1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کون کہتا ہے کہ عورتیں بیوقوف ہوتی ہیں؟

'گوشہء خواتین' میں موضوعات آغاز کردہ از بےلگام, ‏12 مئی 2009۔

  1. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

  2. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

  3. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

  4. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    آپ کی ارسال کردہ تینوں پوسٹ سے عورتوں کے متعلق تو آپکا دعوی سچا ثابت ہوگیا ۔

    لیکن خود اپنا کام کروا گئے آپ ۔ :khudahafiz:
     
  5. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    کون کہتا ہے کہ عورتیں بیوقوف ہوتی ہیں؟


    کوئی وڈا بےوقوف :yes: :yes: :yes:
     
  6. نیلو
    آف لائن

    نیلو ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اپریل 2009
    پیغامات:
    1,399
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    مرزا صاحب یہ گپ شپ نہیں ہے۔ یہاں دھیان سے لکھا کریں :133:
     
  7. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان


    کیسے بھیا جی
     
  8. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان



    یہی تو میں پوچھنا چاہیتا ہوں نا




    http://img237.imageshack.us/my.php?image=18688869.gif
     
  9. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان


    جی جنتا ہوں لیکن پہلے اسے پڑو جی



    http://img237.imageshack.us/my.php?image=18688869.gif



    اور غصہ نا کرو جی میں بھی ہمشہ عورت کا ساتھ دتا ہوں
     
  10. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    کون کہتا ہے، شرارت سے تمہیں دیکھتے ہیں
    جانِ من ہم تو محبت سے تمہیں دیکھتے ہیں
    تم کو معلوم نہیں تم ہو مقدس کتنے
    دیکھتے ہیں تو عقیدت سے تمہیں دیکھتے ہیں
    دیکھ کے تم کو کسی اور کی یاد آتی ہے
    ہم کسی اور ہی نسبت سے تمہیں دیکھتے ہیں
    ساتھ غیروں کے نظر آﺅ تو جی کُڑھتا ہے
    کیا کہیں کیسی اذیت سے تمہیں دیکھتے ہیں
    جھونکنی پڑتی ہے، یہ جان عذابوں میں ہمیں
    کون کہتا ہے کہ سہولت سے تمہیں دیکھتے ہیں
    جانے کیا لکھتے ہو کیا سوچتے رہتے ہو وصی
    رات کو جب بھی کبھی چھت سے تمہیں دیکھتے ہیں

    وصی شاہ
     
  11. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    انسان اور چوپائے خالق کی وہ مخلوق ہیں جن کا تعلق حیوانیات سے ہے اسی لئے انسان کو معاشرتی حیوان کہا گیا ہے بیشتر بڑے بڑے حیوانوں میں تولید و افزائش کا نظام بھی انسانوں کے نظام افزائش نسل سے کافی حد تک ملتا جلتا ہے لیکن اس کے باوجود انسان اور حیوان میں بہت فرق ہے انسانوں پر خالق کی خاص عنایت ہے کہ اس نے انسان کو عقل سے نوازا ہے اور یہی وہ اہم خصوصیت ہے کہ جو انسان اور حیوان میں فرق کو واضح کرتی ہے اگر انسان عقل سے کام نہ لے تو انسان اور حیوان میں کوئی فرق باقی نہ رہے

    انسان عقل سے کام لے کر کائنات کی ہر چیز کو اپنے اختیار میں کرتے ہوئے دیگر مخلوقات کو اپنے تابع کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے کیونکہ رب کائنات نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر دنیا میں اپنے نائب کی حیثیت سے بھیجا ہے اور انسان کا یہ فرض منصبی ہے کہ وہ اپنی عقل سے کام لیکر اپنے علم میں اضافہ کرے اور پھر اس علم کو عملی طور پر بروئے کار لا کر کائنات کو تسخیر کرے

    چونکہ تسخیر کا عمل علم و عقل کے بغیر ممکن نہیں اس لئے انسان کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنی اس عنایت خاص کو ضائع نہ کرے اور اپنے منصب کے مناسب حال اپنے اس شرف کا حق ادا کرے بیشتر انسانوں نے اپنی عقل اور علم میں اپنی محنت و تددبیر سے وہ نکھار پیدا کیا ہے کہ جو دنیا کے سامنے لازوال شاہکار کے طور پر سامنے آئی ہیں

    انسان کو یہ خصوصیات یونہی نہیں دے دی گئیں انسان کو اشرف المخلوقات بنایا گیا ہے جس کے لئے انسان پر بہت بڑی بڑی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور عقل سے کام لئے بغیر کسی بھی ذمہ داری سے بخوبی عہدہ برا ہونا ممکن نہیں ہوتا ہر کام سوچ سمجھ کر دل و دماغ کی رضا مندی کے بعد انجام دینا ہی عقلمندی ہے

    عقل علم اور عمل کی بدولت ہی انسان اپنی زندگی میں آسانیاں پیدا کرتا ہے اور خود کو زندگی میں درپیش آنے والی مشکلات پر قابو پانے کے قابل بناتا ہے

    کیا وہ تمام کارہائے نمایاں جو انسان نے دنیا میں انجام دیئے ہیں محض عقل وعقل علم ہی کے مرہون منت ہیں یا ان تمام کارفرمائی میں کوئی اور بھی انسان کا دست و بازو رہا ہے اچھا ہے دل کے ساتھ رہے کاروان عقل لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے کسی بھی کام کو انجام دینے کیلئے وہ کونسا جذبہ ہے جو انسان کو اکساتا ہے کچھ کر گزرنے کی تحریک دلاتا ہے یہ انسان کے دل میں مؤجزن جذبہ عشق ہے جو انسان کو کچھ کر گزرنے کی تحریک دلاتا ہے اگر انسان محض عقل سے کام لے تو وہ کبھی اپنے مقاصد کو کلی طور پر انجام نہیں دے سکتا

    اسی لئے شاعر نے خوب فرمایا ہے کہ “عقل کو تنقید سے فرصت نہیں ہے عشق پہ اعمال کی بنیاد رکھ“ چونکہ انسانی عقل کسی بھی تحریک پر عمل سے پہلے انسان کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے اور یہ سوچ انسان کے دل میں اندیشے اور خدشات پیدا کرتی ہے اور یہی اندیشے اور خدشات انسان کو آگے بڑھنے اور منزل کی جانب قدم بڑھانے سے روکتے ہیں جب تک کوئی کسی مرحلے سے گزرتا ہی نہیں وہ اس کے حقائق تک کیسے پہنچ پائے گا اسکی خوبیوں اور خامیوں کا اندازہ کیسے لگائے گا

    ساحل سے سمندر کی گہرائی کا اندازہ لگانا مشکل ہے، فلک پر چمکتے سورج چاند ستاروں کی روشنی ٹھنڈک اور تپش کیا ہے محض عقل سے ان پوشیدہ حقائق تک رسائی ممکن نہیں، جذبہ عشق کے بغیر ستاروں پر کمند ڈالنے کی جرات محض عقل کی بنا کوئی نہیں کر سکتا کہ عقل تو راستے کی دشواریوں کے پیش نظر آسمان کو چھونے کی خواہش کو رد کرنے کا باعث ثابت ہوتی ہے، عقل کے پیش کردہ تنقیدی دلائل ممکنہ خدشات کو راستے کی خود ساختہ دیوار بنا کر منزل تک رسائی میں بذات خود دشوایوں کا سبب بنتی ہے جبکہ
    بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
    عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
    کے مترادف عشق انسان میں وہ قوت پیدا کرتا ہے وہ تحریک دیتا ہے کہ انسان تمام خدشات کو پس پشت ڈال کر اور راستے کی تمام رکاوٹوں کو چیرتا ہوا اپنی مطلوبہ منزل تک پہنچ جاتا ہے

    کائنات کی ہر چیز میں عشق کی کارفرمائی عیاں ہے تمام ایجادات و اختراعات کے پیچھے بھی یہ جذبہ عشق ہی کار فرما ہے عشق کے بغیر زندگی نامکمل ہے عشق انسان کو اپنی پہچان دیتا ہے

    عشق کا مسکن دل ہے اور اپنے دل کے سمندر میں ڈوب کر ہی عشق کی گہرائی اور عشق کی سچائی تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے “اپنے من میں ڈوب کر پا جا مراد زندگی“ کہ زندگی کی مراد زندگی کا مقصد اپنے من کے سمندر میں ڈوب کر ہی پایا جاسکتا ہے اور یہی عشق ہے

    انسان اپنا کوئی بھی مقصد عشق کی رہنمائی کے بغیر حاصل نہیں کر سکتا عشق ہی منزل کے راستے متعین کرتا اور پھر ان راستوں پر بے دھڑک بنا کسی خوف و خطر کے گامزن رہنے کی ہمت و تحریک دیتا ہے جو بالآخر انسان کی اپنی منزل تک رسائی کو ممکن بناتا ہے

    علم و عقل کی اہمیت و حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے لیکن عشق ان سب پر مقدم ہے جو کہ انسان کو وہ منزل دکھاتا ہے کہ جس پر پہنچ کر انسان اس مقام تک پہنچتا ہے کہ جس تک پہنچنے کا عقل سوچ بھی نہیں سکتی اور یہی وہ مقام ہے کہ جس کے متعلق علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا
    “جلتے ہیں جبرائیل کے پر جس مقام پر
    اسکی حقیقتوں کے آشنا تم ہی تو ہو
     
  12. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    واہ مرزا عادل نذیر بھائی ۔ بہت خوب سطور ہیں۔ بہت سچی باتیں ہیں۔
     
  13. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    شکریہ بھیا
     

اس صفحے کو مشتہر کریں