصور وکلا کو بچانے کیلئے بھی بار کا کردار اہم ہے ،عدالت کا یہ بھی کہنا ہے کہ جے آئی ٹی پیشہ ورانہ طریقے سے تفتیش مکمل کرے ،بے قصور وکلا کو ہراساں کیا جانا بھی ناقابل برداشت ہے ،یقین ہے وکلا کی اکثریت عوام کا اعتبار بحال کرنے کے لئے کردار نبھائے گی،کیس کی دوبارہ سماعت20فروری کو ہوگی۔ قبل ازیں چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے درخواست کی سماعت کے دوران سیکرٹری اسلام آباد ہائی کورٹ بارکی جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے ہدایت کی کہ بارایسوسی ایشن واقعہ میں ملوث وکلا کی نشاندہی کیلئے جے آئی ٹی کی معاونت کرے ۔ایڈووکیٹ جواد نذیر کی درخواست پر سماعت کے دوران سیکرٹری ہائیکورٹ بارسہیل اکبر چود ھری ، رضوان عباسی، راجہ انعام امین منہاس، آصف گجر، شعیب شاہین، نازیہ بی بی ،دانیال حسن اور ایس پی صدرسرفراز ورک عدالت میں پیش ہوئے ۔چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہاگزارش کی تھی کہ ہائی کورٹ اور ڈسٹرکٹ کورٹ کے صدر آئیں لیکن نہیں آئے ،جنہوں نے ہائیکورٹ پر حملہ کیا ان کی نشاندہی بار کرے تاکہ کسی بے قصور کو ہراساں نہ کیا جا سکے ،جب سب اس کی مذمت بھی کرتے ہیں تو ملوث وکلا کی نشاندہی بھی کریں،ہائیکورٹ پر حملہ کرنے والے سارے بار کے وکلا تھے آدھے سے زائد کو میں جانتا ہوں،بار کے دونوں صدور بھی اس وقت موجود تھے ان کی بے بسی بھی میں نے دیکھی ہے ،جنہوں نے پانچ گھنٹے ججز کو یرغمال رکھا وہ اس انتہائی گھناؤنے جرم کے مرتکب ہوئے ہیں،یہ واقعہ بالکل غلط ہوا ہے ، اس میں ملوث لوگوں کو مثالی سزا ملنی چاہیے ،چیف جسٹس آف پاکستان کا بھی فون آیا تھا مجھے کہا گیا کہ کارروائی کیلئے تیار ہیں لیکن میں نے کہا میں بالکل میدان جنگ نہیں بننے دوں گا،میں اس کیلئے بھی تیار تھا کہ آئیں اور مجھے جان سے مار دیں،اس موقع پر سیکرٹری ہائیکورٹ بار سہیل اکبر چود ھری نے جوڈیشنل کمیشن تشکیل دینے کی استدعا کی جسے عدالت نے مسترد کرتے ہوئے کہاکہ ایک سو لوگوں کے رویہ کی وجہ سے بار کی عزت داؤ پر ہے میں نے کسی کا نام نہیں لیا ،ہم سب ٹرائل پر ہیں ،یہ معاملہ قانون کے مطابق منطقی انجام تک پہنچنا چاہیے ،جے آئی ٹی نے رپورٹ دی ہے کہ وکلا اور بار ان سے تعاون نہیں کر ر ہیں ، اس وقت ذمہ داری بارز کی ہے ، سہیل اکبر چو دھری نے کہاکہ پھر اس معاملے کیلئے جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے ، چیف جسٹس نے کہاکہ آپ سب کو معلوم ہے کہ یہ سب کس نے کیا، اس کیلئے کسی کمیشن کی ضرورت نہیں،قانون اپنا راستہ خود بنائے گا، انتظامیہ اور پولیس کی بنائی گئی جے آئی ٹی ہی کام کرے گی، ہمیں موقع ملا ہے ،یہاں فوکس سے نہیں ہٹیں گے نہ ہی بارکی سیاست یہاں ہوگی،اگر ایسا کسی سیاسی جماعت کے لوگوں نے کیا ہوتا تو ریاست ان کے ساتھ کیا کرتی؟ شیر افضل ایڈووکیٹ نے کہا اگر پولیس اپنی ڈیوٹی کرتی اور ان لوگوں کو گیٹ پر ہی روکتی تو ایسا واقعہ پیش نہ آ تا ۔چیف جسٹس نے ایس پی صدر کو ہدایت کی کہ بار کے ساتھ رابطے میں رہیں کوئی بے قصور گرفتار نہ ہو،بارز ہی آپ کو سارے نام دینگی، چیف جسٹس نے بے قصور وکلا کو ہراساں کرنے پر وکلا سے معذرت کرتے ہوئے مذکورہ بالا ہدایات کے ساتھ سماعت ملتوی کردی۔دوسری طرف انسداددہشتگردی عدالت کے جج راجہ جواد عباس حسن نے گرفتار مزید ایک وکیل شعیب گجر کو جوڈیشل کرتے ہوئے پہلے سے گرفتار2وکلا شعیب شیخ اورظفروڑائچ کی ڈسچارج رپورٹ پر رہائی کے احکامات جاری کردیئے جبکہ 3وکلا کی درخواست ضمانت پر دلائل طلب کرتے ہوئے سماعت آج تک ملتوی کردی، مزیدبرآں اسلام آباد ہائیکورٹ کے خصوصی ڈویژن بینچ نے حملے میں گرفتار چار وکیلوں کی درخواست ضمانت پر فریقین کو جواب کیلئے نوٹسز جاری کردیئے ہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے لارجر بینچ نے جوڈیشل کمپلیکس تعمیراور ایف ایٹ میں فٹبال گراؤنڈ پر وکلا کے غیر قانونی قبضہ سے متعلق کیسز میں ڈپٹی اٹارنی جنرل اور وکیل سی ڈی اے سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ ماہانہ بنیاد پر حکومت اور سی ڈی اے جواب دے ۔ ادھرپاکستان بار کونسل نے اسلام آباد ہائیکورٹ پر حملہ کرنے والے وکلا کے خلاف کارروائی کی حمایت کردی ہے جبکہ ملاقات کیلئے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کو خط لکھ دیا ہے ، خط کے متن میں کہا گیا ہے کہ ہائی کورٹ حملے کے تناظر میں چیف جسٹس اسلام آباد اور معزز جج صاحبان سے ملاقات انتہائی ضروری ہے ، واقعہ میں ملوث وکلا کے خلاف شواہد کی بنیاد پر کارروائی کی حمایت کرتے ہیں،پاکستان بار کونسل عدلیہ کی آزادی، اس کے وقار کیلئے ہونے والی کوششوں کی مکمل حمایت کرتی ہے ،وکلا برادری سے ناپسندیدہ عناصر کو نکالنے کیلئے ہر اقدام کریں گے ،واقعہ میں ملوث وکلا کے خلاف شواہد اگر پاکستان بار کو نسل اور صوبائی بارز کو بھجوا ئے جائیں تو یقینی طور پر انکے خلاف سخت کارروائی کی جا ئیگی ۔اسلام آبادبارکونسل نے بے گناہ وکلا کی قانونی امداد کیلئے رضوان عباسی کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دیدی ہے ،دوسری طرف وکلا کی جزوی ہڑتال پیرکے روزبھی جا ری رہی جبکہ احتجاج کے پیش نظر عدالتوں کی سکیورٹی بدستورہائی الرٹ رہی۔

     

اس صفحے کو مشتہر کریں