بے نگاہ آنکھوں سے دیکھتے ہیں پرچے کو بے خیال ہاتھوں سے اَن بنے سے لفظوں پر انگلیاں گھماتے ہیں یا سوالنامے کو دیکھتے ہی جاتے ہیں! ہر طرف کن انکھیوں سے بچ بچا کے تکتے ہیں دوسروں کے پرچے کو رہنما سمجھتے ہیں شاید اس طرح کو ئی راستہ ہی مل جائے! بے نشاں خوابوں کا کچھ پتہ ہی مل جائے! مجھ کو دیکھتے ہیں تو یوں جوابً کاپی پر، حاشیے لگاتے ہیں دائرے بناتے ہیں جیسے ان کو پرچے کے سب جواب آتے ہیں ۔۔۔! اس طرح کے منظر میں امتحاں گاہوں میں، دیکھتا ہی رہتا تھا نقل کرنے والوں کو نِت نئے طریقوں سے آپ لطف لیتا تھا، دوستوں سے کہتا تھا کس طرف سے جانے یہ آج دل کے آنگن میں اِک خیال آیا ہے سینکڑوں سوالوں سے اک سوال لایاہے! وقت کی عدالت میں زندگی کی صورت میں یہ جو تیرے ہاتھوں میں اک سوالنامہ ہے کس نے بنایا ہے؟ کس لئیے بنایا ہے؟ کچھ سمجھ میں آیا ہے؟ زندگی کے پرچے میں سب سوال لازم ہیں سب سوال مشکل ہیں! بے نگاہ آنکھوں سے دیکھتا ہوں پرچے کو بے خیال ہاتھوں سے اَن بنے سے لفظوں پر انگلیاں گھماتا ہوں حاشیہ لگاتا ہوں دائرے بناتا ہوں یا سوالنامے کو دیکھتا ہی جاتا ہوں! ۔۔۔ امجد اسلام امجد ۔۔۔
بہت خوب وقاص بھائی ۔ بہت پیارا انتخابِ کلام ہے۔ کیا بات ہے امجد اسلام امجد صاحب کی حقیقت پسندانہ ذہنی رسائی کی۔