1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحرگاہی

'تاریخِ اسلام : ماضی ، حال اور مستقبل' میں موضوعات آغاز کردہ از مفتی ناصرمظاہری, ‏5 فروری 2013۔

  1. مفتی ناصرمظاہری
    آف لائن

    مفتی ناصرمظاہری ممبر

    شمولیت:
    ‏5 فروری 2013
    پیغامات:
    9
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    قیامِ لیل
    کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحرگاہی

    ’’تہجدقرب خداوندی کا اہم ذریعہ ہے ،دعا کی قبولیت کا اہم وسیلہ ہے ،صالحین کا وطیرہ ہے کامیابیوں کا پیش خیمہ ہے ،گناہوںکا کفارہ ہے ،حاجت روائی کا سبب ہے ترقی ٔ درجات کا باعث ہے ، بیماریوںکا تریاق ہے ، جس میں صالحین کے لئے بے پناہ لذت وحلاوت ہے ۔‘‘
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کو قیام لیل کی تلقین فرماتے ،قیام لیل پر دنیا وآخرت میں ملنے والے کمال وفضل اجروثواب کا تذکرہ پرشوق انداز میںفرماتے ،تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانثاررفقاء قیام لیل کے انواروبرکات کے حصول کے لئے کمربستہ ہوسکیںاوراس کی اچھائیوں،نیکیوںسے ظفریاب ہوں۔
    ارشاد نبویصلی اللہ علیہ وسلم ہے
    ’’قیام لیل کا اہتمام کروکیونکہ قیام لیل خطاؤںاورگناہوں کو مٹاتا ہے اورتم سے پہلے نیکیوںکا وطیرہ ہے اورجسمانی بیماریوںکا تریاق ہے ‘‘(حاکم ترمذی )
    قیام لیل کے پھل
    قیام لیل کے نتیجے میں دعائیںقبول ہوتی ہیں ،گناہ معاف ہوتے ہیں ،مسائل حل ہوتے ہیں ،ایمان تازہ ہوتا ہے ،رحمن ورحیم کے آگے گریہ ٔ وزاری اورالتجامیں لطف آتا ہے ،سکون قلب ملتا ہے ،اطمینان نصیب ہوتا ہے ، نیکیوںکے کمانے کا موقع ملتا ہے ،درجات بلند ہوتے ہیں ،چہرے پر تروتازگی ،رونق ،چمک دمک اورلوگوںمیں ایک قسم کی ہیئت محسوس کی جاتی ہے اورجسم کی ڈھیر ساری بیماریوںسے نجات ملتی ہے ۔
    ذرا ٹھہرئے !غور کیجئے ہم میں سے کون ہے ؟جو اللہ کے فضل وبخشش سے بے نیازہو،اورکون ہے جو ضرورتمند نہ ہو اورکون ہے جواُن فضائل وکمالات کو حاصل نہیں کرنا چاہتا جو رات کی تاریکیوںمیںرب کے سامنے کھڑے رہنے والے تہجد گذارکو ملنے والے ہیں ۔
    ٭عمروبن عبسہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ’’کہ بندہ اپنے رب سے سب سے زیادہ قریب رات کے آخری حصے میں ہوتا ہے مگر تم شب کی ان گھڑیوںمیں زمرۂ ذاکرین میں شمولیت چاہتے ہوتو پہل کرو(ترمذی صحیح حدیث)
    ٭ابوامامہ باھلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کون سی دعا بارگاہِ ایزدی میں زیادہ سنی جائے گی فرمایا ’’رات کے آخری حصے میں اورفرض نمازوںکے بعد(ترمذی حدیث حسن)
    ٭ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دو ہمارے بزرگ وبرتررب آسمان دنیاپر آخری تہائی رات میں تجلی فرماتے ہیںاورپوچھتے ہیں کون ہے ؟جو دعا کرے ،میں اس کی دعا قبول کروں ،کون ہے ؟جو مجھ سے مانگے میں اسے دوں،کون ہے ؟جو بخشش کا طلب گار ہو میں اسے بخش دوں ۔(بخاری ومسلم )
    ٭عثمان بن ابو العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’آدھی رات کو آسمان کے دروازے کھول کر یہ ندا لگائی جاتی ہے ،ہے کوئی دعا کرنے والاکہ اس کی دعا قبول کی جائے ،ہے کوئی سائل کہ اسے نواز ا جائے ؟ہے کوئی مصیبت زدہ کہ اس کی پریشانی دور کی جائے ؟اس طرح اس وقت جو مسلمان بھی بارگاہِ الٰہی میں ہاتھ پھیلاتا ہے ،اس کا دامن ضرور بھر دیاجاتا ہے ،مانگی مراد پوری کی جاتی ہے سوائے بدکار عورت کے جو تانک جھانک میںلگی رہتی ہے اورعشروصول کرنے والا(جو ٹیکس وصول کرنے میںظالمانہ رویہ رکھتا ہے ۔(ترمذی حدیث حسن)
    اے ضرورت مندو!دیکھو اللہ جل جلالہ اپنی شایان شان آسمان دنیا پر ہر شب تجلی فرماتے ہیں اورہم پر رحمت وقبولیت ،مہربانی ومحبت کی چادر تان دیتے ہیں اورپیار وشفقت بھرا اِعلان کرایا جاتا ہے ،ہے کوئی بے چین ومضطرب پریشان حال کہ اس کی بے چینی وبے کلی ،آفت ومصیبت دورکی جائے ،اس سراپاسخاوت پیش کش کے وقت ہمارا کیا موقف ہوتا ہے ؟
    اے مصیبت زدہ اٹھ!رات کے آخری تہائی حصے میں اورلبیک وسعدیک (حاضرجناب )کہہ کے آداب بجالا،جی ہا ں میرے آقامیں ہوںآفت زدہ ،آپ کی کشائش میرا علاج ہے ،میںہوں غمزدہ ،میں ہوں محتاج ، آپ کی عطا وبخشش مجھے بے نیاز کرنے والی ہے ،میں ہوںدرد مندآپ کی شفامیر ی للک ہے ۔
    اٹھئے !اچھی طرح وضو کیجئے ۔پھر دل لگاکر چند رکعتیں پڑھئے ،ان میں اللہ کی جناب میں اپنی عاجزی ومسکنت کا بھرپور اظہار کیجئے ،اللہ کے سامنے دل کھول کر رکھ دیجئے ،نیک ارادے ،نیک تمنائیں،دل کی ڈھکی چھپی مرادیںسب عیاںکیجئے ،اوردل کے نہاں خانوںمیںبھی شائبہ نفس کو دخل نہ دیجئے ،بد نیتی کا کہیں گز رنہ ہو ، رب کے حضور میںتضرع والحاح کیجئے ۔کشائش کی امیدوںکے ساتھ اپنے مصائب وآفات کا پلندہ پیش کیجئے اورقبولیت کے وعدۂ ربانی پر مکمل یقین کیجئے اورعجلت کا شکار ہوکر رجوع وانابت کا دامن نہ چھوڑئے ،اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے آپ کی دعاؤں کے قبول کرنے کا وعدہ فرما رکھا ہے ،ارشاد باری تعالیٰ ہے، اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّاِذَا دَعَاہُ وَیَکْشِفُ السُّوْئَ (نمل ۶۲)
    پھرآپ کے رب نے یہ وعدہ فرمایا کہ بے شک وہ آپ سے آخری تہائی شب میںبہت نزدیک ہے یہاں وعدۂ حق مجدہ دو آتشہ ہوگیا اوریقینااللہ بزرگ وبرتروعدہ خلافی نہیں فرماتا۔
    کیا آپ دعا کو معمولی وحقیر سمجھتے ہیںاوراس کا مذاق اڑاتے ہیںپھر آپ دعا کے انجام کار سے واقف نہیں ، سمجھ لیجئے رات کے حصے اچوک نہیں ہوتے اس لئے ان میں عبادت سے چوکنا نہیں چاہیے ،یہ الگ بات ہے کہ قبولیت کی ایک میعادہوتی ہے خواہ یہ میعاددرازہی سہی اورمیعادکتنی ہی لمبی ودرازکیوں نہ ہواس کی تکمیل تو یقینی ہے ۔
    اے ضرورتمند!اُٹھ ۔اوراس سے مانگنے میں برائی کا اظہار نہ کر آپ کا آقاآپ کو دعاؤں ومناجات کے ذریعہ عبادت وپرستش کی دعوت دیتا ہے وَاسْئَلُوْااللّٰہَ مِنْ فَضْلِہٖ (نساء ۳۲)
    بارگاہ رب میں فریادپیش کرنے کا موزوںترین وبہترین وقت شب کا آخری تہائی حصہ ہے ،اٹھ جائیے ، کھڑے ہوجائیے ،آپ کیسی ہی شدید اضطراری کیفیت کا شکار ہوں،مایوس ہرگز نہ ہوں کیونکہ آپ کا رب ہر چیز پرقادر ہے وہ کسی شئی سے در ماندہ وعاجز نہیں !اس کا معاملہ تو بس صرف اتنا سا ہے کہ جب وہ کسی چیز کو وجود میں لانے کا فیصلہ فرمالیتا ہے تو حکم دیتا ہے ’’کُنْ‘‘ ہوجا ،وجودمیںآجابس وہ چیزبرپا ہوجاتی ہے اوریہ بھی ذہن نشیں رہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت بیکراںنے اپنی شان عالی میں بد گمانی کو ممنوع قراردیا ہے جیسے اللہ کی رحمت سے ناامیدہونا غلط ہے ،ارشاد ربانی ہے اِنَّہٗ لَا یَیْئَاسُ مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ اِلَّا الْقَوْمُ الْکَافِرُوْنَ (یوسف ۸۷)۔
    کھڑے ہوئیے اوراپنے رب سے اچھا گمان رکھئے ،اللہ کی اچھی صفات اس کی رحمت کی بے انتہاء وسعت،اس کے در گذرکرنے کی حسنِ ادا ،اس کی کر م فرمائی اورذرہ نوازی کے جلوے کا استحضاررکھئے ، یقیناآپ کی ضرورت پوری ہوگی ،آپ کی مصیبت دور ہوگی ،دقتیں کافورہوں گی ۔مایوس بالکل نہ ہو،شب بیداری وقیام لیل میںوسعتیں،کشائشیںبحر ناپیدکنارکی مثل چٹان موجوںکی طرح پنہاںہیں انہیں ڈوب جانے کی ٹھان لیجئے ۔
    ذرا غورکیجئے !گنہگاروںکیلئے گناہ بخشوانے کا زریںموقع آگیا ،یہ سنہری گھڑی ہر شب آتی ہے بلکہ اس کا دروازہ توآپ کیلئے ہمہ وقت کھلا ہے البتہ آخری تہائی شب کامیابی ونیل مرامی کیلئے زیادہ موزوںوقریب ترین ہے ۔
    ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’بے شک اللہ تعالیٰ رات میںاپنا دست مبارک پھیلاتے ہیں تاکہ دن کے خطاکاروں کی توبہ قبول فرمائیںاور یہ سلسلہ مغرب سے سورج طلوع ہونے تک رواں دواںرہے گا ۔(مسلم)
    حدیث میں آیا کہ اللہ تعالیٰ رات کے آخری تہائی حصہ میں آسمان دنیا پر تجلی فرماکر پوچھتے ہیں کہ کوئی ہے ؟ جومانگے میں اسے دو ں۔سوال کرے میں عطا کروں،معافی مانگے میں اسے معاف کروں۔(بخاری ومسلم)
    اللہ تعالیٰ کے ہاتھ معافی مانگنے والوں کو معاف فرمانے کے لئے رات دن کھلے ہیں البتہ رات کے توبہ واستغفارکو دن کے توبہ واستغفارپر وقت کی افضلیت وسحرگاہی کی برکت کے باعث یک گونہ برتری حاصل ہے ، رات کو استغفار کرنے والوںکی اللہ نے ستائش فرمائی ہے ،وَالْمُسْتَغْفِرِیْنَ بِالْاَسْحَارِ (عمران )
    جس کی حکمت یہ ہے کہ آخری تہائی شب کے توبہ واستغفارمیں تعب ومشقت زیادہ پائی جاتی ہے جو محض اللہ کی حد درجہ عظمت کے لئے اٹھائی جاتی ہے ،دیکھئے نہ نرم گرم بسترچھوڑنے ،میٹھی نیندکی لذت قربان کرنا کس قدر نفس کے لئے گراں بار ہے یہی چیز قبولیت واستجابت کو گوناگوںکردیتی ہے اورمزید برآںکہ اللہ کی تجلی استغفارکرنے والوں کو ڈھانپ لیتی ہے ،اللہ کی یہ تجلی مغفرت کے خواستگاروں،مانگنے والوں کی مانگ اورگریہ وزاری کے ساتھ اس کے در پر جانے والوںپر رحمت کے دریابہاتی ہے ۔جس نے اپنے نفس کو گناہوںکے دلدل میںپھنسالیا ہے وہ باہر بیٹھا ہے ،توبہ واستغفاراس کے لئے دشوار ہوگیا ہے کیونکہ وہ خود کو گناہوں،جرائم اورعیوب میںڈو با دیکھ رہا ہے ،اس کے سامنے بڑے بڑے گناہوںکی قطار لگی ہے ۔امید کا دامن چھوٹ رہا ہے ،دل ٹوٹ رہا ہے ،ایسے پاپی کو بھی مایوس ہونے کی چنداںضرورت نہیںہے ۔رات ڈھل گئی ہے ،اٹھ جائے،خشوع وخضوع کے ساتھ دل لگاکراللہ کے لئے دو رکعت پڑھ لے ،یہ دو رکعتیںشانِ غفاری میں پیش ہوجائیں گی کہ رب کریم تجھ سے ابھی کہہ چکا ہے ،مجھ سے مغفرت طلب کرو میںتجھے بخش دوںگا ،اٹھو !اٹھو! سجدے کی عظمت کو غایت درجہ تواضع وانکساری خشوع وخضوع کے ذریعہ بڑھاؤاوران دعاؤں سے اللہ کا قرب ڈھونڈو۔
    استغفرک اللّٰھم واتوب الیک رب اغفرلی وارحمنی وانت خیر الراحمین لاالہ الاانت سبحانک انی کنت من الظالمین ،اللھم انی ظلمت نفسی ظلماً کثیراً ولا یغفرالذنوب الا انت فاغفرلی مغفرۃ من عندک وارحمنی انک انت الغفورالرحیم۔
    اے رب نعیم کی نعمتوںمیں نہائے لوگ ،رات میں رب کے سامنے کھڑے ہوکر للہ کا حسنِ شکر بجالاؤ،تہجد گذاری شکر کی ادائیگی کابہترین طریقہ ہے ،شکر اللہ کی نعمت کوباقی رکھتا ہے اوراضافہ کاذریعہ بنتا ہے (لئن شکرتم لازید نکم )
    ذرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بابرکت زندگی ملاحظہ کیجئے ،آپ قیام لیل اس قدر طویل فرماتے کہ قدم مبارک پھٹ پھٹ پڑتے ،سوج جانا تو عام بات تھی،جب اس مجاہدانہ طرز کے بارے میں آپ سے پوچھا گیا کہ کیااللہ تعالیٰ نے آپ کے پچھلے اگلے گناہ بخش نہیں دئے ،آپ نے جواب دیا،اس جواب باصواب مبنی بر علم نبوت وحکمت پر قرباں جائیے۔’’کیا میں شکر گذار بندہ نہ بنوں‘‘(بخاری )۔
    یہ حدیث شریف بتاتی ہے کہ اللہ کی نعمتوںکا شکر ادا کرنے کا سب سے افضل طریقہ قیام لیل ہے اب دیکھئے کون ہے ؟ جس پر اللہ کی نعمت بے پایاںنہ ہو ،اللہ کی نعمتیںہر چہارسوہر کس وناکس کو دکھائی دیتی ہیں ،چمکتی ہیں ،ہرچھوٹی بڑی چیز میں ظاہر ہوتی ہیں ،رزق ،تندرستی ،آل اولاداورزندگی کے تمام شعبوںمیں اورجو نعمتیںہماری نظرو ںسے اوجھل ہیں وہ تو اورزیادہ ہیں،اس لئے ہمیں ہر وقت اللہ کے شکر میں ذکر میں رطب اللسان رہناچاہیے ۔
    جولوگ ذاکر وشاکر ہیں ان پر اللہ کی رحمتیںموسلادھار بارش کی طرح برستی رہتی ہیں ،شکر وسپاس کا افضل ترین وقت تجلیات حق کے نزول کا وقت آخری تہائی شب ہے ،اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تہجدوقیام لیل کی حکمت اللہ کی شکر گذاری قرار دیتے اورفرماتے کیا میں شکر گذار بندہ نہ بنو ں(جس رب عظیم کی نعمت پچھلے اگلے گناہ معاف فرماکر بندے کو ڈھانپے ہوئے ہے )۔
    اٹھئے تاریک سناٹے بھری رات میں،اللہ کی یاد کے لئے ،توبہ واستغفار کے لئے ،شکر وسپاس کے لئے ، مظلوم وقہر زدہ انسانیت کی فلاح وبہبود مانگنے کے لئے ،بے قصور نہتے فلسطینیوں کی مدد مانگنے کے لئے ،جو درندوں سے نبر د آزماہیں ،ننھے منے گہوارہ میں ہمکتے بچوںکو اسرائیلی خونخوار پنجوں کے ذریعہ پہنچائے زخموں سے رِستے خون ،بیواؤں کے بین ،رہنماؤں کے قتل ،فلسطین میں،عراق میں،افغانستان میں،پاکستان میں، اپنے ملک میں ،اس لہو کی خوشبو کیا آپ کے دل کو تڑپانے اورآپ کی روح کو گرمانے کے لئے کافی نہیں؟آپ کے اختیار میںبے اختیار ہوکر رب قدیر کے سامنے بلبلا اٹھنا ہے ،روئیے !گڑگڑائیے!بلبلائیے! تڑپئے ! سوزدروں کو سوا کیجئے !رب سے مانگئے !سجدہ سے سر نہ اٹھائیے !قدم رحمان میں پڑے رہئے اور’’بدر‘‘ میں رسول ہادی کی ناز کی دعا کا کچھ شمہ اپنی دعاؤں میں پیدا کیجئے ،عادت بنالیجئے اوراس درد کو اوراس سوز جگر کو بڑھائیے ، بانٹئے،اوراتنی بڑی جماعت میں یہ کسک،یہ للک ،یہ چبھن پیدا ہوجائے کہ رب عظیم کے دریائے رحمت میں جوار بھاٹا آجائے اورظلم واستبدادکا زور ٹوٹ جائے ،اپنی مظلومیت کا حوالہ دیجئے ،بچوں کی معصومیت خواتین کی عصمت کا واسطہ دیجئے کہ جبار وقہارکا قہرظالمانِ وقت فراعنہ زماں پر ٹوٹ پڑے ۔
    نرم گرم بستر سے اٹھ کر چھاؤںچھاؤںمیں ،راحت وآرام اورسکون قلب ودماغ کے ساتھ تہجد کی رکعتوں پر اکتفانہ کیجئے ،بالاپس منظر سے دل میں خلش ،غم ورنج ،کسک وللک اورگرمی پیدا کیجئے ،بے چین ومضطرب ہوہوکر رب سے مانگئے کہ یہ مانگنااثر ہی نہیں قوتِ پروازرکھتا ہے ۔
    جب آپ اللہ سے مانگیں گے ،شکر ادا کریں گے تو اللہ تعالیٰ آپ پر نعمتوںکوپھیلادے گا آپ کے اہل وعیال جاہ ومال میں برکت عطا فرمائے گا ۔
    قیام لیل میں معاون چیزیں
    (۱)کھانے میں میانہ روی ،کھانے کی زیادتی خواب آور ہے ،کم خوراک کے لئے شب بیداری آسان ہے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شکم سیری کے حدود وآداب متبعین فرمادئے ،ارشاد ہے ’’انسانی جسم میں رکھے ہوئے برتن پیٹ کو خوب بھردینا بدترین برتن ہے انسان کو تو چند نوالے صحت برقرار رکھنے کے لئے کافی ہیں ،اگر کچھ زیادہ ہی کھانا چاہے تو اس طرح کرے کہ پیٹ کا ایک تہائی حصہ کھانے کے لئے دوسرا تہائی پانی کے لئے اورتیسرا حصہ سانس لینے کے لئے مقرر کرے (احمد ترمذی صحیح الجامع ۵۵۵)۔
    عبد الواحد زید ؒکا مقولہ ہے کہ جس نے پیٹ پر قابو پالیا اس نے دین پر قابو پالیا اورجوپیٹ کے راستہ اپنے دین کے نقصان کا ادراک نہ کرسکا وہ عابدوں کے گروہ میں اندھے پن کا شکا رہے ۔
    وہب بن منبہؒ نے کہا شیطان کو انسانوں میں دو آدمی بہت پسند ہیںایک پیٹودوسرا بہت سونے والا۔
    سفیان ثوریؒ نے فرمایا کہ کم خوراکی کا التزام کروتو شب بیدار بن سکوگے ۔
    بھوک کو ایک روٹی اورایک چلو سیراب کردیتا ہے ،کم خوراکی ،نمازی کی مددگار ہے تو خوراک کی بہتات تیز خراٹے کی معاون ہے۔
    (۲) قیلولہ
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیلولہ کے ذریعہ مدد لینے اورشیطان کی مخالفت کرنی کی تلقین فرمائی ہے ’’قیلولہ کروکیونکہ شیاطین قیلولہ نہیں کرتے ‘‘(طبرانی ،حدیث صحیح۴۷ ۲۶)
    حسنؒ کا بازار کی ایک جماعت پر ہوا تو انہوں نے ان کی چیخ وپکار اوراول فول سن کر پوچھا کیا یہ لوگ قیلولہ نہیں کرتے ،لوگوں نے بتایا کہ بات ایسی ہی ہے فرمانے لگے مجھے ان کی راتیں بد ترین راتیں دکھائی دے رہی ہیں ۔
    اسحق بن عبد اللہ بن فروہ ؒنے کہا کہ قیلولہ اہل خیر کا عمل ہے ،دل کو ضبط وسکون بخشتا ہے ،اورقیام لیل کیلئے سہارا بنتا ہے ۔
    واضح رہے کہ قیلولہ بیس منٹ سے نصف گھنٹہ تک ہوتا ہے جس میں نیند آنا بھی ضروری نہیں ،آنکھیں بند کرکے لیٹے رہنا بھی کافی ہے ،قیلولہ کے طبی فوائد بھی بہت ہیں ۔
    (۳)دن کی کدوکاوش میں اعتدال
    اس کا مقصد یہ ہے کہ دن کو غیر ضروری بھاگ دوڑ کرنے سے گریزکرناچاہیے جس کی کوئی مصلحت وافادیت نہ ہو جیسے لا یعنی اشغال اورلغو و بے ہودہ باتیں البتہ جن کابرتنا معاش اورزندگی کے لئے ضروری ہے اس میں محنت وجانفشانی کے جوہر خوب دکھائیے ،لیکن اعتدال کا دامن نہ چھوٹے تاکہ تمام مصالح کا لحاظ ہوسکے ۔
    (۴)گناہوں سے احتراز
    گناہ کی نکبت یہ ہے کہ نیکی چھڑادیتی ہے ، عبادتوں میں غفلت پیدا کرتی ہے ،مومن کو زائدنفلی ریاضتوں سے محروم کردیتی ہے اسی لئے تو سلف صالحین سے یہ بات تواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ معصیت بندہ کوقیام لیل سے باز رکھتی ہے۔
    ایک شخص نے حضرت حسن بصری ؒ سے سوال کیاکہ بتائیے میںاچھی طرح سوتا ہوں ،قیام لیل کاارادہ کرتاہوں ، وضوکاپانی بھی تیاررکھتا ہوں،اتنی تیاری کے باوجود نہ جانے کیوں اٹھ نہیں پاتا ،حضرت حسن نے جواب دیا کہ تمہارے گناہ زنجیر پا بن جاتے ہیں ۔
    ثوریؒ نے کہا میں ایک گناہ کے باعث پانچ راتیں قیام لیل سے محروم رہا پوچھا گیا کہ آخر وہ کونسا گناہ ہے ، کہنے لگے ایک شخص کو میں نے روتے دیکھا تو میں نے دل دل میں خیال کیا کہ یہ شخص دکھانے کے لئے رورہا ہے ۔
    ایک آدمی نے ابراہیم بن ادہم ؒسے عرض کیا کہ میں تہجد کے لئے بیدا ر نہیں ہوپاتا میرے لئے کوئی نسخہ تجویز فرمادیجئے فرمایاکہ دن میں گناہوں سے بچو ۔شب میں قیام لیل کی توفیق ملے گی ،رات میں رب کے حضورمیں پیشی ،عرض و نیاز ،ہم کلامی ومناجات بہت ہی بلند ورفیع مقام باعث صد عزو شرف ہے ۔جس کا گناہگار قطعاً حقدار نہیں ۔
    (۵) دل کا کینہ کپٹ سے پاک ہونا
    مسلمانوں کے بارے میںشکوک وشبہات حسد وکینہ سے آماجگاہ ِ تجلیاتِ رب ،دل کو آلودہ نہ کرنا ،بدعات وخرافات کا شکار نہ ہونا ،افکار وہموم دنیامیںہچکولے نہ لینا یہ چیزیں دل کوآلودہ کردیتی ہیں دل پر حاوی ہوجاتی ہیں پھر ایسے دل پرکسی خیرکا گذر نہیں ہوتا ،قیام لیل تو بہت بڑی چیز ہے۔
    (۶)خوف آخرت کا غلبہ
    قلب پر خشیت الٰہی اورخوف آخرت کا غلبہ آخرت کی ہولناکیوںجہنم کی تباہ کاریوںکے استحضارکے ذریعہ نیندکو اڑادیتا ہے ،سوزدروںکو سوا کردیتا ہے ۔
    (۷)قیام لیل کی فضیلت
    فضائل سے جذبہ شوق میں ہلچل پیدا ہوجاتی ہے ،ہمت میں قوت آجاتی ہے ،دل میں اللہ کی خوشنودی ورضا،اجروثواب کی خوابیدہ کلیاںچٹخ پڑتی ہیں ،ننھاپودا شجر ثمر دار بن کر اپنے خنک آگیںشاندارپر انوار سا یہ میں پوری حیات لے لیتا ہے ،سکون واطمینان کی دولت بے بہا نصیب ہوجاتی ہے ۔
    (۸)اللّٰہ کی محبت ایمان کی قوت
    تہجد گذارجب رب کے روبہ روکھڑاہوتا ہے تو ایک لفظ کے ذریعہ ہم کلام ہوتا ہے اوررب پر ہر شی کے ذرہ ذرہ کی خبر رکھتا ہے ،اس بندے کی حقیقت سے واقف ہے ،اس کے دل پر گذرنے والے خیالات تک سے باخبر ہے ،اپنے انہیں دلی جذبات واشتیاقات سے وہ مناجات وسرگوشی کرتا ہے تو جوں جوںاس کا جذبہ محبت فراواں ہوتا ہے یوں یوں خلوت نشینی وہم کلامی کے ذوق میں اضافہ ہو گا پھر محبوب سے ہم کلامی کی لذت اسے اسیر بنالے گی اورلمبے لمبے قیام کی توفیق سے نواز ا جائے گا ،رخ زیبا کی طرف سے نگاہ دید ،نگاہ شوق ہٹانے پرآمادہ ہی نہ ہوگا ،حضور قلب کے اعلیٰ مراتب سے ہمکنار ہوگا ۔
    (۹)مساعی دعوت رائیگاں کیوں؟
    آج اسلام کی دعوت برگ وباراس وقت تک نہیں لا ئی جاسکتی جب تک اسلام کے داعی ومبلغ راتوں کو تہجد وقیام کی قندیل سے روشن نہیں کریں گے ،اسلامی دعوت کے انواروبرکات عالم میں اسی وقت پھیلیں گے اورموجودہ صدی کی جہالت کی تاریکیاں اسی وقت دور ہوں گی جب داعیوں کی زندگیا ں اسلامی اخلاق وکردار سے آراستہ اوران کی راتیںتہجد ومناجات سے پیراستہ ہوں گی ۔
    شیخ حسن بنا شہیدؒ نے فرمایا رات کی چند گھڑیاں بڑی قیمتی ہیں ،غفلت کے باعث انہیں گنوانہ دینا۔
    اللہ کی مدد رُک گئی ہے ،اللہ کی مدد کو ہم اپنا واجبی حق سمجھنے لگے ہیں اگر ہم تھوڑا سا نیک عمل کرتے ہیں تو اللہ سے اس کی فوراً قیمت وصول کرنا چاہتے ہیں جب کہ ہم نے آہ وفغاں ،شوق وولولہ کا مظاہرہ آخری راتوں میں کبھی نہیں کیا ،نہ آنسوؤں کے دریا بہائے جب کہ یہ کھلی حقیقت ہے کہ اللہ کی مدد انعام محض ہے ،شبینہ مدرسہ رب میں حاضر ہونے والوں کی آنکھیں،دنیاوی زندگی میں نصرت الٰہی سے ٹھنڈی کی جاتی ہیں۔
    ابن قیم نے ان رجال لیل کے اوصاف حمیدہ چند اشعار میں بیان فرمائے جن کا ترجمہ یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی راتیںرب کی فرمانبرداری ،قرآن کی تلاوت ،گریہ وزاری ،بھکاری بن کر بھیک مانگنے میں گذارتے ہیں ان کی آنکھوں سے آنسو بہتے رہتے ہیں جیسے موسلا دھار بارش ہورہی ہو یہ لوگ رات کے عباد ت گذار دن کے شہسوار ہیں ،دشمنوں کے مقابلہ میں بہادروں کے بہادر ہیں ،ان کی جبیں کوسجدوں کے دمکتے نشانوں نے مہ جبیں بنادیا ہے ،ان کے چہروں سے نور کی کرنیں مسلسل پھوٹتی رہتی ہیں۔
    اٹھئے ،نیند کے غبار کو جھاڑئے ،غفلت کے خما ر اتارئیے اورآخری تہائی شب کی سنہری گھڑیوں سے فائدہ اٹھائیے دوسروں کو بھی آمادہ کیجئے تاکہ جو نصرت وکامیابی اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے لکھ دیا ہے اسے حاصل کریں ، نیکیوں کا بول بالا ہو،گنہگاروں کا منہ کالا ہو۔
    لوگ پوچھتے ہیں کہ اللہ کی مدد کب آئے گی ،کہئے لگتا ہے آنے ہی والی ہے ،اللہ تعالیٰ اپنے فیصلے نافذ کرنے والا ہے بیشتر لوگ لا علم ہیں ۔
    قیام لیل کے بارے میں چند احادیث ،اقول سلف ،اقوال زریں،تربیتی واصلاحی کلمات اس مقصد سے رقم کئے گئے کہ اللہ تعالیٰ ان معانی کو ہماری زندگیوں میں مجسم کردے ،اپنے رنگ میں ہمیں رنگ دے تاکہ دنیا وآخرت میں ہم سرخروہوسکیں۔ہزاروںدرود وسلام کی حقیر سوغات پیش ہے ،تہجد گذاروں کے سردارآقائے نامدار مدینہ کے تاجدار محمد صلی اللہ علیہ وسلم ،تما م خوبیاںتو سارے کے رب کے لئے خاص ہے۔ ؎
    اک ٹیس سی دل میں اٹھتی ہے ایک درد جگر میں ہوتا ہے
    میں رات کو اٹھ کر روتا ہوں جب سارا عالم سوتا ہے
     
  2. عطاءالرحمن منگلوری
    آف لائن

    عطاءالرحمن منگلوری ممبر

    شمولیت:
    ‏17 اگست 2012
    پیغامات:
    243
    موصول پسندیدگیاں:
    293
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحرگاہی

    جزاک اللہ خیراً
     

اس صفحے کو مشتہر کریں