1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کہاں چلا گیا وہ ہاشمی

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از کنعان, ‏20 مئی 2018۔

  1. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:
    کہاں چلا گیا وہ ہاشمی

    اک بہادر آدمی کا نام پانے والا جاویداختر ہاشمی، اسلامیہ کالج بوسن روڈ سے اٹھنے والا ہاشمی نواز شریف کے بیانیے کے پاﺅں میں کیوں بیٹھ گیا۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کیا میں ہی غلط تھا جو انھیں نہیں پہچان سکا۔ وہ سردیوں کے دن ڈاکٹر مشتاق منہاس اور ڈاکٹر قیوم نے جب دعوت شرکت دی تو میں نے کہا میں چاہتا ہوں جمعیت جاوید ہاشمی بنے۔ کدھر گیا وہ ہاشمی جسے میں جانتا تھا؟

    نون لیگ نے بڑی کوشش کی سیاسی شہادت پانے کی مگر ایسا ہونے نہیں دیا گیا۔ کہانی نون کے مالک اعلی سے شروع ہوتی ہے، اس دوران لوہے کے چنے والے اور بہت سے عقاب میدان میں آئے۔ نہال ہاشمی نے تو حد کر دی۔ میاں نواز شریف کے بیان نے تو سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔پاکستان کی فوج پر پے در پے حملے کئے گئے، فوج نے اس کا جواب دیتے ہوئے اپنی قربانیوں کے سلسلے طویل کر دیئے۔ ایک جانب اندر سے ان پر حملے جاری تھے ، دوسری جانب پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کی پر وردہ قوتیں کوئٹہ کے میدان میں ان پر گولیاں چلاتی رہیں۔ جاوید ہاشمی کے تازہ ترین بیان بھی اسی سلسلے کی کڑی ہیں ۔ میرا آج کا کالم اسی باغی کے گرد گھومے گا۔ یہ ہاشمی اپنے آپ کو باغی کہتے ہیں ۔ شائد ان کی بغاوت کے نئے رخ ہندوستان کے بیانیے کو گلے لگانے نکل پڑے ہیں ۔ فوج کو سر عام للکارنا اور منہ پھاڑ کر للکارنے کا صرف ایک ہی مطلب ہے کہ وہ مسلم لیگ نون کے ان حلقوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ آپ کی آواز کمزور تھی، میں اس میں اپنی فکر اور سوچ کو شامل کر کے دنیا کو بتاﺅں گا کہ میں کل بھی باغی تھا اور آج بھی باغی ہوں۔ وہ شائد مریم بی بی کی رضا کے لئے یہ سب کچھ کر گئے۔

    جاوید اختر ہاشمی زمانہء طالب علمی میں اسی نام سے جانے جاتے تھے۔ آج تو ارب پتی ہیں لیکن جس ہاشمی کو میں جانتا ہوں وہ پیر نوبہار شاہ کے چھوٹے بھائی ہیں، جن کے پاس اڑھائی سو ایکڑ اراضی تھی جو وسیب میں ایک بہت چھوٹے زمیندار کے پاس ہوتی ہے۔ انہوں نے اسلامی جمعیت طلبہ کے پلیٹ فارم سے سیاسی جد و جہد کا آغاز کیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ چھا گئے۔ ان کی نمو میں جناب مجیب شامی کے رسالے زندگی کا بڑا ہاتھ ہے بلکہ یار لوگ کہتے ہیں یہ پروڈکٹ بھی انہی کی ہے۔ گورنمنٹ کالج بوسن روڈ کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے ان کی تصویر دیکھی۔ جماعت اسلامی کے دارلمطالعہ جو مدرسہ اشرف العلوم گجرانوالہ کی دوکانوں میں قائم تھا، اس مدرسے میں ہم نے بھی تحریک ختم نبوت میں حصہ لیا۔ جاوید ہاشمی نے ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ان کی حکومت کی مخالفت کا استعارہ بن کر بڑی شہرت پائی۔ انہوں نے اسلامی جمعیت طلبہ کے رفیق کے بطور اپنی سر گرمیاں جاری رکھیں ۔ جمعیت میں رفیق درمیانے درجے کے کارکن کو کہا جاتا ہے۔ پہلا حامی، دوسرا رفیق، تیسرا امیدوار رکنیت اور چوتھے درجے میں رکن جمعیت بنایا جاتا ہے۔ ہاشمی غالباً رفیق ہی رہے۔ اکہتر میں پاکستان ٹوٹا شیخ مجیب بنگلہ دیش گئے، بھٹو نے بنگلہ دیش منظور کرنے کی کوشش کی، جاوید ہاشمی نے بنگلہ دیش نا منظور کی تحریک چلائی۔ جمعیت جماعت اسلامی کی طلباء تنظیم تھی جس کا تعلق سید مودودیؒ کی فکر سے ہے۔ جمعیت اور جماعت کے دفاتر بھی اچھرہ میں آمنے سامنے تھے۔ یوں تو جناب بارک اللہ خان مرحوم اور ہاشمی سے پہلے حفیظ خان نے بھی پنجاب یونیورسٹی میں طلباء کی قیادت کی۔ ان دنوں یونیورسٹی کی سیاست انتہائی اہم سیاست گردانی جاتی تھی۔ بارک اللہ فنا فی لجماعت تھے ، شکر گڑھ بارہ منگا سے پٹھان خاندان سے تعلق تھا، ارشد خان مرحوم صدر مسلم لیگ سعودی عرب کے عزیز تھے۔ حفیظ خان تحریک انصاف کے ان پانچ اراکین میں تھے جنہوں نے تحریک انصاف کی بنیاد رکھی۔ پی ٹی آئی کے ان پانچ پیاروں میں مرحوم احسن رشید ،جناب نعیم الحق خود عمران خان شامل تھے، ایک کا نام بھول رہا ہوں۔ جاوید اختر ہاشمی نے جمعیت کی سیاست میں نئی روح پھونکی، بلا کے مقرر تھے۔ بنگلہ دیش نامنظور موومنٹ کے شروع کرنے سے پہلے انہوں نے پنجاب اسٹوڈنٹس کونسل کی بنیاد رکھی جس میں پنجاب کے سارے کالجوں کے صدور اور جنرل سیکرٹری رکن بنے۔ ٹیکنیکل کالجز کو بھی نمائندگی دی گئی، ایک نائب صدر کی پوزیشن میرے حصے آئی۔ پاکستان دو لخت ہو چکا تھا، جناب ذولفقارر علی بھٹو اسلامی کانفرنس کے لاہور اجلاس کی تیاریوں میں مصروف ہو گئے۔

    یہاں ایک اہم بات اپنے معزز قارئین کے لئے لکھنا چاہتا ہوں وہ یہ غلط فہمی ہے کہ لاہور کی اسلامی کانفرنس بھٹو نے کرائی۔ یہ ایسا ہی ہے کہ ایک کام کسی کے عہد میں شروع کیا ہو اور تکمیل کسی اور نے کی ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں 1974ء کی اسلامی کانفرنس کی میزبانی ذوالفقار علی بھٹو نے کی لیکن اس سے پہلے ایک کانفرنس ہو چکی تھی جو رباط مراکش میں ہوئی تھی، اسے پہلی اسلامی کانفرنس کہتے ہیں۔ وہاں انڈیا بھی یہ کہہ کر شریک ہوا کہ ہمارے ہاں بھی بہت مسلمان ہیں ۔ پاکستان کے جنرل یحی خان کا یہ کارنامہ اوجھل ہے کہ انہوں نے وہاں اس کانفرنس کا بائیکاٹ کیا کہ انڈیا مسلم اسٹیٹ نہیں ہے لہذا اس کا مندوب یہاں نہیں بیٹھے گا، جس میں انہیں کامیابی ملی اور یہ کامیابی سعودی عرب کے شاہ فیصل کی مدد سے ملی اور وہاں طے ہوا کہ اگلی کانفرنس کی میزبانی پاکستان کرے گا۔
    1969ء میں یہ اعلان رباط میں کیا گیا کہ مسلمان سربراہ لاہور میں ملیں گے ۔
    1974ء میں ایک عظیم الشان کانفرنس لاہور میں منعقد ہوئی جس میں شاہ فیصل، حافظ الاسد، یاسر عرفات ، کرنل قذافی ، الجزائر کے حواری بومدین اور مسلم دنیا کے نامور سربراہان نے شرکت کی۔ یہ پوری پاکستانی قوم کے مسرت کا موقع تھا۔ پاکستان دو لخت ہو چکا تھا ، شیخ مجیب الرحمن بنگلہ دیش جا چکے تھے۔

    1. پہلی کانفرنس کا انعقاد مشرق وسطی میں جنگ کے شعلے بھڑک جانے اور مسجد اقصی پر قبضے کے بعد ہوا تھا۔
    2. اس دوسری کانفرنس کا انعقاد بھی اسلامی ممالک کے اتحاد کی خاطر کیا گیا تھا۔

    جماعت اسلامی سمجھتی تھی کہ ستر کے انتخابات میں واضح شکست کھانے کے بعد بھٹو نے مجیب کی قوت کو تسلیم نہیں کیا ، جس کی وجہ سے ملک ٹوٹا۔ پاکستان کی دیگر سیاسی قوتیں بھی پیپلز پارٹی کی اس سوچ کی مخالف تھیں۔ جماعت اسلامی کے پاس سب سے مضبوط قوت طلباء کی قوت تھی۔ پنجاب یونیورسٹی ، کراچی اور پنجاب کے دیگر بڑے تعلیمی اداروں میں جمعیت چھائی ہوئی تھی۔ جاوید ہاشمی کو یہ ٹاسک ملا کہ بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کی مخالفت کرنی چاہئے۔ اس کے لئے بنگلہ دیش نامنظور تحریک کا آغاز کیا گیا۔ پنجاب کے شہروں میں یہ تحریک بڑی کامیابی سے چلی۔ ادھر اسلامی کانفرنس کا انعقاد ہونے جا رہا تھا، دوسری جانب یہ تحریک چلائی گئی۔ لاہور گجرانوالہ اس کے مرکز بن گئے۔ میں لاہور میں پڑھتا تھا ، شام کو گھر آ جاتا تھا۔ انہی دنوں طلبہ کی طاقت اسلامی جمعیت طلبہ تھی۔ اس کا مقابلہ پی ایس ایف سے تھا جو کمیونسٹ قوتوں کے ہاتھوں تقسیم تھی، چائنہ اور روس اس تنظیم کی سر پرستی کرتے تھے۔ میں نے اپنے کالج میں اپنے گروپ کو کامیاب کرایا تھا ، میں کالج کا بنیادی ناظم بھی تھا ۔ ہمارے کالج میں کھر اور حنیف رامے جو دو گروپ تھے، جن سے ہمارا مقابلہ تھا ۔ جنہیں 1974ء میں بڑے مارجن سے شکست دی۔ غلام مصطفی کھر جو خیر سے اب پی ٹی آئی میں ہیں، ان کے خلاف جد و جہد میں ہم اسلامی جمعیت والے بہت آگے گئے۔ پی ٹی آئی کے سینئر راہنما اعجاز چودھری انہی دنوں گورنمنٹ کالج لاہور کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔ ایم اے او کالج میں بشیر بھٹہ، دیگر اداروں میں سلمان بٹ، سکندر ظفر گجر ہم سب لوگ کھر کے خلاف تھے ۔
     
    زنیرہ عقیل اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:

    جاوید ہاشمی پنجاب سٹوڈنٹس کونسل کے چیئر مین تھے۔ بنگلہ دیش نامنظور موومنٹ واحد تحریک ہے جس کی قیادت طالب علموں نے کی۔ اپنی مالی مشکلات کی وجہ سے میں روزانہ لاہور گاڑی پر جاتا اور شام کو واپس آ جاتا۔۔ گجرانوالہ کا سٹیشن جو شہر کے اندر واقع ہے، اسے کوئی متین مسلم لیگیا کھانے جا رہا تھا ، ہمارے دوست ایس اے حمید نے ایک رٹ کے نتیجے میں اسے بچا لیا ۔ یہ سٹیشن باغبانپورے سے دو کلو میٹر دور تھا، دن بھر لاہور میں اور چھٹی کی دنوں میں گجرانوالہ جمعیت کا ناظم مکتب بن کر طلباء سیاست میں حصہ لیا۔

    وہ دن میری زندگی کا یاد گار دن تھا جب شیرانوالہ باغ میں جاوید ہاشمی آئے پورا شہر امڈ آیا تھا۔ ”نا منظور ، نامنظور ، بنگلہ دیش نا منظور“ کے نعرے تھے۔ ہم وہ لوگ تھے جو جلسے کے منتظمین تھے۔ ہاشمی بلا کے مقرر تھے، انتہائی خوبصورت لمبے بال اور لفظ جوڑنے کا فن آتا تھا ۔ میرے ساتھ جناب عبدالرزاق، مجیب بٹ، خواجہ عماد الدین، نسیم بٹر، اشفاق حجازی، منیر تبسم، عنائت اللہ، ندیم ریاض سیٹھی اور بہت سے دوست تھے۔ ہاں حمید الدین اعوان کا نام بھول رہا ہوں، ہم دوستوں نے وہ شاندار جلسہ اور کامیاب جلسہ منعقد کیا۔ یہ 1973ء کے دن تھے۔ کانفرنس ہوئی، اس کا مقصد ہی بنگلہ دیش تسلیم کروانا تھا۔ کہا گیا کہ شاہ فیصل چاہتے تھے کہ سب مسلمان مل کر چلیں۔ یہ وہی شاہ فیصل تھے جو زندگی میں پہلی بار روئے اور یہ رونا اس دن ہوا جس دن پاکستان ٹوٹا۔ بنگلہ دیش منظور کر لیا گیا لیکن اس روز ہاشمی سڑک پر نکلے، چند طلباء ان کے ساتھ تھے، ہمیں پہلے ہی گرفتار کر کے گجرانوالہ بھیج دیا گیا تھا۔

    قارئین میں یہ ساری باتیں اس لئے لکھ رہا ہوں کہ آپ کو بتاﺅں کہ ہاشمی کیا تھے اور کیا بن گئے۔بھٹو کا ڈٹ کے مقابلہ کرنے والا ہاشمی ہم طالب علموں کا آئیڈیل تھا ۔ میں نے تو سچی بات ہے اسلامی جمعیت طلبہ میں شمولیت ہی جاوید ہاشمی کو دیکھ کر کی۔ وقت آگے بڑھتا ہے، ہاشمی صاحب کو جنرل ضیاء کے اقتدار سنبھالتے ہی مجیب شامی صاحب ان کے پاس لے گئے۔ جنرل ضیاء کا دور دوسرے معنوں میں جماعت اسلامی اور ارائیوں کا دور تھا۔ جنرل ضیاء نے ہر دو کو نوازا اور خوب نوازا۔ میاں طفیل نے تو سر عام کہا کہ ہمارے پاس ہزاروں تربیت یافتہ لوگ ہیں جو آپ کا ساتھ دیں گے، البتہ بعد میں امیر العظیم جیسے سٹوڈنٹس لیڈر سے نہ بنی۔ اور انہیں بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
    جاوید ہاشمی کو جب جنرل ضیاء کے سامنے پیش کیا گیا تو شنید ہے جناب مجیب شامی نے کہا کہ انہیں ساتھ لے لیجیے ، کوئی وزارت دے دیجیے۔
    ضیاءالحق نے کہا کہ کس وزارت کے یہ وزیر ہوں گے تو امور نوجواناں کی وزارت تخلیق کی گئی۔
    جاوید ہاشمی سے بڑا تعلق رہا، بعد میں ان کی جد وجہد کہاں تک پہنچی وہ آپ کے علم میں ہے۔ وہ بہت سے گھاٹوں کا پانی پیتے پیتے پی ٹی آئی تک پہنچے۔ سعودی عرب میں قیام کے دوران میں انہیں پی ٹی آئی میں شمولیت کی دعوت دیتا رہا۔ عزیزم طارق عزیزکے ذریعے باتیں ہوتی رہیں، جیل میں بار ہا گفتگو رہی، لانگ مارچ میں دعوت دی۔ فیصلہ ان کا تھا وہ آئے اور آ کر چلے گئے ۔ ایک بہادر ہاشمی، ایک باغی داغی بن گیا؟ اس پر ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ ہاشمی کا المیہ دیکھیے، وہ کہاں تھے اور کہاں آن پہنچے۔ جس فوج کی نرسری میں پلے بڑھے، اسے گالیاں دینا شروع کر دیں۔ میرا آئیڈیل ہاشمی اتنا چھوٹا نہ تھا ، یقین کریں وہ نفیس شخص نواز شریف کے ساتھ مل کر گندا ہوا۔ اسے روپوں کی لالچ پڑ گئی، اس نے 2013ء میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ بیچے ، میں نے اس بات کا سر عام اظہار کیا۔ عمران خان انہیں بہت عزت دیتے تھے، وہ انہیں اس وقت چھوڑ گئے جب میدان سجا تھا ۔ ہاشمی لالچ کی دلدل میں پھنس کر بکتا رہا اور گھنگرو کی طرح کبھی اس پگ میں اور کبھی اس پگ میں بجتا رہا۔ اس نے عمر کے حصے اس میں بہت بڑی غلطی کی۔سوال یہ نہیں کہ فوج پاک ہے صاف ہے، سوال یہ ہے کہ فوج کو کس کے کہنے پر گالیاں دیں؟ جس وقت کرنل سہیل عابد عباسی اپنی جان دے رہے تھے، اسی وقت ہاشمی فوج کو آڑے ہاتھوں لے رہے تھے۔ میں جس ہاشمی اور جس باغی کو جانتا ہوں وہ رائے ونڈ کی منڈی میں بک گیا۔ جو بھٹو جیسے فسطائی حکمران سے نہ دبا، چونہ منڈی میں ظلم سہے، وہ نوٹوں کے چکر میں اس نتیجے پر پہنچ گیا۔ اک بہادر آدمی کا نام پانے والا جاوید اختر ہاشمی اسلامیہ کالج بوسن روڈ سے اٹھنے والا ہاشمی نواز شریف کے بیانیے کے پاﺅں میں کیوں بیٹھ گیا۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں ، کیا میں ہی غلط تھا جو انہیں نہیں پہچان سکا۔ وہ سردیوں کے دن ڈاکٹر مشتاق منہاس اور ڈاکٹر قیوم نے جب دعوت شرکت دی تو میں نے کہا میں چاہتا ہوں جمعیت جاوید ہاشمی بنے۔ کدھر گیا وہ ہاشمی جسے میں جانتا تھا؟

    شکریہ: انجینئر افتخار چودھری

    (تحریک انصاف کے ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات ہیں)
     
    زنیرہ عقیل اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں