قسط نمبر 1ستاروںکے بحر بیکراں میںزندگی کی تلاش جاری تھی۔خلائی ادارے میں آج عبداللہ اپنی ٹریننگ مکمل کر چکا تھا اور اپنے مشن کی حتمی ہدایات ملنے کے انتظار میں بیٹھا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ یہ کل ہی کی بات لگتی ہے کہ اسے خلابازی کے شعبے کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔ پھر سخت ٹریننگ کا ایک دور شروع ہوگیا۔ آغاز میں تو یوں لگتا تھا کہ اتنی سخت ٹریننگ کا یہ سلسلہ کبھی بھی ختم نہ ہوگا۔ عبداللہ زہین اور محنتی تو تھا ہی اور پھر خلابازی اسکا شوق بھی تھا اس لیے ٹریننگ کے ہر مرحلے میں اس نے نمایاں کارکردگی دکھائی۔ پھر اسے وہ دن بھی یاد آیا جب ان کی ٹریننگ مکمل ہوئی اور ایک بڑے ہال میں انہیں سندوں سے نوازا گیا۔صدر مملکت نے خود اپنے ہاتھوںسے عبداللہ کو سونے کا تمغہ پہنایا جو اس کی قابلیت کا ثبوت تھا۔ اسے یہ بھی یاد آیا کہ کچھ لوگوں نے کس طرح اس سے حسد کیا مگر اس کی قابلیت کے آگے کچھ نہ کر سکے۔ اور آج وہ ادارے کے سب سے اہم مشن کے لیے منتخب ہو کر حتمی ہدایات لینے کے لیے یہاں بیٹھا تھا۔اسے یہ بھی یاد آیا کہ ٹریننگ کے اختتام پر ان سب نے یک زبان ہو کر حلف اٹھایا تھا کہ انہیں جو بھی کام سونپا جائے گا وہ اسے پوری دیانتداری اور لگن سے پورا کریں گے۔ کمرے کا دروازہ کھلا اور ایک اردلی نے عندیہ دیا کہ عبداللہ کو بریفنگ روم میں بلایا گیا ہے۔ عبداللہ کی سانسیں تیز ہو گئیں اور وہ کچھ نروس سا ہو کر اٹھا۔ اس کی یہ حالت لمحاتی تھی اگلے ہی لمحے وہ پرسکون ہوگیا۔ یہ اس کی خود اعتمادی تھی یا ٹریننگ کا کمال مگر وہ اعتماد کے ساتھ بریفنگ روم میں داخل ہوا۔ بریفنگ روم کا ماحول بھی پراسرار سا لگ رہا تھا۔ نیم دائرہ شکل میں ایک میز کے گرد 7 افرد بیٹھے تھے۔ ان میں ایک ادارے کا سربراہ تھا جسے عبداللہ نے پہلی نظر میں ہی پہچان لیا۔ سربراہ نے عبداللہ کو خوش آمدید کہا اور سامنے رکھی کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، بیٹھو۔ یہ ایک بہت اہم مشن ہے اور اس پر اربوں روپے خرچ کیے گئے ہیں۔ ہم ایک دور افتادہ سیارے پر زندگی کے اثار کی موجودگی کا پتہ چلانا چاہتے ہیں۔ تمیں ایک خودکار خلائی گاڑی میں بھیجا جائے گا جو خودبخود راستے کا پتہ چلا کر تمہیں سیارے تک پہنچا دے گی اور 60 دن کی مدت پوری ہونے کے بعد خودبخود پرواز کرے گی اور واپس زمین پر لے آئے گی۔ تم نے وہاں کی مٹی اور پتھر کے نمونے حاصل کر کے تجربات کرنےہیں کہ کیا اس سیارے پر زندگی کے ہونے کے کوئی امکانات ہیں۔عبداللہ جو بہت انہماک سے بریفنگ سن رہا تھا بولا بہت بہتر جناب ایسا ہی ہوگا۔خدا کی مدد تمارے ساتھ ہو کل صبح تماری روانگی ہے۔ یہ کہہ کر سربراہ نے سر کو ایک جنبش دی اور عبداللہ اپنی نشست سے اٹھ کر باہر آ گیا۔ (جاری ہے)
قسط نمبر 2خلائی ادارے میںآج صبح سویرے سے بہت گہما گہمی ہے۔ چھوٹی بڑی گاڑیاں ادھر سے ادھر بھاگتی پھر رہی ھیں۔ کوئی خلائی راکٹ میں ایندھن بھر رہی ہے اور کوئی سامان کو ادھر سے ادھر لے جا رہی ہے۔ کچھ انجنیر راکٹ اور خلائی گاڑی کا حتمی معائنہ کر ہیں۔ کچھ اور انجنیر کمپیوٹر کی اسکرین پر بدلتے ہو ئے نمبر دیکھ رہے ہیں۔ عبداللہ اپنی خلائی گاڑی میںبیٹھاسوچ رہا ہے کہ آخرکار اس کے خوابوں کی تعبیر کا وقت آ پہنچا ہے ۔ اب وہ خلا کی وسعتوں کا نظارہ کرے گا۔ وقت گزرتا گیا اور عبداللہ کو اپنی اسکرین پرگھٹتے ہو لمحے واضع نظر آنے لگے۔5 4 3 2 1 اور ایک زور دار جھٹکا اور عبداللہ کا آسمان کی طرف سفر شروع ہو گیا۔عبداللہ کی نظر ان دو گھڑیوںپر پڑی جو دن اور وقت بتانے کے لیےتھیں۔ یہ دونوںگھڑیاں اس وقت ساکت تھیں۔ سیارے پر اترنے کے بعد انہوں نے خود بخود چل پڑنا تھا۔ خدا خدا کر کے وہ وقت آیا جب خلائی گاڑی سیارے پر اتر گئی اور دونوںساکت گھڑیاں چل پڑیں۔یہ گھڑیاں الٹا چل رہی تھیںاور گزرے وقت کی جگہ باقی وقت بتا رہی تھیں۔عبداللہ نے طریقہ کار کے مطابق خلائی گاڑی کا دروازہ کھولا اور چند ضروری اوزار لے کر باہر آ گیا۔ ہوا کے سرسری معائنے کے بعد اسے معلوم ہوا کہ سیارے کی فضا میںکوئی مہلک اجزا شامل نہیںاس لیے وہ خلائی سوٹ کے بغیر بھی اس سیارے پر رہ سکتا ہے۔ اس نے خلائی سوٹ اتارا اور سیارے پر چہل قدمی کرنے لگا۔ چہل قدمی سے تھک کر وہ واپس اپنی خلائی گاڑی میںآیا۔ اسکی نظر گھڑی پر پڑی اسے سیارے پر آئے محض دو گھنٹے ہوئے تھے۔ اس نے کچھ دیر سستانے کا فیصلہ کیا۔ وہ اپنی سیٹ پر آیا اور سونے کی کوشش کرنے لگا۔ خلائی گاڑی نہ جانے کتنا عرصہ سفر کر کے آئی تھی اور اس کی سیٹ پر بامشکل نیم دراز ہونے کی گنجائیش تھی۔اس نے سوچا کہ میںنے یہاںدو ماہ رہنا ہے اور جب تک انسان سکون سے سو نہ سکے وہ کام پر پوری توجہ نہیںدے سکتا اس لیے پہلے رہنے کا کوئی مناسب بندوبست کیا جائے۔ عبداللہ پھر باہر نکلا اور گاڑی کے قریب ایک جگہ منتخب کر کے پتھروں سے ایک احاطے کی نشان دھی کر کے اپنے رہنے کی جگہ بنانے لگا۔ اس نے تھوڑی سی کھدائی کی تو اسے کچھ چمکدار مادہ نظر آیا۔ معائنہ کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ تو سونا ہے۔ اس نے کچھ اور جگہوںپر کھدائی کی تو معلوم ہو کہ سیارے پر جگہ جگہ قیمتی دھاتوں کے انبار ہیں۔ان میںسونا، پلاٹنیم اور یورینیم تو بہت ہی بہتات میںہیں۔ چند دن کی کاوش کے بعد عبداللہ اپنے رہنے کے لیے ایک کمرہ تیار کر چکا تھا۔ اب وہ اپنی ضروری اشیاء لینے خلائی گاڑی میںگیا۔ اس کی گھڑی پر نظر پڑی جو ابھی تک 55 دن باقی ہونے کا عندیہ دے رہی تھی۔ اسے اپنے تجربات کا خیال آیا جو اس نے یہ سوچ کر موخر کر دیا کہ یہ تجربات تو دو ہفتے میںمکمل ہو جائیںگے اور پھر جب میرے رہنے کی جگہ آرام دہ ہو گی تو کام اور بھی تیزی سے ہو گا۔۔۔ (جاری ہے)
قسط نمبر 3عبداللہ کو سیارے پر آئے دس دن ہو چکے ہیںاور ایک آرام دہ کمرے کے علاوہ عبداللہ نے اپنے کام کرنے کے لیے بھی ایک کمرہ تیار کر لیا ہے۔ وہ اپنے بستر پر لیٹا سوچ رہا ہے کہ اس سیارے پر قیمتی دھاتوںکی کتنی بہتات ہے۔ یورینیم جس کی افزودگی پر لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیںیہاں ایسے پڑی ہے جیسی زمین پر سمندری ریت۔سونا اور پلاٹینیم جو زمین پر نایاب اشیاء ہیں یہاں چکنی مٹی سے بھی ارزاںہے ۔مجھے یہ دھاتیں اپنے ساتھ لے جانی چاہییں۔ اگلے دن سے اس نے کھدائی شروع کی اور قیمتی دھاتیںجمع کرنا شروع کر دیں۔اب عبداللہ سارا دن دھاتیں جمع کرتا اور شام کو تھک کر سو جاتا اور صبح پھر اپنے کام میںمشغول ہو جاتا۔ اسی مصروفیت میںروز و شب گزرتے رہے۔ اس دواران جب بھی وہ گھڑی کو دیکھتا تو یہی سوچتا کہ تجربے تو چند دن کی بات ہیںجب میں اتنی قمیتی دھاتیںلے کر جاوں گا تو ادارہ مجھے خوب انعام دے گا۔ آخر وہ دن بھی آپہنچا جب کھڑی نے پندرہ دن باقی رہ جانے کا عندیہ سنایا۔اب عبداللہ کو پریشانی شروع ہوئی اور اس نے اپنا تجربات کا سامان نکالا۔ جلدی میںکوئی بھی کام سیدھا نہیںہوتا اور یہی عبداللہ کے ساتھ بھی ہوتا رہا۔ یہاںتک کے آخری دن آ پہنچا۔ گھڑی نے مدت ختم ہونے کا اعلان کیا اور خلائی گاڑی میںنصب الارم بجنے لگے۔ عبداللہ فورا گاڑی میںبیٹھا اور واپسی کا سفر شروع کرنے لگا۔ جوں ہی گاڑی نے اڑنے کی کوشش کی ایک دم سرخ بتیاں روشن ہو گئیں اور کمپیوٹر نے بتایا کہ گاڑی میںوزن اس کی استعداد سے زیادہ ہے ۔ عبداللہ نے پریشانی میںتھیلے باہر پھینکنا شروع کیا۔ سرخ بتیاں ہنوز روشن تھیںاور الارم کا شور اور کمپیوٹر کا پیغام جاری تھا۔ (جاری ہے)
قسط نمبر 4خلابازی کے ادارے میں آج خوب رونق ہے ۔ دور دراز کے سیارے پر بھیجی جانے والی خلائی گاڑی نے اپنے شیڈول کے مطابق آج زمین پر پہنچنا ہے۔ ایک بڑے کمرے میں بہت سے لوگ بیٹھے کمپیوٹر کی اسکرینیں دیکھ رہے ہیں۔ انجنیرز میںکسی قدر بےچینی ہے۔ ابھی تک خلائی گاڑی رابطے میںنہیںآئی تھی۔ پھر پورے کمرے میںکمپیوٹر کا پیغام نشر ہونا شروع ہوا جو اس بات کی خبر دے رہا تھا کہ خلائی گاڑی سے رابطہ ہو گیا ہے۔اور کمپیوٹر اسکرینوں پر خلائی گاڑی کر مناظر نظر آنے لگے۔ انجنیرز اپنی پیشہ ورانہ مہارت سے خلائی گاڑی کو ہدایات بھیجنے لگے اور اسکرینوں پر خلائی گاڑی کا منظر واضع تر ہوتا گیا۔ عبداللہ جب خلائی گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر آیا تو ایک جم غفیر اس کے استقبال کے لیے جمع تھا۔ ہر طرف سیکورٹی والے کھڑے تھے جو عوام کو ایک حدبندی سے آگے نہیںآنے دے رہے تھے۔ ادارے کے سربراہ نے عبداللہ کا استقبال کیا۔عبداللہ کے ماںاور باپ بھی وہیں موجود تھے۔ ماں نے عبداللہ کو گلے لگا کر ماتھا چوما اور باپ نے کمر پر تھپکی دے کر کہا “بیٹا ہمیںتم پر ناز ہے“۔اس کے ساتھ ہی ان گنت مائیک اور کیمرے عبداللہ کی طرف بڑھے جو اس کے تاثرات جاننا چاہتے تھے۔ عبداللہ کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی۔ میڈیا والوںکو ہٹا کر سیکورٹی عبداللہ کو ایک بند شیشوںوالی گاڑی میںبٹھایا اور لے گئے۔ آرام کرنے کے بعد عبداللہ اپنے مشن کی رپورٹ دینے کے لیے اسی بریفنگ روم میںبیٹھا ہے جہاں اسے جاتے ہوئے بریفنگ دی گئی تھی۔ وہی پراسرا ماحول اور اسی طرح نیم دائرہ میںبیھٹے ہوئے افراد۔ عبداللہ کی خلائی گاڑی میںپڑے ہوئے تھیلے بھی وہیںپہنچا دیے گئے تھے۔سربراہ نے سوال کیا۔ عبداللہ یہ بتائیںکہ اس سیارے پر زندگی کے کیا امکانات ہیں۔عبداللہ نے کہا جناب اس سیارے کی کیا ہی بات ہے۔ کون سی ایسی قمیتی دھات ہے جو وہاں بکثرت موجود نہیں، سونا، چاندی، پلاٹینیم یورینیم غرض ہر قیمتی دھات وہاںایسے ہے جیسے ہمارے ہاں پانی۔میںنے وہاں بڑی مقدار میں یہ دھاتیں جمع کیں۔ سربراہ نے کہا، مجھے وہاںموجود دھاتوںسے کوئی دلچسپی نہیں مجھے یہ بتاو کہ وہاں پر تم نے جو تجربات کرنے تھے ان کے کیا نتائج ہیں۔ عبداللہ نےاپنے تھیلوں کی طرف رخ کیا اور ایک تھیلے کو کھولا۔ اس میں وہ اوزار تھے جو وہ ساتھ لے کر گیا تھا اور کچھ نہیں۔ عبداللہ نے دوسرا تھیلا کھولا اور اس کی تلاشی لینے لگا۔ اس میں سے کچھ سونے کی ڈلیاں اور پلاٹینیم کے ٹکڑے برامد ہوئے۔ عبداللہ نے وہ ٹکڑے سربراہ کے سامنے رکھتے ہوئے کہا یہ وہ قیمتی دھاتیں ہیںجو اس سیارے پر بکثرت موجود ہیں۔ سربراہ نے سخت لہجے میںکہا یہ قیمتی دھاتیں ہمارے لیے فضول ہیں تم تجربات کے بارے میں بتاو۔ عبداللہ نے تیسرااور آخری تھیلا کھولا تو اسے کچھ کاغذات ملے۔ اس نے کاغذات سربراہ سامنے رکھ دیے۔ تھوڑی دیر کاغذات الٹ پلٹ کرنے کے بعد سربراہ نے کہا۔ یہ تجربات نہ صرف یہ کہ نامکمل ہیںبلکہ عجلت میں کیے جانے کی وجہ سے درست بھی نہیں۔ اور کچھ ہے تمہارے پاس پیش کرنے کے لیے۔ عبداللہ کو سمجھ نہیںآ رہی تھی کہ کیا جواب دے۔ اس نے جتنا کچھ جمع کیا تھا وزن زیادہ ہونے کی وجہ سے ساتھ نہیںآ سکا تھا۔ آخر میں سربراہ نے فیصلہ سنایا کہ عبداللہ چونکہ اپنا دیا ہوا کام مکمل نہیںکر سکا اور اس میں عبداللہ کی اپنی سستی، کاہلی اور لالچ کا دخل تھا۔ عبداللہ کی وجہ سے ملک کو اربوں روپے کا نقصان ہوا اس لیے عبداللہ کو سزادی جائے۔ایک شخص نے کہا پر عبداللہ کو کیا سزا دی جائے۔ سب لوگوں کی اپنی اپنی رائے تھی سزا کے متعلق ۔سربراہ نے کہا چونکہ عبداللہ قوم کا مجرم ہے اس لیے اس کی سزا کا فیصلہ بھی قوم ہی کرے گی۔ عبداللہ کا سر شرم سے جھکا ہوا تھا اور وہ سوچ رہا تھا کہ کاش وہ اپنے دیے ہوئے کام کو یاد رکھتا اور فضولیات میںنہ پڑتا۔۔۔۔۔ (ختم شد) آپ کے خیال میںعبداللہ کو کیا سزا ملنی چاہیے؟
عبداللہ کو زمین بدر کرتے ہوئے ہمیشہ کے لئے اسی سیارے پر بھیج دیا جائے جہاں وہ اپنا مشن مکمل کرنے کی بجائے وقت ضائع کرتا رہا۔
عبداللہ کی سزا کا مشورہ دینے کا بہت شکریہ۔ میری یہ کہانی ابھی تکمیل کے مراحل میںہے۔ اس کہانی میںخلاباز ایک استعارہ کے طور پر بنایا گیا ہے۔ یہ دراصل انسان کی کہانی ہے جو اس زمین پر ایک مقصد دے کر بھیجا گیا ہے اور اس سے وعدہ بھی لیا گیا ہے کہ “الست بربکم قالو بلیٰ “۔ یہ کہانی مکمل شکل میںدوبارہ پوسٹ کروں گا۔ اس پلاٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر آپ بہتری مشورہ دیں تو میںاسے اپنی خوش قسمتی سمجھوں گا۔
اور آپ خطا کی پُتلی ہو جو اُن کی سفارش کرنے آئی ہو۔ :shock:[/quote:25oecaga]انسان انسان کی سفارش نہیں کرے گا تو کون کرے گا ؟
جناب میرا خیال یہ ہے کہ اسے معاف کر دیا جائے کیونکہ اسکے اس رویے سے اسے کوئی ذاتی فائدہ مقصود نہیں تھا بلکہ اس نے اپنے ملک کو فائدہ پہنچانے کے لئے یہ سب کیا،ویسے بھی وہ یہ دھاتیں اپنے گھر تو لے کر نہیں جا سکتا تھا لہذا : “اسے معاف کر دیا جائے “ :?
عبد اللہ مجرم ہے۔ غفلت اس کا جرم ہے وہ بھی قومی و ملی جرم۔ اگر سونا چاندی اکٹھے کرنے کی نیت قومی مفاد میں درست بھی تھی تو اسے یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے تھا کہ جو لوگ اسے تربیت دے کر وہاں بھیج رہے ہیں انکی نظر میں سونا چاندی کی کوئی اہمیت نہیں بلکہ وہ تو اس کو کوئی اور مشن دے کر بھیج رہے تھے۔ وفاداری یہ نہیں کہ انسان اپنے آقا و مولا کا حکم پسِ پشت ڈال کر اپنے ذہن سے سوچ کر کوئی کام شروع کر کے سمجھے کہ یہی بہتر ہے بلکہ اسے ہمیشہ اپنے استاد، مربی، رہنما اور سب سے بڑھ کر مرشد کا حکم پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔ لہذا میرے خیال میں وہ عدل و انصاف کے تقاضوں کے مطابق سزا کا حقدار ہے البتہ اگر سربراہِ مملکت یا اس کے اساتذہ میں سے کوئی اٹھ کر اسکی سفارش کردیں تو یہ بات الگ ہے اور اسکا امکان بھی موجود رہنا چاہیئے۔ کیونکہ جو باغبان برسوں کی محنت سے گوڈی کر کے، آبیاری کر کے ایک پودا لگا کر اسے جوان کرتا ہے تو فطری طور پر اسکو اس سے محبت ہوجاتی ہے اور وہ اتنی جلدی اسے نذرِ طوفان نہیںہونے دیتا۔
میں نے ایک اور آدھی قسط پڑھی ہے ابھی، باقی پھر کبھی پڑھوں گی۔جب ہمت ہوئی تو۔ مجھے عبداللہ کے خلاء میں اکیلا ہونے کے خیال سے بہت ڈر لگنے شروع ہو گیا ہے عبداللہ نے سونے کا سوچا کیسے :shock: ؟ ایک انجان ویران جگہ پر تو نیند اڑ جاتی ہے :shock: اور خاص کر جب ساتھ میں بھی کوئی نہ ہو۔ :shock: ۔۔ کمرہ، گھر، ملک چھوڑ، پورے سیارے کا ہی نہیں پتہ کہ وہاں کوئی مخلوق ہے بھی یا نہیں۔ اگر ہے تو کس قسم کی ہے؟ آدم خور تو نہیں :shock: ۔ ڈراؤنی، سسپنس کہانیوں کے عنوان میں برائے مہربانی لکھ دیا کیجیئے کہ “ بجو نہ پڑھیں“ ۔ مجھے اب ڈراؤنے خواب آئیں گے رات بھر :shock: ۔۔ اور پتہ نہیں کیا دیکھنا پڑے گا آج :shock: جو بھی بندہ آئے، مجھ آخری تین قل پڑھ کر دم کر دے پلیز۔
بجو بہن ۔۔ آپ کی بات بجا ہے کہ عبداللہ کے خلا میں اکیلے ہونے والا معاملہ مجھے بھی محسوس ہوا اور اسی لیے مکمل شدہ کہانی میں عبداللہ اکیلا خلا میں نہیں جاتا بلکہ اسکی زوجہ کو بھی ساتھ بھیجا جاتا ہے۔ دوسرا یہ کوئی ڈراؤنی یا خوفناک کہانی نہیں، یہ تو انسان کی اپنی کہانی ہے۔ انسان کو دنیا میں ایک مقصد دے کر بھیجا گیا ہے اور وہ ہے کہ مقصد کو چھوڑ کر گھر، پیسہ اور عیش و آرام کے پیچھے بھاگ رہا ہے۔
او ہو۔۔۔بس؟ اتنی سی بات تھی؟ تھوڑا اور سسپنس ہونا چاہیئے تھا۔ کہانی کے آخر میں لکھا تھا “ختم شد“ تو پھر کیا سزا ملے، یہ تو اس کہانی کی عوام ہی جانے نا؟ ہمارے لیئے تو ختم ہو گئی۔
السلام علیکم محترم واصف بھائی کہانی کب مکمل کر رہے ہیں ؟ چھ ماہ سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ والسلام
میرے عزیز دوست عمر الغزالی کا مرکزی خیال تھا یہ کہانی اور جلد ہی چھپ جائے گی۔ پھر میں اسکو ادھر پوسٹ کروں گا۔
واصف جی۔۔ دیکھیں مجیب جی سیٹ پر بیٹھے کب سے انتظار کر رہے ہیں۔۔ اگلی قسط جلدی منگوا لیں۔۔ ورنہ مجیب جی بیٹھے بیٹھے تیلا ہی نہ ہو جائیں۔۔ :143:
بہت خوب واصف بھائی،!!!!!!! لکھنے کا انداز بہت ھی خوبصورت اور ھر لمحہ ایک تجسس لئے ھوئے آخر میں نتیجہ یہ اخذ کیا جاسکتا ھے کہ عبداللٌہ نے اپنا تمام وقت صحیح تحقیقات کے بجائے دولت کو اکھٹا کرنے پر وقف کیا، اس کا نظریہ خود کو مالا مال کرنے کا نہیں تھا، بلکہ اسکے ناقص عقل نے ملک کیلئے قیمتی جواھرات اکھٹا کرکے ملک کی دولت میں اضافے کیلئے سوچا، جوکہ بالکل غلط تھا، اور ساری اکھٹا کی ھوئی دولت کو مجبوراً وزن کی زیادتی کی وجہ سے باھر وہیں پر پھینکنا بھی پڑا، لازمی بات ھے کہ اسے بھی اس بات کا دکھ بھی ھوا ھوگا، کہ اس نے اپنا وقت اصل مشن کے بجائے اپنی ھی مرضی سے دوسرے مشن پر کام شروع کردیا، جس کا کہ آخر میں نتیجہ صفر ھی رھا، جوکہ اپنے ملک سے کیئے ھوئے وعدے کی خلاف ورزی بھی ھے،!!!!!!!!!!! میری نظر میں اسکی یہ پہلی غلطی سمجھتے ھوئے اسے معاف کردینا چاھئے، چونکہ اس نے اپنی ذاتی مفاد کی خاطر یہ کام نہیں کیا تھا، صرف ناقص عقل کی وجہ سے یہ غلطی سرزد ھوئی، وہ کیونکہ ایک باصلاحیت اور ھنر مند انسان ھے، اسکی ان خصوصیات کو دیکھتے ھوئے بھی اسے کسی اور نئی خدمات پر معمور کرکے فائدہ اٹھایا جاسکتا ھے، آئندہ ھوسکتا ھے کہ وہ کوئی اپنے اس بدترین تجربے کی وجہ سے کوئی ایسا قدم نہ اٹھائے، جس سے قوم و ملک کی بدنامی یا کوئی نقصان ھو،!!!!!!!
جواب: کہانی ایک خلاباز کی السلام علیکم واصف بھائی آپ تشریف لا چکے ہیںتو اس کہانی کے حوالے سے بھی کوئی منصوبہ بنائیں والسلام
جواب: کہانی ایک خلاباز کی لیں جی انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں۔ عمر الغزالی صاحب کی کہانی ان پیج فارمیٹ میں مجھے موصول ہو گئی ہے اور ان کی اجازت سے یہاں پوسٹ کروں گا۔ صرف مجھے چند دنوں کی مہلت مذید عنایت کریں کہ میں اس کو یونی کوڈ میںکنورٹ کر لوں۔ مکمل کہانی جوکہ 100 صفحات پر مشتمل ہے یک مشت پوسٹ نہیںکروں گا بلکہ پہلے کی طرح قسط وار شائع ہو گی۔ آپ کی آراء اس کو مذید نکھارنے میںمددگار ہوں گی اس لیے بے لاگ تجزیہ کیجیے اور اپنے تاثرات سے بھی آگاہ کیجیئے۔ اور ہاں، یاد رہے کہ یہ کہانی ابھی تک کتابی شکل میں شائع نہیںہوئی۔ میںعمر الغزالی صاحب کا مشکور ہوںکہ انہوں نے میری رائے کو اہم سمجھا اور پرنٹ کے لیے دینے سے پہلے مجھے جائزے کے لیے بھیجا۔ غزالی صاحب ایک مصنف ہیںاور ان کی کئی کتابیں پبلش ہو چکی ہیں۔ ان میں کیمیا گری اور بچوں کو اقدار کیسے سکھائیں قابلِ ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ روزنامہ پاکستان میںباقاعدگی سے کالم لکھتے ہیں۔
جواب: کہانی ایک خلاباز کی السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ امید ہے کہ سب احباب خیریت سے ہونگے ۔۔۔ واصف بھائی اس کہانی کا نیا ورژن اگر پوسٹ کر دیا ہے تو اس کا لنک (ربط) دے دیں، اگر نہیں تو پوسٹ کر دیں، شکریہ ۔ خوش رہیں!