1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کمپیوٹر سکرین اور بچوں کی بصارت

'میڈیکل سائنس' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏15 ستمبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    کمپیوٹر سکرین اور بچوں کی بصارت

    سکول کی فاصلاتی تعلیم سے جہاں دیگرمسائل جنم لیتے ہیں‘ وہیں بہت سی فیملیز کے لئے ایک سنگین مسئلہ یہ بن چکا ہے کہ کمپیوٹر ڈیوائسز کے ضرورت سے زیادہ استعمال سے بچوں کی بصارت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جو بچے بہت زیادہ وقت کمپیوٹر سکرین کے سامنے گزارتے ہیں‘ خواہ وہ ایسا اپنی تعلیم کے حصول، تفریح یا دوستوں کے ساتھ تعلقات کی غرض سے کرتے ہیں مگر ان سب مصروفیات کا ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ‘ وہ اپنی آنکھوں پر شدید دبائو، جسمانی تھکاوٹ اور شدید سر درد محسوس کرتے ہیں۔ مگر بہت سے ماہرین والدین کو ایسے سادہ اور مفید طریقے بتاتے ہیں جن کو استعمال کرتے ہوئے وہ اپنے بچوں کی آنکھوں کو ان برے اثرات سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔

    اس کا سب سے آسان حل تو یہ ہے کہ بچہ جس کمپیوٹر پر بیٹھ کرکام کرتا ہے اس کی سکرین اور بچے کی نشست کے درمیان ہمیشہ ایک مناسب فاصلہ ہونا چاہئے۔ ایک ماہر چشم میلی سینٹ نائٹ‘ جو Global Myopia Awareness Coalition کی ترجمان بھی ہیں‘ کہتی ہیں کہ ’’اپنے عمومی مطالعے کے دوران ہم کمپیوٹر سکرین اور آنکھوں کے درمیان 16انچ کا فاصلہ رکھا کرتے تھے۔ مگر اب ہمیں معلوم ہوا ہے کہ بچے سکرین خاص طور پر فون کی سکرین پر پڑھتے ہوئے صرف دس سے بارہ انچ کا فاصلہ رکھتے ہیں‘‘۔ ڈاکٹر نائٹ کا مزید کہنا ہے کہ یہ اتنا فاصلہ ہے کہ جب آنکھوں کو بالکل سیدھا اور کسی دور فاصلے پر رکھی چیز کودیکھنا پڑتا ہے تو انہیں ریلیکس کرنے کے بجائے سکرین پر بہت زیادہ فوکس کرنا پڑتا ہے۔ جب ہمیں مسلسل اسی پوزیشن میں فوکس رکھنا پڑتا ہے تو ہماری آنکھوں کے پٹھوں کو شدید تھکاوٹ کا احساس ہونے لگتا ہے جس سے ہمارے سر میں درد ہونا شروع ہو جاتا ہے یا پھر آنکھوں کی بصارت سے متعلق دیگر نوعیت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

    اس کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ اب تک کی ہونے والی تحقیق کے مطابق کمپیوٹرسکرین کے استعمال اور بچوں کی نظر میں پیدا ہونے والی خرابی‘ جسے انگریزی زبان میں Myopia کہتے ہیں‘ میں براہ راست کوئی تعلق ثابت نہیں ہو سکا، اس بیماری کو Near sightedness کہتے ہیں جو مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔

    امریکہ کی American Optometric Association سے حاصل کردہ اعداد و شمار سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ سال 2018ء میں یہ دیکھا گیا ہے کہ ہر چار میں سے ایک والدین کے ہاں ایسا بچہ ضرور ہے جو نظر یا بصارت کی کمزوری کا شکار ہے۔ گزشتہ چالیس سال کے دوران اس عارضے میں 25فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اگر اس کا علاج نہ کیا جائے تو نظرکی خرابی عمر کے آخری حصے میں کسی سنگین بیماری کا باعث بن سکتی ہے جس میں Myopic macular Degeneration, Retinal detachment, Cataracts اور Glaucoma بھی شامل ہیں۔ جانز ہاپکنز یونیورسٹی میں بچوں کے امراض چشم کے پروفیسر ڈیوڈ گائٹن کہتے ہیں ’’گزشتہ پچاس سال میں سب سے اہم بات جو ہم نے سیکھی ہے وہ یہ کہ مایوپیا کی وجہ سے آنکھ کی لمبائی بڑھ جاتی ہے‘‘۔ ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ کوئی بھی یقینی طور پر نہیں جانتا کہ لوگ جس چیز کودیکھ رہے ہوتے ہیں آخر آنکھ کی لمبائی اس تصویر کے عکس کو آنکھ کے پردے یعنی Retina کے پیچھے کیوں لے جاتی ہے۔ ایسا تو اس وقت ہوتا ہے جب لو گ کسی فون یا ٹیبلٹ کو دیکھنے کے لئے اسے اپنی آنکھوں کے قریب تر لے جاتے ہیں۔

    لاس اینجلس میں بچوں کے امراض چشم کے ماہر ڈاکٹر Luke Deitz کا کہنا ہے کہ ہمیں چاہئے کہ اپنی ڈیجیٹل ڈیوائس کو اپنی آنکھوں سے کم از کم دو فٹ کے فاصلے اور آنکھ کی سطح پر رکھیں اور کوشش کریں کہ یہ تھوڑی سی نیچے ہو تاکہ ہمیں آنکھیں اوپر اٹھا کر سکرین پر نہ دیکھنا پڑے۔ جب کمپیوٹر کی سکرین اس سے کم فاصلے پر ہو گی تو ہماری آنکھوں کو فوکس کرنے میں کافی مشکل پیش آئے گی تاکہ ہمیں ایک روشن اور واضح تصویر نظر آئے۔ ایسا کرنے سے ہماری آنکھوں پر دبائو بڑھ جائے گا اور نظر کی بیماری Myopiaکے مزید بگڑنے کا امکان پیدا ہو جاتا ہے۔

    ڈاکٹر نائٹ کا خیال ہے کہ ہمیں اپنے بچوں کو اس طرح بٹھانا چاہئے کہ ان کی کہنی میز کے اوپر ہو اور پھر وہ اپنا سر اس ہاتھ پر رکھیں۔ اسی پوزیشن سے انہیں چاہئے کہ اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر سکرین کو چھونے کی کوشش کریں۔ اگر وہ سکرین کو چھو لیتے ہیں تو یہی وہ فاصلہ ہوگا جو کسی بھی بچے کو اپنی آنکھوں اور سکرین کے درمیان رکھنا ہوگا۔ سکرین پر کام کرنے والے بچوں کے والدین کو ڈاکٹر نائٹ کا ایک اور اہم مشورہ یہ ہے کہ وہ 20/20/20 کے فارمولے پر عمل کریں یعنی ہر 20منٹ کے بعد اپنی نظریں سکرین سے ہٹا کر 20سیکنڈ کے لئے 20فٹ کے فاسلے پر دیکھیں۔ اس طرح آنکھوں کو کچھ وقفہ مل جاتا ہے اور وہ کچھ دیر کے لئے اپنی قدرتی پوزیشن پر آ جاتی ہیں۔ ڈاکٹر Deitz کا بھی یہی خیال ہے کہ سکرین پر نیلے رنگ کا بلاکنگ شیشہ لگانے کے بجائے ہر تھوڑی دیر کے بعد نظروں کو ایک مناسب وقفہ ضرور دینا چاہئے۔ نظروں پر دبائو اور تھکاوٹ کم کرنے کے دعوے کے ساتھ آج کل نیلے شیشے مارکیٹ میں فروخت کے لئے پیش کئے جا رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ بہت سے والدین مجھ سے ان شیشوں کے بارے میں پوچھتے ہیں مگر ہمارے پاس ایسا کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہے کہ وہ نظروں کے لئے محفوظ ہیں اور یہ محض سنی سنائی باتیں ہیں کہ یہ شیشہ لگانے سے آنکھوں پر دبائو کم ہو جاتا ہے۔

    اب آتے ہیں کہ ہمیں کن کن باتوں کی طرف دھیان رکھنا چاہئے۔ سر درد، مسلسل آنکھیں جھپکانا یا ملنا اور تھکاوٹ کا احساس‘ یہ ایسی علامات ہیں جو اس امر کی عکاسی کرتی ہیں کہ آپ کے بچے کی نظر سنگین مسائل سے دوچار ہے۔ ڈاکٹر ڈیٹز کا کہنا ہے کہ ہمیں زیادہ روشن سکرین سے گریز کرنا چاہئے اور کمرے کے اندر کام کرنے کے لئے اسی کے مطابق سکرین کی لائٹ سیٹ کرنی چاہئے نیز ہمیں ڈیجیٹل ڈیوائس کو آئوٹ ڈور میں استعمال نہیں کرنا چاہئے۔ جب آنکھوں کی صحت کی بات ہو تو ہمیں خشک آنکھوں کو بھی پیش نظررکھنا چاہئے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹرگائٹن کا کہنا ہے کہ جب لوگ سکرین پر پڑھتے ہیں تو ان کا آنکھیں جھپکنے کا عمل ایک منٹ کے دوران پانچ سے دس مرتبہ کم ہو جاتا ہے جو آنکھوں کی خشکی کا باعث بن جا تا ہے۔

    اگرچہ بچوں کی آنکھیں اس طرح خشک نہیں ہوتی جس طرح بالغوں کی آنکھیں ہوتی ہیں؛ تاہم والدین کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اس بات پر نظر رکھیں کہ کیا ان کا بچہ سکرین پر دیکھتے ہوئے باقاعدگی سے آنکھیں جھپک رہا ہے یا نہیں۔ اگر بچے کو اس امر کی یاد دہانی کرا دی جائے تو یہ اس کی آنکھوں کے لئے بہت مفید ہوگا۔ بچوں کی نظر کو باقاعدگی سے چیک کراتے رہنا چاہئے تاکہ ان کے بصری مسائل کی بروقت نشاندہی ہو جائے اور محض کورونا وائرس کی وجہ سے اس کام میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔ والدین کو چاہئے کہ فوری طور پر اپنے ڈاکٹر سے رابطہ کریں اور اس کی دی ہوئی ہدایا ت پر سختی سے عمل کریں۔

    (بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد حسین رامے)
     

اس صفحے کو مشتہر کریں