1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کلامِ اقبالؒ کی حکمتیں ۔۔۔۔ ڈاکٹر سید عبداللہ

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏10 نومبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    کلامِ اقبالؒ کی حکمتیں ۔۔۔۔ ڈاکٹر سید عبداللہ

    ہر کوئی اقبال کو مخصوص نظریے کے مطابق پیش کر رہا ہے، نئی تعبیرات میں حقیقی اقبال کم ہوتا ہے کلام ِ اقبالؒ میں غور و فکر اور تحقیق و تدقیق کی اہمیت واضح ہےاس سے تعلیم و تربیت اور تعمیرِ ذہنِ جدید میں بڑی مدد ملے گی
    اقبالؒ کی اہمیت پوری ملت، بلکہ پورے مشرق اور عالمِ انسانیت کے لیے تسلیم شدہ ہے لیکن طالبعلم اور استاد کے لیے فکرِ اقبالؒ ایک دستور العمل کا درجہ رکھتا ہے ۔تعلیم پر اقبالؒ کے خیالات سب کو معلوم ہیں۔ اور ان کا وہ کلام بھی سب کے علم میں ہے جو مکتب اور مدرسے سے متعلق ہے۔ اس کے علاوہ ’’خطاب بہ نژادِ نو‘‘ اور ’’خطاب بہ جوانانِ مسلم‘‘ جیسی نظمیں بھی دراصل کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں تعلیم پانے والے طبقے کے لیے لکھی گئی تھیں۔

    ان حالات میں نوجوانانِ مکتب کو ان واضح ہدایات کی ضرورت ہے جن پر عمل کرکے وہ اقبالؒ کا صحیح مطالعہ کرسکتے ہیں۔ اقبالؒ کی شخصیت اس دیار کے خاص و عام میں ابتدا ہی سے مقبول تھی۔ اب کلامِ اقبالؒ کی مقبولیت بھی خواص سے پھیل کر عوام تک پہنچ رہی ہے۔ اور مطالعۂ اقبالؒ کی چند اہم ضرورتوں کی طرف متوجہ کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔اس سلسلے میں پہلی اور شاید سب سے اہم ضرورت تو یہ ہے کہ نوجوانوں کے لیے ایسی کتابیں لکھی جائیں جن میں اقبالؒ کا حقیقی اور مکمل پیغام موجود ہو۔ علامہ کے کلام اور شخصیت سے دلچسپی کی روز افزوں وسعت جہاں خیر و برکت کی بات ہے،وہاں اس سے ایک نازک صورتِ حال بھی اُبھر رہی ہے، وہ یہ ہے کہ اقبالؒ کی تعبیر سیاسی اور گروہی مقاصد کے لیے ہونے لگی ہے۔ ہر کوئی اقبالؒ کو اپنے مخصوص نظریے کے مطابق پیش کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ چنانچہ اب نئی تعبیرات میں حقیقی اقبالؒ کم ہوتا ہے، ہر کسی کے اپنے خیال کا اقبالؒ زیادہ ہوتا ہے، اس لیے ضرورت اس اَمر کی ہے کہ بڑی دیانت داری کے ساتھ اقبالؒ کے حقیقی نظریات کو سامنے لایا جاے اور اس میں تعصبات یا اپنی خواہشات کو داخل نہ کیا جائے۔ مکمل اقبالؒ کو سمجھنے کی ضرورت بھی واضح ہے۔ اب یہ ہونے لگا ہے کہ اقبالؒ کے وسیع الاطراف کلام میں سے کسی ایک دور، یا کسی ایک لمحے کی ترجمانی کرنے والے حصے لے لیے جاتے ہیں اور انھی کو باقی ادوار سے منقطع کرکے، مکمل تصور کے طور پر پیش کردیا جاتا ہے۔ یہ اقبالؒ کے ساتھ ناانصافی ہے۔ ضرورت ہے کہ خالص علمی تحقیقی انداز میں اقبالؒ کے پورے کلام کو سامنے رکھ کر (بلکہ ان کے مکاتیب اور اُن کی انگریزی نثر کو بھی مدنظر رکھ کر) فکرِ اقبالؒ کا مکمل خاکہ مرتب کیا جائے۔

    اب جب کہ اقبالؒ کا کلام عوام تک پہنچ رہا ہے، اس کا صحیح تصور اور تاثر پیدا کرنے کے لیے یہ بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ کلام کے ایسے انتخابات شائع کیے جائیں جو نمائندہ ہوں۔ ان کے مشکل اشعار کی شرح ذیلی حواشی میں کی جاے تاکہ وہ لوگ بھی سمجھ لیں جن کی استعداد معمولی ہے۔ ان انتخابات میں بھی تعصبات سے کام نہ لیا جاے بلکہ صحیح صحیح نمائندگی کی صورت پیدا کی جائے۔ اور اگر ممکن ہو تو درجہ بندی سے کام لیا جاے تاکہ مختلف ذہنی سطحوں کے لیے مفید ثابت ہوسکے۔اس سے بھی زیادہ ضروری کام، نصابات میں اقبالؒ کو درجہ بندی کے اُصول پر شامل کرنا ہے، اس وقت یہ صورت ہے کہ نصابات میں کلامِ اقبالؒ کے سلسلے میں سطحِ ذہنی اور مدارجِ عمر کا خیال کچھ زیادہ نہیں رکھا جاتا۔ مشکل کلام ابتدائی درجوں میں بھی آجاتا ہے اور ثانوی اور اعلیٰ درجوں میں وہ نظمیں بھی آجاتی ہیں جو بچوں کے لیے لکھی گئی تھیں۔ اس خامی کو دورکرنے کے لیے، صحیح اُصول کے مطابق نصابی ضرورتوں کے لیے کلامِ اقبالؒ کی درجہ بندی کی جائے۔

    مطالعہ اقبالؒ کی کئی سطحیں ہیں۔ ایک سطح اعلیٰ بھی ہے۔ اس میں آزاد غور و فکر اور تحقیق و تدقیق کی اہمیت واضح ہے۔ یہ معلوم ہے کہ علامہ اقبالؒ کے افکار وسیع الاطراف ہیں۔ ان کا ایک حصہ حکمتِ اسلامی سے متعلق ہے اور دوسرا حکمتِ مغربی سے، اُنھوں نے کہیں تنقید کی ہے، کہیں تطبیق کی کوشش کی ہے، کہیں اپنا مستقل نقطۂ نظر پیش کیا ہے۔اُنھوں نے اپنی تصریحات میں کہیں اشارات سے کام لیا ہے، کہیں حوالہ دے کر اصل مآخذ کا نام نہیں لیا۔ کہیں کسی مفکر کا نام لیا ہے مگر اس کی کتاب کا نام نہیں لیا۔ اس طرح بہت سے موقعوں پر ابہام پیدا ہوگیا ہے، اس کے علاوہ علامہ کے بعد بھی دُنیا میں فکر کی رفتار تیز رہی ہے۔ چنانچہ ایسے افکار بھی سامنے آگئے ہیں جو علامہ کے زمانے میں، اپنی ابتدائی اور نامکمل صورت میں تھے۔اس صورتِ حال میں فکرِ اقبالؒ کے توسیعی و توضیحی مطالعے کی بے حد ضرورت ہے، اس میں کئی موقعوں پر اُلجھائو بھی پیدا ہوسکتے ہیں جن کے باعث فکرِ اقبالؒ کے بارے میں غلط فہمی پیدا ہوسکتی ہے جسے دور کرنا لازمی ہوجاتا ہے۔ اس ضرورت کے تحت فکرِ اقبالؒ کا آزادانہ اور توسیعی مطالعہ خود اقبالؒ کی مفکرانہ حیثیت کے نقطہ نظر سے بھی مفید ہوگا۔

    ایک اہم معا ملہ اس فکری روایت کا ہے، جس کے اقبالؒ وارث ہیں۔

    آج کل ایک رجحان یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض لکھنے والے اقبالؒ کو اسلاف کی روایتِ علمی سے منقطع کرکے، انہیں صرف اپنے دور سے متعلق قرار دیتے ہیں اور دورِ حاضر کے نظریات کے پیمانے سے ناپتے اور اسی نقطۂ نظر سے ان کے افکار کی تعبیر کرتے ہیں۔ یہ زیادتی ہے، یہ نقطۂ نظر درست نہیں۔ اقبالؒ دراصل اس عظیم علمی روایت کے آخری نمائندے ہیں جو اسلامی حکمت کے نام سے، مختلف اطراف میں پھیلی اور مختلف میدانوں میں سرگرمِ عمل ہوکر، سارے عالمِ فکر کو متاثر کرتی رہی۔ اقبالؒ اس روایت کے وارث بھی ہیں اور نقاد بھی، بنابریں اقبالؒ کا مطالعہ اس زاویۂ نظر سے بھی ہونا چاہیے تاکہ اس روایت میں بھی ان کا مقام متعین ہو سکے۔ اگر خاص نوجوانوں کے نقطۂ نظر سے کلامِ اقبالؒ کے انتخابات مرتب ہوں۔ اور انھی کے افادہ و ہدایت کے لیے کتابیں لکھی جائیں تو اس سے تعلیم و تربیت اور تعمیرِ ذہنِ جدید میں بڑی مدد ملے گی۔

     

اس صفحے کو مشتہر کریں