1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

گندھارا کی سلطنت اور ہندو

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏11 جولائی 2018۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    گندھارا کی سلطنت اور ہندو

    ۱۸۰ ق م کے قریب وسط ایشیاء (ملک تاتار و خطا) کی ایک بدوی قوم یہیوچی ملک خطا سے نقل مکانی کرتی ہوئی ترکستان اور افغانستان کی چراگاہوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئی کیوں کہ اس وسیع خطے کی ایک اور بدوی قوم ہی انگ نوجو بعد میں ہن کہلائی۔ اس سر زمین میں طاقت پکڑنے لگی تھی۔ یہیوچی قوم کے ایک سردار کاوفس اول نے ۴۰ء میں شاہی اقتدار حاصل کرکے پشاور میں کشن خاندان کی بنیاد رکھی۔ اور پنجاب اور افغانستان کے ملکوں ک اپنے زیر نگیں کر لیا۔ اس کے ایک جانشین کاوفس دوم نے ۸۵ء مٰن اپنی سلطنت کو مشرق کی طرف بنارس تک وسعت دی اور جنوب کی طرف سیستان، بلوچستان، سندھ، راجپوتانہ، کاٹھیا واڑ کو سر کرکے ہندوستان میں ایران کے پارتھیوں کے اقتدار کا خاتمہ کیا۔ اسی خاندان کے ایک اور بادشاہ کنشک نے شمال مشرق میں چینی ترکستان کو اور شمال مغرب میں خراسان کے ملک کو بحیرہ خزر تک سرک یا اور کوشن خاندان کے اقتدار کو بہار سے لے کر بحیرۂ خزر تک اور چینی ترکستان سے لے کر کاٹھیا واڑ تک وسعت دی۔ کنشک اعظم بہت بڑی شان و شوکت رکھنے والا بادشاہ تھا۔ اشوک اعظم کی طرح یہ بادشاہ بھی بدھ مت کا پرجوش پیرو اور مبلغ ہو کر گزرا ہے۔ اس بادشاہ نے دو آبہ جالندھر میں بدھ مت کے پیروؤں کی ایک بہت بڑی کونسل منعقد کی۔ اس وقت تک بدھ مت کے پیروؤں میں بدھ کی مورتی کی پوجا کا رواج بہت زور پکڑ گیا تھا۔ لہٰذا کنشک کے عہد میں سنگ تراشی کے فن کو بہت فروغ حاصل ہوا۔ جا بجا بدھ کے مجسمے تراش کر نصب کئے گئے۔ پتھر کے علاوہ سونے اور چاندی کے بڑے بڑے مجسمے بھی بنائے جاتے تھے۔ کوشن خاندان کے بادشاہوں اور خاص کر کنشک کے عہد کے بنے ہوئے بہت سے آثار اس وسیع سلطنت کے مختلف حصوں سے برآمد ہوئے ہیں۔

    بامیان افغانستان کی کھدائی سے بدھ کا ایک مجسمہ ملا ہے جس کی اونچائی ساٹھ فٹ ہے اس کے علاوہ کشن خاندان کے بادشاہوں کے بہت سے سکے بھی ملے ہیں جو دنیا کے عجائب گھروں کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ کنشک اعظم کا عہد حکمرانی ۱۲۵ء سے ۱۵۳ء تک تھا۔ دوسری صدی مسیحی میں وسط ایشیا سے ہنوں کی ایک اور بدوی قوم کا ریلا اٹھا جس نے۲۲۶ء میں نہ صرف یہیوچیوں کی گندھارا سلطنت کا خاتمہ کر دیا بلکہ جنوبی ہند کی اندھرا سلطنت اور جنوب مغربی ہند میں ایران کے پارتھیوں کی سلطنت کو بھی پامال کر ڈالا۔ اس قوم کا نام ساکا تھا۔
     
  2. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    ساکا خاندان کا آخری بادشاہ لگتور مان تھا۔ اس زمانہ میں ایک برہمن وزیر نے اس خاندان سے حکومت چھین لی اور ہندو برہمن شاہی خاندان کی بنیاد رکھ دی ،اس برہمن کا نام کلر یا للیہ تھا ۔تقریباً دو ہزار سال بعد دے ہند دوبارہ ہندوسلطنت کا مرکز بن گیا۔ دے ہند(ہنڈ) دریائے سندھ کے مغربی ساحل پر پشاور سے چودہ فرسخ(۵۶ میل) مشرق کی طرف واقع تھا(بحوالہ لیہ ونی)

    ہندوؤں کی قدیم تاریخ پر ایک نظر

    ڈاکٹر گستاؤلی بان تمدن ہند میں لکھتے ہیں کہ لفظ ہندو قومیت کے لحاظ سے کچھ معنی نہیں رکھتا۔


    آریوں کا تیسرا جتھا مشرق کی طرف چلا۔ یہ لوگ راستہ کی تکلیفیں برداشت کر کے اپنے عیال و اطفال کے ہمراہ ہندوستان کی شمال مغربی سرحدپر پہنچے ۔عرصہ دراز تک دریائے سندھ پر رکے رہے۔ یہاں اس علاقے میں اس وقت کالی نسل کے لوگ یعنی کول اور دراوڑ آباد تھے۔ ایرانیوں نے چار ہزار سال قبل ان کا ہند نام رکھا تھا۔ ہند ایرانیوں کے ہاں بعمنی سیاہ و کالا تھا۔ جیسا کہ حافظ شمس الدین شیرازی کا ایک شعر ہے۔

    اگر آن ترک شیرازی بدست آرد دل مارا
    بہ خال ہند تش بخشم سمر قند و بخارا را

    کول اور دراوڑ کے مرکزی مقام کا نام انہیں کے سبب سیاہ یعنی ہند سے مشہور تھا۔ اور ہند کے قریب لاہور(لاہوار) بھی ان کا صدر مقام تھا اور یہاں ان کی انتظامیہ رہا کرتی تھی۔ مقصد یہ کہ ہند(دے ہند) اور لاہور(الاہوار) جو دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر واقع تھے۔ یہ دونوں شہر آریوں سے قبل موجود تھے۔ آریوں کے یہاں پہنچتے ہی ان سے مڈ بھیڑ ہوئی۔ مختصر یہ کہ آریوں نے کول اور دراوڑ سے دریائے سندھ کے مغربی علاقہ پر جہاں ان کی بود وباش تھی زبردستی قبضہ کرکے ان کو پنجاب کی طرف جلا وطن کر دیا۔

    آریہ نے کول اور دراوڑ کے شہر ’’ہند‘‘ اور لاہور کو بھی مرکزی مقام بنا لیا اور ان دونوں کے درمیان ایک عام بڑا شہر آریانا کے نام سے آباد کیا جو اس موجودہ وقت میں آریان کہلاتا ہے۔ ’’ہند‘‘ نام شہر میں بادشاہ کی رہائش اور دیگر خصوصی مکانات تھے اور تضحقیق علم کا مرکز بھی یہیں تھا۔ اور یہ شہر قلعہ بند تھا۔

    آریہ لوگ پہلے ماد، مادی میدی اور میڈی کے ناموں سے اس وقت پکارے جاتے تھے۔ جب یہ خراسان اور اس کے متعلق علاقوں میں آکر بس گئے تھے۔ قیاس یہ ہے کہ جلاوطن اسرائیلیوں نے ان کو آریا نام دیا ہوگا۔ وجہ یہ کہ یہ لوگ آگ کے پجاری تھے تو انہوں نے دیکھ کر اسے آرین سے یاد کیا ہوگا۔ آرین یعنی آگ والے جس کا مطلب آگ کے پجاری ہے جو پشتو لفظ ہے موسوم کیا ہوگا۔ آربمعنی آگ اور لفظ ’’ن) نسبت کے لئے جیساکہ پمن، مانگین، خاورین وغیرہ معلوم رہے کہ آرنام کا شہر حضرت ابراہیم ؑ کا مسکن تھا۔ اس شہر میں آگ کی پرستش کی جاتی تھی۔ اور اس شہر میں ہمیشہ آریعنی آگ جلنے کے سبب یہ آر کے نام سے مشہور ہوا تھا۔ الغرض آرین یعنی آگ کے پجاری جو ایک مذہبی نام معلوم ہوتا ہے یعنی جو لوگ اس عقیدے کے قائل تھے وہ آرین، آریا پکارے گئے اور جب یہ آریا لوگ ہند (دے ہند) پہنچے اور یہاں سکونت اختیار کی اور اس کے علاوہ حکومت بھی بنا لی تو اسی ہند کے وجہ سے ہندو مشہور ہوئے۔ لفظ (د) نسبت کے لیے ہے یعنی ہند والے یا ہند کے باشندے مطلب یہ نکلتا ہے کہ ہندو نام نہ نسب کے وجہ سے اور نہ مذہب کی وجہ سے ہے بلکہ یہ مسکن ہند کی نسبت کے لیے معلوم ہوتا ہے جس کے سبب یہ ہندو کے نام سے مشہور ہوئے۔ یہاں انہوں نے کافی عرصہ بعد ہندی زبان بنائی۔

    اگرچہ پہلے وقت میں یہ اقوام ایک ہی زبان بولتی تھیں جس کا نام اریک تھا۔ اور پھر سنسکرت کی بنیاد رکھی۔ ابتدائی وید نامی کتاب بھی یہاں بنائی گئی تھی۔ وید بھی دے ہند کا مخفف معلوم ہوتا ہے۔ یہاں انہوں نے اور بھی کئی کتابیں تصنیف کیں۔ ان مذکورہ تصانیف میں پختون قوم کے علماء سے زیادہ امداد لی گئی ۔ان علماء میں پنی (پنڑی) اور جلو کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اسی لاہور کے مغربی حصہ میں پنی (پنڑی) کی جائے رہائش کے آثار اسی کے نام سے آج تک موجود ہیں۔ ہندوؤں کی ریاست جب ’’ہند‘‘ میں مضبوط ہوئی اور جتنے علاقے اس کے زیر اثر آئے اس علاقے کا نام ہندوستان ہوا۔ یعنی راجدانی ہند کا زیر اثر علاقہ اور عرصہ دراز گزارنے کے بعد دریائے سندھ جس کا پشتو نام اباسین ہے جو عبرانی نام دریائے آبانا کے مترادف ہے کو عبور کرکے پنجاب میں داخل ہوئے۔ یہاں انہیں اصلی باشندوں سے سخت مقابلہ کرنا پڑا۔ لیکن آریا اصلی باشندوں کی نسبت زیادہ مضبوط اور فن جنگ میں ماہر تھے۔ آخر فریق مخالف پر غالب آئے اور دن بہ دن تمام موجودہ شمالی ہندوستان پر قابض ہوئے۔ بعد میں اسی علاقے کا نام بارت یا بھارت مشہور ہوا۔ قیاس کیا جاتاہے کہ بارت یا بھارت عبرتا سے ماخوذ معلوم ہوتا ہے۔ عبرتا آرامی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں جائے عبور ۔مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ جب ان لوگوں نے دریائے سندھ عبور کیا تو بارتی کہلائے اور اس پار علاقے کا نام بارت ہوا۔ یہ نام بھی اسرائیلیوں کا رکھا ہوا معلوم ہوتا ہے۔

    تعجب کی بات یہ ہے کہ یہاں ہندوؤں سے پہلے جو قوم رہتی تھی وہ سیاہ یعنی لالے تھے اور اسی سبب ان کے مرکزی مسکن کو ہند کہا جاتا تھا مگر آریا سرخ سفید رنگ کے تھے لیکن یہ ان کالے لوگوں کے وارث بننے کے سبب سے بھی ہندو مشہور ہوئے۔ آریا یعنی مادی یا میدی لوگ اسرائیلی جلا وطنوں سے کافی عرصہ پہلے ملک خراسان اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں آباد تھے اور نینوا کے اشوریوں کے ماتحت ایک کمزور زندگی گزارتے تھے ۔پہاڑوں سے اترے ہوئے وحشی اور جاہل قسم کے لوگ تھے۔ تعلیم و تمدن سے بے بہرہ تھے۔ ان میں نہ کوئی سیاسی شعور تھا اور نہ کوئی تنظیم یا حکومت ۔یہ تو ان کی خوش قسمتی سمجھئے کہ اسرائیلی جلا وطنوں کے جتھے درجتھے یکے بعد دیگر ان کے ہاں بسانے کے لیے اشوری بادشاہوں نے شام اور نینوا سے بھیج دیئے۔

    واضح ہو کہ اسرائیلیہ کا پہلا جتھہ شاہ اشوری پال یا پلول کے ہاتھوں جلا وطن ہوا جوکہ سات سو اکہتر برس قبل از میسح تھا۔ ان جلا وطنوں میں روبن اور جد کے دو قبیلے تھے۔ جد کی اولاد اس وقت تک افغانستان میں آباد ہے اور جدرانی کے نام سے یاد کئے جاتے ہیں۔
     
  3. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    ان دنوں اسرائیلیہ کا بادشاہ ناحم تھا اور یہودا کا بادشاہ غریا تھا۔ اس کے بعد بنی اسرائیل کی جلا وطنی کا یہ سلسلہ جاری رہا تھا جو اس واقعہ سے ایک سو اسی سال کے بعد بخت نصر کے ہاتھوں بیت المقدس کی تباہی پر ختم ہوا۔ اور ان اسرائیلی جلا وطنوں کی بدولت ۷۰۰ ق م کے بعد سے آریہ لوگوں میں لکھنے کا رواج بھی شروع ہوا۔


    الغرض ان کے آنے سے میدیوںیعنی ان آریا لوگوں کو بہت فائدے حاصل ہوئے کیونکہ اس وقت آریوں کی حالت خراب تھی۔ اس بارے میں فرانسیسی محقق ڈاکٹر گستاؤلی بان کا بیان اس کی اپنی تصنیف ’’تمدن ہند‘‘ میں یوں درج ہے کہ

    ’’ان میں مطلق کسی قسم کی سیاسی نظامات یا ذات یا حکومت نہ تھی۔ ان کی معاشرت کی بنیاد خاندان پر تھی اور ساری قوم ایک تھی اور اس میں بالکل مدارج نہ تھے۔ ہر ایک خاندان کا باپ خود ہی پروہت، کاشتکار اور سپاہی تھا۔ یہ مختلف پیشے جو آگے چل کر ذات کی تقسیم کے باعث ہوئے اس وقت ملے جلے ہوئے تھے۔ رگ وید کے بڑے دیوتا اگنی آگ کا دیوتا ہے۔ سوم منشی عرق ہے جو اسکو تند کرتا ہے۔‘‘ اور اس کے برعکس اسرائیلی جلا وطن ، تعلیم یافتہ ہنر مند حکما نجومی طبیب اور ماہر نفسیات تھے تمدن و معاشرت میں بہت آگے تھے۔ غرض یہ کہ جیسا کہ قرائن سے ظاہر ہے کہ ہر کام میں اسرائیلی جلا وطن ، ان کے استاد بنے اور نیز ان مقامی لوگوں کو زندگی گزارنے کے اچھے طریقے سکھائے اور نظم و ضبط سے بھی واقف کرایا۔ اسرائیلیوں نے جہاں اپنے ملک شام کی طرح کوئی چیز یعنی دریا، پہاڑ، گاؤں، ندی نالہ، اور علاقہ دیکھا تو اس کا وہی شامی نام رکھا۔ سیاست میں بھی ان جلا وطنوں کا بڑا دخل تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ میدیوں اور پھر خورس کی سلطنت بننے میں انہی کاہاتھ تھا۔ اشوریوں اور پھر بابلیوں سے انتقام لینے کے جذبات بھی رکھتے تھے۔ چنانچہ اس سلسلے یں ان کو ایک گونہ کامیابی بھی حاصل ہوئی تھی۔

    جیسا کہ قصص القرآن جلد سوم ص ۱۷۱ میں درج ہے کہ :

    ’’بابلی سرداروں کا ایک وفد خورس کے پاس اس وقت پہنچا جب کہ وہ اپنی مشرقی مہم میں مصروف تھا۔ خورس نے ان کا خیر مقدم کیا اور ان کو اطمینان دلایا کہ وہ اپنی مہم سے فارغ ہو کر ضرور بابل پر حملہ کرے گا اور ان کو بابل کے ظالم اورعیاش بادشاہ سے نجات دلائے گا۔ خورس جب اپنی مہم سے فارغ ہوگیا تو حسب وعدہ اس نے بابل پر حملہ کر دیا۔ اسرائیلی تو اپنے آپ ہر فن مولا تھے۔ میدی یعنی آریا لوگ ہمیشہ ان کے محتاج رہتے۔ اس کے علاوہ ہخامنشی خاندان کے عہد سلطنت میں جو دو سو بیس سال سے مستحکم اور مضبوطی سے قائم تھا۔ اسرائیلی حاکم قوم کی شکل میں تھے۔ اس وجہ سے ان کی ہر بات میں وزن تھا۔ جو نام رکھنا قبول عام ہوتا اور جو بولتا وہی ہوتا۔ ان کی ہر زبان سے آریا لوگوں نے بہت الفاظ سیکھے اور ہر کام میں ان سے امداد لی اور سبق حاسل کرلیا۔ اسرائیلی قوم اور ان کے انبیاء اس علاقہ میں دینی تبلیغ اور راہنمائی کرتے تھے۔ علم و فضل کے مالک تھے۔ کمی صرف یہ تھی کہ اپنے ملک سے جلا وطن تھے اور منتشر حالت میں آباد تھے۔ لیکن پھر بھی ان کی فضیلت اپنی جگہ پر قائم تھی۔ مثال کے طور پر اگرکوئی وکیل، قاضی، عالم، حکیم، ماہر فن یا کوئی ہنر مند شخص بادشاہ وقت کے قانون کی خلاف ورزی کے سبب جیل خانہ میں چلا جائے تو ان کا علم وہنر جیل کے دروازے پر ہی نہیں رہ جاتا بلکہ وہ علم و ہنر وغیرہ اس کے ساتھ جیل کے اندر ضرور جائے گا۔ لہٰذا اسرائیلی خدا سے نافرمانی کے جرم میں تباہ و برباد ہوئے اور غلامی کے سزا وار بن گئے لیکن ان کی سمجھداری اور علم و ہنر اس حالت میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ اس کے متعلق قرآن کریم کا ارشاد ہے ۔ ولقد اخترنا ھم علی علم علی العلمین۔(سورہ دخان)

    اور بلاشبہ ہم نے اپنے علم سے ان کو جہان والوں کے مقابلہ میں پسند کر لیا ہے۔ معلوم رہے کہ ہند کا نام آج کل پشتو زبان میں انڈ اور ہنڈ زیادہ استعمال ہوتا ہے اور انگریزی میں بھی انڈ بولا جاتا ہے۔ اس وقت سارے ہندوستان کو انڈیا اور اس کے باشندگان کو انڈین کہتے ہیں۔ مگر گزشتہ دورمیں یہ نام محدود تھا۔
     
  4. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    اس سلسلہ میں ایک نامور مورخ محمد مجیب بی اے آکسن پروفیسر تاریخ و سیاست جامعہ ملیہ اسلامیہ اپنی تالیف تاریخ تمدن ہند عہد قدیم ۱۹۵۱ء عثمانیہ یونیورسٹی پریس حیدر آباد دکن میں یوں اظہار خیال کرتے ہیں۔

    ۱۔ یورپ میں سنسکرت کا مطالعہ شروع ہوا۔ اور اس کا پتہ چلا کہ سنسکرت ، ایرانی لاطینی، یونانی اور جرمن زبانیں ایک اصل سے ہیں تو ہند جرمنی یاہند یورپی زبان اور تہذیب اور اس تہذیب کو پھیلانے والی آریہ نسل کا تصور قائم ہوا۔ اصل میں یہ تصور بے بنیاد تھا ۔آریہ نسل کی کوئی حقیقت نہیں وہ جسمانی خصوصیات جو آریہ نسل کی پہچان مانی جاتی ہیں ان قوموں میں جو اپنے آپ کو آریہ کہتی ہیں اس کثرت سے نہیں پائی جاتی ہیں کہ ان کے آریہ ہونے کا دعویٰ تسلیم کرلیا جائے لیکن قومیت کے پرستاروں نے اس عقیدت کے ساتھ آریہ نسل کے گن گائے کہ ایک دنیا دھوکے میں پڑ گئی۔ نسل کا لفظ اب اس قدر رائج ہوگیا ہے کہ غلط فہمی کے اندیشوں کے باوجود اسے ترک کرنا مشکل ہے۔ (ص ۱۹)


    ۲۔ آریوں کے مذہب میں آگ کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ اور آریوں میں عورتوں(بتوں) کی پوجا کا رواج نہ تھا۔ صفحہ ۵۳

    ۳۔ سنسکرت ابجد کے دندانی حروف ٹ وغیرہ اور کسی ہند جرمانی زبان میں نہیں ملتے۔ سنسکرت کے بہت سے الفاظ کا مادہ آریائی نہیں معلوم ہوتا۔ صفحہ ۵۴۔

    ۴۔ آریہ دراصل کسی نسل کا نام نہیں ہے۔ بہتر تو یہ ہوتا ہم اس لفظ کو بالکل چھوڑ دیتے اور ان لوگوں کے لیے جو اپنے آپ کو ہندوستان میں آکر آریہ کہنے لگے کوئی اور نام تجویز کرلیتے مگر یہ اصلاح اس قدر رائج ہوگئی ہے کہ اسے ترک نہیں کیا جاسکتا۔ اس لئے اسی سے کام نکالنا پڑتا ہے۔ غلط فہمی سے بچنے کی یہ صورت ہے کہ ہم یاد رکھیں کہ آریہ سب گورے اور قد آور نہیں تھے۔ سب کی ناک اونچی، بال سنہرے اور آنکھیں نیلی نہیں تھیں۔ انہیں آریہ صرف اس بنا پر کہتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو آریہ کہتے تھے۔ آریوں کے اصل وطن کا پتہ چلانا مشکل ہے۔ اب اکثر محقق اس پرمتفق ہیں کہ آریہ نسل کا گہوارہ دریائے ڈینیوب کی وادی تھی ۔یہاں سے اس کے قبیلے ادھر ادھر جاتے رہے وہ قبیلے جو ہندوستان پہنچے درہ دانیال سے گزر کر ایشیائے کوچک اور شمالی ایران ہوتے ہوئے آئے۔ ۱۲۰۰ ق م کے لگ بھگ شمالی ہندوستان میں آباد ہونے لگے تھے۔ زرتشی مذہب کی مقدس کتاب ژنداوستااور رگ وید کی زبان میں اتنا کم فرق ہے کہ خیال ہوتا ہے کہ آریا کے ہندوستان آنے اور رگ وید کے مرتب ہونے کے درمیان بہت لمبا عرصہ نہ گزرا ہوگا۔ (ص ۵۵)

    ۵۔ سات سو ق م کے بعد سے ان میں لکھنے کا رواج بھی آہستہ آہستہ شروع ہوا۔ اوک کے کتبات یا تو کھروشٹی (خروشتی) رسم خط میں ہیں جو مشرقی افغانستان اورپنجاب میں رائج تھا یا براہمی رسم خط میں ہیں۔ کھروشٹی (خروشتی) ایک قدم آرامی رسم خط سے اخذ کیا گیا ہے جو پانچ سو ق م میں رائج تھا ۔یہ دائیں سے بائیں طرف لکھا جاتا تھا۔ آریوں نے اس رسم خط کی علامتوں کو اپنی زبان کی اصوات اور خروف میں تبدیل کر لیا۔ براہمی ابجد کے چھیالیس حروف کی شکلیں معین کی گئیں اور اسے دائیں سے بائیں طرف کے بجائے بائیں سے دائیں طرف لکھنے کاقاعدہ بنا۔ غالباً پانچ سو ق م تک براہمی ابجد مکمل ہوگئی تھی۔ پانی نی (پنی) نے جس کا زمانہ چوتھی صدی ق م تھا اس کو صحیح مانا ہے ۔اس زمانے میں یا اسکے کچھ بعد براہمی رسم خط کی دو شاخیں ہوگئیں ۔ایک شمالی دوسری جنوبی، پانی نی (پنی) کے قواعد نے رسم خط کے ساتھ زبان کو بھی ایک معیاری شکل دے دی اور جو کام کئی سو برس سے آہستہ آہستہ ہو رہا تھا۔ اسکی تکمیل کر دی۔ یہیں سے ویدی زبان کا سلسلہ ختم اور سنسکرت کا شروع ہوتا ہے۔ بول چال کی زبانیں اس کے بعد بھی رہیں اور ان کو کچھ نہ کچھ ترقی بھی ہوتی رہی لیکن پڑھے لکھے شائستہ لوگوں کی زبان سنسکرت تھی(صفحہ ۵۷)

    ۶۔ آریوں نے شمال مغربی ہندوستان(یعنی ہند )میں آباد ہونے کے بعد تمام بھجن یکجا کرلئے۔ اور اس مجموعے کانام رگ وید رکھا۔ رگ وید ہند جرمانی تہذیب کی سب سے پرانی یاگار ہے اور اس کی ادبی خوبیوں کو دیکھئے تو ایک کرشمہ سے کم نہیں۔ رگ وید کے بھجن اس وقت گائے جاتے جب پوجا کے لئے آگ جلائی جاتی۔ یا سوم کے پودے کا رس نکالا جاتا اسسے شراب بنتی تھی جسکاپینا عبادت میں داخل تھا اور اسے آریہ پسند بھی کرتے تھے۔ رگ وید مرتب ہوگیا تو اس کے وہ بھجن جن میں سوم کو مخاطب کیا گیا تھا الگ الگ کرکے ایک نیا مجموعی تیار کیا گیا جو سام وید کہلاتا ہے۔ صفحہ ۵۸

    ۷۔آریوں کی خاندانی رسمیں مثلاً گھر کے ایک مرکزی مقام پر ہر وقت آگ جلتی رکھنا اور دولہا دلہن کا اس آگ کے گرد چکر لگانا۔ صفحہ ۶۹

    ۸۔ عورتیں بس گھر میں پوجا کی آگ جلتی رکھتیں اور چڑہاوے اور نذر کے لئے ضروری سامان مہیا کرتیں صفحہ ۷۱

    ۹۔ دولہا کے ساتھ برات ضرور آتی۔ دلہن کا ہاتھ دلہا کے ہاتھ میں دیا جاتا۔ دونوں پوجا کی آگ کے گرد طواف کرتے۔ صفحہ ۷۲

    ۱۰۔ ہندو مذہب عقائد کا مجموعہ نہیں بلکہ زندگی کا ایک نظام ہے اور جو شخص اس نظام کو قبول کرلے وہ عقائد میں آزادی کے ساتھ انتخاب کر سکتاہے۔ (صفحہ ۲۴۱)

    ۱۱۔اس نئے دور میں مذہبی اتحاد پسندی نے ہر فرقے اور نسل کوجس نے ہندو نظام زندگی کو قبول کیا۔ سماج اور مذہب میں داخل کر لیا۔ صفحہ ۲۴۲۔

    اور پروفیسر مکس میولر کے نزدیک یہ آریا یا جیساکہ ہم اس وقت انہیں آرین پکارتے ہیں ایک کلچرل گروپ تھا۔‘‘ (احمد چاگلا، بحوالہ یوسفی)
     

اس صفحے کو مشتہر کریں