1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ھماری ذمہ داریاں ایک محب وطن کی حیثیت سے

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از عبدالرحمن سید, ‏6 اگست 2007۔

  1. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    بعض اوقات قومی، مذھبی، اخلاقی ذمہ داریاں دیکھنے میں تو ایک عام حیثیت سی ھمیں محسوس ھوتی ھیں، اس لئے ھم انہیں معمولی حیثیت دیتے ھوئے ھمیشہ نظر اندز کردیتے ھیں، جبکہ اسکے نقصانات آپکی زندگی میں، اور بحیثیت ایک شہری کے اپکے ملک میں، اور بحیثیت ایک مسلمان کے آپکی مذہبی زندگی میں کیا کیا اثر ڈالتے ھیں، کیا کبھی کسی نے غور کیا ھے، جبکہ ھم بڑی بڑی تقریریں اور بحث کرتے ھیں، لیکن ان اپنی حقیقی ذمہ داریوں پر کبھی نظر نہیں ڈالتے،؟؟؟؟؟؟؟؟

    ایک میرا دوست ھے جو گورنمنٹ کے آفس میں ملازم ھے، وہ سیاست اور مذہب پر کافی بحث کرتا ھے، لیکن اسکی اپنی قومی ذمہ داری کے بارے میں اسکی زبانی ملاحظہ فرمائیں،!!!!

    وہ ھمیشہ اپنی ڈیوٹی پر دوپہر کے 11 بجے جاتا ھے اور دوپہر کے 3 بجے واپس آجاتا ھے، میں نے اسکی وجہ پوچھنی چاھی تو اس نے بڑے فخر سے کہا کہ، !!!!
    یار اپنے تو مزے ھیں، آرام سے آفس جاتا ھوں، رجسٹر پر حاضری لگاتا ھوں، اور بس کچھ چائے وغیرہ پیتا ھوں، کچھ گپ شپ ماری اور واپس، کبھی کبھی تو ھفتے میں دو تین چھٹیاں بھی کرلیتا ھوں،

    میں نے پوچھا کہ،!!!!!
    یہ بتاؤ کہ وہاں پر تمہیں کوئی بھی پوچھتا نہیں، ؟؟؟؟؟

    اس نے فخریا انداز سے یہ جواب دیا کہ۔!!!!
    ھمارے افسر خود ھی ھفتہ میں ایک بار آتے ھیں، تو ھمیں کیا پرواہ، تمھاری کمپنی کی طرح نہیں کہ جاؤ وقت پر اور آؤ وقت پر، صبح جاتے ھو اور شام کو لوٹتے ھو، یہ کیا نوکری ھے، اس طرح سے ھم تو ایک دن بھی نوکری نہیں کرسکتے،!!!!

    میں نے پھر حیرت زدہ ھوکر پوچھا کہ،!!!!!
    پھر حاضری کیسے لگاتے ھو، اور تمہیں تنخواہ کیسے ملتی ھے،؟؟؟؟

    اس نے پھر گردن اکڑا کرکہا کہ،!!!!
    ھم تو کئی کئی دن کی حاضری ایک ساتھ ھی لگا لیتے ھیں، اور جو تنخواہ کی شیٹ آگے بھیجتا ھے اسے ھم کچھ چائے پانی کیلئے دے دیتے ھیں، کیونکہ اس بےچارے کی تنخواہ بہت کم ھے اور اسی بہانے اسکی مدد بھی کردیتے ھیں،!!!!

    میں نے پھر پوچھا،!!!!
    پھر تو تمھارے دفتر میں کیا کام ھوتا ھوگا،؟؟؟

    اس نے جواباً کہا کہَ!!!!!
    ھمارے دفتر میں وہ لوگ کام کرتے ھیں، جن کو کچھ اُوپر کی آمدنی مطلب کمیشن وغیرہ سے واسطہ ھوتا ھے،

    میں نے پھر پوچھا کہ،!!!
    تو تم بھی اوپر کی آمدنی سے فائدہ کیوں نہیں اٹھاتے،؟؟؟؟

    اس نے بڑے نخرے سے جواب دیا کہ،!!!!
    ارے یار میں باھر اس سے زیادہ کماتا ھوں، صبح ایک اپنی دکان پر صبح 6 بجے سے 10 بجے تک بیٹھتا ھوں، اور شام کو پارٹ ٹائم ایک پرائویٹ دفتر میں کام کرتا ھوں، ایک اچھی خاصی آمدنی ھو جاتی ھے،!!!!

    جاری ھے، !!!!!
     
  2. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    ساتھ اس نے یہ بھی جواب دیا کہ !!!!!!

    میں تو حلال کی روزی کماتا ھوں، اس لئے آوپر کی آمدنی کو ھاتھ تک نہیں لگاتا،!!!!!

    اب کوئی ان سے یہ پوچھے کہ دفتر کے وقت وہ جو باہر دوسرا کام کرتے ھیں کیا وہ حلال ھے،!!!!!!!!


    ایسے آپکو گورنمنٹ ملازم کئی ملیں گے، ایک وقت تھا کہ اسی چھوٹی سی تنخواہ میں گزارہ ھو جاتا تھا لیکن اب مجبوری ھے، ھر کسی کے گھر کے رھن سہن کا اسٹینڈرڈ کافی آگے جا چکا ھے، !!!!!

    گورنمنٹ ملازم دو قسم کے ھیں ایک وہ جو اوپر کی آمدنی اور کمیشن لینے کی وجہ سے اپنی کرسی جمائے بیٹھے ھیں، اور دوسری قسم ان کی ھے جو اس حرام کو ھاتھ نہیں لگاتے، مگر دفتر کے اوقات میں وہ باھر کوئی نہ کوئی جگاڑ لگائے بیٹھے ھیں،

    چند ایک تو ایسے ھیں بچارے، ملازمت تو سرکاری کہیں اور ھے، لیکن اس اوقات میں کچھ نہیں تو پاسپورٹ آفس کے باھر ھی اپنا ایک چھوٹا سا موبائیل ٹائپ کا ٹیبل لگائے بیٹھے ھیں، کیونکہ جب وہ بھتہ نہیں پہنچاتے تو وہاں چھاپہ پڑ جاتا ھے، اور انہیں اپنی ٹیبل کے ساتھ بھاگنا پڑتا ھے،!!!!!

    ایک دفعہ کیا کئی دفعہ بھی مجھے پاسپورٹ آفس جانا پڑا کبھی تجدید کے سلسلے میں اور ایک دفعہ اپنا پیشہ بدلوانے کے چکر میں،
    شکر ھے کہ نام بدلوانے کی نوبت نہیں آئی، ورنہ یہ بھی وہاں کوئی مشکل نہیں ھے، ایک بس کچھ اضافی مطالبہ کی منہ مانگی قیمت آپ وہاں باھر بیٹھے میزیں سجائے کسی کو دے دیجئے اور آپکو آپکے مختلف نام کا اصل پاسپورٹ بمعہ اصل نادرا کے شناختی کارڈ کے ساتھ مل جائے گا،

    شکر ھے کہ ابھی یہاں صرف نام ھی بدلے جاتے ھیں، ھوسکتا ھے کہ لوگ کچھ دنوں کے بعد جنس بھی بدلوانے کے لئے پاسپورٹ آفس کے چکر لگایا کریں گے، !!!!!!

    دنیا کا کوئی بھی کام کیوں نہ ھو وھاں پاسپورٹ آفس کے باھر آپکا ھر کام ھوجاتا ھے، آپ چاھیں تو ھر چیز آپکے گھر تک بھی پہنچانے کا خاص انتظام ھے، اگر آپ چاھیں کہ قانونی طور پر باقاعدگی سے کوئی کام کروا لیں یہ تو بالکل ممکن ھے ھی نہیں!!!!!

    مجھے بھی شروع شروع میں ، یہاں آنے سے پہلے کئ سرکاری دفاتر کے چکر لگانے پڑے اور میں نے یہ نظارے کھلم کھلا اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھے ھیں، کوئی کام آپ صحیح قانونی طریقوں سے نہیں کراسکتے، کس کس کو آپ روئیں گے کیونکہ ھم خود بھی اس کا حصہ ھیں،!!!!!

    وہاں پر ماشااللٌہ بڑے بڑے پانچوں وقت کے باریش نمازی بھی دیکھے، اور انہی سے باریش نمازی لوگوں کو انکی میزوں ‌کے سامنے ناجائز طریقے سے کام کراتے ھوئے بھی دیکھا، وہ اسے غلط نہیں سمجھتے کہتے ھیں کہ مجبوری میں سب کچھ جائز ھے،!!!!

    جاری ھے
     
  3. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    ایک دفعہ شاید سنمبر 1989 میں جب مجھے اسی اسپتال کے لئے اکاؤنٹنٹ کی ملازمت کے سلسلے میں ایک آفر لیٹر ملا اور میں نے اسے قبول کرکے اپنے دستخط کئے اور واپس بھیج کر ویزے کا انتظآر کرتا رھا، مگر افسوس کہ ویزا لیٹ ھوگیا کیونکہ یہاں پاکستان میں تمام ویزے میڈیکل فیلڈ کے تھے، تو اکتوبر 1989کے آخیر میں میرے نام پر ھی ویزا بھیجا گیا، کسی ایجنٹ کے نام پر نہیں تھا، اس لئے میں نے سوچا کہ کیوں نہ خود ھی قسمت آزمائی کی جائے، فوراً ھی میں سعودی سفارت خانہ پہنچا، وہاں پہلے ویزا کنفرم کیا، اور فارم کے ساتھ پاسپورٹ جمع کرادیا، لیکن ویزے کی قسم “میل نرس“ کی ھی تھی،
    دوسرے دن ھی مجھے پاسپورٹ بمعہ ویزا اسٹمپ ھوئے مل گیا، مجھے خود حیرانگی ھوئی، کہ کوئی بھی پریشانی آٹھائے ھوئے میرے پاسپورٹ پر ویزا لگ گیا جبکہ پہلے پاسپورٹ کی تجدید کے لئے کافی پریشانی اٹھانی پڑی تھی،!!!!!!

    چلئے خیر اب ھم پہنچے پروٹیکٹر آفس جہاں پر نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ کی اسٹمپ لگتی ھے اور ساتھ ھی انشورینس بھی کرانی پڑتی ھے، پہلے دن تو کچھ تاخیر سے پہنچا تو لائن میں لگ کر جب کھڑکی تک پہنچا تو کھڑکی بند اور پھر دوسرے دن صبح صبح پہنچ گیا اس وقت بھی بہت بڑی لمبی لائن لگی ھوئی تھی، ایسا لگتا تھا کہ لوگوں نے یہیں پر ھی بستر لگائے ھوئے تھے، بہرحال جب نمبر آیا تو فارم پاسپورٹ کے ساتھ دیا، تو اس نے یہ کہہ کر واپس کردیا کہ پاسپورٹ پر اپنا پیشہ بدلواؤ، میں نے کہا کہ بھئی پاسپورٹ پر تو پرائویٹ سروس لکھا ھوا ھے، کھڑکی سے اس نے غصہ میں جواب دیا کہ تمھیں نظر نہیں اتا، کہ ویزے پر پیشہ تو “میل نرس“ کا ھے، پاسپورٹ پر بھی یہی پیشہ ھونا چاھئے،

    ٌلائن میں لگنے سے پہلے مجھے ایک صاحب ملے تھے اور کہا بھی تھا کہ اگر میں کام جلدی کروانا چاھتے ھیں تو میں کرادونگا، وھی صاحب میرے پاس آئے اور اپنی ٹوپی سیدھی کرتے ھوئے بولے، !!!!!!
    کیا ھوا بھائی کام نہیں ھوا،؟؟؟؟؟؟

    میں نے مایوسی کی حالت میں کہا کہ،!!!
    نہیں اس نے پاسپورٹ پر پیشہ بدلوانے کو کہا ھے،!!!!!!

    اس آدمی نے میرا پاسپورٹ لیا اور دیکھنے لگا، اور کچھ دیکھ کر کہا!!!!
    ھاں بھئی پاسپورٹ آفس جاؤ اور وہاں سے اپنا پیشہ بدلوا کر لاؤ، اور باقی کام میں کرادوں گا،!!!!!

    میرا سارا دن وہیں پر ضائع ھو گیا ، مجھے یہ تو معلوم تھا کہ ویزا “میل نرس“ کا ھی تھا، کیونکہ یہاں پاکستان میں اس اسپتال کے سارے ویزے میڈیکل فیلڈ سے ھی تعلق رکھتے تھے، اور میرے پاسپورٹ پر صرف “پرائویٹ سروس“ ھی لکھا ھوا تھا، مجھے سمجھ میں نہیں آیا کہ اس پر کوئی اعتراص تو نہیں ھونا چاھئے تھا، کیونکہ سعودی ایمبیسی نے کوئی بھی اعتراض نہیں ‌اٹھایا تھا، میں نے وھاں سعودی عرب میں اسی اسپتال میں ٹیلیفوں پر بات کی کہ یہ مسئلہ ھے، وھاں سے جواب ملا کہ آپ کا پیشہ یہاں آئیں گے تو بدل دیا جائے گا، لیکن اس وقت ھمارے پاس پاکستان کیلئے صرف میڈیکل پیشے سے تعلق رکھنے والے ھی ویزے ھیں، مجبوری ھے!!!!!

    مجبوراً میں وہاں پاسپوٹ آفس پہنچا، کافی پریشانی اٹھائی لیکن سیدھے طریقے سے میرا پیشہ بدل نہیں سکا، جبکہ میں نے ساری صورت حال انہیں بتائی کہ میں تو ایک اکاؤنٹنٹ ھوں اور مجھے وھاں سے ایک آفر لیٹر میں بھی دکھایا جس میں اکاونٹٹ کی ھی تقرری ھی لکھی ھوئی تھی، لیکن وہاں کے کسی بھی انچارج کو میں قائل نہ کرسکا، انہوں نے کہ یہ اسی صورت ھوسکتا ھے کہ آپ “میل نرس“ کا سرٹیفیکیٹ یہاں کے مقامی اسپتال سے لے آئیں اور وہ “میڈیکل کونسل آف نرسنگ“ سے تصدیق شدہ ھونا چاھئے،!!!!

    میں پاسپورٹ آفس کے مین گیٹ سے مایوسی کے عالم میں باھر نکلا تو کافی لوگ میری حالت دیکھ کر چپک گئے، بھائی صاحب آپ بتائے آپ کا کام کیا ھے ھم فوراً ابھی اسی وقت آپکا کام کرادیں گے، مجھے سامنے ھی وھی آدمی نظر آیا جس نے میرے پاسپورٹ کی تجدید کرائی تھی، وہ میرے پاس آیا اور سب لوگوں کو یہ کہہ کر بھگا دیا کہ یہ میرے گاھک ھیں،!!!، میں بھی انکی ٹیبل کے سامنے ایک اسٹول پر جاکر بیٹھ گیا، اور ساری روداد سنادی، انہوں نے کہا کہ جب میں یہاں آپکا خادم باھر میز لگا کر بیٹھا ھوں تو آپ کو اِدھر اُدھر بھٹکنے کی کیا ضرورت ھے،پہلے بھی آپکو پاسپورٹ تجدید کرانے میں کتنی مشکل پیش آئی تھی اور میں نے آپکا کام ایک گھنٹے میں کروادیا تھا، اب جب بھی کوئی بھی پاسپورٹ کے علاوہ بھی کوئی اور کسی بھی گورنمنٹ کے کھاتے کا کام ھو میرے پاس تشریف لائیں، میں یقین کے ساتھ کہتا ھوں کہ آپکا کام فوراً سے پیشتر کروادوں گا، مگر جیسا کام ویسا ھی دام بھی ھوگا!!!!

    مجبوری تھی کیونکہ اس ویزے کے آتے ھی میں یہاں ایک اچھی خاصی نوکری چھوڑ بیٹھا تھا، شادی شدہ بال بچوں کے ساتھ تھا اور والدین بہن بھائی سب تھے ساتھ ھی گھر کا میں بڑا بیٹا بھی تھا، کیا کرتا مجبوراً میں نے اس سے پوچھا اسکے کتنے دام ھونگے،اس نے 500 روپے کا نسخہ بتایا اور 300 روپے گورنمنٹ کی فیس اس کے علاؤہ تھی جوکہ میں پہلے ھی بنک میں جمع کراچکا تھا، میں نے بھی کچھ رقم اسی سلسلے کے لئے ایک دوست سے ادھار لی ھوئی تھی، اسی وقت اسے اس کی مطلوبہ رقم اس کے ھاتھ میں رکھی، اور اس نے مجھ سے پاسپورٹ اور فارم لئے اندر چلا گیا، اور صرف آدھے گھنٹے کے اندر اندر وہ باھر آگیا، میں سمجھا کہ شاید میرا کام نہیں ھوا، لیکن اس نے مجھے پاسپورٹ دے دیا، کھول کر دیکھا تو میرے پیشہ تبدیل ھوچکا تھا، اور ایک صفحہ پر تصدیق شدہ مہر کے ساتھ اور متعلقہ انچارج کے ساتھ، !!!!!!

    کمال ھے میں نے اس سے پوچھا بھئی یہ کیسے ھوگیا، اس نے جواب دیا کہ جتنے بھی اندر بیٹھے ھیں، سارے چور ھیں اور ھم سے پیسہ لے کر کام کرتے ھیں، اور ھم بھی یہاں پر کچھ ان کی بدولت کچھ نہ کچھ کما لیتے ھیں، اگر کوئی بھی کام ھوا کرے میرے پاس بلاجھجک چلے آنا، میں تمھارے لئے کچھ نہ کچھ رعائت کردونگا، میری شکل پہچان لو، یہیں میں گیٹ کے سامنے بیٹھتا ھوں،!!!!!!

    جاری ھے،!!!!!
     
  4. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    کمال ھے میں نے اس سے پوچھا بھئی یہ کیسے ھوگیا، اس نے جواب دیا کہ جتنے بھی اندر بیٹھے ھیں، سارے چور ھیں اور ھم سے پیسہ لے کر کام کرتے ھیں، اور ھم بھی یہاں پر کچھ ان کی بدولت کچھ نہ کچھ کما لیتے ھیں، اگر کوئی بھی کام ھوا کرے میرے پاس بلاجھجک چلے آنا، میں تمھارے لئے کچھ نہ کچھ رعائت کردونگا، میری شکل پہچان لو، یہیں میں گیٹ کے سامنے بیٹھتا ھوں،!!!!!!

    جاری ھے،!!!!!


    میں نے بھی سکون کا سانس لیا، اور دوسرے دن صبح صبح پروٹیکٹر آفس پہنچا اور میں جاکر سیدھا لائن میں لگ گیا، میں نہیں چاھتا تھا کہ اس آدمی سے ملوں اور پھر کوئی دوسرا غلط طریقہ اختیار کروں، اب تو کوئی مسئلہ بھی نہیں تھا اور پاسپورٹ پر پیشہ “میل نرس“ کا تبدیل ھوچکا تھا، مجھے اس وقت مکمل امید تھی کہ اب کوئی اعتراض نہیں اٹھے گا، جب میرا نمبر آیا تو انھوں نے میرا نرسنگ کا سرٹیفکیٹ مانگا جو کہ “پاکستان میڈیکل کونسل آف نرسنگ“ سے تصدیق شدہ بھی ھو، اور اس کے علاوہ انہوں نے ایک اور مسئلہ کھڑا کردیا کہ بھئی آج کل تو میڈیکل اسٹاف کو باھر جانے کیلئے وزارتِ صحت“ یعنی “منسٹری آف ھیلتھ“ سے اجازت نامہ یعنی “نو آبجیکشن سرٹیفیکیٹ“ لینا ضروری ھے، میں نے ان کو پھر نئے سرے سے پھر اپنے اکاونٹنٹ‌ کی سروس کا لیٹر دکھاتے ھوئے ساری روداد سنائی، مگر انہوں نے اپنی مجبوری ظاھر کرتے ھوئے انکار کردیا، !!!!!

    جیسے وھاں سے مایوس ھوکر باھر نکلا وہی آدمی پھر مل گیا، اور کہا،!!!! ھاں بھائی سناؤ تمھارا کام بنا یا نہیں،!!!!!

    میں نے جواب دیا کہ!!!! نہیں انہوں نے انکار کردیا، کیونکہ انہیں وزارتِ صحت سے اجازت نامہ چاھئے، اب یہ میں کہاں سے لاؤں،!!!!!!

    اس نے فوراً کہا،!!!
    دیکھو اس چکر میں نہ پڑو، اگر تم چاھتے ھو کہ تمھارا کام ھوجائے، تو مجھے کہو میں تمھارا آج ھی اور اسی وقت تمھارا کام کرادیتا ھو،!!!!!!

    میں نے کہا کہ،!!!!
    کیسے ھوگا یہ کام بھائی صاحب،!!!!

    اس نے جواب دیا کہ،!!!
    بس صرف پانچ ہزار روپے ھدیہ دینا ھوگا اور باقی گورنمنٹ کی فیس اور انشورینس وغیرہ الگ سے ادا کرنے ھونگے،!!!!!

    میں نے کہا کہ،!!!!
    اس کے علاؤہ کوئی چارہ نہیں ھے، !!!!!

    اس نے تنزیہ انداز میں کہا کہ،!!!
    ھاں دوسری تجویز بھی ھے، یہاں سے تمھیں اسلام آباد جانا ھوگا، وھاں پر وزارت صحت کے دفتر پہنچو، اور اپنی درخوست دو تو شاید وہ کچھ تمھاری فریاد پر غور کریں اور تمھیں باھر جانے کا اجازت نامہ دے دیں، مگر یہ اتنا آسان نہین ‌ھے بھائی، مجھے 5000 روپے دو اور فوراً اپنا کام ابھی اور اسی وقت کرالو،!!!!

    میرا دل نہیں مانا میں تو یہ سمجھا کہ شاید یہ مجھ سے بس روہے اینٹھنا چاھتا ھے، میں نے اس سے کل کے آنے کا بہانہ کرکے اس سے جان چھڑائی اور وہ شخص مجھے آخری وقت تک قائل کرنے کی کوشش کرتا رھا، لیکن میں اسکی ھاں میں ھاں ملاتا ھوا بس اسٹاپ تک پہنچا، وہ بھی میرے پیچھے پیچھے چلا آرھا تھا، شاید آج اس کے پاس کوئی مرغا نہیں پھنسا تھا اور آخرکار مجھے اسکو چائے پلا کر ھی فارغ کرنا پڑا، مجھے تو وہ کوئی فراڈ ھی لگ رھا تھا،!!!!!!

    تھک ھار کر میں گھر پر آگیا اور مجھے بہت ھی دکھ ھو رھا تھا، اسی چکر میں اچھی خاصی نوکری چھوڑ بیٹھا تھا، اور ادھار پر ادھار لئے جارھا تھا، ویزا تو لگ چکا تھا، پاسپورٹ پر بھی پیشہ تبدیل ھوچکا تھا، اور اسی دوران ویزے کو لگے ھوئے بھی ایک مہینہ گزر چکا تھا، ویزے کی معیاد شاید تین مہینے کی تھی، نومبر1989 کا آخری ھفتہ چل رھا تھا، نوکری چھوڑے ھوئے بھی دو مہینے ھو چکے تھے، ایک ھمارے جاننے والوں کے پاس پارٹ ٹائم ایک جاب کرنے لگا، جہاں سے وہ مجھے گزارے کیلئے ھر ھفتے کچھ نہ کچھ گزارے کیلئے میرے ھاتھ میں رقم رکھ دیتے تھے، میں ان کا احسان زندگی بھر نہیں بھول سکتا کہ انہوں نے میری اس مشکل کے دنوں میں مدد کی،!!!!
     
  5. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    تھک ھار کر میں گھر پر آگیا اور مجھے بہت ھی دکھ ھو رھا تھا، اسی چکر میں اچھی خاصی نوکری چھوڑ بیٹھا تھا، اور ادھار پر ادھار لئے جارھا تھا، ویزا تو لگ چکا تھا، پاسپورٹ پر بھی پیشہ تبدیل ھوچکا تھا، اور اسی دوران ویزے کو لگے ھوئے بھی ایک مہینہ گزر چکا تھا، ویزے کی معیاد شاید تین مہینے کی تھی، نومبر1989 کا آخری ھفتہ چل رھا تھا، نوکری چھوڑے ھوئے بھی دو مہینے ھو چکے تھے، ایک ھمارے جاننے والوں کے پاس پارٹ ٹائم ایک جاب کرنے لگا، جہاں سے وہ مجھے گزارے کیلئے ھر ھفتے کچھ نہ کچھ گزارے کیلئے میرے ھاتھ میں رقم رکھ دیتے تھے، میں ان کا احسان زندگی بھر نہیں بھول سکتا کہ انہوں نے میری اس مشکل کے دنوں میں مدد کی،!!!!

    بہرحال میں کچھ مایوس ھو چکا تھا، ھر کوئی مجھے ایک نیا مشورہ دے رھا تھا، والد صاحب مجھ سے الگ ناراض تھے، کہ نوکری چھوڑ کر ویزے کے چکر میں دو مہینے ضائع کرچکا تھا، جبکہ انہیں تمام کہانی سنا بھی دی لیکن انہیں سمجھ نہ آئی، خیر میں دوسرے دن ھی صرف اپنی بیگم کو اور امی کو بتا کر اسلام آباد روانہ ھوگیا، تاکہ وہاں سے وزارت صحت سے میرے باھر جانے کا اجازت نامہ لے لوں، شناختی کارڈ پاسپورٹ اور تمام ضروری دستاویزات، اسکول کالج سب اصل سرٹیفکیٹ اور ڈگری لئے اسلام آباد پہنچ گیا، دسمبر 1989 کا مہینہ شروع ھوچکا تھا،!!!!!

    وہاں اپنے ایک رشتہ دار کے یہاں پہنچا انہیں اپنی تمام کہانی شروع سے سنائی، اور وہ مجھے انکے دوست کے پاس لے گئے، انہکو پھر نئے سرے سے ساری کہانی سنادی، انہوں نے کہا کہ میں کوشش کرکے دیکھتا ھوں، دوسرے دن ان صاحب سے بات ھوئی تو انہوں نے کہا کہ بہت مشکل ھے اس کے لئے تو سب سے نرسنگ کا سرٹیفکیٹ بنوانا پڑے گا پھر اسے “پاکستان میڈیکل کونسل آف نرسنگ“ سے رجسٹر کروا کر باقائدہ تصدیق کرانا ھوگا، اور پھر اس تمام پروسس کے بعد آپ باھر جانے کیلئے وزارت صحت کو اجازت نامہ کیلئے درخواست دینی ھوگی، اب ان کی مرضی ھے کہ اجازت دیں یا نہ دیں،!!!!

    اس تمام کاروائی کیلئے ایک صاحب نے کہا کہ وہ یہ سارے کام کروادیں گے لیکن اس پر 45000 روپے تک کا خرچہ آئے گا، میں تو سر پکڑ کر بیٹھ گیا، ھر دفعہ کوئی نئی مشکل کھڑی ھوجاتی ھے، پھر میں نے ایک کوشش اور ایک اور دوست جو میرے ساتھ پہلے 1978 سے 1983 تک سعودی عرب میں ایک کنسٹرکشن کمپنی میں ساتھ کام کرچکے تھے، ان کے پاس پہنچا، وہ مجھے ایک کسی حکومت وقت کے ایک سیاسی کارکن کے پاس لے گئے، وہ مجھے فوراً ساتھ لے کر راولپنڈی کے پروٹیکٹر آف امیگریشن کے آفس لے گئے اور وھاں وہ مجھے سیدھا ایک ڈائریکٹر کتے پاس لے گئے، انہوں نے کہا کہ فارم وغیرہ بھر دو، اور کھڑکی پر جمع کرادو، فارم پہلے ھی سے میرے پاس پہلے کا بھرا ھوا رکھا تھا اس فارم پر انہوں نے دستخط کئے، اور میں نے کاونٹر پر جمع کرادیا، اور جو میرے ساتھ آئے تھے وہ واپس چلے گئے، خیر مجھے انتظار کرنے کو کہا گیا کچھ ھی دیر میں ایک صاحب نے مجھے کاونٹر سے ھی پاسپورٹ بغیر پروٹیکٹر اسٹیمپ کے واپس کردیا، میں نے وجہ پوچھی تو انہوں نے کاغذات مکمل نہ ھونے کا بہانہ کیا، دو تین دفعہ اسی طرح سفارش سے کام کرانے کی کوشش کی لیکن ناکام رھا، اب تو میں ھمت ھار چکا تھا،!!!!!

    اسی طرح مجھے وہاں پر تقریباً 20 دن گزر چکے تھے، سخت سردیوں کے دن تھے میں نے اپنا ارادہ باھر جانے کا ترک کیا، اور راولپنڈی میں اپنی پرانی کنسٹرکشن کمپنی کے ھیڈ آفس پہنچ گیا اور وھاں اپنے تمام پرانے دوستوں سے ملاقات کی، ایک میرے پرانے باس جناب خواجہ خالد محمود صاحب کے پاس کافی دیر تک بیٹھا، اور اپنے سارے دکھ درد ان سے کہہ ڈالے، اور کہا کہ مجھے اب دوبارا یہیں پر آپ مجھے نوکری دلوادیں کیونکہ میں واپس خالی ھاتھ اسی طرح نہیں جاسکتا، کیونکہ والد صاحب بہت غصہ ھونگے، میں تو ان سے پوچھے بغیر یہاں آیا تھا،!!!!

    خواجہ خالد محمود صاحب نے مجھے کافی حوصلہ دلایا، اور کہا کہ، !!!! ایک کوشش اور کرکے دیکھتے ھیں، ایک میرے ڈاکٹر دوست ایک اسپتال میں
    ‌کام کرتے ھیں، گھبراؤ نہیں، اگر کہیں کچھ نہ ھوسکا تو اسی کمپنی میں تمھارے لئے ضرور کوشش کریں گے، اور انشااللہ تعالی میری دعاء یہی ھے کہ تم خالی ھاتھ واپس نہیں جاؤ گئے،!!!!! وہ پھر مجھے اپنے ساتھ اپنے گھر لے گئے اور وہاں ان کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھایا، اور بعد میں میں نے ان سے اجازت لی، انہوں نے مجھے تاکید کی کہ شام کو یہیں میرے گھر پر آجانا تو ھم دونوں مل کر ساتھ اسپتال ایک دوست کے پاس چلیں گے اور تمھارے نرسنگ کے سرٹیفکیٹ کے بارے میں معلومات کریں گے، اسکے وزارت ھیلتھ میں بھی کافی تعلقات ھیں !!!!!!!

    مجھے ایک اور امید کی کرن نظر آئی، اور کچھ دل میں ایک سکوں سا محسوس ھوا، اسی دوران میں وھاں سے وقت گزارنے کیلئے ایک دوست کے پاس چلا گیا، اور شام ھوتے ھی وعدے کے مظابق خالد صاحب کے گھر پہنچا، تو دیکھا کہ ان کے گھر پر تالا لگا ھوا تھا، میں نے وہاں کھڑے ھوئے چند لوگوں سے پوچھا کہ خواجہ خالد محمود صاحب کا پتہ ھے کہاں چلے گئے، ان میں سے ایک نے جواب دیا کہ ان کا کچھ دیر پہلے ھی ھارٹ اٹیک کے سبب انتقال ھوچکا ھے ان کی میت اس وقت ان کے والد صاحب کے گھر پر ھے، جو کوہ نور ملز میں کام کرتے ھیں،اور وہیں انکے بنگلے سے ھی رات کو عشاء کے بعد ان کی تدفین نزدیکی قبرستان میں ھوگی،!!!!

    یہ سنتے ھی میرے پیروں کے تلے سے زمین نکل گئی اور مجھے چکر سے آنے لگے اور میں ‌وہیں زمین پر بیٹھ گیا، اور میری آنکھوں سے آنسو جاری تھے،!!!!!!

    جاری ھے،!!!!!!
     
  6. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    مجھے ایک اور امید کی کرن نظر آئی، اور کچھ دل میں ایک سکوں سا محسوس ھوا، اسی دوران میں وھاں سے وقت گزارنے کیلئے ایک دوست کے پاس چلا گیا، اور شام ھوتے ھی وعدے کے مظابق خواجہ خالد محمود صاحب کے گھر پہنچا، تو دیکھا کہ ان کے گھر پر تالا لگا ھوا تھا، میں نے وہاں کھڑے ھوئے چند لوگوں سے پوچھا کہ خالد محمود صاحب کا پتہ ھے کہاں چلے گئے، ان میں سے ایک نے جواب دیا کہ ان کا کچھ دیر پہلے ھی ھارٹ اٹیک کے سبب انتقال ھوچکا ھے ان کی میت اس وقت ان کے والد صاحب کے گھر پر ھے، جو کوہ نور ملز میں کام کرتے ھیں،اور وہیں انکے بنگلے سے ھی رات کو عشاء کے بعد ان کی تدفین نزدیکی قبرستان میں ھوگی،!!!!

    یہ سنتے ھی میرے پیروں کے تلے سے زمین نکل گئی اور مجھے چکر سے آنے لگے اور میں ‌وہیں زمین پر بیٹھ گیا، اور میری آنکھوں سے آنسو جاری تھے،!!!!!!

    جاری ھے،!!!!!!


    اپنی زندگی میں ایسی ٹریجڈی میں‌ نے کبھی نہیں دیکھی تھی، کچھ وقت پہلے ھی میں نے ان کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھایا تھا، وہ میرے بہت ھی مہربان انجارج رھے تھے، جب میں اسی شہر راولپنڈی میں ھی اس کمپنی میں 1983 سے 1985 تک میرا ان کا بہت ھی اچھا ساتھ رھا تھا، اور وہ ھمیشہ سب کے ساتھ بغیر کسی عذر کے خدمت کرتے رھے، اور آج شاید میری ان سے آخری ملاقات ھونی تھی، اس لئے میں ان سے کسی کام کے سلسلے میں مدد کیلئے آیا تھا، لیکن وہ میری مدد کئے بغیر ھی چلے گئے، مگر ان کی دعاء آج تک مجھے یاد ھے کہ “ انشااللہ تعالی میری دعاء یہی ھے کہ تم خالی ھاتھ واپس نہیں جاؤ گے“،!!!!!“

    میں وھاں سے سیدھا خواجہ خالد محمود صاحب کے گھر کوہ نور ملز کے رھائشی بنگلوز میں پہنچا، اور وہاں پر کافی ھزاروں کی تعداد میں لوگ ان کا آخری دیدار کرنے آئے تھے، ان میں سے کافی میرے بھی جاننے والے تھے اور سب کی آنکھوں میں آنسو تھے اور کچھ تو دھاڑیں مار کر رو رھے تھے، انکے بھائی سے میری اچانک ملاقات ھوئی، ان سے میری ملاقات ان کے مرحوم بھائی کے گھر پر ھی دوپہر میں کھانے پر ملاقات ھوئی تھی، وہ مجھ سے لپٹ گئے اور روتے ھوئے کہہ رھے تھے کہ آج آپکے ساتھ وہ دوپہر میں کھانے پر بالکل صحیح سلامت تھے ، اور اس وقت دیکھو ان کی میت رکھی ھوئی ھے،!!!! انکے والد صاحب بھی بہت رورھے تھے،!!!!!

    مجھے وہ اپنے ساتھ اندر لے گئے اور آخری دیدار کرایا، مجھے یقیں ھی نہیں آرھا تھا کہ انکا انتقال ھو گیا ھے، ان کا چہرہ بالکل ھشاش بشاش لگ رھا تھا، لگتا تھا کہ وہ ابھی اٹھیں گے اور کہیں گے چلو سید بھائی اور میرے ساتھ میرے کام کے لئے چل دیں گے، ان کے اس حادثہ کے بعد تو میں نے اپنا باھر جانے کا اردہ بدل ھی لیا تھا،!!!!!!

    خواجہ صاحب کی تدفین کے بعد سب سے رخصت لیتا ھوا، میں سیدھا اپنے دوست کے پاس آیا اور دوسرے دن اسی اپنی پرانی کمپنی میں دوستوں سے ملنے کیلئے گیا، اس دن اس کمپنی میں بالکل سوگ کا عالم تھا، سب سے ملتے ھوئے میں اجازت لے رھا تو ایک انکے ھی دوست جناب حاجی نسیم صاحب نے مجھ سے کہا کہ تمھارا کام اب میں کراونگا اس وقت میرے ساتھ چلو، وہ میرے والد صاحب کے دوستوں میں سے بھی تھے، مگر میں بے دلی سے صرف انکا دل رکھنے کیلئے ان کے ساتھ چل دیا،

    وہ مجھے ان کے دوست کی ایک ٹریول ایجنسی پر لے گئے، اور وہاں انہون نے کہا کہ یہ میرے بچوں سے بھی زیادہ عزیز ھے اس کا کام ھونا چاھئے، ساری کہانی پھر سے میں نے سنائی، انہوں نے کہا کہ،!!!! کوئی مسئلہ ھی نہیں حاجی صاحب کل اسکا کام ھوجائے گا، اپ کوئی فکر ھی نہ کریں میں نے انہیں سارے دستاویزات دکھائے، انہوں نے کہا کہ مجھے کچھ نہیں چاھئے آپ بس مجھے پاسپورٹ دے دیں اور کل آکر کسی بھی وقت لے جائیں، !!!!!!

    مجھے امید تو بالکل نہیں تھی لیکن مجھے مرحوم خواجہ خالد محمود صاحب کی ایک دعاء پھر یاد آرھی تھی،!!!!!

    انشااللہ تعالی میری دعاء یہی ھے کہ تم خالی ھاتھ واپس نہیں جاؤ گئے،!!!!!

    دوسرے دن میں اسی ٹریول ایجنسی پر پہنچا اور وھاں پر انہوں نے مجھے کچھ انتظار کرنے کو کہا اور کسی کو ٹیلیفون کیا پھر کچھ ھی دیر میں ایک صاحب داخل ھوئے انہوں نے ان صاحب کو میرا پاسپورٹ دیا، انہوں نے پاسپورٹ کو چیک کیا اور مجھے تھما دیا کہ جاؤ بیٹا خوش رھو تمھارا کام ھوگیا، بس مجھے صرف 219 روپے انہیں دینے پڑے، مجھے تو یہ حیرت انگیز ھی دکھائی دے رھا تھا، اور مجھے یہ یقین ھی نہیں
    ‌آرھا تھا کہ میرا کام ھوگیا ھے اور وہ بھی صرف 219 روپے میں،!!!!!!!! اور میں 31 دسمبر 1989 کو کراچی ائرپورٹ سے جدہ کیلئے ایک سعودیہ کی پرواز سے روانہ ھوگیا،!!!!!!

    یہ میری کہانی “ یادوں کی پٹاری“ کا ایک موڑ ھے، اس کہانی کو اس لڑی میں لانے کا مقصد میرا صرف یہی تھا کہ ھمارے معاشرے میں ھم سب کیا کیا اپنا کردار نبھا رھے ھیں، ھر کوئی خوب سے خوب تر کے چکر میں ھے اور اپنی آمدنی کو جائز ناجائز طریقوں سے اضافہ کرنے کیلئے اپنے ذرایع اور وسائل کو غلط استعمال میں لا رھا ھے،!!!!

    اور بھی ایسے کرداروں کو آپ سب کے سامنے لانے کی کوشش کرونگا، جو ھمارے پاکستان کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے میں مصروف ھیں اور یہ سب جانتے ھیں، حکومت کوئی بھی ھو کسی کا کچھ نہیں ‌بگاڑ سکتی کیونکہ یہ ھر جگہ، ھر علاقے، میں ھر شہر، اور ھر محکمہ میں موجود ھیں، اور یہ سب ھم میں سے ھی ھیں،!!!!!!
     

اس صفحے کو مشتہر کریں