اس سال ویلنٹائن ڈے پر پھولوں کے تاجروں نے کینیا کے نوجوانوں سے خوب پیسے بنائے اور پھولوں کی ایک ٹہنی کی قیمت دس گنا زیادہ تک وصول کی۔ لیکن گزشتہ ہفتے ایک سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کینیائی نوجوان جنس پسند تو ہیں لیکن وہ معاملات عشق میں اچھے نہیں ہیں۔ اس مسئلے کے حل کے لیے گرٹروڈ منگائی نامی خاتون نے ایک کاروبار شروع کیا ہے جس کا مقصد کینیا میں خواتین کو پیار کے بہتر ڈھنگ سکھانا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کینیا کی تہذیب میں یہ بات موجود ہے کہ اچھی بیوی ہونے کا مطلب صرف زبردست کھانے بنانا اور بچے پالنا نہیں ہے۔ ملک میں موجود شادی کے مسائل سلجھانے والے ماہرین یا ’میرج کونسلرز‘ کے مطابق عورتوں کی اکثریت یہ نہیں جانتی کہ ازدواجی تعلق میں انہیں جنسی اعتبار سے کس چیز کی توقع رکھنی چاہیے جس کی وجہ سے مرد حضرات ایسی عورتوں سے تعلقات قائم کرنے کے بعد مایوسی اور کم مائیگی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ مسز منگائی کے مطابق انہیں یقین ہے کہ ان کا طریقہ علاج اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ مرد حضرات گھر میں خواتین کی مدد کرنے لگ جائیں گے اور آوارہ گردی سے باز رہیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس کے لیے اپنی نانی کی مشکور ہیں جنہوں نے ان (مسز منگائی) کی شادی سے قبل ان کے لیے ایک ’سومو‘ یا روایتی جنسی ماہر سے ملاقات کا اہتمام کیا۔ ’جنسی تعلق قائم کرنا میرے نزدیک ایک مکمل تقریب ہے۔ اس کا تعلق صرف جنس سے نہیں ہے، اس لیے میں عورتوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہوں کہ وہ خود کو ان لمحات کے لیے تیار کیا کریں۔‘ نیروبی کے قریب اپنے گھر میں قائم اپنے ادارے کا نام انہوں نے ’ٹیٹیزو‘ یعنی ’اگربتی‘ رکھا ہے۔ ملحقہ سونے کے کمرے میں ایک روایتی قالین پر جا بجا تکیے رکھے ہوئے ہیں اور کمرے کی گلابی دیواروں سے پردے لٹک رہے ہیں۔ اس کمرے کا ماحول اتنا پرسکون بنایا گیا ہے اور اس میں ایسی نرمی پائی جاتی ہے کہ اس میں داخل ہونے والوں کی ہر قسم کی ہچکچاہٹ ختم ہو جاتی ہے۔ مسز منگائی کو یقین ہے کہ جدید زندگی کے تقاضوں کے باوجود عورتوں کو اپنی نسوانیت کو قائم رکھنا چاہیے۔ مسز منگائی کے ادارے سے مستفید ہونے والی خواتین میں سے اکثریت کا تعلق دارالحکومت نیروبی کے متوسط طبقے سے ہے، تاہم جوں جوں ان کے طریقہ علاج اور مشوروں کی شہرت بڑھ رہی ہے دوسرے شہروں کی خواتین بھی ان سےملاقات کی درخواست کر رہی ہیں۔ وہ دیہاتی عورتوں کے لیے مفت سیشنز بھی کرتی ہیں جن میں ہر عمر کی خواتین شامل ہوتی ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ عمر والی خاتون اٹھاون برس کی تھی۔ لیکن مسز منگائی کا کہنا ہے کہ بڑی عمر کی خواتین کو سمجھانا بہت مشکل ہے کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ انہیں سب کچھ معلوم ہے۔ ’البتہ میرے سیشن میں شرکت کے بعد لگتا ہے کہ ایسی خواتین کے دل میں بھی میرے لیے عزت پیدا ہوجاتی ہے۔‘ مسز منگائی کے ہاں شادی شدہ عورتوں اور جلد ہی دلہن بننے والی لڑکیوں کے لیے بیلی ڈانس، پول ڈانس، لیپ ڈانس اور سٹرپٹیز سب کچھ سیکھنے کا اہتمام موجود ہے۔ انہوں نے اقرار کیا کہ بعض اوقات انہیں ان شوہروں کی طرف سے پھول ملتے ہیں جنہیں ’میری محنت کا پھل کھانے کا موقع ملتا ہے۔‘ بشکریہ http://www.bbc.co.uk/urdu/regional/stor ... s_sq.shtml
ہارون بھائی اس سے کیا مطلب نکلتا ہے ؟ یا اس سے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں آپ ؟؟ براہ کرم مجھ ناقص العقل کے لیے وضاحت فرما دیں۔ شکریہ
چلیں عقرب بھائی ۔ اتنا تو پتہ چل گیا کہ کہ آپ اور ہارون بھائی “برابرالعقل“ ہیں کیونکہ جوابی وضاحت ان سے بھی نہیں ہو پائی :176: