1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کشمیریوں کو آزادی نہ ملنے میں سب سے بڑا جرم پاکستانی حکمرانوں کا ہے

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از m aslam oad, ‏21 جنوری 2013۔

  1. m aslam oad
    آف لائن

    m aslam oad ممبر

    شمولیت:
    ‏15 جنوری 2010
    پیغامات:
    224
    موصول پسندیدگیاں:
    8

    5جنوری کو ہرسال دنیا بھر میں کشمیری قوم اپنا ’’یوم حق خود ارادیت‘‘ مناتی ہے کیونکہ اسی روز یعنی 5 جنوری 1949ء کو اقوام متحدہ نے ایک قرارداد منظور کی تھی جس میں یہ فیصلہ سنایا گیا تھا کہ کشمیر میں رائے شماری پر عملدرآمد کے لئے ایک ناظم بھی مقرر ہو گا اور پھر کشمیری قوم کو یہ موقع دیا جائے گا کہ وہ اپنے مستقبل کا خود تعین کریں۔ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ میں صرف ایک ہی قرارداد منظور نہیں ہوئی بلکہ مجموعی طور پر اقوام متحدہ میں اس حوالے سے 27 قراردادیں موجود ہیں جو منظور ہوئیں۔ ان میں ایک اہم قرارداد یکم جنوری 1948ء کی ہے جب بھارت نے خود اقوام متحدہ جا کر شکایت کی تھی کہ پاکستان نے کشمیر پر حملہ کر کے فوجیںداخل کر دی ہیں۔ پھر بحث و مباحثہ ہوا اور 13 اگست 1948ء کو ایک قرارداد پاس ہوئی جس میں ایک کمیشن کا بھی تعین کیا گیا جس کا واضح اور صاف مقصد کشمیری قوم کو حق خودارادیت دینا تھا۔
    قراردادیں آئیں… پیش ہوئی، منظور ہوئیں، ان کے اس حصے پر تو عملدرآمد ہوا کہ جو پاکستان سے متعلق تھا کہ وہ مزید پیش قدمی نہیں کرے گا اور اپنے قبائلی اور عوامی لشکر واپس بلائے گا لیکن ان قراردادوں کے اس حصے پر آج تک عمل نہیں ہو سکا کہ جو بھارت کے حصے یا کھاتے میں نہیں بلکہ دونوں کے مشترکہ حصے میں آتے تھے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ اقوام متحدہ کے اس پلیٹ فارم کہ جہاں سے قراردادیں منظور کروا کر امریکہ نے 1991ء میں عراق پر حملہ کیا۔ عرب ممالک میں فوجیں داخل کیں۔ پھر افغانستان اور عراق کو دوبارہ روندا، لاکھوں مسلمانوں کو شہید کیا… کہ اس کے پاس قانونی جواز موجود ہے لیکن یہ قانونی جواز کشمیری قوم کو مہیا نہ ہو سکا…؟ آخر کیوں…؟ ہمیں اس سارے معاملے کا مکمل اور کھلے انداز میں جائزہ لینا چاہئے کہ غلطی کہاں اور کیسے ہوئی…؟ یہ دنیا کی بڑی حقیقت ہے کہ مسئلہ کشمیر جس قدر صاف اور حقیقی مسئلہ تھا، اتنا آج تک اقوام متحدہ کے فورم پر کوئی مسئلہ نہیں آیا۔ معاملہ بالکل سیدھا سادہ طے شدہ حق اور تسلیم شدہ تھا کہ کشمیری قوم کو حق خودارادیت دیا جائے… لیکن ظاہر ہے کہ مقدمہ لڑنے کے لئے وکیل کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ پاکستان کشمیر کا وکیل ہی نہیں حقدار بھی تھا کیونکہ کشمیر ہر لحاظ سے اس کا ہی حصہ بنتا تھا۔ جغرافیائی و فطری لحاظ سے ہی نہیں بلکہ مذہبی بنیاد پر بھی… اور وہی کشمیری قوم کا، کل بھی فیصلہ تھا… اور آج بھی ہے… کشمیری قوم نے تو پاکستان سے ملنے اور بھارت سے آزادی کی خاطر گزشتہ 65 سال میں وہ قربانیاں پیش کر دی ہیں کہ ان کے سامنے دور حاضر کی تاریخ ہیچ ہے۔ ایک لاکھ کشمیری شہید ہوئے۔ 12 ہزار آج بھی لاپتہ ہیں۔ 10 لاکھ فورسز اس وقت بھی کشمیری قوم کو دبانے کے لئے بندوقیں تانے کشمیریوں کے سر پر کھڑی ہیں لیکن تحریک آزادی پھر بھی جاری ہے لیکن دوسری طرف کشمیر کے اس حقدار وکیل کے سبھی حکمرانوں نے خطہ کشمیر اور کشمیری قوم سے وہ بے وفائی اور بے اعتنائی برتی کہ جس کی تاریخ بھی شرمناک ہے۔ کسی پاکستانی حکومت نے کشمیر کے مسئلے کو بین الاقوامی فورمز پر اٹھانے اور حل کرانے کے لئے کردار ادا نہیں کیا۔ کتنا افسوس ہے کہ ہر پاکستانی حکومت نے او آئی سی کے فورم کو بھی کشمیر کے معاملہ پر صرف ’’دعائے خیر‘‘ کے لئے استعمال کیا۔ اس وقت پاکستان کے پاس ایک ماہ کے لئے سلامتی کونسل کی صدارت اور 2 سال کے لئے رکنیت بھی ہے۔ لیکن حرام ہو کہ پاکستانی مندوب یا عہدیدار کشمیر کے معاملہ پر کوئی لابنگ کر کے مسئلہ حل کرانے کے لئے دبائو ڈلوائے۔ اس وقت فلسطین کا معاملہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ امریکہ اور سارا یورپ اسرائیل کا پشت پناہ ہے۔ امریکہ اسرائیل کے خلاف ہر قرارداد ویٹو کرتا ہے لیکن عربوں کی مسلسل محنت و کوشش و کاوش کا نتیجہ ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کے سامنے بے بس ہے اور گزشتہ دنوں فلسطین کو اقوام متحدہ کی اعزازی رکنیت تک دیدی گئی، حالت یہاں تک پہنچی کہ شیخ خالد مشعل نے 45 سال بعد غزہ کا دورہ بھی کر لیا۔
    دوسری طرف ہمارے ہاں پوزیشن یہ رہی کہ حکومت پاکستان کے سفارتکاروں اور عہدیداروں نے بیرون ملک سوائے جائیدادیں بنانے، عیش و عشرت کی زندگی بسر کرنے اور اس ملک کی شہریت کے حصول کی کوششوں کے علاوہ کچھ نہ کیا۔ ہماری عوام نے تو کشمیریوں کے لئے سب کچھ قربان کیا لیکن جنہوں نے ساری تحریک آگے بڑھانی و چلانی تھی۔ وہ تو لگتا ہے کہ اب تک پاکستان کے دوست و وفادار نہیں بلکہ اس کے دشمنی اور اپنے پیٹ کے پجاری ہیں۔ اگر پاکستان جیسے دنیا کے مضبوط و موثر ملک کے حکمران اور ارباب اقتدار و اختیار 10فیصد بھی کشمیر سے مخلص ہو جاتے تو یہ آزاد ہو چکا ہوتا۔ آج نہ سرحدوں پر ہمارے فوجی شہید ہوتے نہ بھارت ہمارے پانیوں پر قبضہ کرتا اور نہ ہمیں تجارت کے جھانسے میں لا کر ہمارے اوپر معاشی یلغار کرتا۔ یہی وہ بنیادی مسئلہ ہے، اللہ کرے کبھی نہ کبھی ہمارے بااختیار لوگوں کو سمجھ آ جائے اور ہم ملک کو باعزت و فلاحی ریاست بنا سکیں۔

    بشکریہ ۔۔۔ ہفت روزہ جرار
    والسلام علی اوڈ راجپوت
    ali oadrajput
     

اس صفحے کو مشتہر کریں