1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

گینڈے کا دماغ چھوٹا کیوں؟ تحریر : بوب سٹراس

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏2 فروری 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    گینڈے کا دماغ چھوٹا کیوں؟
    تحریر : بوب سٹراس

    گینڈوں کی پانچ اقسام ہیں اور زیادہ تر یہ ایک دوسرے سے مختلف علاقوں میں رہتی ہیں۔ یہ گزشتہ پانچ کروڑ برسوں سے کرۂ ارض پر رہ رہے ہیں۔ گینڈوں کا شمار طاق انگشتہ میں ہوتا ہے، یہ میملز کا وہ خاندان ہے جس کی غذا نباتات ہوتے ہیں، معدہ نسبتاً سادہ ہوتا ہے اور کھرکے حصے طاق ہوتے ہیں یعنی ایک یا پھر تین۔ دیگر طاق انگشتہ میں گھوڑے، زیبرے اور گدھے شامل ہے۔ ان میں عجیب الخلقت میمل تاپیر بھی شامل ہیں۔ بڑا جسم، کھڑا ہونے اور چلنے کا مخصوص انداز، اور تھوتھنی پر ایک یا دو سینگ گینڈوں کی پہچان ہیں۔ گینڈے بڑے جسم کے ہوتے ہیں لیکن ان کا دماغ غیرمعمولی چھوٹا ہوتا ہے۔ بڑے گینڈوں میں بھی دماغ کا وزن ڈیڑھ پاؤنڈ سے زیادہ نہیں ہوتا۔ یہ اتنے بڑے ہاتھی کی نسبت پانچ گنا چھوٹا ہوتا ہے۔ چھوٹا دماغ ان جانوروں میں عام ہے جن میں شکاری حملہ آوروں کا مقابلہ کرنے کی جسمانی استعداد ہوتی ہے مثلاً ان کا جسم بکتر بند ہوتا ہے ۔ اقسام: گینڈوں کی پانچ اقسام تاحال باقی ہیں۔ یہ سفید گینڈا، سیاہ گینڈا، انڈین گینڈا، جاوی گینڈا اور سماٹری گینڈا ہیں۔ سب سے بڑی قسم سفید گینڈا ہے جس کی دو ذیلی قسمیں جنوبی سفید گینڈا اور شمالی سفید گینڈا ہیں۔ جنوبی سفید گینڈا افریقہ کے انتہائی جنوبی علاقوں میں رہتا ہے اور شمالی سفید گینڈا وسطی افریقہ میں۔ جنگل میں جنوبی سفید گینڈوں کی تعداد 20 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ ان کے نروں کا وزن دو ٹن ہوتا ہے۔ شمالی سفید گینڈا معدوم ہونے کے قریب ہے۔ یہ گینڈے اب چڑیا گھروں اور محفوظ قدرتی علاقوں میں رہتے ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ اس گینڈے کو سفید (وائٹ) کیوں کہتے ہیں۔ شاید یہ ولندیزی لفظ ‘ کی ایک شکل ہے جس کے معنی چوڑے یا ‘‘ کے ہیں۔ یا پھر اس کے سینگ کے رنگ کی بدولت یہ نام پکارا جاتا ہے، جو گینڈوں کی دوسری اقسام کی نسبت ہلکا ہوتا ہے۔ سیاہ گینڈے دراصل بھورے یا سرمئی رنگ کے ہوتے ہیں۔ یہ جنوبی اور وسطی افریقہ میں کثرت سے ہوا کرتے تھے۔ لیکن اب ان کی تعداد جنوبی سفید گینڈوں کی نسبت آدھی رہ گئی ہے۔ ان کا وزن دو ٹن سے خال خال ہی بڑھتا ہے، اور سفید رشتہ داروں کے برعکس یہ گھاس نہیں، جھاڑیاں کھاتے ہیں۔ ان کی متعدد ذیلی اقسام بھی ہوا کرتی تھیں لیکن اب انٹرنیشنل یونین آف دی کنزرویشن آف نیچر کے مطابق صرف تین رہ گئی ہیں، اور یہ تمام معدوم ہونے کے شدید خطرے سے دوچار ہیں۔ انڈین یا بڑے سینگ والا گینڈا: یہ بھارت اور پاکستان میں کبھی بہت بڑی تعداد میں پایا جاتا تھا۔ لیکن شکار اور اس کے رہنے کے علاقوں کی تباہی، دونوں کے اثرات کے سبب اس کی تعداد آج صرف چار ہزار کے قریب رہ گئی ہے۔ پوری طرح نمو پانے جانے والے انڈین گینڈے کا وزن تین سے چار ٹن ہوتا ہے اور اس کی پہچان لمبے، موٹے اور سیاہ سینگ ہیں۔ قیمتی ہونے کی وجہ سے غیرقانونی شکار کرنے والے ان گینڈوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔ تاریخی طور پر یہ پہلے گینڈے تھے جو یورپ میں دیکھے گئے۔ ایک کو 1515ء میں بحری جہاز سے لزبن لایا گیا۔اپنے قدرتی ماحول سے دور ہونے کے باعث یہ جلد مر گیا۔ ایک اور انڈین گینڈا 1683ء میں انگلستان پہنچا۔ جاوی گینڈا: یہ دنیا کے نایاب میملز میں سے ہیں اور جاوا کے مغربی کنارے پر چند درجن کے قریب پائے جاتے ہیں۔ یہ انڈین گینڈوں کے قریبی رشتہ دار ہیں لیکن ان کا جسم اور سینگ چھوٹے ہیں۔ ان کا غیرقانونی شکار اتنا ہوا کہ معدوم ہونے کے نزدیک پہنچ گئے۔ یہ انڈونیشیا اور جنوب مشرقی ایشیا میں کثرت سے پائے جاتے تھے اور ان کی تعداد میں کمی کا ایک بڑا سبب جنگِ ویت نام ہے جس میں ہونے والی بمباری اور ’’ایجنٹ اورنج‘‘ سے نباتات کے زہر آلود ہونے سے ان کے رہنے کے علاقے تباہ و برباد ہو گئے۔ سماٹری گینڈا: یہ بھی اتنے ہی خطرے میں ہیں جتنے جاوی گینڈے۔ کسی زمانے میں یہ انڈونیشیا اور جنوب مشرقی ایشیا میں کثرت سے پائے جاتے تھے۔ ان بالغ گینڈوں کا وزن دو ہزار پاؤنڈ سے کبھی کبھار ہی بڑھتا ہے۔ یہ دورِحاضر کے سب سے چھوٹے گینڈے ہیں۔ علاقہ: قسم کے لحاظ سے ان کا آبائی وطن سَب صحارا (افریقی صحرائے اعظم کے جنوب کا علاقہ)، جنوب مشرقی ایشیا اور برصغیرہیں۔ یہ مختلف طرح کے علاقوں میں رہتے ہیں جن میں برساتی، نیم برساتی، گھاس کے میدان، جھاڑی والے علاقے اور صحرا شامل ہیں۔ غذا: گینڈے نبات خور ہیں لیکن ان کی غذا کا تعلق ان کے رہنے کے علاقے سے ہوتا ہے۔ سماٹرا اور جاوا کے گینڈے برساتی علاقوں کے نباتات کھاتے ہیں جن میں بعض پھل بھی شامل ہیں۔ سیاہ گینڈے جڑی بوٹیاں اور جھاڑیاں کھاتے ہیں، انڈین گینڈے گھاس اور آبی پودے دونوں کھاتے ہیں۔ جاگتے ہوئے وہ اپنا زیادہ تر وقت کھانے میں گزارتے ہیں۔ یہ دن اور رات دونوں وقت جاگ سکتے ہیں اور اس کا انحصار موسم پر ہوتا ہے۔ اگر موسم زیادہ گرم یا زیادہ سرد ہو تو یہ پانی کے نزدیک رہتے ہیں۔ عادات: اگر دنیا میں کوئی ایسا مقام ہے جہاں انسان چاہے گا کہ اسے نہیں ہونا چاہیے تو وہ ہے ہڑبڑاکردوڑتے ہوئے گینڈے کا راستہ۔ یہ جانورخوف محسوس کرنے پر 30 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ٹکرا سکتا ہے۔ گینڈوں کی نظر دوسرے جانوروں کی نسبت کمزور ہوتی ہے، اس لیے بھی ان کے راستے میں آنا برا ثابت ہو سکتا ہے۔ گینڈے تنہائی پسند ہوتے ہیں اور ان میں سب سے قریبی رشتہ ماں اور بچے ہی کا ہوتا ہے۔ (ترجمہ و تلخیص: وردہ بلوچ)۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں