نظرِ کائنات کی آنکھ میںہے تو جو ذلیل کہ فی الحال تیرے ہی آگے جھکتا ہے تیرا ضمیر اٹھ کہ نادان بدل سکتا ہے تو رخ ہواؤں کے اوروں کو مت دیکھ خؤد کو بدل وفاؤں پے ہیں تیرے ہی اجداد کہ جن کا جلال و پیغام ہوا بے لگام دریاؤں کے لیے سہم جانے کا پیغام ڈھال خود طارق و قاسم و محمود و ایوبی میں جلا کر اپنائیت کو پھر تعمیر ہو اجتمائیت سے رکھ سبقِ ماضی، سنبھال عظمتِ حال اور ہو جا حاکمِ مستقبل ٹکرا کر طوفانوں سے ڈوب کر سمندروں میں منزل پا ستاروں پہ بجھا خود کو تپشِ ایماںسے اور چمک مانندِ شمشیر کہ کاٹ ڈالے تو لکھے غازی، کٹ جائے تو لکھوائے شہید ہے کب سے رواں جانب منزل یہ جاذب زندگی کہ ادھر جینے کی پابندی ادھر مرنے کی پابندی سنبھال اس امانت کو جس کا ہے تو امیں وگرنہ نہ کر سکے گا تو اپنی پاکبازی پہ بھی یقیں