1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کیا اب عوامی عدالتیں فیصلے کریں گی؟

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏17 فروری 2018۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف اپنی نااہلی کو ہضم نہیں کر پائے اور خم ٹھونک کر میدان میں اتر آئے ہیں۔ مجھے کیوں نکالا کی گردان کرتے ہوئے جس بیانیئے کا فروغ وہ کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ ان پر کرپشن کا کوئی الزام اب تک ثابت نہیں کیا جا سکا اور ان کو نا اہل کرنے کے لیے اقامہ کا سہارا لیا گیا ہے۔ اس بیانیئے کو لے کر وہ ہر عوامی اجتماع میں یہی سوال کرتے ہیں کہ بتاؤ تو سہی کہ مجھے کیوں نکالا۔ یہ سوال وہ عدلیہ سے بھی کر رہے ہیں اور بقول ان کے ان پس پردہ قوتوں سے بھی جو ان کو کسی قیمت پر اقتدار میں نہیں دیکھنا چاہتیں۔ جواب ان کو اب تک نہیں مل سکا۔ جواب کے متلاشی نواز شریف نے اپنی نااہلی کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ عدالت کے فیصلے پر تنقید کے ساتھ ساتھ وہ معزز جج صاحبان کو بھی آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔ وہ یہ کہتےہیں کہ عدلیہ ان کے خلاف بغض سے بھری بیٹھی ہے۔ اور وہ یہ بھی نہیں قبول کرپا رہے کہ جس شخص کو کروڑوں لوگوں نے ووٹ دے کر متنخب کیا ہو اس کو محض چند (پانچ) لوگ کیسے قلم کے ایک اشارے پر ایوان اقتدار سے بے دخل کر سکتے ہیں۔

    اگر یہ آج سے بیس سال پہلے کا موقع ہوتا تو شاید پاکستان مسلم لیگ ن اتنا سیاسی تردد نہ کرتی اور سپریم کورٹ کے ایک دو دروازے اب تک اکھاڑ چکی ہوتی۔ بدقسمتی سے مگر یہ 2018 ہے اور ایسی کوئی مہم جوئی شاید عوامی مقبولیت سے ہمکنار نہ ہو پائے۔ مگر یہ کوئی ایسی ناممکن بات بھی نہیں ہے۔ نواز شریف نے تحریک عدل کا اعلان کرتے ہوئے ریاستی عدالت کے مقابل عوامی عدالت سے فیصلے لینے شروع کر دیئے ہیں۔ وہ “خلوص نیت” سے نظام عدل میں اصلاحات لانا چاہتے ہیں اور اب وہ کہتے ہیں کہ فیصلہ عوام کی عدالت کا مانا جائے گا۔ وہ جلسہ کرتے ہیں اور لوگوں سے ہاتھ اٹھوا اٹھوا کر اپنے کہے الفاظ پر صاد کرواتے ہیں۔ ویسے یہ بہت دلچسپ صورت حال ہے۔ الفاظ نواز شریف کے ہوتے ہیں۔ سوال نواز شریف کے ہوتے ہیں اور عوام ہاتھ اٹھا دے تو اسے عوام کا فیصلہ کہ دیا جاتا ہے۔ شاذ ہی ایسی عدالت دیکھنے میں آئی ہو جو ملزم کے الفاظ پر ہاتھ اٹھا اٹھا کر اس کو الزامات سے بری قرار دے رہی ہو۔

    مسئلہ مگر ایک اور ہے اور وہ یہ ہے کہ عوام کا ریاستی اداروں پر اعتماد متزلزل کرتے کرتے نواز شریف ملک میں انارکی اور خانہ جنگی کروانے کا الزام اپنے سر نہ لے لیں۔ ذرا تصور کیجیئے۔ ملک کے کونے کونے میں عوام کی عدالتیں قائم ہو جائیں اور ہاتھ اٹھا اٹھا کر خواہشوں اور فیصلوں پر صاد کرنا شروع کر دیں تو کیا صورت حال بنے گی؟ کوئی بھی شخص یا کوئی بھی تنظیم اگر کچھ لوگوں کو اکٹھا کر لے اور اپنی مرضی کے فیصلوں پر تائید حاصل کر لے تو ان کو کون چیلنج کر سکے گا؟ ویسے تو یہ کام ملک میں ہو ہی رہا ہے اور دھڑلے سے ہو رہا ہے۔ آئیے اپنی یادداشت تازہ کرتے ہیں۔

    آپ کو مختاراں مائی یاد ہے؟ اس کے ساتھ اجتماعی زیادتی ایک عوامی عدالت کے فیصلے کے تحت کی گئی تھی۔ آپ کو سیالکوٹ کے دو بھائی مغیز اور منیب یاد ہیں؟ وہ بھی انسداد دہشت گردی کی عوامی عدالت کے ہتھے چڑھ گئے تھے اور عوام کی عدالت نے موقع پر “انصاف” کر دیا تھا۔ پھر آپ کو کوٹ رادھا کشن کے وہ عیسائی میاں بیوی یاد ہیں؟ وہ بھی عوام کی سیشن کورٹ کی عدالت کے فیصلے کا شکار ہوئے تھے۔ آپ کو خادم حسین رضوی یاد ہیں؟ انہوں نے دو ہزار لوگوں کی سر عام ڈسٹرکٹ کورٹ عدالت لگا کر حکومت کی پین دی سری کر کے رکھ دی تھی۔ مشال خان بھی سول عوامی عدالت کی فیصلے کی بھینٹ چڑھا تھا۔ 2013 میں راولپنڈی کے راجہ بازار میں ہونے والا سانحہ آپ کو یاد ہے؟ وہاں بھی عوام ہی کی سیشن کورٹ عدالت لگی تھی۔ یہ چند واقعات آپ کی یادداشت تازہ کرنے کے لیے لکھے ہیں ورنہ عوام کی عدالت کے انصاف کے بےشمار واقعات ہمارے ملک کی تاریخ میں رونما ہو چکے ہیں۔ عوامی عدالت کے ان انصافات کو “موب جسٹس” کا نام دیا جاتا ہے۔ یعنی ہجوم کے ہاتھوں موقع پر انصاف۔

    افسوس ناک بات یہ ہے کہ عوام کی عدالت کے فیصلوں کا نعرہ لگانے والے نواز شریف کی حکومت نے ان تمام عوامی عدالتوں کے منصفوں کو ریاستی قانون کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا۔ اور عوام کی عدالت لگانے والے “معزز جج صاحبان” کو سزائیں بھی ہوئیں۔ منافقت سی منافقت ہے۔ ریاستی عدالت آپ کے خلاف فیصلہ سنا دے تو آپ عوام کی عدالت سے فیصلے لینا شروع کر دیتے ہیں۔ آپ کے علاوہ اگر عوام اپنی عدالت لگا لے تو آپ کا قانون حرکت میں آ جاتا ہے۔ تو پھر یہ کیوں نہ سمجھا جائے کہ آپ کے نزدیک عوامی عدالت وہی ہے جو آپ کی ذات کو ہر الزام سے بالاتر قرار دے دے۔ اورآپ کے نزدیک انصاف صرف وہی ہے جو محض آپ کی ذات کے لیے آپ ہی کی مرضی اور منشا کے مطابق ہو۔

    حال ہی میں مشال خان کے قتل کے الزام میں گرفتار چھبیس لوگوں کو عدالت نے عدم ثبوت کی بنیاد پر بری کر دیا ہے۔ موٹر وے پر مردان کے رشکئی انٹرچینج پر ایک عوامی ہائی کورٹ عدالت نے ان کا پرجوش استقبال کیا ہے۔ اس میں قابل ذکر مذہبی اور سیاسی جماعتیں شامل تھیں۔ اس موقع پر “غازیان” نے عوامی عدالت میں صفائی کا بیان دیتے ہوئے “مجرم مشال خان “کے جرم اور موقع پر فوری انصاف کے فلسفے پر روشنی ڈالی اور عزم ظاہر کیا کہ آئندہ بھی وہ اس جرم کی بیخ کنی میں پیش پیش ہوں گے اور ضرورت پڑنے پر فوری انصاف مہیا کریں گے۔ اب عقل حیران ہے کہ عوامی عدالت سے فیصلہ لینے والے اور ان کے حمایتی کس منہ سے رشکئی انٹرچینج پر منعقد ہونے والی عوامی عدالت کی مذمت کریں گے۔ کیامردان والے کسی دوسری دنیا کے لوگ ہیں جنہوں نے یہ عوامی عدالت لگائی تھی؟

    کیا آنے والا وقت ہمیں یہ نظارہ دکھانے جا رہا ہے کہ ریاستی عدالت کے فیصلے بے اثر کر دیئے جائیں گے اور عوامی عدالت کے فیصلوں کو ترجیح دی جائے گی؟ اور کیا عوامی عدالت سے فیصلے لینے والے ملک میں لگنے والی ہر قسم کی عوامی عدالت کے ساتھ اظہار یک جہتی کرتے دکھائی دیں گے؟ کیا مستقبل میں عوامی عدالتیں ہی ملزموں کے مقدر کے فیصلے کریں گی؟

    اویس احمد
     
  2. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    نااہل سابق وزیر اعظم نواز شریف کو کرپشن پر صرف پھانسی زیادہ زندگی نہیں مزید بات نہیں
     
  3. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:
    نواز شریف نے ماضی میں بےنظیر کے متعلق جو باتیں بہودہ انداز میں اپنے کسی خطاب میں کی تھیں وہ تمام باتیں اب نواز شریف پر مکمل فٹ ہو رہی ہیں تھوڑا وقت نکال کر یہ ویڈیو کلپ ضرور دی

     
    نعیم اور زنیرہ عقیل .نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    منصفوں کا سارا زور منتخب وزیراعظم پر چلتا ہے، جو منصف فیصلہ آنے سے پہلے گالیاں اور القابات دیں، ان کا فیصلہ کیا ہو گا: مریم نواز شریف ،،،

    شیخوپورہ (ڈیلی پاکستان آن لائن) پاکستان مسلم لیگ (ن) کی رہنماءمریم نواز شریف نے کہا ہے کہ منصفوں کا سارا زور منتخب وزیراعظم اور عوام پر چلتا ہے لیکن جب آمر آتا ہے تو ہمت ختم ہو جاتی ہے اور آرٹیکل 62,63 سو جاتا ہے۔
    یہ صرف نواز شریف کا مقدمہ نہیں بلکہ ہر اس شخص اور وزیراعظم کا مقدمہ ہے جس کو آپ نے ووٹ دے کر منتخب کیا تھا۔ ناانصافی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو گا کہ نواز شریف کو گالی دینے والے منصف مقدمہ بھی سن رہے ہیں اور ایک فیصلہ بھی دے چکے ہیں جبکہ آنے والے وقتوں میں انہوں نے نواز شریف کا فیصلہ سنانا بھی ہے۔


    شیخوپورہ میں جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے مریم نواز شریف نے کہا کہ آپ کی عدالت میں نواز شریف کا مقدمہ لائی ہوں اور یہ اکیلے نواز شریف کا مقدمہ نہیں ہے بلکہ ہر اس شخص اور وزیراعظم کا مقدمہ ہے جس کو آپ نے اپنے ووٹ دے کر وزیراعظم بنایا تھا۔ یہ ہر اس وزیراعظم کا مقدمہ ہے جو آپ کے ووٹوں اور اعتماد کے باوجود بار بار پانچ سال پورے نہیں کر سکا۔ نواز شریف کا یہ مقدمہ اس لئے بھی زیادہ ہے کہ ان کیساتھ ایک نہیں، دو نہیں بلکہ تین بار یہی ہوا ہے۔ نواز شریف کو ایک مرتبہ بھی ووٹ سے نہیں نکالا گیا بلکہ نواز شریف کو جب بھی نکالا، ووٹ کی پرچی کو روندنے والوں نے نکالا۔ 1999ءمیں بھی یہی کچھ ہوا اور پھر 2000ءسے 2010ءمیں بھی یہی ہوا اور اب 2017ءاور 2018ءمیں بھی یہ ہی ہو رہا ہے تو کیا ایسے ہی پاکستان کا تماشا بنتا رہے گا یا آپ کچھ کریں گے؟
    ناانصاف کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو گا کہ جن منصفوں نے نواز شریف کو گالی دی وہی نواز شریف کا مقدمہ سن رہے ہیں اور فیصلہ بھی دے چکے ہیں اور انہی منصفوں نے آنے والے وقتوں میں نواز شریف کا فیصلہ سنانا ہے۔ جو فیصلے آنے سے پہلے گالیاں دیدیں، اور القابات سے نواز دیں تو ان کافیصلہ کیا ہو گا؟ کیا ان کی گالیوں کے ذریعے، کیا وہ اپنے القابات کے ذریعے نواز شریف کے خلاف فیصلہ نہیں سنا چکے؟
    نواز شریف نے اپنے والد کے جنازے کو کندھا دینا ہو تو وہ پاکستان آ نہیں سکتا اور اگر اپنی بیمار اہلیہ کے پاس اس کی عیادت کیلئے جانا چاہے تو وہ ملک سے باہر نہیں جا سکتا، یہ کیسا انصاف ہے؟ آپ کو پتہ ہے کہ ہر بار نواز شریف کیساتھ یہ کیوں ہوتا ہے؟ کیونکہ آپ اس کو دو تہائی اکثریت دے کر وزیراعظم بناتے ہو اور ہر بار کوئی نہ کوئی بہانہ کر کے اسے آپ کی خدمت سے روک دیا جاتا ہے۔ نواز شریف جیسے ہی اقتدار میں آتا ہے تو دن رات آپ کی خدمت میں لگ جاتا ہے، بجلی بناتا ہے، موٹرویز بناتا ہے، ہسپتال بناتا ہے، کالج اور یونیورسٹیز بناتا ہے، سی پیک بناتا ہے اور جب وہ یہ سب کچھ آپ کیلئے کرتا ہے تو بدلے میں آپ کی محبت ملتی ہے۔ پہلے سے بھی زیادہ عشق ملتا ہے اور اسی کی سزا نواز شریف کو ملتی ہے۔ لیکن یہاں پر منتخب ویراعظم قبول نہیں، مگر نواز شریف تو وہ وزیراعظم ہے جس کو عوام کی محبت اور عشق ملا ہے۔ جگہ جگہ اسی طرح کے مناظر دیکھتی ہوں اور دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ کس طرح دیوانہ وار آپ لوگ نواز شریف سے محبت کرتے ہو اور چالیس سال سے اس محبت میں کمی نہیں آئی، اضافہ ہوتے دیکھا ہے۔
    میں اور یہاں موجود نوجوان نواز شریف کے سپاہی ہے اور آج اس کے جھنڈے تلے جمع ہوئے ہیں۔ میں سب کو یہ پیغام دیتی ہوں کہ ہمارا نظام عدل آپ لوگوں کا مقروض ہے اور یہ یہ ہر اس شخص کا مقروض ہے جس نے ووٹ کے ذریعے اپنے نمائندوں کو عزت دی، اس نظام عدل نے نواز شریف کے پچھلے 20 سالوں کے قرض چکانے ہیں لیکن انہوں نے قرض کے اور بھی انبار لگا دئیے۔ وہ قرض کون اتارے گا جب نواز شریف کو جھوٹے مقدمے میں ہائی جیکر بنا کر جیل کی کال کوٹھڑی میں ڈال دیا تھا۔
    نظام انصاف نے وہ قرضہ بھی چکانا ہے کہ جب نواز شریف کو ایک جھوٹے، آمر کے سامنے سر نہ جھکانے کے مقدمے، لوگوں کے ووٹ کو عزت دینے اور ووٹ کی پرچی کو پاﺅں تلے نہ روندنے کے الزام میں اٹک قلعے میں بند رکھا گیا۔ 2 دفعہ عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ عدالت نے جھوٹے مقدمے میں آپ کے اور میرے لیڈر کو ہائی جیکر بنایا اور دو دفعہ عمر قید کی سزا سنائی تو اس وقت میں کمرہ عدالت میں موجود تھی جبکہ 300 سے 400 اور لوگ بھی موجود تھے۔ اس وقت میری عمر بہت کم تھی لیکن جب سزا سنائی گئی تو میں نے اس وقت بھی کھڑے ہو کر جج کو آواز لگائی کہ تم نے بے گناہ سے ناانصافی کی ہے، اللہ کے عذاب سے ڈرو ۔۔۔
    کیا وہ وقت لٹا سکتے ہو جب نواز شریف کو آپ سے اور اس مٹی سے دوری برداشت کرنا پڑی۔ جب ڈوگر کورٹ سے نواز شریف کو نااہل کیا گیا تو جو قوم کا وقت ضائع ہوا، کیا وہ وقت قوم کو واپس لٹا سکتے ہو؟ میں پوچھتی ہوں 30 سال سے مائنس نواز شریف پر کام کرنے والوں کو کیا ملا؟ کچھ نہیں ملا بلکہ اللہ کے فضل و کرم سے ناکامی ہوئی لیکن نواز شریف کو بہت کچھ ملا، نواز شریف کو آپ کی محبت ملی، آپ کا نہ ختم ہونے والا ساتھ ملا، عشق ملا۔ نواز شریف صاحب آپ بہت خوش قسمت انسان ہیں اور اللہ کا شکر ادا کریں کہ آپ کو 40 سال سے اتنی محبت ملی ہے اور اب میں دیکھی ہوں کہ کس طرح راہ چلتے ہوئے بھی نواز شریف کی عزت کی جاتی ہے۔
    ابھی میں جلسہ گاہ میں آ رہی تھی تو موٹر سائیکل پر کچھ لڑکے جا رہے تھے۔ انہوں نے گاڑی کی اگلی سیٹ پر نواز شریف کو بیٹھے دیکھا، تو چلتی موٹر سائیکل پر دونوں ہاتھ اٹھا لئے اور نواز شریف کیلئے اظہار محبت شروع کر دیا۔ ایک وقت آئے گا اور میں دیکھ رہی ہوں کہ وہ وقت آ رہا ہے جب آئین اور قانون پر مبنی حقیقی جے آئی ٹی بنے گی جو دیکھے گی کہ واٹس ایپ پر بنائی گئی جے آئی ٹی کی کیا حیثیت تھی۔ واٹس ایپ کالز کے ذریعے کس نے جے آئی ٹی بنائی تھی اور اس کے پیچھے کیا وجہ تھی ۔ وہ جے آئی ٹی یہ بھی دیکھے گی کہ نواز شریف کے مخالفوں کی وہ پٹیشن جسے عدالت نے مذاق قرار دیدیا تھا، کس طرح سپریم کورٹ میں داخل ہو گئی۔ جے آئی ٹی دیکھے گی کہ کس کو گاڈ فادر کہا اور کیوں کہا؟ کس کو سسلین مافیا کہا اور کیوں کہا؟ کس کو چور کہا اور کیوں کہا؟
    منصفوں کا سارا زور منتخب وزیراعظم، ووٹ کی پرچی اور آپ سب پر چلتا ہے لیکن جب کسی آمر کا دور ہوتا ہے تو ہمت نہیں ہوتی۔ اس وقت ہمت کہاں چلی جاتی ہے؟ پھر آرٹیکل 62 اور 63 کہاں سو جاتا ہے۔ اللہ اور آپ کی مدد سے مل کر ان سب باتوں کے جواب ایک نہ ایک دن ان سب کو دینا پڑیں گے۔ گواہ رہنا کہ نواز شریف سچا ہے اور اس کے ساتھ ناانصافی کرنے والے جھوٹے ہیں۔


    مجھ سے وعدہ کرو کہ نواز شریف کا ساتھ نبھاﺅ گے؟ عدل کی بحالی میں اس کا ساتھ دو گے؟ ووٹ کی عزت کراﺅ گے؟ اپنی ووٹ کی پرچی کی عزت کرواﺅ گے؟ انشاءاللہ آپ اپنی بہن اور بیٹی کو اس سیاسی جدوجہد میں کسی سے پیچھے نہیں پائیں گے، میں آپ کے ساتھ کھڑی ہو کر اپنے والد اور لیڈر کیلئے یہ جنگ لڑوں گی اور دھڑلے سے لڑوں گی۔۔۔
     

    منسلک کردہ فائلیں:

  5. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    اگر عدلیہ و اسٹیبلشمنٹ اور ملک و قوم کی حفاظت کا حلف اٹھانے والے بااختیار ادارے اس کرپشن مافیا کا خاتمہ کرنے میں مخلص ہیں تو اس کرپشن مافیا کے درخت کی جڑیں پنجاب حکومت ہے۔ یہ جلسے جلوس، ہلہ گلہ، میڈیا تقریریں، بیوروکریسی ہڑتالیں سب پنجاب حکومت کے بل پر ہورہی ہیں۔ پنجاب حکومت نہ رہے تو جلسوں میں اپنے ممبران اسمبلی کے چلیوں چانٹوں، پٹواریوں، سرکاری ملازمین اور سول وردی میں پنجاب پولیس کی حاضریوں سے بنائی جانے والی انکی جعلی مقبولیت کا غبارہ چند لمحوں میں پھٹ جائے گا۔
    لیکن اربابِ اختیار اگر مخلص ہیں تو ۔۔۔۔ !!!! ورنہ تو الیکشن 2018 اور اسی کرپٹ نظام کے تحفظ کا ڈرامہ ہوگا۔
     
    پاکستانی55 اور زنیرہ عقیل .نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں