1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

گرم ترین سال

'جنرل سائنس' میں موضوعات آغاز کردہ از تانیہ, ‏25 جنوری 2012۔

  1. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ گزرا سال گزشتہ دہائی کے بیشتر سالوں کی نسبت قدرے کم گرم رہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود درجہ حرارت میں اضافہ بدستور جاری ہے۔

    امریکی ادارے نیشنل اوشنیک اینڈ ایٹموسفیرک ایڈمنسٹریشن (NOAA)کے مطابق گزشتہ برس زمین کا اوسط درجہ حرارت 14.4 ڈگری سینٹی گریڈ رہا ہے، جس سے 2011ء ریکارڈ پر موجود گیارہواں گرم ترین سال بن گیا ہے۔

    اس طرح یہ سال بیسویں صدی کے اوسط درجہ حرارت کی نسبت 0.9 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ گرم رہا۔ دراصل یہ سال پچھلی صدی کے ہر سال کی نسبت زیادہ گرم تھا، سوائے 1998ء کے۔

    حالیہ سالوں کے مقابلے میں گزشتہ برس کے کم گرم رہنے کی ایک وجہ La Nina کی بدولت وسطی بحرالکاہل کا ٹھنڈا رہنا ہے، یہ عمل کچھ سالوں کے وقفے سے ہوتا ہے اور ہر مرتبہ عالمی درجہ حرارت میں کمی لاتا ہے۔ تاہم اس مرتبہ La Nina دستیاب ریکارڈ کے مطابق گرم ترین تھا۔

    2011ء اسپین اور ناروے کے لیے گرم ترین سال رہا ہے جبکہ برطانیہ کے گرم ترین برسوں میں یہ دوسرے نمبر پر رہا ہے۔ امریکہ میں یہ سال معمول سے 0.05 ڈگری سینٹی گریڈ اوپر تھا، جس سے امریکہ کے گرم ترین سالوں میں اس کا نمبر تئیسواں رہا۔ اس کے برعکس ہوسٹن، میامی، ٹرینٹن اور آسٹین سمیت امریکہ کے سترہ شہروں کے لیے یہ گرم ترین سال تھا۔

    یہ مسلسل پینتیسواں سال ثابت ہوا ہے، جب عالمی درجہ حرارت معمول سے زیادہ گرم رہا۔

    خیال رہے کہ NOAA انیس سو اسّی سے عالمی درجہ حرارت کا ریکارڈ رکھتا ہے۔ اس ادارے کے نیشنل کلائمٹک ڈیٹا سینٹر کے ڈائریکٹر ٹام کارل کہتے ہیں: ’’ایسے کسی نتیجے پر پہنچنا قبل از وقت ہو گا کہ درجہ حرارت میں طویل المدت ا‌ضافے کا تسلسل ٹوٹے گا۔ عالمی درجہ حرارت بدستور بڑھ رہا ہے۔‘‘

    امریکی خلائی ادارہ ناسا نسبتاﹰ مختلف انداز سے عالمی درجہ حرارت ریکارڈ کرتا ہے۔ اس نے بھی گزشتہ برس کے لیے اسی اوسط درجہ حرارت کا اعلان کیا ہے۔ تاہم ناسا کے ریکارڈ کے مطابق 2011ء نواں گرم ترین سال گزرا ہے۔

    ناسا کے ماحولیاتی سائنسدان جیمز ہانسین اور یونیورسٹی آف وکٹوریا کے اینڈریو ویور، ان دونوں نے ہی توقع ظاہر کی ہے کہ آئندہ چند برسوں میں دنیا بلند ترین درجہ حرارت کے نئے ریکارڈ کا سامنا کرے گی۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں