1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کشمیر پر عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی ...کامران عباسی

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏12 دسمبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:

    کشمیر پر عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی ...کامران عباسی

    جب میں چھوٹا تھا تو ریڈیو، ٹی وی پر نشر ہونے والی خبروں میں “عالمی برادری” کے الفاظ بار بار سنتا تھا۔ “عالمی برادری نے یہ کہا ، عالمی برادری نے وہ کہا۔”، “عالمی برادی ناراض ہے”، “عالمی برادری کا سخت رد عمل آیا ہے”… وغیرہ وغیرہ۔ کبھی کبھی عالمی برادری کا شکریہ بھی ادا کیا جاتا تھا۔ عالمی برادری کو میں نے خود سے ہی مونث کردار تصور کر لیا تھا۔

    ذہن میں عالمی برادری کے عجیب و غریب خاکے بنتے اور مٹتے رہتے تھے مگر یہ خاکے ایک دبنگ عورت کے ہوتے جس کے مزاج ہی نہیں ملتے تھے۔ مجھے ان خاکوں میں اپنی ہیڈ مسٹریس کی جھلک آتی تھی جو ہر وقت ایک بڑا سا بید کا ڈنڈا لے کر سکول میں گھومتی رہتی تھیں۔

    یہ ان دنوں کی بات ہے جب سکولوں میں پیار نام کی چیز نہیں ہوا کرتی تھی بس مار ہی مار تھی اور میڈم یا ہیڈ مسٹریس موقع پر ہی “انصاف” کی قائل تھیں۔ وہ بھی ہر وقت کچھ نہ کچھ کہتی رہتیں، اکثر نامعلوم وجوہ کی بنا پر ناراض رہتیں اور ہماری استانیاں ڈانٹ ڈپٹ کے باوجود ان کی شکر گذار نظر آتیں۔ کم از کم اس وقت مجھے یہی لگتا تھا۔

    مگر دبنگ خاتون کا یہ تصور اس وقت چکنا چور ہوگیا جب میں نے اخبار پڑھنا شروع کیا۔ میں اس وقت چھٹی جماعت میں پہنچ چکا تھا اور اخبار میں دلچسپی ہوگئی تھی۔عالمی برادری کبھی کسی بری بات پر خوش ہو جاتی تو کبھی اچھی بات پر ناراض، کشمیر کے معاملے پر عالمی برادری چپ سادھ لیتی تو بھارت کے ساتھ تجارت کے معاملے پر عالمی برادری پورے جوش و خروش کے ساتھ معاہدے کرنے پہنچ جاتی۔ کنفیوژن یہ تھی کہ ایک ساتھ ناراض، خوش، متفق اور تقسیم کیونکر ہوتی ہے، اس کے مفاد کا تعین آخر کس طرح ہوتا ہے اور معیار کیونکر بدلتے رہتے ہیں؟ یہ بات بہت دیر میں سمجھ آئی۔

    بڑے ہوتے ہمیں بخوبی معلوم ہوگیا تھا کہ مسئلہ کشمیر عالمی برادری کا نہیں، ہمارا مسئلہ ہے اور اسے ہم نے ہی حل کرنا ہے۔ دھچکا اس وقت لگا جب دنیا کے طاقتور ملک مشرقی تیمور اور دارفر کے معاملوں پر “عالمی برادری” بن گئے۔ یہ دونوں مسیحی اکثریتی علاقے تھے اور یہاں کے عوام نے بالترتیب انڈونیشیا اور سوڈان کی مسلم آبادی کے ساتھ رہنے سے انکار کردیا اور علیحدگی کی تحریکیں شروع کردیں۔

    عالمی برادری بے چین ہوگئی اور انصاف، انسانی حقوق، اظہار رائے اور حق رائے دہی جیسی آوازیں اٹھنے لگیں جو وقت کے ساتھ شدید ہوتی گئیں۔ امریکا اور یورپی ممالک کی بڑی تعداد مشرقی تیموراور دارفر کے علیحدگی پسندوں کی کھلم کھلا مدد کو نکل پڑے تھے۔

    مغربی میڈیا کی “رپورٹنگ” لوگوں کو مسیحی علیحدگی پسندوں کی حمایت میں سڑکوں پر لے آئی اور پھر عالمی برادری نے آخر کار انڈونیشیا اور سوڈان کو مشرقی تیمور اور دارفر میں ریفرنڈم کرانے پر مجبور کردیا۔ یوں تھوڑے ہی عرصے میں دنیا کے نقشے پر دو نئی ریاستیں وجود میں آ گئیں۔

    مگر کشمیر جسے اقوام متحدہ نے خود رائے شماری کا حق دیا اس پر آج بھی کوئی ملک عمل درآمد کرانے کو تیار نہیں۔ بھارت نے پانچ اگست 2019ء کو آرٹیکل 370 ختم کرکے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت واپس لی تو لگا شاید کوئی اس کھلی غنڈہ گردی کے خلاف آواز بلند کرے لیکن بے سود۔ پچھلے سوا سال سے وادی میں کرفیو نافذ اور کاروبار زندگی بند، لوگ گھروں میں نظر بندی کی زندگی گذار رہے ہیں مگر عالمی برادری نجانے کہاں سو رہی ہے؟

    گزشتہ ماہ ایک رپورٹ منظر عام پر آئی کہ آسٹریلیا کے خصوصی فوجی دستوں نے 2005ء سے 2016ء تک افغانستان میں اپنے قیام کے دوران بچوں اور کسانوں سمیت 39 نہتے افغان شہریوں کو جان بوجھ کر قتل کیا۔ آسٹریلوی فوج کے چیف آف ڈیفنس فورس آنگس کیمپبل نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ قتل عام کے درجنوں واقعات “میدان جنگ سے باہر” کیے گئے تھے۔

    رپورٹ کے مطابق گشتی فوجی ٹیم نئے آنے والے سپاہیوں کو قیدیوں کو قتل کرنے پر مجبور کرتی تھی تاکہ وہ اپنا پہلا شکار کرسکیں۔ یہ ہولناک رسم خون بہانا کہلاتی ہے۔ واردات کے بعد یہ جونیئر فوجی واقعے کو جھڑپ بنا کر ظاہر کرتے تھے۔

    رپورٹ میں ایک ایسے واقعے کا بھی ذکر ہے جب ہیلی کاپٹر میں جگہ بنانے کے لیے آسٹریلوی فوجیوں نے ایک قیدی کو قتل کرکے پھینک دیا۔ مقتولین میں ایک چھ سالہ بچہ بھی شامل ہے۔ نہ جانے ایسے کتنے واقعات ہیں جو رپورٹ نہیں ہوئے۔

    آسٹریلوی فوج کے سربراہ نے اپنے فوجیوں کے جنگی جرائم کا اعتراف کیا اور افغان عوام سے غیر مشروط معافی مانگی اور بتایا کہ ان کارروائیوں میں ملوث اہلکاروں کوسزا دینے کا فیصلہ خصوصی پراسیکیوٹر کرے گا کہ آیا انہیں سزا دی جا سکتی ہے یا نہیں؟

    سفاکی کی یہ داستان سامنے آئے کئی روز ہوگئے مگر کیا آپ میں سے کسی نے اقوام متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیم یا کسی مغربی ملک کی جانب سے مذمت یا افسوس کابیان سنا؟ یقیناً نہیں کیونکہ مظلوم مسلمان ملک کے غریب شہری ہیں جو قتل بھی ہوجائیں تو دہشت گرد ہی کہلائے جاتے ہیں۔

    افغان عوام بے صبری سے بین الاقوامی طاقتوں کی جانب دیکھ رہے ہیں جو معاملے کو جلد از جلد دبا دینا چاہتی ہیں۔ ان کا رویہ اس خاموشی کے مترادف ہے جو انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی پر اپنائی ہے۔ اس معاملے نے مجھے پھر بچپن کی یاد دلا دی۔ “عالمی برادری خاموش ہے، اور یہ خاموشی نہ صرف سنگدلانہ بلکہ مجرمانہ بھی ہے”۔ یعنی عالمی نظام میں موجود بڑے ممالک جو اپنے آپ کو انسانی حقوق کا چمپئن کہلاتے ہیں، وہ کشمیر میں‌ بھارت کے سفاکانہ جرائم میں برابر کے شریک ہیں۔

     

اس صفحے کو مشتہر کریں