1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

گیلانی، سنجرانی اور کھسیانی بلی ۔۔۔۔۔ سید امجد حسین بخاری

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏17 مارچ 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    گیلانی، سنجرانی اور کھسیانی بلی ۔۔۔۔۔ سید امجد حسین بخاری

    سینیٹ انتخابات میں اپ سیٹ کرنے والے پی ڈی ایم کے امیدوار سید یوسف رضا گیلانی سینیٹ چیئرمین کے انتخاب میں خود اپ سیٹ ہوگئے۔ ان انتخابات میں حکومتی صفوں میں اکھاڑ پچھاڑ کرنے والوں کے اپنے قدم اکھڑے اکھڑے دکھائی دے رہے تھے۔

    یوں محسوس ہوتا تھا کہ ایوان بالا یعنی سینیٹ جیسا مقدس ایوان، آئین ساز ادارہ، آئین کا محافظ ادارہ، وہاں چناؤ کسی قاعدے اور قانون، کسی طے شدہ اصول یا کسی یقینیت کے تحت نہیں ہوتا بلکہ یہاں الیکشن اضطراب، بے چینی، غیر یقینی کا مظہر ہوتا ہے۔ یوں کہہ لیجئے کہ سینیٹ کا انتخاب نہیں بلکہ کرکٹ کا میچ ہو، جہاں رنز کا پہاڑ کھڑا کرکے آپ ہار جائیں اور کم رنز ہونے کے باوجود آپ میچ کے فاتح قرار پائیں گے۔ ایسا ہی سید یوسف رضا گیلانی کے ساتھ ہوا۔ ایوان میں اقلیت ہونے کے باوجود ایم این ایز کی اکثریت کا اعتماد حاصل کیا گیا، مگر اگلے ہی مرحلے پر اکثریت کے ساتھ بھی معرکہ ہار گئے۔

    ایوان بالا میں چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے چناؤ کےلیے میدان سجا۔ اپوزیشن 51 ممبران کے ساتھ بظاہر پراعتماد دکھائی دے رہی تھی، لیکن حکومت بھی 47 ووٹ ہونے کے باوجود یقینی کامیابی کی دعویدار تھی۔ سب سے پہلے چیئرمین سینیٹ کا انتخاب ہوا تو پی ڈی ایم امیدوار کو 51 ووٹوں میں سے صرف 42 ووٹ ملے، جبکہ حکومت کو 47 ووٹ ہوتے ہوئے 48 سینیٹرز کا اعتماد حاصل ہوگیا۔

    پی ڈی ایم امیدوار کے سات ووٹ مسترد ہوئے۔ اپوزیشن نے الزام عائد کیا کہ ان کے ووٹ جان بوجھ کر مسترد کئے گئے ہیں کیونکہ ووٹنگ کےلیے واضح ہدایات نہیں تھیں، جس کے باعث سینیٹرز تذبذب کا شکار ہوئے۔ ہر فرد یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ کیا سینیٹرز تذبذب کا شکار ہوئے یا انہوں نے جان بوجھ کر ایسی غلطی کی؟ ہم نے اس کا جائزہ لینے کی کوشش کی۔ یہ جائزہ بھی آپ کے سامنے رکھتے ہیں۔
    اگر 51 میں سے ان سات ووٹوں کو نکالا جائے تو 44 ووٹ پی ڈی ایم کے ساتھ تھے، جبکہ حکومت کے 47 ووٹوں میں وہ سات سینیٹرز شامل کردیے جائیں تو حکومت کے ووٹوں کی تعداد 54 بن جاتی ہے۔ اور یہی نتیجہ آیا، جب ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں حکومتی امیدوار مرزا محمد آفریدی 54 ووٹ لے کر کامیاب ہوگئے، جبکہ اپوزیشن کے امیدوار عبدالغفور حیدری 51 ووٹ ہونے کے باوجود محض 44 ووٹرز کا اعتماد حاصل کرپائے۔ یعنی ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں ان سات سینیٹرز نے کوئی غلطی نہیں کی۔

    ایک ارب پتی سینیٹر جو روزانہ کروڑوں روپے کی ڈیلنگ کرتا ہو، جو ایک چیک پر دستخط کرتے ہوئے درجنوں بار سوچتا ہو، جو ایک ایک روپیہ خرچ کرتے ہوئے پھونک پھونک کر قدم رکھتا ہو، میں کیسے مان جاؤں کہ وہ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے وقت غلطی کر بیٹھے؟ میں خود کو کیسے یقین دلاؤں کہ جہاں ایک ایک ووٹ قیمتی ہو، جہاں غیرت و ضمیر کا معرکہ ہو، جہاں سینیٹ انتخابات عزت اور انا کا مسئلہ بن چکے ہوں۔ وہاں ایک یا دو نہیں پورے سات سینیٹرز غلطی کر بیٹھیں۔

    تاثر تو یہ بھی ہے کہ یوسف رضا گیلانی کے فرزند علی حیدر گیلانی نے ووٹ ضائع کرنے کا جو طریقہ حکومتی سینیٹرز کو بتایا، وہی ان کے خلاف استعمال ہوگیا۔ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے چناؤ میں ہوئے اپ سیٹ کے بعد یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ سنگ پگھل جاتے ہیں، جادو چل بھی جاتے ہیں۔ اپوزیشن جو راستہ حکومت کو شکست دینے کےلیے استعمال کر رہی تھی، اب وہی روش حکومت نے اختیار کی۔ سینیٹرز نے ووٹ تو پی ڈی ایم کے امیدوار کو چیئرمین بنانے کےلیے دیا، لیکن اس خوبصورتی کے ساتھ اپنا ووٹ ضائع کیا کہ اپوزیشن کو وضاحتیں دینا پڑ رہی ہیں۔

    پی ڈی ایم پریذائیڈنگ آفیسر پر جانبداری کا الزام تو عائد کر رہی ہے، مگر سوال تو یہ ہے کہ کون ہیں یہ سات؟ کہاں سے آئے ہیں یہ سات؟ کس کے ساتھ ہیں یہ سات؟ ’صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں‘ کے مصداق چپ چپ کیوں ہیں یہ سات؟ کیا اپوزیشن جماعتیں اپنی صفوں سے ڈھونڈ پائیں گی یہ سات؟ اپوزیشن بجائے اس کے کہ ان سات ستاروں کی تلاش کرتی، چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے دوران ہی ووٹ مسترد ہونے پر سینیٹ کے اندر ہی ہنگامہ کھڑا کردیا گیا۔

    ان نتائج کے بعد محسوس ہورہا ہے کہ اب کی بار حکومت نے موثر منصوبہ بندی۔ لگن اور تندہی سے کام کیا۔ حفیظ شیخ کے انتخاب میں ہونے والی غلطیوں پر قابو پایا۔ ان غلطیوں سے سبق سیکھا۔ ڈوب کر ابھرنے کا ہنر آزمایا۔ اور پھر ملک کے سب سے بڑے ایوان کی دو بڑی کرسیوں پر اپنے امیدواروں کی کامیابی کو ممکن بنایا۔ لیکن اپوزیشن جماعتیں اس شکست سے سبق سیکھنے کے بجائے، اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے کے بجائے نتائج ہی ماننے سے انکاری ہے۔ نتائج کو تمام پلیٹ فارمز پر چیلنج کرنے کا اعلان بھی کردیا۔

    اپوزیشن اس شکست کو ووٹوں کی چوری قرار دے یا چناؤ کو چیلنج کرے گی۔ مگر اس چناؤ کے بعد سابق وزیراعظم نواز شریف کا ’ووٹ کو عزت دو‘ کا بیانیہ مزید طاقتور ہوگا۔ صادق سنجرانی کی جیت دراصل مسلم لیگ کے بیانیے کی جیت ہے۔ اب مسلم لیگ پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتوں کو بھی اپنے بیانیے کے ساتھ کھڑا رکھنے کی کوشش کرے گی۔ مگر ایک عام آدمی کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ بیانیہ کس کا جیتے گا یا کون اپنے بیانیے کے ساتھ کھڑا ہوپاتا ہے؟ عام آدمی کو تلاش ہے اپنے ان نمائندوں کی، جو اکثریت کی رائے بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جو اپنا دام لگا کر قانون سازی کے ایوان میں بھی منڈی لگاتے ہیں۔ جو شاید ایوان میں آتے ہی اپنے کاروباری مفادات کےتحفظ کےلیے ہیں عام آدمی یہ بھی جاننا چاہتا ہے کہ حکومت ہو یا اپوزیشن، اقلیت ہو یا اکثریت، سیاست میں ہارس ٹریڈنگ کیسے روکی جاسکتی ہے؟ حکومت اور اپوزیشن دونوں اس وقت اپنے ہاؤس کو آرڈر کرنے، اپنے ممبران کا جائزہ لینے کے، الزامات کی سیاست کر رہی ہیں۔ ’’کھسیانی بلی، کھمبا نوچے‘‘ کی مثال بنی ہوئی ہیں۔

    ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں اب کی بار مل بیٹھ کر سیاست میں دولت کے کلچر کے خاتمے کےلیے اقدامات اٹھائیں۔ الیکٹ ایبلز اور سرمایہ داروں کا راستہ روکیں۔ عوام کی بھلائی اسی میں ہے کہ سیاسی قیادت مل بیٹھ کر ایک نیا چارٹرڈ آف ڈیموکریسی تیار کریں۔ تبھی جاکر ووٹ کو عزت ملے گی۔ تبھی سیاست الزامات سے پاک ہوگی۔ تبھی عوامی نمائندے سامنے آئیں گے۔ سیاسی ڈائیلاگ کے بجائے محض سیاسی مخالفین اور اداروں پر الزامات ’کھسیانی بلی، کھمبا نوچے‘‘ ہی کی عملی تصویر ہے۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں