1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

گھر بسایا میں نے جس رستے پہ صحرا چھوڑ کر

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از پیاجی, ‏22 مئی 2006۔

  1. پیاجی
    آف لائن

    پیاجی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    1,094
    موصول پسندیدگیاں:
    19
    گھر بسایا میں نے جس رستے پہ صحرا چ

    <center>
    گھر بسایا میں نے جس رستے پہ صحرا چھوڑ کر
    قافلے گزرے بہاروں کے وہ رستہ چھوڑ کر

    دن نیا نکلا ہے تو لائے گا پتھر بھی نئے
    رات رخصت ہو چکی شیشے کا سپنا چھوڑ کر

    فطرتًا کچھ لوگ مکھی کی طرح ہوتے ہیں جو
    زخم پر ہی بیٹھتی ہے جسم سارا چھوڑ کر

    وقت کا کیدو تعاقب میں ہے جسم و روح کے
    ایک دن اڑ جائے گی یہ ہیر، رانجھا چھوڑ کر

    کون پوچھے گا تمہیں اِن ساحلوں کے اُس طرف
    سوچ لینا، بوند رہ جاؤ گے دریا چھوڑ کر

    آنکھ سے آنسو، فلک سے ٹوٹ کر تارا گرا
    میں نے دامن میں لیا آنسو، ستارا چھوڑ کر

    موت کی دہلیز پر انوار اترنا ہے مجھے
    وقت کے سینے پہ لہراتا پھریرا چھوڑ کر
    </center>
     
  2. ارم۔
    آف لائن

    ارم۔ ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جنوری 2007
    پیغامات:
    9
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    زبر دست بھت اچھے
     
  3. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    Re: گھر بسایا میں نے جس رستے پہ صحرا چ

    بہت خوبصورت شعر ہے ۔۔۔ کاش ہم من حیث القوم یہ بات سمجھ لیں ۔۔۔۔
     
  4. ع س ق
    آف لائن

    ع س ق ممبر

    شمولیت:
    ‏18 مئی 2006
    پیغامات:
    1,333
    موصول پسندیدگیاں:
    25
    Re: گھر بسایا میں نے جس رستے پہ صحرا

    ماشاء اللہ بہت اچھے
     

اس صفحے کو مشتہر کریں