1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کہانی روپے پیسے کی

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏26 جنوری 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:

    کہانی روپے پیسے کی

    غلام حیدر
    جب انسان جنگلوں میں رہتے تھے، اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے جانوروں کا شکار کرتے تھے، یا جنگلی پھل توڑ کر کھا لیتے تھے تو انہیں روپے پیسے جیسی کسی چیز کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ یہ ضرورت تو اصل میں اس وقت پیش آئی جب ان میں سے بہت سے لوگوں نے ایک جگہ رہنا شروع کیا، کھیتی باڑی شروع کی، کسی نے مٹی کے برتن، پتھر کے اوزار اور ہتھیار بنائے تو کسی نے بھیڑ بکریاں پالیں اور دودھ کی پیداوار شروع کی۔ اب جب پتھر کے اوزار اور ہتھیار بنانے والے کو اناج کی ضرورت پیش آتی تو کسان سے اناج لے لیتا اور اسے پتھر کا بنا ہوا ہَل اور ہتھوڑا دے دیتا۔ مگر آپ خود ہی سوچ سکتے ہیں کہ یہ چیز سے چیز بدلنے کا چکر کتنا چھوٹا ہوتا ہوگا۔ اگر کسی کے پاس اناج ہے اور اسے دودھ کی ضرورت ہے تو اسے ایک ایسا آدمی ڈھونڈنا ضروری تھا جس کے پاس دودھ بھی ہو اور وہ اس کے بدلے میں صرف اناج ہی لینا چاہتا ہو۔ اس لیے جب تک زندگی گزارنے کے لیے تھوڑی سی چیزیں رہی ہوں گی کام چلتا رہا ہو گا۔ مگر جیسے ہی ایک طرف ضرورتیں اور دوسری طرف سامان بڑھا ہو گا لین دین کا یہ طریقہ مشکل بلکہ ناممکن سا ہو گیا ہو گا۔ اب اس پھندے کو کھولنے کے لیے انسان نے کچھ اس طرح کیا کہ دوچیزوں کے لین دین کے بیچ میں ایک تیسری چیز ڈال لی۔ یعنی پتھر کے اوزار اور ہتھیاروں کو پہلے بھیڑوں یا بکریوں سے بدل لیا اور پھر بھیڑ بکریوں کو اناج سے، یا جس جس چیز کی اسے ضرورت ہوئی اس سے بدل لیا، بالکل اسی طرح جیسے آج ایک کارخانے دار اپنے کارخانے میں پیدا ہوئی چیزوں کو روپے پیسے سے بدل لیتا ہے اور پھر روپے پیسوں کو اپنی ضرورت کی چیزوں سے بدل لیتا ہے…آٹا، دال، جوتے اور کپڑے وغیرہ خرید لیتا ہے۔ آہستہ آہستہ یہ کہانی، یعنی انسان کی ترقی کی کہانی یہاں تک پہنچ گئی کہ اس نے دھات کو نہ صرف استعمال کرنا شروع کر دیا بلکہ یہ اس کے لیے شاید سب سے ضروری چیزوں میں سے ایک چیز بن گئی۔ دھات کو لین دین کے بیچ ڈال لینے میں بڑی آسانی تھی۔ اس کا بڑے سے بڑا یا چھوٹے سے چھوٹا ٹکڑا کاٹا جا سکتا تھا۔ یہ گل سڑ کر خراب بھی نہیں ہوتی تھی اور کام کی چیز بھی تھی۔ روپیہ پیسہ (1) لین دین کو آسان کر دیتا ہے۔ اسے ہم لین دین کا ذریعہ کہتے ہیں۔ (2) اس کے ذریعے مال و دولت جمع کیا جا سکتا ہے۔ (3) اس کے ذریعے کسی چیز کی قدر یا قیمت کو ناپا جا سکتا ہے جیسے آج ہم کہتے ہیں کہ 30 صفحوں کی ایک کاپی 25 روپے کی اور ایک پنسل10 روپے کی۔ جس دن سے لوگوں نے دھات کو دو چیزوں کے لین دین کے بیچ میں ڈالنا شروع کیا، دھات ہماری دولت یا روپے پیسے سے کچھ ایسی چپک سی گئی کہ آج تک ہماری دولت اس سے پوری طرح آزاد نہ ہو سکی۔ پہلے روپیہ پیسہ یا دنیا کا کوئی سکہ بناتے وقت ایک بات کا خیال رکھا جاتا تھا، وہ یہ کہ کوئی سکہ جتنی قیمت میں بھی بازار میں چلتا ہو اس میں لگ بھگ اسی قیمت کی دھات لگی ہو…نہ زیادہ نہ کم۔ مگر ایسا بھی نہیں تھا کہ پہلے لوگوں کی سمجھ میں یہ بات بالکل آئی ہی نہ ہو کہ پیسے یا کسی سکے کا کام صرف اتنا ہے کہ وہ دو چیزوں کے لین دین کو آسان کر دے، چاہے وہ کسی قیمتی دھات کا ہو، یا گھٹیا دھات کا، یعنی تانبے، پیتل یا ٹین کا ہو، یا پھر کاغذ ہی کا کیوں نہ ہو۔ برصغیر میں محمد بن تغلق، جس نے1325ء سے 1351ء تک حکومت کی،نے ایک ایسی ہی کوشش کی تھی۔ اس نے سونے کے بجائے تانبے کے سکے چلائے تھے، جن سے بازار میں سامان اتنا ہی خریدا جاتا تھا جتنا سونے کے سکے سے۔ ایک منگول نسل کے بادشاہ قبلائی خان نے جو 1259ء سے 1294ء تک چین پر حکومت کرتا تھا، کاغذی ’’سکے‘‘ یعنی نوٹ چلائے تھے۔ یہ اس زمانے میں خوب چلتے رہے۔ ایران میں بھی منگول نسل کے ہی ایک بادشادہ کیخاتو خان نے قبلائی خان سے کچھ ہی عرصہ بعد کاغذ کے نوٹ چلانے کی کوشش کی۔ بہت بڑے سیاح ابن بطوطہ نے یمن کی ایک ریاست ’’کلوا‘‘ کے متعلق لکھا کہ یہاں ٹین کے سکے چلتے تھے۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں