1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کچھ حکایتیں

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از آصف احمد بھٹی, ‏28 اپریل 2011۔

  1. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم
    محترم جناب محمد سلیم صاحب نے اپنے بلاگ پر عربی کی بہترین اور حکایات سے بھرپور کچھ تحاریر کا ترجمہ کیا ہے ، اس لڑی میں میں اُن کے ترجمے پیش کرونگا ۔ اللہ اُن کی اس کاوش کو اپنے ہاں مقبول فرمائے ۔ آمین ۔

    سیب حرام ہے!

    یہ ایک شخص کی آب بیتی ہے جو کہتا ہے کہ:

    میں مسجد میں تحیۃ المسجد ادا کر رہا تھا کہ سگریٹ کی ناگوار بدبو نے مجھے بے چین کر کے رکھ دیا، خشوع و خضوع قائم رکھنا تو بعد کی بات تھی بدبو کی شدت سے نماز پوری کرنا بھی محال لگ رہا تھا۔ سلام پھیر کر دیکھا تو قریب ہی ایک آدمی نماز ادا کر رہا تھا۔ سگریٹ نوشی کی کثرت سے اس کے ہونٹ سیاہ پڑ چکے تھے۔ میں نے سوچا یہ نماز سے فارغ ہو چکے تو اس سے بات کرونگا، شاید میری نصیحت سے اس پر کوئی مثبت اثر پڑ جائے۔ لیکن مجھے اس وقت حیرت کا سامنا کرنا پڑا جب اس شخص کے ساتھ بیٹھے ایک نوجوان نے اسکی نماز سے فراغت پر مجھ سے پہلے ہی اس سے گفتگو کرنا شروع کی، سننے کیلئے میں نے بھی کان لگائے تو کچھ اس قسم کی بات چیت ہو رہی تھی:

    نوجوان: السلام و علیکم، چچا آپ کون ہیں؟

    وہ آدمی: میں ۔۔۔۔۔ ہوں۔

    نوجوان: چچا، کیا آپ نے شیخ عبدا لحمید كشك کا نام سنا ہے؟

    وہ آدمی: جی، میں جانتا ہوں انہیں۔ نوجوان:

    اچھا تو آپ شیخ جاد الحق کو بھی جانتے ہونگے؟

    وہ آدمی: جی، میں انہیں بھی جانتا ہوں۔

    نوجوان: تو آپ شیخ محمد الغزالی کو بھی جانتے ہیں؟

    وہ آدمی: جی، میں انہیں بھی اچھی طرح جانتا ہوں۔

    نوجوان: تو پھر آپ ان کی کیسٹیں اور فتاویٰ جات بھی سنتے ہونگے ناں؟

    وہ آدمی: جی، میں ان کی کیسٹیں بھی سنتا ہوں اور انکے فتاویٰ جات بھی۔

    نوجوان: آپ جانتے ہیں ناں یہ سارے شیوخ سگریٹ کو حرام کہتے ہیں، تو پھر آپ کیوں پیتے ہیں سگریٹ؟

    وہ آدمی: (جو اب اس ساری گفتگو سے بیزاری سی محسوس کر رہا تھا) نہیں سگریٹ نوشی حرام نہیں ہے۔

    نوجوان: نہیں، حرام ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد بھی تو یہی ہے ناں کہ (پلید چیزوں کو تم پر حرام کر دیا گیا ہے)۔ کیا کبھی سگریٹ شروع کرتے وقت آپ نے بسم اللہ پڑھی ہے یا سگریٹ ختم ہونے پر الحمدللہ کہی ہے؟

    وہ آدمی: (تقریبا بھناتے ہوئے) مجھے قرآن شریف کی ایک آیت دکھا دو جس میں کہا گیا ہو کہ (ویحرم علیكم الدخان) اور ہم نے تم پر سگریٹ نوشی حرام قرار دی ہے۔

    نوجوان: چچا یقین کیجیئے اسلام میں سگریٹ نوشی بالکل ویسے ہی حرام ہے جس طرح سیب حرام ہے۔

    اس آدمی کا صبر کا پیمانہ لبریز ہی ہو چکا تھا، جھلاتے ہوئے خونخوار لہجے میں بولا اوئے لڑکے، تو ہوتا کون ہے کہ جس چیز کو چاہے حرام قرار دے اور جس چیز کو چاہے حلال قرار دیدے؟

    وہ نوجوان نہایت ہی تحمل سے بولا کہ پھر لایئے اک آیت جس میں لکھا ہو کہ (ویحل لکم التفاح) اور ہم نے تم پر سیب کو حلال کر دیا ہے۔

    نوجوان کی گفتگو نے اس آدمی کو ششدر ہی کر کے رکھ دیا تھا، ایسا لگ رہا تھا کہ اب رویا کہ تب، مسجد میں اقامت کی آواز گونج اٹھی تھی اور لوگ جماعت کیلیئے کھڑے ہو رہے تھے۔

    نماز کے بعد وہ آدمی پھر اس نوجوان کی طرف متوجہ ہوا اور بولا دیکھو نوجوان، میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ آئندہ کبھی سگریٹ نوشی نہیں کرونگا۔
     
  2. زین
    آف لائن

    زین ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اپریل 2011
    پیغامات:
    2,361
    موصول پسندیدگیاں:
    9
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کچھ حکایتیں

    ہر وہ نشہ حرام ہے جس سے آپ اپنے حواس پر قابو نہ رکھ سکیں ۔
     
  3. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کچھ حکایتیں

    شکریہ آصف بھائی ۔
    اچھی سبق آموز حکایت ہے اور اچھا استدلال ہے۔
     
  4. محمد عا مر اختر
    آف لائن

    محمد عا مر اختر ممبر

    شمولیت:
    ‏20 جنوری 2011
    پیغامات:
    61
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کچھ حکایتیں

    میں چند باتوں کا اس میں اضافہ کرنا چاھوں گا-

    اللہ آپکو رزق دیتے ھیں اور آپ اسکی دی ھوئی نعمت کو آگ میں جلا دیں تو کیا وہ آپکو اور دے گا؟

    آپ سے کوئی آدمی کہے کہ میں غریب ھوں یا میںضرورت مند ھوں میری مدد کرو، اور آپ اسکو کچھ رقم دیتے ھیں اور وہ آدمی آپ کے سامنے آپکے دیئے ھوے پیسے آگ میں ڈال دیتا ھے- پھر کچھ دن کے بعد اگر وہ آپسے رقم کا تقاضاہ کرے تو کیا آپ اسکی مدد کریں گے؟؟ جبکہ آپ کو پتہ ھے کہ وہ اس کے ساتھ کیا کرنے والا ھے-تو اللہ کا دیا ھوا رزق اور پیسہ آپ آگ میں جلا دیں تمباکو نوشی کی صورت میں اور اسکے بعد آپ اللہ سے مزید رزق مانگیں یا اپنی صحت اور تندرستی کی لاکھوں دعائیں مانگیں تو آپکو کیا ملے گا؟؟؟؟

    یہ اک قسم کی خود کشی ہی ہے-کیونکہ آپکو معلوم ھے کہ یہ آپکی صحت کیلئے نقصان دہ ھے ،اسکے باوجود آپ اسکا استمعال کرتے ھیں-اور روز بروز موت کا سامان کرتے ھیں-
     
  5. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کچھ حکایتیں

    زین بھائی ۔ ایک عراقی مسلمان سے اس مسئلہ پر میری طویل بحث ہوگئی تھی۔وہ شراب (الکوحل) پینا چاہتے تھے ۔میں نے کہا حرام ہے تو
    وہ صاحب بھی آپ ہی کی بات کو دہرا رہے تھے ۔ نشہ اس وقت حرام ہے جب حواس بےقابو ہوجائیں ۔ اور مجھے (عراقی )‌کو بخوبی معلوم ہے کہ میں کتنے پیگ لگانے تک اپنے حواس میں رہتا ہوں اس لیے 5-6 پیگ لگا لیتا ہوں اور چونکہ میرے حواس بےقابو نہیں‌ہوتے اس لیے یہ حرام نہیں ہے۔
     
  6. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کچھ حکایتیں

    عام تمباکو کا سگریٹ یا حقہ ، مکروہات میں آتے ہیں نہ کہ حرام میں ۔
    میں بھی بھائی محمد عامر اخترسےاتفاق کرتا ہوں کہ بات کو سمجھانے کے لیے دلیل ضرور دی جانی چاہیے لیکن ایسی حکمت و دانائی سے کہ شرعی اصول قائم رہیں۔

    والسلام
     
  7. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کچھ حکایتیں

    اس بارے میں ایک صاحب کی تشریح میں نے بھی پڑھی تھی کہ قرآن پاک کے تراجم میں‌ لفظ "خمر" کا ترجمہ شراب کیا جاتا ہے ۔ حالانکہ خمر ایک ایسی کیفیت کا نام ہے جس میں انسان کو برے بھلے کی تمیز نہ رہے۔ چاہے یہ حالت کسی قسم کے نشے سے بھی طاری ہو۔
    کیا اس معاملہ میں کوئی دوست رہنمائی فرما سکتے ہیں؟
     
  8. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کچھ حکایتیں

    السلام علیکم
    شرعی مسائل کی تشریح یا اُن پر دلائل دینے سے پہلے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ہم لوگ اس بات کے مجاز نہیں ہیں ، یہ کام صرف اہل علم حضرات کا ہے ، کسی شے کو حرام یا حلال قرار دینے کا حق ( اُن کے علم کے سبب کہ وہ بہتر انداز میں اجتہاد کر سکتے ہیں ) صرف اُنہیں ہی ہے ، اہل عرب کے اکثر شیوخ نے تمباکو نوشی کو حرام قرار دیا ہے ، اور اُس کے لیے جو دلائل وہ دیتے ہیں اُن میں‌سے ایک دلیل یہ ہے کہ ہر وہ شے جو انسانی جسم کو ضرر پہنچائے حرام ہے ، اسنان کی تخلیق مٹی سے ہوئی ہے مگر مٹی مسلمان پر حرام ہے ، کیونکہ یہ انسانی جسم میں فساد پیدا کرتی ہے ، مختلف بیماریاں پیدا کرتی ہے اسی سبب یہ اسلام میں حرام ہے ، اسی طرح تمباکو اور اس جیسی چیزیں اگر نشہ پیدا نہیں بھی کرتی مگر چونکہ یہ جسم میں فساد پیدا کرتی ہیں سو یہ بھی اسی ذمرے میں آتی ہیں ، اور حرام ہیں ۔
    اور اگر کچھ دوست احباب قرآن پاک سے ہی استدلال کرنا چاہتے ہیں تو اوپر کی تحریر میں نوجوان نے سیب کی حرمت بیان کر کے اُس کا جواب دے دیا ہے کہ قرآن شریف میں‌ سیب کو حلال قرار دینے والی ایک بھی آیت موجود نہیں ، اللہ تعالی نے قرآن میں خنزیر کا گوشت حرام قرار دیا ہے کچھ علماء‌کے نذدیک اس کا گوشت حرام ہونے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ یہ جانور نجاست خور ہے اور اس کا گوشت انسانی جسم میں‌فساد پیدا کرتا ہے ۔ باقی تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے ۔ مگر مکروہ شے بھی کسی طور جائز نہیں قرار دی جا سکتی ۔
     
  9. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کچھ حکایتیں

    خاموشی
    مندرجہ ذیل قصہ ایک نہایت ہی معتبر شخص نے سنایا، کہتا ہے کہ یہ قصہ اسکے والد کے زمانے میں ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہنے والے ایک نوجوان کا ہے، میں آپکو اسی نوجوان کی زبانی سناتا ہوں۔
    قبائلی رسم و رواج کے مطابق میں دور سے ہی ہاتھ اُٹھا کر اور بلند آواز سے سلام کرتے ہوئے اس پر وقار شخص کی طرف بڑھ رہا تھا، جی ہاں، اپنے قبیلے کے شیخ کی طرف، جو دوپہر ڈھلتے ہی اپنے گھر کی دیوار کے ساتھ بنی منڈھیر پر اونی چٹائی بچھا ئے، چائے اور عربی قہوہ کی کیتلیاں اور تھرماس پاس رکھ کر آئے گئے مہمانوں کا استقبال کرتا تھا۔ یہ شیخ صاحب کا روز کا معمول تھا۔ اُسکی یہ محفل عصر سے پہلے سجتی تھی اور مہمانوں کے آنے جانے کا سلسلہ عشاء کے بعد تک چلتا تھا۔
    میں شیخ صاحب سے مصافحہ کرکے ان کے پاس ہی بیٹھ گیا۔ حتی المقدور اپنی آواز کو دھیما رکھتے ہوئے عرض کیا: اے شیخ میں آپ سے مشورہ کرنے کیلئے حاضر ہوا ہوں۔ پچھلے ایک سال سے شادی کے بعد سے اب تک میرا نہایت ہی برا حال ہے۔
    شیخ صاحب نے مسکراتے ہوئے مجھے دیکھا اور گویا ہوئے: کیوں برخوردار، ایسی کیا بات ہے؟ الحمد للہ مجھے تو تم اچھے بھلے نظر آ رہے ہو۔
    میں نے اپنے سر کو دائیں بائیں انکار میں ہلاتے ہوئے کہا: نہیں شیخ صاحب، میں ٹھیک نہیں ہوں، میری بیوی، میری بیوی ایک پاگل ہے۔
    کام سے تھکا ماندہ شام کو گھر میں آرام کی خاطر لوٹتا ہوں ہوں تو وہ پھٹ پڑنے کیلئے تیار، ڈھاڑتی ہوئی میرے سامنے کھڑی ہوتی ہے۔
    دیر سے کیوں آئے ہو؟
    میں نے جو چیزیں منگوائی تھیں کیوں نہیں لائے؟
    یہ کیا گندی چیزیں لے کر آ گئے ہو؟
    خریداری کا سلیقہ نہیں ہے تمہیں؟
    آج جلدی کس لئے آ گئے ہو؟
    شام سے صبح تک تمہیں برداشت کرنا ہوتا ہے وہ کیا کافی نہیں ہوتا؟
    شیخ صاحب، میں نے بہت صبر کیا ہے مگر اب تو میں بھی اُس سے ہر بار یہی پوچھتا ہوں کہ کیا عذاب کی لغت میں کوئی ایسی بد زبانی یا ایسا طعنہ بچا ہے جو تو نے مجھے نہ مارا ہو! تیری بد زبانی اور بے ہودگی نے میری زندگی کو جہنم بنا کر رکھ دیا ہے۔
    شیخ صاحب، اُسکی ایک بات کے جواب میں مجھے دو سنانی پڑتی ہیں مگر اُسے نہ قائل کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی خاموش۔کئی بار لمحے تو کئی بار گھنٹے اس حال میں گزرتے ہیں، اور پھر گھر میں گزرا باقی کا وقت اپنے بال نوچتے یا ناخن چباتے گزرتا ہے۔
    لیکن شیخ صاحب: اب میرا ایسی صورتحال سے دل بھر گیا ہے اور مجھے کراہت ہو گئی ہے۔ اس سے پہلے کہ یہ پاگل عورت میرے ہاتھوں قتل ہو، میں اُسے طلاق دینا چاہتا ہوں۔
    شیخ صاحب نے سر کو ہلاتے ہوئے کہا: بیٹے، میں تیری مصیبتوں کا سبب جان گیا ہوں۔ میرے پاس تیرے لئے اسکا ایک علاج ہے، اور اس سے تیرے سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔
    میں نے تعجب سے شیخ صاحب کو کہا: کیا ہے ایسا علاج، جس سے اُسکا پاگل پن ختم ہو جائے گا؟ لیکن میں اُس میں کوئی رغبت باقی نہیں پاتا، میں اُسے طلاق دیکر چھٹکارا پانا چاہتا ہوں۔ اگر آپ کے پاس کوئی علاج ہے تو آس کیلئے دیجیئے، میرے لئے نہیں۔
    شیخ صاحب نے مسکرا کر اپنے ہاتھ میرے کندھے پر رکھتے ہوئے کہا، بیٹے اللہ پر بھروسہ رکھو، آؤ عصر کی نماز ادا کرتے آئیں، اسکے بعد میں تمہیں علاج بتاؤنگا۔
    نماز سے واپسی پر مجھے واپس بیٹھنے کا اشارہ کرتے شیخ صاحب اپنے گھر تشریف لے گئے۔ واپسی پر ہاتھ میں ایک چھوٹی سی بوتل تھامے نمودار ہوئے، بوتل کا منہ ایک ڈھکن سے مضبوتی کے ساتھ بند تھا۔۔۔
    میرے قریب بیٹھتے ہوئے مجھے مخاطب ہوئے: یہ لو میرے بیٹے، یہ ہے وہ علاج جسکا میں نے تمہارے ساتھ وعدہ کیا تھا۔اس علاج کو تم نے اپنے پاس رکھنا ہے، جب اپنے گھر لوٹو تو گھر میں داخل ہونے سے پہلے، بسم اللہ پڑھ کر اس بوتل میں سے ایک ڈھکنا بھر کر منہ میں ڈالنا ہے مگر اِسے آدھا گھنٹہ نہ تو حلق سے نیچے آتارنا ہے اور ہی نہ پینا ہے۔ہاں مگر آدھے گھنٹے کے بعد پی لینے میں کوئی حرج نہیں۔ اور میں یہ چاہتا ہوں کہ تم یہ علاج مسلسل بغیر کسی ناغہ کے دس دن تک کرو۔ اور دس دن کے بعد اللہ کے حکم سے تمہاری بیوی ویسی ہی بن جائے گی جس طرح کی تم خواہش کرتے ہو۔
    میں نے اپنے سر کو حیرت کے ساتھ جھٹکتے ہوئے شیخ صاحب سے کہا: ٹھیک ہے میں ایسا ہی کرونگا جس طرح آپ حکم دے رہے ہیں، میری اللہ سے دعاء ہے کہ وہ میری بیوی کے پاگل پن کو اس دوا سے شفاء دیدے جسکو پیوں گا تو میں مگر اثر اس پر ہونا ہے۔
    اور دوسرے دن، گھر میں داخل ہونے سے قبل، میں نے جیب سے بوتل نکالی، بسم اللہ پڑھ کر ایک ڈھکنا بھر مقدار سائل کو منہ میں ڈالا، آپکی معلومات کی خاطر عرض کردوں کہ میں یہ جان کر حیرت زدہ سا تھا کہ سائل کا ذائقہ پانی سے زیادہ دور نہیں تھا۔ نہ کوئی رنگ، نہ ہی بو اور نہ کوئی مزا۔
    شیخ صاحب کی ہدایت کے مطابق عمل کرتے ہوئے، منہ کو سختی سے بند کئے، میں گھر میں داخل ہو کمرے میں جانے کیلئے کچن کے سامنے سے ہوتا ہوا گزر ہی رہا تھا کہ میری بیوی کی نظر مجھ پر پڑ گئی۔ حسب توقع دائیں آنکھ اوپر اور بائیں نیچے کئے، اس سے پہلے کہ میں سامنے سے ہٹتا، دانتوں کو پیستے ہوئے بولی: آخر کار آ گئے ہیں آپ جناب! لائیے کدھر ہیں وہ چیزیں جو میں نے منگوائی تھیں! یا ہمیشہ کی طرح میرا کہا ہوا تمہارے سر کے اوپر سے گزر گیا تھا اور خالی ہاتھ واپس آ گئے ہو؟ لاؤ مجھے دو، میں دیکھوں تو کیا لائے ہو؟
    اور پھر اُس نے میری خاموشی پر حیرت سے میرے چہرے کو دیکھا، ایک انگلی کو خونخوار طریقے سے میرے چہرے کے سامنے ہلاتے ہوئے بولی: زبان حلق میں پھنس گئی ہے کیا؟
    موقع ملتے ہی میں کمرے کی طرف دوڑا، تاکہ جا کر علاج کا آدھا گھنٹہ گزاروں۔ حالانکہ مجھے پورا یقین تھا کہ شیخ صاحب کے علاج کا میری بیوی پر کوئی فائدہ نہیں ہونا ۔خاص طور پر آج تو بے اثر ہی رہا تھا۔
    دوسرے دن گھر داخل ہونے سے قبل پھر وہی علاج دہرایا، بوتل میں سے ڈھکنا بھر محلول بسم اللہ پڑھ کر منہ میں ڈال کر گھر میں داخل ہو گیا، تا کہ میری بیوی اپنی مغلظات میرے سر پر مارے۔ اور میں اپنے ہونٹ سختی سے بند کیئے علاج کرتا رہوں۔
    آج ذرا خیریت رہی، گھر والی بغور میرے چہرے کو دیکھتی رہی، شاید میری خاموشی کا سبب جاننے کی کوشش کر رہی تھی۔ چند لمحے خاموش رہ کر آہستگی سے بولی: کھانا کھاؤ گے، لاؤں؟
    *
    *
    *
    *
    *
    (اور پھر 5 دنوں کے بعد)
    شیخ صاحب کے پاس بیٹھنے سے قبل، میں نے انہیں سلام کیا۔ اور پھر پوچھا: شیخ صاحب، بوتل میں کیا ڈالا تھا آپ نے؟
    شیخ صاحب میرے چہرے کو دیکھ کر مسکرائے اور بولے: بیٹے پہلے اپنی سناؤ، میرے علاج نے کوئی اثر بھی دکھایا ہے یا نہیں؟
    میں نے اپنا سر اوپر سے نیچے کی طرف ہلاتے ہوئے کہا: شیخ صاحب، یہ کچھ ہوا ہے ان دنوں میں اور یہ صورتحال ہے اب تک کی۔ دو دن ہو گئے ہیں میری بیوی تو بالکل ویسی بن گئی ہے جس طرح دلہن بن کر آئی تھی۔ شیخ صاحب، اب تو بتائیے، کیا ڈالا تھا آپ نے اس بوتل میں؟ (میں اس وقت تک اس بوتل کا نام – اکسیر جنونِ نسواں رکھ چکا تھا ) ۔
    شیخ صاحب نے بولنے سے پہلے ایک ہلکا سا قہقہہ لگایا اور بولے: بیٹے، اس بوتل میں، میں نے تمہیں پانی ڈال کر دیا تھا، اپنے گھر میں رکھے گھڑے میں سے۔
    میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں، میں نے تعجب سے کہا: پانی؟ صرف پانی؟ کیا اس بوتل میں کوئی دوا نہیں تھی، صرف پانی تھا؟ اچھا برکت کیلئے کم از کم آپ نے اپنا لعاب تو ضرور ڈالا ہو گا اس میں، آخر میری بیوی کو کس طرح شفاء ملی ہے اس سے؟
    شیخ صاحب ایک بار پھر مسکرائے اور مجھ سے یوں مخاطب ہوئے: دو باتوں سے تمہارا مسئلہ بڑھ رہا تھا۔
    پہلا : سارے دن کے کام کے بعد شام کو تم تھکے ہارے گھر پہنچتے تھے تو تمہارا مطمع نظر محض سکون اور آرام ہوتا تھا بغیر کسی اضافی کام یا مشقت کے۔
    دوسرا : تمہاری بیوی سارے دن کی تنہائی، خاموشی اور اُکتاہٹ کا شکار تھی، تمہارے گھر پہنچنے پر وہ تم سے باتیں کرنا چاہتی تھی مگر گفتگو کو شروع کرنے کیلئے کوئی مناسب موضوع نہ ملنے پر وہ طعن و تشیع اور فضول الزم تراشی پر اتر آتی تھی۔
    اور اس سب خرابیوں میں تمہارا کردار یہ تھا کہ تم اس طعن و تشیع اور الزم بازی میں تحمل کا مظاہرہ نہیں کر رہے تھے۔ اس رویئے کو نظر انداز کرنا تو در کنار، اُلٹا تم طلاق دینے کی سوچ رہے تھے۔
    بیٹے ! ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ تم خاموش رہ کر اپنی بیوی کی باتیں سنتے، اُسکی دلجوئی کرتے، سارے دن کی رویداد سنتے یا سناتے، یا اسکو اپنے سینے کی بھڑاس نکالنے کا موقع فراہم کرتے، یا پھر محض تمہاری خاموشی ہی اسکا علاج تھی۔
    تمہارے مرض کی کیفیت کو ذہن میں رکھ کر میں نے جو علاج تجویز بوتل میں بند کر کے تمہیں دیا تھا، وہ محض میرے گھر کے گھڑے کا پانی تھا۔ تاکہ جب تک کچھ آرام پا کر تمہارا موڈ ٹھیک نہ ہو اس وقت تک پانی منہ میں رکھ کر کم از کم تمہارے ہونٹ تو سلے رہیں۔
    میں صرف اتنا چاہتا تھا کہ تم اتنا سا ہی خاموش رہنا سیکھ جاؤ جتنی دیر میں تمہاری بیوی بغیر کسی روک ٹوک کے اپنی روئیداد نہ سنا لیا کرے۔اور جب وہ بول رہی ہو تو تم توجہ سے اُس کو سن لیا کرو۔
    اس طرح اُس کے دل میں یہ بات بیٹھ سکتی تھی کہ تم جو کچھ کر رہے ہو وہ اُس کی محبت کیلئے ہے، اور رد عمل کے طور پر وہ بھی ایسا رویہ اپنائے جو تمہاری دل آزاری کا باعث نہ بنا کرے۔
    بیٹے تمہاری بیوی کا علاج تمہاری طرف سے شروع ہونا تھا جس کی ابتداء میں نے تمہیں یہ دوا دے کر کی۔اور اس علاج سے میں یہی بات میں تمہیں سمجھانا چاہتا تھا کہ تمہاری بیوی کی دوا – اکسیر جنونِ نسواں – صرف اور صرف تمہاری خاموشی تھی۔
    میری طرف سے تھوڑا سا اضافہ: عزیزان من، آپ بیشک بہت اچھے مقرر اور بہت اچھی گفتگو کرنے کا فن رکھنے والے ہونگے، مگر کبھی دوسروں کو بھی بولنے کا موقع دیجیئے، شاید آپ کو اس طرح کچھ فائدہ ہی پونہچے، ورنہ کم از کم آپ کی سماعت سے بولنے والا عزت افزائی تو ضرور ہی محسوس کرے گا ناں! اور یہی کچھ گفتگو کے آداب میں سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تعلیمات دی ہیں۔
     
  10. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کچھ حکایتیں

    تجربہ تو کرنے دیجیئے
    اعلٰی تعلیم میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والے ایک نوجوان نے ملک کی ایک بڑی نامور کمپنی میں ادارتی منصب کیلئے درخواست جمع کرائی اور اُسے ابتدائی طور پر اِس منصب کیلئے موزوں اُمیدوار قرار دیکر فائنل انٹرویو کیلیئے تاریخ دیدی گئی۔
    انٹرویو والے دن کمپنی کے مُدیر (کمپنی کا سربراہ) نے نوجوان کی پروفائل کو غور سے دیکھا اور پڑھا، نوجوان اپنی ابتدائی تعلیم سے لے کر آخری مرحلے تک نا صرف کامیاب ہوتا رہا تھا بلکہ اپنے تعلیمی اداروں میں ہمیشہ نمایاں پوزیشن حاصل کرتا رہا تھا۔ اُسکی تعلیم کا یہ معیار آخر تک برقرار رہا تھا۔ مُدیر نے جوان سے پوچھا: تعلیم کے معاملے میں تمہیں کبھی کوئی مشکل یا کوئی ناکامی بھی پیش آئی، جسکا جواب نوجوان نے کبھی نہیں کہہ کر دیا۔
    مُدیر نے پوچھا: یقینا یہ تمہارے والد ہونگے جنہوں نے تمہاری اِس مہنگی تعلیم کے اخراجات برداشت کیئے ہونگے؟
    نوجوان نے کہا نہیں، میرے والد کا تو اُس وقت ہی انتقال ہو گیا تھا جب میں ابھی اپنی پہلی جماعت میں تھا۔ میرے تعلیم کے سارے اخراجات میری امی نے اُٹھائے ہیں۔
    مُدیر نے پھر کہا؛ اچھا، تو پھر تمہاری امی کیا جاب کرتی ہیں ؟
    نوجوان نے بتایا کہ میری امی لوگوں کے کپڑے دھوتی ہیں۔
    مُدیر نے نوجوان سے کہا کہ مجھے اپنے ہاتھ تو دِکھاؤ۔ نوجوان نے ہاتھ اُسے تھمائے جو کہ اِنتہائی نرم و نازک اور نفیس تھے، ہاتھوں کی نزاکت سے تو شائبہ تک نہیں ہوتا تھا کہ نوجوان نے تعلیم کے علاوہ کبھی کوئی اور کام بھی کیا ہوگا۔
    مُدیر نے نوجوان سے پوچھا: کیا تم نے کپڑے دھونے میں کبھی اپنی امی کے ہاتھ بٹائے ہیں؟
    نوجوان نے انکار میں جواب دیتے ہوئے کہا: نہیں، کبھی نہیں، میری امی ہمیشہ مجھے اپنا سبق یاد کرنے کو کہا کرتی تھیں، اُنکا کہنا تھا کہ کپڑے وہ خود دھو لیں گی۔ میں زیادہ سے زیادہ کُتب کا مطالعہ کرتا تھا، اور پھر میری امی جتنی تیزی اور پُھرتی سے کپڑے دھوتی تھیں میں تو اُتنی تیزی سے دھو بھی نہیں سکتا تھا۔
    مُدیر نے نوجوان سے کہا؛ برخوردار، میری ایک شرط ہے کہ تم آج گھر جا کر اپنی امی کے ہاتھ دھوؤ اور کل دوبارہ میرے پاس واپس آؤ تو میں طے کرونگا کہ تمہیں کام پر رکھا جائے کہ نہیں۔
    نوجوان کو یہ شرط کُچھ عجیب تو ضرور لگی مگر کام ملنے کے اطمئنان اور خوشی نے اُسے جلد سے جلد گھر جانے پر مجبور کردیا۔
    گھر جا کر نوجوان نے اپنی ماں کو سارا قصہ کہہ سُنایا اور ساتھ ہی اُسے جلدی سے ہاتھ دھلوانے کو کہا۔ آخر نوکری کا ملنا اس شرط سے جُڑا ہوا تھا۔
    نوجوان کی ماں نے خوشی تو محسوس کی، مگر ساتھ ہی اُسے یہ شرط عجیب بھی لگ رہی تھی۔ ذہن میں طرح طرح کے وسوسے اور خیالات آ رہے تھے کہ آخر نوکری کیلئے یہ کِس قسم کی شرط تھی؟ مگر اِس سب کے باوجود اُس نے اپنے ہاتھ بیٹے کی طرف بڑھا دیئے۔
    نوجوان نے آہستگی سے ماں کے ہاتھ دھونا شروع کیئے، کرخت ہاتھ صاف بتا رہے تھے کہ اِنہوں نے بہت مشقت کی تھی۔ نوجوان کی آنکھو سے آنسو رواں ہو گئے۔ آج پہلی بار اُسے اپنی ماں کے ہاتھوں سے اُس طویل محنت کا ندازہ ہو رہا تھا جو اُس نے اپنےاِس بیٹے کی تعلیم اور بہتر مُستقبل کیلئے کی تھی۔
    ہاتھ انتہائی کُھردے تو تھے ہی اور ساتھ ہی بہت سی گانٹھیں بھی پڑی ہوئی تھیں۔ آج نوجوان کو پہلی بار محسوس ہو رہا تھا کہ یہ کھردرا پن اگر اُسکی تعلیم کی قیمت چُکاتے چُکاتے ہوا تھا تو گانٹھیں اُسکی ڈگریوں کی قیمت کے طور پر پڑی تھیں۔ نوجوان ہاتھ دھونے سے فراغت پا کر خاموش سے اُٹھا اور ماں کے رکھے ہوئے باقی کپڑے دھونے لگ گیا۔ وہ رات اُس نے ماں کے ساتھ باتیں کرتے گُزاری، تھوڑے سے کپڑے دھونے سے اُسکا جسم تھکن سے شل ہو گیا تھا۔ سارا سارا دن بغیر کوئی شکوہ زبان پر لائے کپڑے دھونے والی ماں سے باتیں کرنا آج اُسے بہت اچھا لگ رہا تھا، دِل تھا کہ کسی طرح بھی باتوں سے بھر نہیں پا رہا تھا۔
    دوسرے دِن اُٹھ کر نوجوان دوبارہ اُس کمپنی کے دفتر گیا، مُدیر نے اُسے اپنے کمرے میں ہی بُلا لیا۔ نوجوان کے چہرے سے اگر جگ راتے کی جھلک نُمایاں تھی تو آنکھوں میں تیرتی ہوئی نمی کسی ندامت اور افسردگی کی کہانی سُنا رہی تھی۔
    مُدیر نے نوجوان سے پوچھا، کل گھر جا کر تُم نے کیا کیا تھا؟
    نوجوان نے مختصرا کہا کہ کل میں نے گھر جا کر اپنی امی کے ہاتھ دھوئے تھے اور پھر اُس کے باقی بچے ہوئے کپڑے بھی دھوئے تھے۔
    مُدیر نے کہا میں تمہارے محسوسات کو پوری سچائی اور دیانتداری کے ساتھ سُننا چاہتا ہوں۔
    نوجوان نے کہا: کل مُجھے لفظ قُربانی کے حقیقی معانی معلوم ہوئے۔ اگر میری امی اور اُسکی قُربانیاں ناں ہوتیں تو میں آج اِس تعلیمی مقام پر ہرگز فائز نہ ہوتا۔ دوسرا میں نے وہی کام کر کے اپنے اندر اُس سخت اور کٹھن محنت کی قدر و قیمت کا احساس پیدا کیا جو میری ماں کرتی رہی تھی اور مُجھے حقیقت میں اُسکی محنت اور مشقت کی قدر کا اندازہ ہوا۔ تیسرا مُجھے خاندان کی افادیت اور قدر کا علم ہوا۔
    مُدیر نے نوجوان کو بتایا کہ وہ اپنی کمپنی میں موجود ادارتی منصب کیلئے ایک ایسے شخص کی تلاش تھا جو دوسروں کی مدد کا جذبہ رکھنے والا ہو، دوسرے کا اِحساس کرنے والا ہو اور صرف مال کا حصول ہی اُسکا مطمعِ نظر نہ ہو۔ نوجوان تمہیں مبارک ہو، میں تمہیں اِس منصب کیلئے منتخب کرتا ہوں۔
    اور کہتے ہیں کہ نوجوان نے اُس کمپنی میں بہت محنت، لگن اور جذبے کے ساتھ کام کیا، دوسروں کی محنت کی قدر اور احساس کرتا تھا، سب کو ساتھ لیکر چلنا اور سارے کام مِل جُل کر ایک فریق کی حیثیت سے انجام دینا اُسکا وطیرہ تھا، اور پِھر اُس کمپنی نے بھی بہت ترقی کی۔
    اِس کہانی سے اخذ کیئے گئے کُچھ نتائج ملاحظہ فرمائیے:
    جِس بچے کو مُحبت اور شفقت کے علاوہ اُسکے منہ سے نکلنے والی ہر خواہش کی فوری تعمیل کے ماحول میں پرورش کی جائے وہ بچہ ہر چیز پر حقِ ملکیت محسوس کرتا ہے اور ہمیشہ اپنی خواہشات اور اپنی ذات کو مقدم رکھتا ہے۔
    ایسا بچہ اپنے باپ کی محنت اور مشقت سے بے خبر رہتا ہے، جب عملی زندگی میں قدم رکھتا ہے تو ہر کسی سے توقع رکھتا ہے کہ وہ اُسکا ماتحت اور تابع فرمان ہو۔
    ایسا بچہ عملی زندگی میں کسی ادارتی منصب یا ذمہ داری پر فائز ہو جائے تو اپنے ماتحتوں کا دُکھ درد اور تکلیفوں کو سمجھتا ہی نہیں اُلٹا کسی قسم کی ناکامی کی صورت میں اپنی ذمہ داری دوسروں پر ڈالتا ہے۔
    دوسروں کو حقارت اور کمتر سمجھنا تو معمولی بات ہے ایسا بچہ اپنے مفادات اور کامیابیوں کیلئے دوسروں کو راستے سے ہٹانا معمولی بات سمجھتا ہے۔
    دیکھ لیجیئے اگر ہم اپنی اولاد کی تربیت اِسی انداز سے کر رہے ہیں تو ہمارے کیا مقاصد ہیں؟ ہم اُنکی حفاظت کر رہے ہیں یا اُن کی بربادی کے اسباب پیدا کر رہے ہیں؟
    ہو سکتا ہے آپکا بچہ ایک بڑے گھر میں رہتا ہو، انواع و اقسام کے اعلٰی کھانے کھاتا ہو، پیانو کی تعلیم حاصل کرتا ہو، کسی پروجیکٹر یا بڑی سکرین والے ٹیلیویژن پر اپنے پسندیدہ پروگرام دیکھتا ہو، لیکن اگر کبھی وہ گھر کے لان کی گھاس کاٹنا چاہے تو اُسے اِس کام کا تجربہ تو کرنے دیجیئے۔
    اگر وہ کھانا کھا چُکے تو اُسے بہنوں کے ساتھ یا ماں کے ساتھ باورچی خانے میں جا کر اپنی پلیٹ بھی دھونے دیجیئے۔
    اِسکا یہ مطلب ہرگز نہیں بنے گا کہ آپکے پاس گھر میں خادمہ رکھنے کی حیثیت نہیں ہے، بلکہ اِسکا یہ مطلب بنے گا کہ آپ اپنے بچے سے صحیح اُصولوں کے مطابق محبت کرتے ہیں۔
    کیونکہ آپ چاہتے ہیں کہ آپکے بچے کے اندر اِس بات کا شعور اور احساس پیدا ہو کہ اُس کے باپ نے اُس کیلئے جو دولت چھوڑ کر جانی ہے وہ آسانی سے نہیں کمائی گئی تھی جس طرح مذکورہ بالا کہانی میں نوجوان کی ماں کی محنت و مشقت والی کمائی کا ذکر ہے۔
    اِن سب باتوں سے قطع نظر، آپ اپنے بچے کو ایثار اور قُربانی کا مفہوم سمجھانا چاہتے ہیں، آپ اُسے کام کی تکلیف اور مصائب و مشاکل سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔
    آپ اُسے بتانا چاہتے ہیں کہ دوسروں کی محنت و مشقت کی قدر اور احساس کیا جائے تاکہ نتائج سے سب مل کر لطف اُٹھا سکیں۔
     
  11. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کچھ حکایتیں

    مسجدوں کا عاشق
    ایک شخص نے یوں قصہ سنایا کہ
    میں اور میرے ماموں نے حسب معمول مکہ حرم شریف میں نماز جمعہ ادا کی اورگھر کو واپسی کیلئے روانہ ہوئے۔ شہر سے باہر نکل کر سڑک کے کنارے کچھ فاصلے پر ایک بے آباد سنسان مسجد آتی ہے، مکہ شریف کو آتے جاتے، سپر ہائی وے سے بارہا گزرتے ہوئے اس جگہ اور اس مسجد پر ہماری نظر پڑتی رہتی ہے اور ہم ہمیشہ ادھر سے ہی گزر کر جاتے ہیں۔ مگر آج جس چیز نے میری توجہ اپنی طرف کھینچ لی تھی وہ تھی ایک نیلے رنگ کی فورڈ کار جو مسجد کی خستہ حال دیوار کے ساتھ کھڑی تھی۔ چند لمحے تو میں سوچتا رہا کہ اس کار کا اس سنسان مسجد کے پاس کیا کام! مگر اگلے لمحے میں نے کچھ جاننے کا فیصلہ کرتے ہوئے، اپنی کار کی رفتار کم کرتے ہوئے مسجد کی طرف جاتی کچی سائڈ روڈ پر ڈال دیا، میرا ماموں جو عام طور پر واپسی کا سفر غنودگی میں گزارتا ہے اس نے اپنی آنکھوں کو وا کرتے ہوئے میری طرف حیرت سے دیکھتے ہوئے پوچھتا، کیا بات ہے، ادھر کیوں جا رہے ہو؟
    ہم نے اپنی کار کو مسجد سے دور کچھ فاصلے پر روکا اور پیدل مسجد کی طرف چلے، مسجد کے نزدیک جانے پر اندر سے کسی کی پرسوز آواز میں سورۃ الرحمٰن تلاوت کرنے کی آواز آ رہی تھی، پہلے تو یہی اردہ کیا کہ باہر رہ کر ہی اس خوبصورت تلاوت کو سنیں ، مگر پھر یہ سوچ کر کہ اس بوسیدہ مسجد میں جہاں اب پرندے بھی شاید نہ آتے ہوں، اند جا کر دیکھنا تو چاہیئے کہ کیا ہو رہا ہے؟
    ہم نے اند جا کر دیکھا ایک نوجوان مسجد میں جاء نماز بچھائے ہاتھ میں چھوٹا سا قرآن شریف لئے بیٹھا تلاوت میں مصروف ہے اور مسجد میں اس کے سوا اور کوئی نہیں ہے۔ بلکہ ہم نے تو احتیاطا ادھر ادھر دیکھ کر اچھی طرح تسلی کر لی کہ واقعی کوئی اور موجود تو نہیں ہے۔
    میں نے اُسے السلامُ علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ کہا، اس نے نطر اُٹھا کر ہمیں دیکھا، صاف لگ رہا تھا کہ کسی کی غیر متوقع آمد اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی، حیرت اس کے چہرے سے عیاں تھی۔
    اُس نے ہمیں جوابا وعلیکم السلامُ علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ کہا۔
    میں نے اس سے پوچھا، عصر کی نماز پڑھ لی ہے کیا تم نے، نماز کا وقت ہو گیا ہے اور ہم نماز پڑھنا چاہتے ہیں۔
    اُس کے جواب کا انتظار کئے بغیر میں نے اذان دینا شروع کی تو وہ نوجوان قبلہ کی طرف رخ کئے مسکرا رہا تھا، کس بات پر یا کس لئے یہ مسکراہٹ، مجھے پتہ نہیں تھا۔ عجیب معمہ سا تھا۔
    پھر اچانک ہی اس نوجوان نے ایک ایسا جملہ بولا کہ مجھے اپنے اعصاب جواب دیتے نظر آئے،
    نوجوان کسی کو کہہ رہا تھا؛ مبارک ہو، آج تو باجماعت نماز ہوگی۔
    میرے ماموں نے بھی مجھے تعجب بھری نظروں سے دیکھا جسے میں نظر انداز کر تے ہوئے اقامت کہنا شروع کردی۔
    جبکہ میرا دماغ اس نوجوان کے اس فقرے پر اٹکا ہوا تھا کہ مبارک ہو، آج تو باجماعت نماز ہوگی۔
    دماغ میں بار بار یہی سوال آ رہا تھا کہ یہ نوجوان آخر کس سے باتیں کرتا ہے، مسجد میں ہمارے سوا کوئی بندہ و بشر نہیں ہے، مسجد فارغ اور ویران پڑی ہے۔ کیا یہ پاگل تو نہیں ہے؟
    میں نے نماز پڑھا کر نوجوان کو دیکھا جو ابھی تک تسبیح میں مشغول تھا۔
    میں نے اس سے پوچھا، بھائی کیا حال ہے تمہارا؟ جسکا جواب اس نے ــ’بخیر و للہ الحمد‘ کہہ کر دیا۔
    میں نے اس سے پھر کہا، اللہ تیری مغفرت کرے، تو نے میری نماز سے توجہ کھینچ لی ہے۔ ’وہ کیسے‘ نوجوان نے حیرت سے پوچھا۔
    میں نے جواب دیا کہ جب میں اقامت کہہ رہا تھا تو تم نے ایک بات کہی مبارک ہو، آج تو باجماعت نماز ہوگی۔
    نوجوان نے ہنستے ہوئے جواب دیا کہ اس میں ایسی حیرت والی کونسی بات ہے؟
    میں نے کہا، ٹھیک ہے کہ اس میں حیرت والی کوئی بات نہیں ہے مگر تم بات کس سے کر رہے تھے آخر؟
    نوجوان میری بات سن کر مسکرا تو ضرور دیا مگر جواب دینے کی بجائے اس نے اپنی نظریں جھکا کر زمین میں گاڑ لیں، گویا سوچ رہا ہو کہ میری بات کا جواب دے یا نہ دے۔
    میں نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ تم پاگل ہو، تمہاری شکل بہت مطمئن اور پر سکون ہے، اور ماشاءاللہ تم نے ہمارے ساتھ نماز بھی ادا کی ہے۔
    اس بار اُس نے نظریں اُٹھا کر مجھے دیکھا اور کہا؛ میں مسجد سے بات کر رہا تھا۔
    اس کی بات میرے ذہن پر بم کی کی طرح لگی، اب تو میں سنجیدگی سے سوچنے لگا کہ یہ شخص ضرور پاگل ہے۔
    میں نے ایک بار پھر اس سے پوچھا، کیا کہا ہے تم نے؟ تم اس مسجد سے گفتگو کر رہے تھے؟ تو پھر کیا اس مسجد نے تمہیں کوئی جواب دیا ہے؟
    اُس نے پھر مسکراتے ہوئے ہی جواب دیا کہ مجھے ڈر ہے تم کہیں مجھے پاگل نہ سمجھنا شروع کر دو۔
    میں نے کہا، مجھے تو ایسا ہی لگ رہا ہے، یہ فقط پتھر ہیں، اور پتھر نہیں بولا کرتے۔
    اُس نے مسکراتے ہوئے کہا کہ آپکی بات ٹھیک ہے یہ صرف پتھر ہیں۔
    اگر تم یہ جانتے ہو کہ یہ صرف پتھر ہیں جو نہ سنتے ہیں اور نہ بولتے ہیں تو باتیں کس سے کیں؟
    نوجوان نے نظریں پھر زمیں کی طرف کر لیں، جیسے ابھی بھی سوچ رہا ہو کہ جواب دے یا نہ دے۔
    اور اب کی بار اُس نے نظریں اُٹھائے بغیر ہی کہا کہ ؛
    میں مسجدوں سے عشق کرنے والا انسان ہوں، جب بھی کوئی پرانی، ٹوٹی پھوٹی یا ویران مسجد دیکھتا ہوں تو اس کے بارے میں سوچتا ہوں
    مجھے اُن دنوں کا خیال آجاتا ہے جب لوگ اس مسجد میں نمازیں پڑھا کرتے ہونگے۔
    پھر میں اپنے آپ سے ہی سوال کرتا ہوں کہ یہ مسجد اب کتنا شوق رکھتی ہوگی کہ کوئی تو ہو جو اس میں آکر نماز پڑھے، کوئی تو ہو جو اس میں بیٹھ کر اللہ کا ذکر کرے۔ میں مسجد کی اس تنہائی کے درد کو محسوس کرتا ہوں کہ کوئی تو ہو جو ادھر آ کر تسبیح و تحلیل کرے، کوئی تو ہو جو آ کر چند آیات پڑھ کر ہی اس کی دیواروں کو ہلا دے۔
    میں تصور کر سکتا ہوں کہ یہ مسجد کس قدر اپنے آپ کو باقی مساجد میں تنہا پاتی ہوگی۔ کس قدر تمنا رکھتی ہوگی کہ کوئی آکر چند رکعتیں اور چند سجدے ہی اداکر جائے اس میں۔ کوئی بھولا بھٹکا مسافر، یا راہ چلتا انسان آ کر ایک اذان ہی بلند کرد ے۔
    پھر میں خود ہی ایسی مسجد کو جواب دیا کرتا ہوں کہ اللہ کی قسم، میں ہوں جو تیرا شوق پورا کرونگا۔ اللہ کی قسم میں ہوں جو تیرے آباد دنوں جیسے ماحول کو زندہ کرونگا۔ پھر میں ایسی مسجدمیں داخل ہو کر دو رکعت پڑھتا ہوں اور قرآن شریف کے ایک سیپارہ کی تلاوت کرتا ہوں۔
    میرے بھائی، تجھے میری باتیں عجیب لگیں گی، مگر اللہ کی قسم میں مسجدوں سے پیار کرتا ہوں، میں مسجدوں کا عاشق ہوں۔
    میری آنکھوں آنسوؤں سے بھر گئیں، اس بار میں نے اپنی نظریں زمیں میں ٹکا دیں کہ کہیں نوجوان مجھے روتا ہوا نہ دیکھ لے،
    اُس کی باتیں۔۔۔۔۔ اُس کا احساس۔۔۔۔۔اُسکا عجیب کام۔۔۔۔۔اور اسکا عجیب اسلوب۔۔۔۔۔کیا عجیب شخص ہے جسکا دل مسجدوں میں اٹکا رہتا ہے۔۔۔۔۔
    میرے پاس کہنے کیلئے اب کچھ بھی تو نہیں تھا۔
    صرف اتنا کہتے ہوئے کہ، اللہ تجھے جزائے خیر دے، میں نے اسے سلام کیا، مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھنا کہتے ہوئے اُٹھ کھڑا ہوا۔
    مگر ایک حیرت ابھی بھی باقی تھی۔
    نوجوان نے پیچھے سے مجھے آواز دیتے ہوئے کہا تو میں دروازے سے باہر جاتے جاتے رُک گیا،
    نوجوان کی نگاہیں ابھی بھی جُھکی تھیں اور وہ مجھے کہہ رہا تھا کہ جانتے ہو جب میں ایسی ویران مساجد میں نماز پڑھ لیتا ہوں تو کیا دعا مانگا کرتا ہوں؟
    میں نے صرف اسے دیکھا تاکہ بات مکمل کرے۔
    اس نے اپنی بات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا میں دعا مانگا کرتا ہوں کہ
    ’ اے میرے پروردگار، اے میرے رب! اگر تو سمجھتا ہے کہ میں نے تیرے ذکر ، تیرے قرآن کی تلاوت اور تیری بندگی سے اس مسجد کی وحشت و ویرانگی کو دور کیا ہے تو اس کے بدلے میں تو میرے باپ کی قبر کی وحشت و ویرانگی کو دور فرما دے، کیونکہ تو ہی رحم و کرم کرنے والا ہے‘
    مجھے اپنے جسم میں ایک سنسناہٹ سی محسوس ہوئی، اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکا اور پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔


    پیارے دوست، پیاری بہن: کیا عجیب تھا یہ نوجوان، اور کیسی عجیب محبت تھی اسے والدین سے!
    کسطرح کی تربیت پائی تھی اس نے؟
    اور ہم کس طرح کی تربیت دے رہے ہیں اپنی اولاد کو؟
    ہم کتنے نا فرض شناس ہیں اپنے والدین کے چاہے وہ زندہ ہوں یا فوت شدہ؟
    بس اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں نیک اعمال کی توفیق دے اور ہمارا نیکی پر خاتمہ کرے، اللھم آمین
    ازراہ کرم! اگر آپ کو اس ایمیل کا موضوع اچھا لگا ہے تو اپنے ان احباب کو بھیج دیجیئے جن کا آپ چاہتے ہیں کہ بھلا اور فائدہ ہو جائے۔
    مت بھولئے کہ نیکی کی ترغیب دلانے والے کو نیکی کرنے والے جتنا ہی ثواب ملتا ہے۔
    کیا کبھی آپ میں سے کسی نے یہ سوچا ہے کہ موت کے بعد کیا ہوگا؟ جی ہاں موت کے بعد کیا ہوگا؟
    تنگ و تاریک گڑھا، گھٹا ٹوپ اندھیرا، وحشت و ویرانگی، سوال و جواب، سزا و جزا، اور پھر جنت یا دوزخ۔
    یا اللہ، اس مضمون پڑھنے والے کے دکھ درد اور پریشانیاں دور فرما دے، آمین یا رب العالمین۔
     
  12. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کچھ حکایتیں

    ایسے لوگ اب پھر کبھی لوٹ کر نہیں آئیں گے۔
    اس مضمون کو پڑھتے ہوئے کسی لمحے آپکو اپنی آنکھوں میں نمی سی محسوس ہو تو جہاں اپنی مغفرت کی دعاء کیجئے وہاں اس خاکسار کو بھی یاد کر لیجیئے گا۔
    دو نوجوان عمر رضی اللہ عنہ کی محفل میں داخل ہوتے ہی محفل میں بیٹھے ایک شخص کے سامنے جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اسکی طرف انگلی کر کے کہتے ہیں “یا عمر یہ ہے وہ شخص”
    عمر رضی اللہ عنہ ان سے پوچھتے ہیں ” کیا کیا ہے اس شخص نے ؟”
    “یا امیر المؤمنین ۔ اس نے ہمارے باپ کو قتل کیا ہے”
    عمر رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں “کیا کہہ رہے ہو ۔ اس نے تمہارے باپ کو قتل کیا ہے ؟”
    عمر رضی اللہ عنہ اس شخص سے مخاطب ہو کر پوچھتے ہیں ” کیا تو نے ان کے باپ کو قتل کیا ہے ؟”
    وہ شخص کہتا ہے “ہاں امیر المؤمنین ۔ مجھ سے قتل ہو گیا ہے انکا باپ”
    عمر رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں ” کس طرح قتل ہوا ہے ؟”
    وہ شخص کہتا ہے “یا عمر ۔ انکا باپ اپنے اُونٹ سمیت میرے کھیت میں داخل ہو گیا تھا ۔ میں نے منع کیا ۔ باز نہیں آیا تو میں نے ایک پتھر دے مارا۔ جو سیدھا اس کے سر میں لگا اور وہ موقع پر مر گیا ”
    عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ” پھر تو قصاص دینا پڑے گا ۔ موت ہے اسکی سزا ”
    نہ فیصلہ لکھنے کی ضرورت اور فیصلہ بھی ایسا اٹل کہ جس پر کسی بحث و مباحثے کی بھی گنجائش نہیں ۔ نہ ہی اس شخص سے اسکے کنبے کے بارے میں کوئی سوال کیا گیا ہے، نہ ہی یہ پوچھا گیا ہے کہ تعلق کس قدر شریف خاندان سے ہے، نہ ہی یہ پوچھنے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے کہ تعلق کسی معزز قبیلے سے تو نہیں، معاشرے میں کیا رتبہ یا مقام ہے ؟ ان سب باتوں سے بھلا عمر رضی اللہ عنہ کو مطلب ہی کیا ۔ کیونکہ معاملہ اللہ کے دین کا ہو تو عمر رضی اللہ عنہ پر کوئی اثر انداز نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمر رضی اللہ عنہ کو روک سکتا ہے۔ حتٰی کہ سامنے عمر کا اپنا بیٹا ہی کیوں نہ قاتل کی حیثیت سے آ کھڑا ہو ۔ قصاص تو اس سے بھی لیا جائے گا۔
    وہ شخص کہتا ہے ”ا ے امیر المؤمنین ۔ اُس کے نام پر جس کے حُکم سے یہ زمین و آسمان قائم کھڑے ہیں مجھے صحرا میں واپس اپنی بیوی بچوں کے پاس جانے دیجئے تاکہ میں ان کو بتا آؤں کہ میں قتل کر دیا جاؤں گا۔ ان کا اللہ اور میرے سوا کوئی آسرا نہیں ہے ۔ میں اسکے بعد واپس آ جاؤں گا”
    عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ”کون تیری ضمانت دے گا کہ تو صحرا میں جا کر واپس بھی آ جائے گا؟”
    مجمع پر ایک خاموشی چھا جاتی ہے۔ کوئی بھی تو ایسا نہیں ہے جو اسکا نام تک بھی جانتا ہو۔ اسکے قبیلے ۔ خیمے یا گھر وغیرہ کے بارے میں جاننے کا معاملہ تو بعد کی بات ہے ۔ کون ضمانت دے اسکی ؟ کیا یہ دس درہم کے ادھار یا زمین کے ٹکڑے یا کسی اونٹ کے سودے کی ضمانت کا معاملہ ہے ؟ ادھر تو ایک گردن کی ضمانت دینے کی بات ہے جسے تلوار سے اڑا دیا جانا ہے۔ اور کوئی بھی تو ایسا نہیں ہے جو اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمر رضی اللہ عنہ سے اعتراض کرے یا پھر اس شخص کی سفارش کیلئے ہی کھڑا ہو جائے اور کوئی ہو بھی نہیں سکتا جو سفارشی بننے کی سوچ سکے۔
    محفل میں موجود صحابہ پر ایک خاموشی سی چھا گئی ہے۔ اس صورتحال سے خود عمر رضی اللہ عنہ بھی متأثر ہیں۔ کیونکہ اس شخص کی حالت نے سب کو ہی حیرت میں ڈال کر رکھ دیا ہے۔ کیا اس شخص کو واقعی قصاص کے طور پر قتل کر دیا جائے اور اس کے بچے بھوکوں مرنے کیلئے چھوڑ دیئے جائیں ؟ یا پھر اسکو بغیر ضمانتی کے واپس جانے دیا جائے؟ واپس نہ آیا تو مقتول کا خون رائیگاں جائے گا،
    خود عمر رضی اللہ عنہ بھی سر جھکائے افسردہ بیٹھے ہیں اس صورتحال پر، سر اُٹھا کر التجا بھری نظروں سے نوجوانوں کی طرف دیکھتے ہیں ”معاف کر دو اس شخص کو ”
    نوجوان اپنا آخری فیصلہ بغیر کسی جھجھک کے سنا دیتے ہیں ”نہیں امیر المؤمنین ۔ جو ہمارے باپ کو قتل کرے اسکو چھوڑ دیں ۔ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا ”
    عمر رضی اللہ عنہ ایک بار پھر مجمع کی طرف دیکھ کر بلند آواز سے پوچھتے ہیں ”اے لوگو ۔ ہے کوئی تم میں سے جو اس کی ضمانت دے؟”
    ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ اپنے زہد و صدق سے بھر پور بڑھاپے کے ساتھ کھڑے ہو کر کہتے ہیں ”میں ضمانت دیتا ہوں اس شخص کی”
    عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں “ابوذر ۔ اس نے قتل کیا ہے”
    ابوذر رضی اللہ عنہ اپنا اٹل فیصلہ سناتے ہیں “چاہے قتل ہی کیوں نہ کیا ہو”
    عمر رضی اللہ عنہ “جانتے ہو اسے ؟”
    ابوذر رضی اللہ عنہ ” نہیں جانتا ”
    عمر رضی اللہ عنہ ” تو پھر کس طرح ضمانت دے رہے ہو ؟”
    ابوذر رضی اللہ عنہ ”میں نے اس کے چہرے پر مومنوں کی صفات دیکھی ہیں اور مجھے ایسا لگتا ہے یہ جھوٹ نہیں بول رہا ۔ انشاء اللہ یہ لوٹ کر واپس آ جائے گا ”
    عمر رضی اللہ عنہ ”ابوذر دیکھ لو اگر یہ تین دن میں لوٹ کر نہ آیا تو مجھے تیری جدائی کا صدمہ دیکھنا پڑے گا ”
    ابوذر رضی اللہ عنہ اپنے فیصلے پر ڈٹے ہوئے جواب دیتے ہیں ” امیر المؤمنین ۔ پھر اللہ مالک ہے”
    عمر رضی اللہ عنہ سے تین دن کی مہلت پا کر وہ شخص رخصت ہو جاتا ہے ۔ کچھ ضروری تیاریوں کیلئے ۔ بیوی بچوں کو الوداع کہنے ۔ اپنے بعد اُن کے لئے کوئی راہ دیکھنے اور پھر اس کے بعد قصاص کی ادائیگی کیلئے قتل کئے جانے کی غرض سے لوٹ کر واپس آنے کیلئے۔
    اور پھر تین راتوں کے بعد عمر رضی اللہ عنہ بھلا کیسے اس امر کو بھلا پاتے ۔ انہوں نے تو ایک ایک لمحہ گن کر کاٹا تھا۔ عصر کے وقت شہر میں (الصلاۃ جامعہ) کی منادی پھر جاتی ہے ۔ نوجوان اپنے باپ کا قصاص لینے کیلئے بے چین اور لوگوں کا مجمع اللہ کی شریعت کی تنفیذ دیکھنے کے لئے جمع ہو چکا ہے ۔ ابو ذر رضی اللہ عنہ بھی تشریف لاتے ہیں اور آ کر عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔
    عمر رضی اللہ عنہ سوال کرتے ہیں ” کدھر ہے وہ آدمی ؟”
    ابوذر رضی اللہ عنہ مختصر جواب دیتے ہیں “مجھے کوئی پتہ نہیں ہے یا امیر المؤمنین”
    ابوذر رضی اللہ عنہ آسمان کی طرف دیکھتے ہیں جدھر سورج ڈوبنے کی جلدی میں معمول سے زیادہ تیزی کے ساتھ جاتا دکھائی دے رہا ہے۔ محفل میں ہُو کا عالم ہے ۔ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ آج کیا ہونے جا رہا ہے ؟
    یہ سچ ہے کہ ابوذر رضی اللہ عنہ عمر رضی اللہ عنہ کے دل میں بستے ہیں، عمرؓ رضی اللہ عنہ سے ان کے جسم کا ٹکڑا مانگیں تو عمر رضی اللہ عنہ دیر نہ کریں کاٹ کر ابوذر رضی اللہ عنہ کے حوالے کر دیں ۔ لیکن ادھر معاملہ شریعت کا ہے ۔ اللہ کے احکامات کی بجا آوری کا ہے ۔ کوئی کھیل تماشہ نہیں ہونے جا رہا ۔ نہ ہی کسی کی حیثیت یا صلاحیت کی پیمائش ہو رہی ہے ۔ حالات و واقعات کے مطابق نہیں اور نہ ہی زمان و مکان کو بیچ میں لایا جانا ہے۔ قاتل نہیں آتا تو ضامن کی گردن جاتی نظر آ رہی ہے۔
    مغرب سے چند لحظات پہلے وہ شخص آ جاتا ہے ۔ بے ساختہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے منہ سے اللہ اکبر کی صدا نکلتی ہے۔ ساتھ ہی مجمع بھی اللہ اکبر کا ایک بھرپور نعرہ لگاتا ہے
    عمر رضی اللہ عنہ اس شخص سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں ” اے شخص ۔ اگر تو لوٹ کر نہ بھی آتا تو ہم نے تیرا کیا کر لینا تھا۔ نہ ہی تو کوئی تیرا گھر جانتا تھا اور نہ ہی کوئی تیرا پتہ جانتا تھا ”
    وہ بولا ” امیر المؤمنین ۔ اللہ کی قسم ۔ بات آپکی نہیں ہے بات اس ذات کی ہے جو سب ظاہر و پوشیدہ کے بارے میں جانتا ہے ۔ دیکھ لیجئے میں آ گیا ہوں ۔ اپنے بچوں کو پرندوں کے چوزوں کی طرح صحرا میں تنہا چھوڑ کر ۔ جدھر نہ درخت کا سایہ ہے اور نہ ہی پانی کا نام و نشان ۔ میں قتل کر دیئے جانے کیلئے حاضر ہوں ۔ مجھے بس یہ ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے وعدوں کا ایفاء ہی اُٹھ گیا ہے”
    عمر رضی اللہ عنہ نے ابوذر رضی اللہ عنہ کی طرف رخ کر کے پوچھا ” ابوذر ۔ تو نے کس بنا پر اسکی ضمانت دے دی تھی ؟”
    ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا ” اے عمر ۔ مجھے اس بات کا ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں سے خیر ہی اٹھا لی گئی ہے”
    سید عمرؓ نے ایک لمحے کیلئے توقف کیا اور پھر ان دو نوجوانوں سے پوچھا کہ کیا کہتے ہو اب؟
    نوجوانوں نے جن کا باپ مرا تھا روتے ہوئے کہا ” اے امیر المؤمنین ۔ ہم اس کی صداقت کی وجہ سے اسے معاف کرتے ہیں ۔ ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے عفو اور درگزر ہی اُٹھا لیا گیا ہے”
    عمر رضی اللہ عنہ اللہ اکبر پکار اُٹھے اور آنسو ان کی ڈاڑھی کو تر کرتے نیچے گر نے لگے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرمایا ۔۔۔
    ” اے نوجوانو ۔ تمہاری عفو و درگزر پر اللہ تمہیں جزائے خیر دے”
    ” اے ابو ذر ۔ اللہ تجھے اس شخص کی مصیبت میں مدد پر جزائے خیر دے”
    ” اور اے شخص ۔ اللہ تجھے اس وفائے عہد و صداقت پر جزائے خیر دے”
    ” اور اے امیر المؤمنین ۔ اللہ تجھے تیرے عدل و رحمدلی پر جزائے خیر دے”
     
  13. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کچھ حکایتیں

    شاہ فیصل کی دو رکعتیں

    عربوں کی اسرائیل کے ساتھ 1973 میں لڑی گئی مشہورِ زمانہ جنگ یوم کپور یا جنگِ اکتوبر میں امریکہ اگر پسِ پردہ اسرئیل کی امداد نہ کرتا تو مؤرخین لکھتے ہیں کہ فلسطین کا مسئلہ حل ہو چکا ہوتا۔ فخر کی بات یہ ہے کہ اس جنگ میں پاکستان نے بھی مقدور بھر حصہ لے کر تاریخ میں پنا نام امر کیا۔ اس جنگ کا مختصر احوال ویکیپیڈیا پر موجود ہے۔
    اس جنگ کے دوران شاہ فیصل مرحوم نے ایک دلیرانہ فیصلہ کرتے ہوئے تیل کی پیداوار کو بند کردیا تھا، ان کا یہ مشہور قول (ہمارے آباء و اجداد نے اپنی زندگیاں دودھ اور کھجور کھا کر گزار ی تھیں، آج اگر ہمیں بھی ایسا کرنا پڑ جاتا ہے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا) اپنی ایک علیٰحدہ ہی تاریخ رکھتا ہے۔
    شاہ فیصل مرحوم کا یہ فیصلہ امریکہ کیلئے ایک کاری ضرب کی حیثیت رکھتا تھا جس کو تبدیل کرنے کی ہر امریکی تدبیر ناکام ہو رہی تھی۔
    امریکی وزیرِ خارجہ کسنجر نے شاہ فیصل مرحوم سے 1973 میں اسی سلسے میں جدہ میں ایک ملاقات کی۔ تیل کی پیداوار کو دوبارہ شروع کرنے میں قائل کرنے کی ناکامی کے بعد کسنجر نے گفتگو کو ایک جذباتی موڑ دینے کی کوشش کرتے ہوئے شاہ فیصل مرحوم سے کہا کہ اے معزز بادشاہ، میرا جہاز ایندھن نہ ہونے کے سبب آپ کے ہوائی اڈے پر ناکارہ کھڑا ہے، کیا آپ اس میں تیل بھرنے کاحکم نہیں دیں گے ؟ دیکھ لیجئےکہ میں آپ کو اسکی ہر قسم کی قیمت ادا کرنے کیلئے تیار بیٹھا ہوں۔
    کسنجر خود لکھتا ہے کہ میری اس بات سے شاہ فیصل مرحوم کے چہرے پر کسی قسم کی کوئی مسکراہٹ تک نہ آئی، سوائے اس کے کہ انہوں نے اپنا جذبات سے عاری چہرہ اٹھا کر میری طرف دیکھا اور کہا، میں ایک عمر رسیدہ اور ضعیف آدمی ہوں، میری ایک ہی خواہش ہے کہ مرنے سے پہلے مسجد اقصی میں نماز کی دو رکعتیں پڑھ لوں، میری اس خواہش کو پورا کرنے میں تم میری کوئی مدد کر سکتے ہو؟
     
  14. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کچھ حکایتیں

    عادل عدالت کا عادل فیصلہ

    عرب سالار قتیبۃ بن مسلم نے اسلامی لشکر کشی کے اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے سمرقند کو فتح کر لیا تھا، اصول یہ تھا کہ حملہ کرنے سے پہلے تین دن کی مہلت دی جائے۔ اور یہ بے اصولی ہوئی بھی تو ایسے دور میں جب زمانہ بھی عمر بن عبدالعزیز کا چل رہا تھا۔
    سمرقند کے پادری نے مسلمانوں کی اس غاصبانہ فتح پر قتیبۃ کے خلاف شکایت دمشق میں بیٹھے مسلمانوں کے حاکم کو ایک پیغامبر کے ذریعہ خط لکھ کر بھجوائی۔
    پیغامبر نے دمشق پہنچ کر ایک عالیشان عمارت دیکھی جس میں لوگ رکوع و سجود کر رہے تھے۔ اُس نے لوگوں سے پوچھا: کیا یہ حاکمِ شہر کی رہائش ہے؟ لوگوں نے کہا یہ تو مسجد ہے، تو نماز نہیں پڑھتا کیا؟ پیغامبر نے کہا نہیں، میں اھلِ سمرقند کے دین کا پیروکارہوں۔ لوگوں نے اُسے حاکم کے گھر کا راستہ دکھا دیا۔
    پیغامبر لوگوں کے بتائے ہوئے راستہ پر چلتے حاکم کے گھر جا پہنچا، کیا دیکھتا ہے کہ ایک شخص دیوار سے لگی سیڑھی پر چڑھ کر چھت کی لپائی کر رہا ہے اور نیچے کھڑی ایک عورت گارا اُٹھا کر اُسے دے رہی ہے۔ پیغامبر جس راستے سے آیا تھا واپس اُسی راستے سے اُن لوگوں کے پاس جا پہنچا جنہوں نے اُسے راستہ بتایا تھا۔ اُس نے لوگوں سے کہا میں نے تم سے حاکم کے گھر کا پتہ پوچھا تھا نہ کہ اِس مفلوک الحال شخص کا جس کے گھر کی چھت بھی ٹوٹی ہوئی ہے۔ لوگوں نے کہا، ہم نے تجھے پتہ ٹھیک ہی بتایا تھا، وہی حاکم کا گھر ہے۔ پیغامبر نے بے دلی سے دوبارہ اُسی گھرپر جا کر دستک دی،
    جو شخص کچھ دیر پہلے تک لپائی کر رہا تھا وہی اند ر سے نمودار ہوا۔ میں سمرقند کے پادری کی طرف سے بھیجا گیا پیغامبر ہوں کہہ کر اُس نے اپنا تعارف کرایا اور خط حاکم کو دیدیا۔ اُس شخص نے خط پڑھ کر اُسی خط کی پشت پر ہی لکھا: عمر بن عبدالعزیز کی طرف سے سمرقند میں تعینات اپنے عامل کے نام؛ ایک قاضی کا تقرر کرو جو پادری کی شکایت سنے۔ مہر لگا کر خط واپس پیغامبر کو دیدیا۔
    پیغامبر وہاں سے چل تو دیا مگر اپنے آپ سے باتیں کرتے ہوئے، کیا یہ وہ خط ہے جو مسلمانوں کے اُس عظیم لشکر کو ہمارے شہر سے نکالے گا؟ سمرقند لوٹ کر پیغامبر نے خط پادری کو تھمایا، جسے پڑھ کر پادری کو بھی اپنی دنیا اندھیر ہوتی دکھائی دی، خط تو اُسی کے نام لکھا ہوا تھا جس سے اُنہیں شکایت تھی، اُنہیں یقین تھا کاغذ کا یہ ٹکڑا اُنہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکے گا۔ مگر پھر بھی خط لیکر مجبورا اُس حاکمِ سمرقند کے پاس پہنچے جس کے فریب کا وہ پہلے ہی شکار ہو چکے تھے۔ حاکم نے خط پڑھتے ہی فورا ایک قاضی (جمیع نام کا ایک شخص) کا تعین کردیا جو سمرقندیوں کی شکایت سن سکے۔
    موقع پر ہی عدالت لگ گئی، ایک چوبدار نے قتیبہ کا نام بغیر کسی لقب و منصب کے پکارا، قتیبہ اپنی جگہ سے اُٹھ کر قاضی کے رو برو اور پادری کے ساتھ ہو کر بیٹھ گیا۔
    قاضی نے سمرقندی سے پوچھا، کیا دعویٰ ہے تمہارا؟
    پادری نے کہا: قتیبہ نے بغیر کسی پیشگی اطلاع کے ہم پر حملہ کیا، نہ تو اِس نے ہمیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تھی اور نہ ہی ہمیں کسی سوچ و بچار کا موقع دیا تھا۔
    (ایک تاریخی نکتہ ملحوظہ فرما لیجیئے کہ قتیبہ بن مسلم رحمۃ اللہ علیہ کا اُس وقت تک انتقال ہو چکا تھا، یہاں پر قتیبہ سے مراد اُنکا نائب ہے)
    قاضی نے قتیبہ (کے نائب) کو دیکھ کر پوچھا، کیا کہتے ہو تم اس دعویٰ کے جواب میں؟
    قتیبہ (کے نائب)نے کہا: قاضی صاحب، جنگ تو ہوتی ہی فریب اور دھوکہ ہے، سمرقند ایک عظیم ملک تھا، اس کے قرب و جوار کے کمتر ملکوں نے نہ تو ہماری کسی دعوت کو مان کر اسلام قبول کیا تھا اور نہ ہی جزیہ دینے پر تیار ہوئے تھے، بلکہ ہمارے مقابلے میں جنگ کو ترجیح دی تھی۔ سمرقند کی زمینیں تو اور بھی سر سبز و شاداب اور زور آور تھیں، ہمیں پورا یقین تھا کہ یہ لوگ بھی لڑنے کو ہی ترجیح دیں گے، ہم نے موقع سے فائدہ اُٹھایا اور سمرقند پر قبضہ کر لیا۔
    قاضی نے قتیبہ (کے نائب) کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے دوبارہ پوچھا: قتیبہ میری بات کا جواب دو، تم نے ان لوگوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت، جزیہ یا پھر جنگ کی خبر دی تھی؟
    قتیبہ (کے نائب) نے کہا: نہیں قاضی صاحب، میں نے جس طرح پہلے ہی عرض کر دیا ہے کہ ہم نے موقع سے فائدہ اُٹھایا تھا۔
    قاضی نے کہا: میں دیکھ رہا ہوں کہ تم اپنی غلطی کا اقرار کر رہے ہو، اس کے بعد تو عدالت کا کوئی اور کام رہ ہی نہیں جاتا۔
    قتیبہ: اللہ نے اس دین کو فتح اور عظمت تو دی ہی عدل و انصاف کی وجہ سے ہے نہ کہ دھوکہ دہی اور موقع پرستی سے۔
    میری عدالت یہ فیصلہ سناتی ہے کہ تمام مسلمان فوجی اور انکے عہدہ داران بمع اپنے بیوی بچوں کے، اپنی ہر قسم کی املاک، گھر اور دکانیں چھوڑ کر سمرقند کی حدوں سے باہر نکل جائیں اور سمر قند میں کوئی مسلمان باقی نہ رہنے پائے۔ اگر ادھر دوبارہ آنا بھی ہو تو بغیر کسی پیشگی اطلاع و دعوت کے اور تین دن کی سوچ و بچار کی مہلت دیئے بغیر نہ آیا جائے۔
    پادری جو کچھ دیکھ اور سن رہا تھا وہ ناقابل یقین بلکہ ایک مذاق اور تمثیل نظر آ رہا تھا۔ چند لمحوں کی یہ عدالت، نہ کوئی گواہ اور نہ ہی دلیلوں کی ضرورت۔ اور تو اور قاضی بھی اپنی عدالت کو برخاست کرکے قتیبہ کے ساتھ ہی اُٹھ کر جا رہا تھا۔
    اور چند گھنٹوں کے بعد ہی سمرقندیوں نے اپنے پیچھے گرد و غبار کے بادل چھوڑتے لوگوں کے قافلے دیکھے جو شہر کو ویران کر کے جا رہے تھے۔ لوگ حیرت سے ایک دوسرے سے سبب پوچھ رہے تھے اور جاننے والے بتا رہے تھے کہ عدالت کے فیصلے کی تعمیل ہو رہی تھی۔
    اور اُس دن جب سورج ڈوبا تو سمرقند کی ویران اور خالی گلیوں میں صرف آوارہ کتے گھوم رہے تھے اور سمرقندیوں کے گھروں سے آہ و پکار اور رونے دھونے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں، اُن کو ایسے لوگ چھوڑ کر جا رہے تھے جن کے اخلاق ، معاشرت، برتاؤ، معاملات اور پیار و محبت نے اُن کو اور اُن کے رہن سہن کو مہذب بنا دیا تھا۔
    تاریخ گواہ ہے کہ سمرقندی یہ فراق چند گھنٹے بھی برداشت نہ کر پائے، اپنے پادری کی قیادت میں لا الٰہ الاّ اللہ محمّد الرّسول اللہ کا اقرار کرتے مسلمانوں کے لشکر کے پیچھے روانہ ہوگئے اور اُن کو واپس لے آئے۔
    اور یہ سب کیوں نہ ہوتا، کہیں بھی تو ایسا نہیں ہوا تھا کہ فاتح لشکر اپنے ہی قاضی کی کہی دو باتوں پر عمل کرے اور شہر کو خالی کردے۔ دینِ رحمت نے وہاں ایسے نقوش چھوڑے کہ سمرقند ایک عرصہ تک مسلمانوں کا دارالخلافہ بنا رہا۔

    «جی ہاں، ایسے ہوا کرتے تھے مسلمان حکمران، اور ایسا ہوا کرتا تھا سیدنا عمر فاروق بن خطاب کے نواسوں میں سے ایک نواسہ یعنی عمر بن عبدالعزیز بن مروان بن الحكم بن أبی العاص بن أمیۃ رضی اللہ عنہ و ارضاہ ، اُموی دور کا آٹھواں اور خلفائے راشدین کے سلسلہ کا پانچویں خلیفہ ، جس کے عدل و انصاف سے مشرق و مغرب کے ممالک دینِ اسلام سے بہرہ ور ہو کر دائرہ اسلام میں شامل ہوئے».
    مندرجہ بالا واقعہ شیخ علی طنطاوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب (قصص من التاریخ) کے صفحہ نمبر 411 (مصر میں 1932 میں چھپی ہوئی) سے لے کر اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے۔
     
  15. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کچھ حکایتیں

    موسیقی سے لطف اندوز ہونے کے مناسب ترین اوقات
    موسیقی اور گانوں سے لطف اندوز ہونے کے مناسب ترین اوقات۔
    اور ہر ایک وقت کیلئے مخصوص موسیقی یا گانوں کا انتخاب اور اسکی خصوصیات۔
    • کچھ لوگ جب کھانا تناول فرما رہے ہوں تو اس وقت میوزک سے لطف اندوز ہونا پسند کرتے ہیں، ناصرف یہی بلکہ ماحول اور موقع کی مناسبت سے راحت و سکون سے بھر پور موسیقی کے انتخاب میں بھی انکا ذوق قابل ستائش ہوتا ہے۔
    • کچھ لوگ پر ہیجان اور اونچی آواز والی موسیقی پر فریفتہ ہوتے ہیں، انکا ذوق اور بھی قابل دیدنی ہوتا ہے۔ رات کے پچھلے پہر، دوستوں کے ساتھ کار پر سوار، سنسان سڑک پر فراٹے بھرتے ہوئے، کار کی کھڑکیاں کھلی ہوئی ہوں، اس وقت اونچی آواز میں میوزک سننے کا جو لطف آتا ہے اسکا بیان الفاظ میں بیان کرنا بھی مشکل کام ہے۔
    • کچھ لوگ صرف سفر کے دوران ہی میوزک کا سہارا لیتے ہیں۔ سفر لمبا ہو تو پھر ایک کیسٹ سے تو کام نہیں چلتا، احتیاطا ً دو یا تین زاد سفر کے طور پر ساتھ بھی لینا پڑتی ہیں۔ سفر نہایت لطف سے کٹتا ہے۔ جب سے مڈ وے شاپس کی سہولت آئی ہے تو یہ کام اور بھی آسان ہو گیا ہے، کیسٹ پسند نہ آ رہی ہو تو راستے میں اور بھی خریدی جا سکتی ہیں۔
    • اور شادی کی محافل، موسیقی کے بغیر ان تقاریب کا تو تصور ہی پھیکا پھیکا سا ہے۔ محبت بھرے گانے چل رہے ہوں تو اس لمحے دلہا اور دلہن کو دیکھنے سے اور بھی پیار آتا ہے۔ آدمی ماحول کے رنگ میں رنگا ہوا لگتا ہے۔ اور وہاں میوزک اتنا اونچا تو ضرور ہونا چاہیئے کہ میرج ھال کے در و دیوار کم از کم تھرکتے سے تو ضرورنظر آئیں۔
    • کچھ موسیقی کے لذت آشنا موسیقی کے بارے میں نہایت ہی لطیف احساس رکھتے ہیں۔ بستر میں سونے سے پہلے ہلکی سی آواز میں مدھر سروں والی موسیقی چلاتے ہیں اور کچھ لمحے اس کے جادو میں کھو کر آہستہ آہستہ نیند کی وادیوں میں اتر جاتے ہیں اور موسیقی بجتی رہتی ہے۔
    اب ذرا ٹھہریئے ! گانوں اور موسیقی کو موقع و مناسبت کے مطابق بجائے جانے پر ایک نظر ڈالتے ہیں!
    وہ حضرات جو کہ موسیقی کے اس وقت میں دلداہ ہیں جب کہ وہ طعام تناول فرما رہے ہوں اور ان کے سامنے اللہ کی نعمتیں دسترخوان پر چنی ہوئی ہوں، کیا وہ یہ نہیں جان سکتے کہ وہ اللہ کی نعمتوں کا کفر کر رہے ہیں، اسی دنیا میں لاکھوں ایسے لوگ بھی ہیں جنہیں اس سے ایک چوتھائی کھانا پینا بھی میسر نہیں ہے جو ان کو اس وقت حاصل ہے۔ کیا وہ یہ نہیں جانتے کہ اللہ کی نعمتوں کا ہر لمحہ شکر ادا کرنا کس قدر ضروری ہے ورنہ دیر بھی نہ لگے اور ان سے یہ سب کچھ چھین لیا جائے۔ ذرا اللہ تبارک و تعالیٰ کے اس قول مبارک پر توجہ کیجیئے:
    وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلاً قَرْيَةً كَانَتْ آَمِنَةً مُطْمَئِنَّةً يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَداً مِنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللَّهِ فَأَذَاقَهَا اللَّهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ (النحل 112) اور اللہ نے ایک ایسی بستی کی مثال بیان فرمائی ہے جو (بڑے) امن اور اطمینان سے (آباد) تھی اس کا رزق اس کے (مکینوں کے) پاس ہر طرف سے بڑی وسعت و فراغت کے ساتھ آتا تھا پھر اس بستی (والوں) نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ نے اسے بھوک اور خوف کے عذاب کا لباس پہنا دیا ان اعمال کے سبب سے جو وہ کرتے تھے (سورۃ النحل – آیت 112)
    اور وہ جو رات کے آخری پہر میں موسیقی سننے کو پسند کرتے ہیں، ان کو جان لینا چاہیئے کہ اس وقت تو اللہ رب العزت دنیا کے آسمانوں پر اتر آتے ہیں، اور سحر کا یہ وقت تو استغفار کرنے کا اور بارگاہ الٰہی میں قبولیت کا سب سے افضل وقت ہے۔ وَبِالْأَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ(الذريات:18) اور رات کے پچھلے پہروں میں (اٹھ اٹھ کر) مغفرت طلب کرتے تھے(سورۃ الذريات آیت 18) تو پھر کیوں کمتر چیزوں کو بہتر سے تبدیل کرنے پر آمادہ ہیں یہ لوگ؟
    اور وہ حضرات جو سفر میں میوزک کے دلدادہ ہیں، کس قدر وقت کا ضیاع کر رہے ہیں یہ لوگ؟ اس وقت سے کوئی مفید کیسٹ سن کر بھی استفادہ لیا جا سکتا تھا، یا پھر اللہ کیلیئے اخلاص کے ساتھ اس وقت کو گزار کر دنیا میں فائدہ اور آخرت میں اجر و ثواب کا حقدار بھی بنا جا سکتا تھا! جان لیجیئے کہ قیامت کے دن وقت اور مال کے بارے میں سوال کیا جائے گا کہ کس طرح صرف کیا تھا۔
    اور جو شادی بیاہ پر میوزک اور گانوں کے بغیراس محفل کو ادھورا جانتے ہیں، میں اسے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہو سکتا ہے یہ اس کی زندگی کی ایسی رات ہو جس میں اسکی پر مسرت ازدواجی زندگی اور نیک آل و اولاد لکھی جانی ہو، کیا تجھے ڈر نہیں لگتا کہ گانے بجانے کی نحوست اس کو ناکامیوں اور نا مرادیوں میں بدل کر رکھ دے۔ اور کیا تو نہیں جانتا کہ اس رات تیری وجہ سے جس نے بھی گانے سنے اسکا گناہ بھی تیرے حساب میں لکھا گیا ہے؟
    اور آخر میں اسکا تذکرہ جو سوتے وقت گانے سننا پسند کرتے ہیں: یاد رکھیئے کہ نیند کو چھوٹی موت بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ نیند کے وقت بھی اللہ سبحانہ و تعالٰی تیری روح کو قبض فرما لیتے ہیں، پس بہتر ہے کہ تیری آخری بات اللہ کا ذکر ہو اور آخری چیز جو تیرے کانوں میں اتری ہو وہ قرآن مجید ہو، ہو سکتا ہے کہ جس بستر پر گانے سن کر سونے جا رہا ہے وہ تیری موت کا بستر ثابت ہونے والا ہو۔ پس بہتر تو یہ ہے کہ سونے سے قبل توبہ و استغفار اور سوتے وقت کے اذکار کیئے جائیں۔

    ** اور اب آخر میں: اپنے اوقات کو اللہ کے ذکر میں گزارنے کی عادت ڈالیئے، گانے بجانے کی عادت سے اجتناب کیجیئے، تلاوۃ قرآن اور ذکر اللہ اپنا شعار بنایئے؟
     
  16. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کچھ حکایتیں

    مثبت کام کی بُنیاد تو ڈال دو

    ۱۹۳۰ کے عشرے میں (یہ کمیونزم کے زمانے کا ذکر ہے) ایک طالبعلم نے جب مصر کی ایگریکلچر یونیورسٹی میں داخلہ لیا، وقت ہونے پر اُس نے نماز پڑھنے کی جگہ تلاش کرنا چاہی تو اُسے بتایا گیا کہ یونیورسٹی میں نماز پڑھنے کی جگہ تو نہیں ہے۔ ہاں مگر تہہ خانے میں بنے ہوئے ایک کمرے میں اگر کوئی چاہے تو وہاں جا کر نماز پڑھ سکتا ہے۔
    طالبعلم یہ بات سوچتے ہوئے کہ دوسرے طالبعلم اور اساتذہ نماز پڑھتے بھی ہیں یا نہیں، تہہ خانے کی طرف اُس کمرے کی تلاش میں چل پڑا۔
    وہاں پہنچ کر اُس نے دیکھا کہ نماز کیلئے کمرے کے وسط میں ایک پھٹی پرانی چٹائی تو بچھی ہوئی ہے مگر کمرہ صفائی سے محروم اور کاٹھ کباڑ اور گرد و غبار سے اٹا ہوا ہے۔ جبکہ یونیورسٹی کا ایک ادنیٰ ملازم وہاں پہلے سے نماز پڑھنے کیلئے موجود ہے۔ طالبعلم نے اُس ملازم سے پوچھا کیا تم یہاں نماز پڑھو گے؟
    ملازم نے جواب دیا، ہاں، اوپر موجود لوگوں میں سے کوئی بھی ادھر نماز پڑھنے کیلئے نہیں آتا اور نماز کیلئے اس کے علاوہ کوئی جگہ بھی نہیں ہے۔
    طالبعلم نے ملازم کی بات پر اعتراض کرتے ہوئے کہا؛ مگر میں یہاں ہرگز نماز نہیں پڑھوں گا اور اوپر کی طرف سب لوگوں کو واضح دکھائی دینے والی مناسب سی جگہ کی تلاش میں چل پڑا۔ اور پھر اُس نے ایک جگہ کا انتخاب کر کے نہایت ہی عجیب حرکت کر ڈالی۔
    اُس نے بلند آواز سے اذان کہی! پہلے تو سب لوگ اس عجیب حرکت پر حیرت زدہ ہوئے پھر انہوں نے ہنسنا اور قہقہے لگانا شروع کر دیئے۔ اُنگلیاں اُٹھا کر اس طالبعلم کو پاگل اور اُجڈ شمار کرنے لگے۔ مگر یہ طالبعلم تھا کہ کسی چیز کی پرواہ کیئے بغیر اذان پوری کہہ کر تھوڑی دیر کیلئے اُدھر ہی بیٹھ گیا۔ اُس کے بعد دوبارہ اُٹھ کر اقامت کہی اور اکیلے ہی نماز پڑھنا شروع کردی۔ اُسکی نماز میں محویت سے تو ایسا دکھائی تھا کہ گویا وہ اس دنیا میں تنہا ہی ہے اور اُسکے آس پاس کوئی بھی موجود نہیں۔
    دوسرے دن پھر اُسی وقت پر آ کر اُس نے وہاں پھر بلند آواز سے اذان دی، خود ہی اقامت کہی اور خود ہی نماز پڑھ کر اپنی راہ لی۔ اور اس کے بعد تو یہ معمول ہی چل نکلا۔ ایک دن، دو دن، تین دن۔۔۔وہی صورتحال۔۔۔ پھر قہقہے لگانے والے لوگوں کیلئے اُس طالبعلم کا یہ دیوانہ پن کوئی نئی چیز نہ رہی اور آہستہ آہستہ قہقہوں کی آواز بھی کم سے کم ہوتی گئی۔ اسکے بعد پہلی تبدیلی کی ابتداء ہوئی۔ نیچے تہہ خانے میں نماز پڑھنے والے ملازم نے ہمت کر کے باہر اس جگہ پر اس طالبعلم کی اقتداء میں نماز پڑھ ڈالی۔ ایک ہفتے کے بعد یہاں نماز پڑھنے والے چار لوگ ہو چکے تھے۔ اگلے ہفتے ایک اُستاذ بھی آ کر اِن لوگوں میں شامل ہوگیا۔
    یہ بات پھیلتے پھیلتے یونیورسٹی کے چاروں کونوں میں پہنچ گئی۔ پھر ایک دن چانسلر نے اس طالبعلم کو اپنے دفتر میں بلا لیا اور کہا: تمہاری یہ حرکت یونیورسٹی کے معیار سے میل نہیں کھاتی اور نہ ہی یہ کوئی مہذب منظر دکھائی دیتا ہے کہ تم یونیورسٹی ہال کے بیچوں بیچ کھڑے ہو کر اذانیں دو یا جماعت کراؤ۔ ہاں میں یہ کر سکتا ہوں کہ یہاں اس یونیورسٹی میں ایک کمرے کی چھوٹی سی صاف سُتھری مسجد بنوا دیتا ہوں، جس کا دل چاہے نماز کے وقت وہاں جا کر نماز پڑھ لیا کرے۔
    اور اس طرح مصر کی ایگریکلچر یونیورسٹی میں پہلی مسجد کی بنیاد پڑی۔ اور یہ سلسلہ یہاں پر رُکا نہیں، باقی کی یونیورسٹیوں کے طلباء کی بھی غیرت ایمانی جاگ اُٹھی اور ایگریکلچر یونیورسٹی کی مسجد کو بُنیاد بنا کر سب نے اپنے اپنے ہاں مسجدوں کی تعمیر کا مطالبہ کر ڈالا اور پھر ہر یونیورسٹی میں ایک مسجد بن گئی۔
    اِس طالبعلم نے ایک مثبت مقصد کے حصول کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا اور پھر اِس مثبت مقصد کے نتائج بھی بہت عظیم الشان نکلے۔ اور آج دن تک، خواہ یہ طالبعلم زندہ ہے یا فوت ہو چکا ہے، مصر کی یونیورسٹیوں میں بنی ہوئی سب مسجدوں میں اللہ کی بندگی ادا کیئے جانے کے عوض اجر و ثواب پا رہا ہےاور رہتی دُنیا تک اسی طرح اجر پاتا رہے گا۔ اس طالب علم نے اپنی زندگی میں کار خیر کر کے نیک اعمالوں میں اضافہ کیا۔
    میرا آپ سے یہ سوال ہے کہ
    ہم نے اپنی زندگیوں میں ایسا کونسا اضافہ کیا ہے؟ تاکہ ہمارا اثر و رسوخ ہمارے گردو نواح کے ماحول پر نظر آئے، ہمیں چاہیئے کہ اپنے اطراف میں نظر آنے والی غلطیوں کی اصلاح کرتے رہا کریں۔ حق و صدق کہنے اور کرنے میں کیسی مروت اور کیسا شرمانا؟ بس مقاصد میں کامیابی کیلئے اللہ تبارک و تعالیٰ کی مدد و نصرت کی دعا مانگتے رہیں۔
    اور اسکا فائدہ کیا ہوگا؟
    · اپنے لیئے اور دوسرے کیلئے سچائی اور حق کا علم بُلند کر کے اللہ کے ہاں مأجور ہوں کیونکہ جس نے کسی نیکی کی ابتداء کی اُس کیلئے اجر، اور جس نے رہتی دُنیا تک اُس نیکی پر عمل کیا اُس کیلئے اور نیکی شروع کرنے والے کو بھی ویسا ہی اجر ملتا رہے گا۔
    · لوگوں میں نیکی کرنے کی لگن کی کمی نہیں ہے بس اُن کے اندر احساس جگانے کی ضرورت ہے۔ قائد بنیئے اور لوگوں کے احساسات کو مُثبت رُخ دیجیئے۔
    · اگر کبھی اچھے مقصد کے حصول کے دوران لوگوں کے طنز و تضحیک سے واسطہ پڑے تو یہ سوچ کر دل کو مضبوط رکھیئے کہ انبیاء علیھم السلام کو تو تضحیک سے بھی ہٹ کر ایذاء کا بھی نشانہ بننا پڑتا تھا۔
     
  17. نورمحمد
    آف لائن

    نورمحمد ممبر

    شمولیت:
    ‏22 مارچ 2011
    پیغامات:
    423
    موصول پسندیدگیاں:
    5
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کچھ حکایتیں

    بہت بہت بہترین ۔ ۔ ۔ لاجواب جناب ۔ ۔ جاری رکھیئے گا محترم

    جزاک اللہ
     
  18. محمداکرم
    آف لائن

    محمداکرم ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مئی 2011
    پیغامات:
    575
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کچھ حکایتیں

    السلام علیکم و رحمۃاللہ و برکاتہ۔:91:
    آصف بھائی ماشاءاللہ بہت ہی خوبصورت تحریر ہے جو ہمیں مسلمانوں کے سنہری دور کی یاد دلاتی ہے۔
    آصف بھائی صرف ایک بات کی تصحیح کرانا چاہتا ہوں، وہ یہ کہ بےشک حضرت عمر بن عبدالعزیز کے دورِ خلافت نے خلافتِ راشدہ کی یاد تازہ کردی، مگر حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃاللہ علیہ پانچویں خلیفہ راشد نہیں ہیں، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دی ہوئی خبر کے مطابق خلافت راشدہ کا دور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد تیس سال تک ہے۔ اگر ماہ و سال کا حساب لگایا جائے تو حضرات ابوبکر صدیق، عمر فاروق، عثمان غنی اور علی رضوان اللہ عنہم اجمعین کے ادوار کا کل عرصہ ملا کر تقریباً ساڑھے انتیس سال بنتا ہے۔ اور سیدنا حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت کے چھ ماہ شامل کریں تو تیس سال کا عرصہ بنتا ہے۔ لہٰذا پانچویں خلیفہ راشد سیدنا حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ اسکے بعد ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی خبر کے مطابق، خلافت راشدہ کا دور ختم ہوگیا اور ملوکیت شروع ہوگئی۔
     
  19. نورمحمد
    آف لائن

    نورمحمد ممبر

    شمولیت:
    ‏22 مارچ 2011
    پیغامات:
    423
    موصول پسندیدگیاں:
    5
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کچھ حکایتیں

    خیر ۔ ۔ ۔ ان کا دورِ خلافت ۔ ۔ ۔ خلافتِ راشدہ کا نمونہ تو ضرور تھا
     

اس صفحے کو مشتہر کریں