1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

گھبرانا نہیں ہے ۔۔۔۔ سہیل احمد قیصر

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏4 مارچ 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    گھبرانا نہیں ہے ۔۔۔۔ سہیل احمد قیصر

    اعصاب شکن مقابلہ، دن رات کی محنت، بھاری رقوم کا لالچ... بالآخر پی ڈی ایم کے اُمیدوار یوسف رضا گیلانی کی کامیابی نے ملکی سیاسی تاریخ میں کچھ نئے ابواب کا اضافہ کرہی دیا۔حکومتی اُمیدوار حفیظ شیخ کے 164ووٹوں کے مقابلے میں پی ڈی ایم کے اُمیدوار یوسف رضا گیلانی نے 169ووٹ حاصل کرکے جو سیاسی دھماکا کیا ہے، اُس کے آثار پہلے سے ہی نظر آنا شروع ہوچکے تھے۔ سب سے زیادہ مالدار امیدوار میدان میں اُتارنے کے باوجود حکومت کی گھبراہٹ بتا رہی تھی کہ دال میں کچھ کالا ہے لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ پوری کی پوری دال ہی کالی ہے۔ عجیب بات ہے کہ حکومت ، ادارے، انتظامیہ‘ سب کچھ ماتحت لیکن اس کے باوجود سب سے زیادہ شور حکومت کی طرف سے ہی مچایا جارہا تھا۔ اِس خفت سے بچنے کے لیے کیا کیا پاپڑ نہیں بیلے گئے۔ عین اُس وقت پارلیمان کا مینڈیٹ چرانے کی کوشش کی گئی جب معاملہ عدالت میں زیرسماعت تھا۔ سب کچھ کر بھی خود ہی رہے تھے اور شور بھی خود ہی مچا رہے تھے کہ سینیٹ انتخابات میں پیسے کا کھیل ختم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سب کرتے ہوئے یہ نہیں سوچا گیا کہ پہلے کس طرح اپنے اراکینِ پارلیمنٹ کو ناراض کیا جاتا رہا اور ان کے گلے، شکوے پر کان نہیں دھرے گئے۔ پارٹی کے نظریات، عوام سے کیے گئے وعدے‘ اقتدار مل جانے پر سب کچھ فراموش کر دیا جاتا ہے۔ بس یہی سوچ لے ڈوبی کہ سب تو اپنے ساتھ ہیں‘ پھر ڈرنے کی کیا بات ہے۔
    یوسف رضاگیلانی کو جتوانے کے لیے پی ڈی ایم کو حکومت کا بھی شکرگزار ہونا چاہیے جو ایسے ایسے کارنامے سر انجام دے رہی ہے کہ تاریخ میں پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئے۔ عوام سے کیا گیا ایک وعدہ بھی پورا نہیں کیا گیا۔ صرف این آر او کی تکرار ہے جو چار سُو سنائی دیتی ہے یا گھبرانا مت کی تلقین، اسی پر پونے تین سال نکال لیے گئے۔ اب یہ غصہ کہیں نہ کہیں تو نکلنا تھا سو سینیٹ کی اہم سیٹ کے مقابلے کے دوران سب نے اپنا اپنا غصہ نکال لیا۔ اُنہوں نے بھی جن کے سروں پر بیرونی مشیر لا کر بٹھائے گئے اور اُنہوں نے بھی جنہیں نظرانداز کرکے سینیٹ کے ٹکٹ صاحبِ ثروت لوگوں میں تقسیم کیے گئے۔ پارٹی اراکین شور مچاتے رہے کہ خدارا! ہماری بھی سنو لیکن مجال ہے جو کسی نے انہیں درخور اعتنا سمجھا ہو۔ بلاشبہ یہ حکومت کے لیے اب تک کا سب سے بڑا دھچکا ہے جس نے پوری حکومت کو سر سے پاؤں تک ہلا کر رکھ دیا ہے۔ صورت حال کی نزاکت کے سبب وزیراعظم کا اراکین اسمبلی کو شرفِ ملاقات بخشنا بھی کسی کام نہ آسکا۔
    اِس سے پہلے ایک دھچکا ضمنی انتخابات کے دوران بھی لگ چکا ہے۔ یہ بھی شاید پہلی مرتبہ ہی ہوا جب الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اپنے اختیارات کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے ڈسکہ کے انتخاب کو کالعدم قرار دے دیا۔ اب تک ملک میں سینکڑوںمرتبہ ضمنی انتخابات ہوچکے ہوںگے لیکن جس طرح الیکشن کمیشن نے اپنے اختیارات کا استعمال ڈسکہ کے ضمنی انتخابات کے بعد کیا، اُس کی نظیر نہیں ملتی۔ پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ نہ صرف سرکاری مشینری کو پکڑا گیا بلکہ پس پردہ موجود ہاتھوں کی نشاندہی کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ یہ سب ہونے کی بڑی وجہ یہ رہی ہو کہ جو کچھ ڈسکہ کے ضمنی انتخابات کے دوران دیکھنے میں آیا، وہ بھی پہلی مرتبہ ہی ہوا تھا۔ 20پریذائیڈنگ آفیسر غائب ہوگئے اور جب اُن کی واپسی ہوئی تو تاویل یہ پیش کی گئی کہ وہ دھند کی وجہ سے بروقت ریٹرننگ آفیسر تک نہیں پہنچ سکے۔ عملے کے ''لاپتا‘‘ ہونے کی بابت علم ہوتے ہی چیف الیکشن کمشنر سکندرسلطان راجہ دیر تک اعلیٰ انتظامی حکام سے رابطے کی کوشش کرتے رہے مگر رابطہ نہ ہو سکا۔الیکشن کے اگلے روز صبح چھ بجے لاپتا عملہ پولنگ بیگز کے ہمراہ حاضر ہوا۔اس پر تمام حالات و واقعات کو دیکھتے ہوئے الیکشن کمیشن کی طرف سے این اے 75 میں ضمنی انتخاب کے نتائج کالعدم قرار دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ اب 18 مارچ کو دوبارہ اس حلقے میں انتخاب ہوگا۔ یقینا یہ احسن فیصلہ ہے جس سے انتخابات میں مداخلت کرنے والی قوتوں کی حوصلہ شکنی ہو گی۔
    خوشی اِس بات کی بھی ہے کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے اِس تمام صورت حال کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کے سخت احکامات دیے گئے۔ متعلقہ کمشنر اور آر پی او کو عہدوں سے ہٹایا جاچکا ہے، ڈپٹی کمشنر اور پولیس افسران کے خلاف بھی کارروائی عمل میں آ چکی ہے۔ غائب ہونے والے پریذائیڈنگ آفیسرز کو بھی مقدمے کا سامنا کرنا پڑے گا جس میں انہیں تین سال تک سزا ہوسکتی ہے۔ خوش آئند امر یہ بھی ہے کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے نہ صرف متعلقہ افسران کے خلاف کارروائی کے احکامات دیے گئے بلکہ اِن پر عمل درآمد بھی یقینی بنایا گیا۔ اب اِس سے بھی ایک قدم آگے جاتے ہوئے لاپتا ہونے والے پریذائیڈنگ افسران کا فون ڈیٹا کھنگالنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یقینا اِس سے معاملہ مزید واضح ہوجائے گا کہ دھند کی کہانی واقعی حقیقت تھی یا یہ کسی حقیقت پر پردہ ڈالنے کے لیے گھڑا گیا افسانہ تھا۔اِس کے لیے باقاعدہ طور پر پی ٹی اے کو حکم دیا جاچکا ہے۔ یہ صورتحال منصوبے کے ماسٹر مائنڈزکے لیے سوہانِ روح بن چکی ہے۔
    ماضی کے تجربات کے پیش نظر منصوبہ سازوں کو اِس بات کا یقین ہوگا کہ یہ سب کچھ تو پہلے بھی ہوتا رہا ہے‘ اب ایسا کرنے سے کون سی قیامت آجائے گی لیکن جب ستارے گردش میں آجائیں تو سیدھی بھی اُلٹی پڑنا شروع ہوجاتی ہے۔ یہاں تو پہلے سے ہی سب کچھ اُلٹا چل رہا تھااور اب لینے کے دینے پڑ چکے ہیں۔ ذرا تصور کیجئے کہ اگر غائب ہونے والے پریذائیڈنگ آفیسر ز کا ڈیٹا کسی منظم منصوبے کی طرف اشارہ کرتا ہوا تو کیا ہوگا۔ انتہائی شفاف انداز میں معلوم پڑ جائے گا کہ یہ احباب ریٹرننگ آفیسر کے پاس جانے کے بجائے کہاں غائب ہوگئے تھے۔اتنی دیر تک کہاں ٹھہرے رہے اور تھیلوں میں کتنے ووٹوں کا اضافہ یا کمی ہوئی اور ان ووٹوں کو کس اُمیدوار کے حق میں استعمال کیا گیا۔ بلاشبہ یہ اقدامات مستقبل کی راہیں بھی متعین کررہے ہیں۔
    درحقیقت ملک میں انتخابی دھاندلیوں کے تجربات کا سلسلہ گزشتہ کم از کم پانچ دہائیوں سے جاری ہے۔ ماضی میں ملک میں ہونے والے ریفرنڈمز میں من پسند نتائج حاصل کیے جاتے رہے ہیں۔ مرحوم صدر ضیاء الحق کے کرائے جانے والے ریفرنڈم میں بکسے بھر بھر کر ووٹ نکلے تھے، ایسے ہی ایک ریفرنڈم کے ذریعے پرویز مشرف ملک کے صدر بن بیٹھے تھے۔ اِس کے علاوہ جب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سمیت پیپلزپارٹی کے 19رہنما بلامقابلہ منتخب ہو سکتے ہیں اور ان کے مخالف امیدوار راتوں رات غائب ہو سکتے ہیں تو چھوٹے موٹوں ہتھکنڈوں سے کون گھبراتا ہوگا؟حیرت اُس وقت ہوئی جب صوبائی اور وفاقی وزرا کی طرف سے بیانات آنا شروع ہوئے کہ انتخابی عملے کو اپوزیشن نے غائب کرایا ہے۔ اب بھلا ایسی باتوں پر کون یقین کرسکتا تھا۔ اگر واقعی ایسا تھا، تو بھی عملے کی حفاطت کو یقینی بنانا اپوزیشن کا کام تھا یا حکومت کا؟ انتخابات کو شفاف بنانا حکومت کی ذمہ داری تھی یا اپوزیشن کی؟وزرا کی طرف سے ایسی ایسی تاویلات سامنے آئیں کہ سر پیٹ لینے کو جی چاہتا رہا۔
    اب جب الیکشن کمیشن کی طرف سے اپنے اختیارات کا بھرپور استعمال دیکھنے میں آیا ہے تو پس پردہ قوتوں میں ہڑبونگ سی مچی ہوئی ہے۔ چہروں پر ہوائیاں اُڑی ہوئی صاف طور پر دیکھی جاسکتی ہیں۔ شاید ایسا کرنے والے بھول گئے تھے کہ نقل کے لیے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔ بہرحال اب 18مارچ کو ایک مرتبہ پھر میدان لگے گا لیکن اُس سے پہلے گیلانی بمقابلہ حفیظ شیخ انتخاب نے بہت کچھ واضح کردیا ہے۔ اس موقع پر ہمارا حکومت کے لیے یہی مشورہ ہے کہ گھبرانا بالکل نہیں‘ ویسے ہی جیسے سب کچھ ہونے کے باوجود عوام بالکل نہیں گھبرا رہے۔

     

اس صفحے کو مشتہر کریں