1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کرسیاں ہی کافی ہیں

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از ملک بلال, ‏22 دسمبر 2011۔

  1. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
  2. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کرسیاں ہی کافی ہیں

    بہت کاٹ دار و تلخ ہے
     
  3. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کرسیاں ہی کافی ہیں

    بہت خوب ۔۔۔شکریہ شئیرنگ کے لیے۔۔
     
  4. محمداکرم
    آف لائن

    محمداکرم ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مئی 2011
    پیغامات:
    575
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کرسیاں ہی کافی ہیں

    اسی واقعے کے بارے میں ایک اور دلچسپ تبصرہ پڑھنے کو ملا ہے ، میں نے سوچا کہ یہاں بھی شیئر کردوں:

    کرسی چور کی کہانی

    سچ بتاؤ کیا کرنے آئے تھے۔
    ہمیں بتانے کہ حالات بہت خراب ہیں
    ہمیں بتانے؟
    نہیں سچ بتاؤ۔
    کرسی لینے۔
    ووٹ مانگنے؟
    تاکہ انقلاب لاسکیں؟
    خیر ووٹ تو آپ کو دے ہی دیں گے۔
    یہ قصوری صاحب کو دیا آپکو دیا۔
    ایک ہی بات ہے۔
    پہلے بھی انکو دیا تھا
    انقلاب تو نہیں آیا
    بجلی بھی چلی گئی
    لیکن آپ خان صاحب ہیں
    کپتان صاحب ہیں
    آپ سے کیا گلہ کرنا۔
    ابھی تو الیکشن میں وقت ہے
    پہلے آپ الیکشن جیتیں گے
    پھر حکومت میں آئیں گے
    پھر بتائیں گے کہ آوے کا آوے ہی بگڑا ہوا ہے
    بابو میری بات نہیں سنتے
    فوجی آنکھیں دکھاتے ہیں
    پھر آپکو پتہ چلے گا
    ملکی سلامتی خطرے میں ہے
    اسلام خطرے میں ہے
    ہو سکتا ہے آپکی کرسی بھی خطرے میں پڑ جائے
    پھر ہمارے پاس آئیں گے
    وہی راگ گائیں گے
    پھر پچیس ہزار کرسیاں لگوائیں گے
    اتنا انتظار کون کرے
    ابھی اپنا اپنا حصہ بانٹ لیتے ہیں
    لکڑی کے ان ڈنڈوں سے
    ایک دن تو گھر کا چولہا جل ہی جائے گا
    اس بینر کی رضائی بنا لیں گے
    کیا فرمایا؟
    یہ چوری ہے؟
    خان صاحب آپ قصور میں ہیں
    بابا بلھے شاہ کا نام تو سنا ہوگا
    آپ نے فرمایا تھا
    کیا کہا بلھے شاہ کو نہیں پڑھا؟
    گانا تو سنا ہوگا
    علی عظمت سے پوچھ لیجئیے گا
    ویسے اس نے یہ گانا نہیں گایا
    لیکن سنا ہوگا
    بابا جی نے فرمایا
    چوری کر
    بھن جھگا رب دا
    جی جھگا، جھگی سے تھوڑا بڑا ہوتا ہے
    اب ہمارے رب تو ہوئے قصوری صاحب
    ان کا جھگا تو بہت ہی بڑا ہے
    باہر بندوقوں والے گارڈ بھی کھڑے ہوتے ہیں
    چوری کریں تو کیسے کریں
    لیکن بابا بلھے شاہ کا حکم تو ماننا ہے
    یہ پلاسٹک کی کرسی ہی سہی
    کیا کہا؟ کرسی کا کیا کروگے؟
    پتہ نہیں جی، کرنا کیا ہے۔
    ہمارے بچے بھی چار دن کرسی کرسی کھیل لیں گے۔
    آپ دل چھوٹا نہ کریں ۔ بس یہ سمجھیں
    جو کرسی ہمارے مقدر کی تھی ہمیں مل گئی۔
    جو آپکے مقدر میں ہوگی، آپکو مل جائے گی۔
     
  5. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کرسیاں ہی کافی ہیں

    واہ محمد اکرم جی! آپ نے تو سونے پہ سہاگے والا کام کر دکھایا۔
     
  6. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کرسیاں ہی کافی ہیں

    چلو۔۔۔۔صرف لیڈر کچھ نہ کچھ کرتے رہتے تھے۔۔۔۔اب کہ عوام نے بھی دکھایا کہ کرسی ہم چھین سکتے ہیں۔۔۔۔بس انداز اپنا اپنا۔۔۔۔۔۔۔کچھ حوصلہ تو دیکھنے کو ملا۔۔۔۔ورنہ سارے لیڈر پیر بنے ہوتے ہیں۔۔۔۔۔اور عوام مرید۔
     
  7. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کرسیاں ہی کافی ہیں

    یہ لمحہ فکریہ ہے ، ہم لوگ جو ایک جلسے میں موجود کرسیوں کی لوٹ مار کر سکتے ہیں ، اور اس چھینا جھپٹی میں‌ ایک دوسرے کا لہو بہانے کو تیار ہو جاتے ہیں ، اگر ہم لوگ نظام کی تبدیلی کے نعرہ سن کر باہر نکلے گے تو ! ۔ ۔ ۔ تو ہم کیا کچھ نہ کریں گے ، تب ہمیں روکنے والا کون ہو گا ، اس ملک کی سڑکیں اور بازار آگ دھویں اور لہو بھر جائینگے ، یہ لمحہ فکریہ ہے ، ان کے لیے جو کہتے ہین کہ گھروں‌سے نکلو اور سب کچھ تبدیل کر دو ، یہ ہے وہ فساد جس کا میں اپنے کئی تبصروں میں ذکر کر چکا ہوں‌ ، سیاست تو ہوتی رہے گی ، عمران نہ سہی کوئی اور سہی ، حکومت کسی نہ کسی کو تو چلانی ہے ، مگر اس اخلاقی پستی کا علاج کیے بغیر تبدیلی کی بات ۔ ۔ ۔ یقینا رسی کہیں‌سے ہلائی گئی ہے ۔
     
  8. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کرسیاں ہی کافی ہیں

    اخلاقی پستی کی یہ ایک چھوٹی سی جھلک ہے۔۔۔۔ورنہ اگر پورے پاکستان میں کبھی گھومنے کا اتفاق ہو۔۔۔۔۔۔۔۔تو کبھی کبھی بہت ترس بھی آتا ہے۔۔۔۔۔۔لیکن کہ وسائل کی تقسیم کس قدر غلط ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس لیے اس طرح کے رویے اخلاقی اقدار سے زیادہ وہ رد عمل ہے جو ہم نے اپنے معاشرے میں ایک دوسرے کے ساتھ رکھا ہوا ہے۔۔۔۔اور اسے روا سمجھتے ہوئے مزید ایمان کے درجے چڑھے جارہے ہیں۔۔۔۔۔ہمیں معاشرتی ناہمواری کو مد نظر رکھنا چاہیے۔۔۔۔۔بند گلی میں‌بلی بھی لڑنے پہ آجاتی ہے۔۔۔۔اس لیے میرا خیال ہے کہ پیشتر اس کے معاشرتی ناہمواریاں۔۔۔۔سب زمہ دار ہیں۔۔۔۔اپنے اپنے حد تک۔۔۔۔۔جب تک خود کو شامل نہیں کریں گے۔۔۔گنتی مکمل نہیں ہوگی۔۔۔اس لیے خود کو شامل کرتے ہوئے اپنی سعی جاری رکھیں۔۔۔۔اندھیرے زیادہ ہونے کے باوجود بہت ہی کم روشنی سے شکست کھا جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔مگر ہماری چنگاریاں ابھی تک دبی ہوئی ہیں۔۔۔۔۔۔۔پتا نہیں کب بیدار ہونگے۔۔۔۔۔لڑنے کے لیے نہیں۔۔۔ردعمل یا سو کالڈ انقلاب یا فساد کے لیے نہیں۔۔۔۔بس اپنے آپ سے بہتری کا آغاز کرنے کے لیے۔۔۔۔امید بہار ہے۔
     
  9. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کرسیاں ہی کافی ہیں

    یہ ایک بہترین بات ہے ، امید جگائے رکھیں ، اور خود سے ابتداء کریں ۔​
     
  10. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کرسیاں ہی کافی ہیں

    ہر انسان صرف خود کو پاکستان سمجھ کر ہی سدھر جائے تو کسی کو کہنا بھی نہیں پڑے گا۔۔اور پاکستان سدھر جائے گا۔۔۔۔لیکن یہ صرف احساس کی بات ہے۔۔۔۔میں خود جو پاکستان کی آبادی کا انیس کروڑواں حصہ ہوں اپنے آپ کو ٹھیک کر لوں تو ہی کچھ بات بنے گی آغاز اپنے آپ سے اپنے گھر سے کرنا ہو گا ۔۔۔۔
     
  11. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    جواب: کرسیاں ہی کافی ہیں

    کچھ ایسا ہی سلوک ن لیگ کے ساتھ بھی ہوا ہے
     
  12. محمداکرم
    آف لائن

    محمداکرم ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مئی 2011
    پیغامات:
    575
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کرسیاں ہی کافی ہیں

    آصف بھائی ، ادب سے گزارش کروں گا کہ یہی تو فرق ہوتا ہے "ہجوم" میں اور انقلابی تنظیم" میں ۔ جب بغیر کسی فکری و نظریاتی تربیت کے ، صرف کسی وقتی صورتحال کے تحت لوگوں کا ہجوم جمع ہوجائے تو پھر ایسا ہی ہوتا ہے ، جیسا کہ دیکھنے میں آیا ۔ یہ واقعہ نہ صرف تحریک انصاف کے چاہنے والوں کو بلکہ ہم سب پاکستانیوں کو بھی بہت کچھ دعوتِ فکر دے گیا ہے ۔

    انقلاب کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہوتا ، بلکہ اسکے لئے بہت ہی گہری منصوبہ بندی اور طویل جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے ، مگر ان سب باتوں سے پہلے کارکنوں کی فکری و نظریاتی تربیت اس ساری جدوجہد کی کامیابی کیلئے بنیادی حیثیت رکھتی ہے ، ورنہ انقلاب رستے میں ہی دم توڑدیتا ہے۔ اسی لئے صرف انقلاب نہیں بلکہ مصطفوی انقلاب ہمارا نصب العین ہے ، جسکی ساری جدوجہد لوگوں کو اخلاقِ حسنہ سے آراستہ کرنے سے عبارت ہو ، نہ صرف خالق سے بلکہ مخلوق سے بھی بہترین اخلاق کے ساتھ پیش آنے کیلئے عوام الناس کو تیار کیا جائے، نہ کسی کا حق مارا جائے ، نہ کسی کا خون بہایا جائے ، بلکہ اسکی جدوجہد معاشرے کیلئے امن و سلامتی اور خیروفلاح کا واضح پیغام نظر آئے ۔

    اس جدوجہد کے مختلف مراحل ہوتے ہیں ، جن سے گزرے بغیر حقیقی تبدیلی کا خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں کیا جاسکتا ، وہ یہ ہیں:
    1۔ دعوت
    2۔ تنظیم
    3۔ تربیت
    4۔ تحریک
    5۔ انقلاب

    جو بھی جماعت کسی مثبت اور مبنی برخیر حقیقی تبدیلی کی خواہاں ہو ، وہ کبھی بھی کسی بھی حال میں ان پانچ مراحل کے جملہ تقاضوں کو پورا کئے بغیر کامیابی حاصل نہیں کرسکتی ۔

    آئیے ، اب اس تناظر میں تحریک منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں کا جائزہ لیں تو اپنے کیا پرائے بھی ان حقائق کو تسلیم کرتے ہیں کہ :
    1۔ منہاج القرآن نے ایک مسلسل عمل کے ذریعے کارکنوں کی فکری و نظریاتی اور اخلاقی وروحانی تربیت کو ہمیشہ مقدم رکھا ہے۔
    2۔ منہاج القرآن کے کارکنوں کا ڈسپلن مثالی ہے ۔
    3۔ منہاج القرآن کی گزشتہ پوری تاریخ گواہ ہے کہ جلسے ، جلوس ، احتجاجی تحریک ، غرض کوئی بھی ایونٹ ہو ، اسکی ساری جدوجہد ہمیشہ مکمل طور پر پرامن رہی ہے، جسمیں ہرقسم کی منفی سرگرمی [گالی گلوچ ، افراتفری ، تشدد ، توڑ پھوڑ ، جلاؤ گھیراؤ وغیرہ ]سے کلیتاً اجتناب کیا گیا ہے ۔

    اسلئے غیر جانبدار مبصرین کہتے ہیں کہ پاکستانی قوم کو احتجاج کا انداز سیکھنا ہے تو منہاج القرآن سے سیکھے، سنیں ذرا :
    http://www.youtube.com/watch?v=KBd4a_obnWU

    اب آپ منہاج القرآن کے بارے میں پہلے سے بنے ہوئے تصور والی عینک کو تھوڑی دیر ایک طرف رکھ کر مجھے بتائیں کہ منہاج القرآن کے کارکن مثالی ڈسپلن کے اس بلند معیار پر بغیر کسی ٹھوس نظامِ تربیت کے پہنچ گئے ہیں ؟ یقیناً اس کا جواب نفی میں ہے ، کیونکہ تربیت کے بغیر تو ایسا سوچا بھی نہیں جاسکتا ۔

    اب آتے ہیں آپکے اس خدشے کی طرف کہ اگر لوگ نظام کی تبدیلی کے نعرے پر گھروں سے نکل آئے ، تو بہت فساد ہوگا ۔ ۔ ۔ وغیرہ
    تو میں یہ عرض کروں گا کہ منہاج القرآن کے تربیت یافتہ کارکن تو ان شاءاللہ ایسا سوچ بھی نہیں سکتے کہ انکی تو بنیادی تربیت ہی اسی بات پر ہوئی ہے ، اب رہ گئے وہ عوام الناس جو اس تحریک کا ساتھ دینے کیلئے نئے نئے شامل ہونگے ، انکی کیا ضمانت ہے؟ تو جواب دوجمع دو چار کی طرح بالکل سیدھا ہے کہ اگر وہ ایسی تحریک میں شامل ہوں ، جسکے پاس اپنا کوئی نظامِ تربیت ہی نہ ہو تو وہاں تو واقعی کوئی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی ، مگر جب عوام الناس ایک ایسی تحریک کے ساتھ کھڑے ہوں جسکے پاس ایک بہت ہی ٹھوس نظامِ تربیت مسلسل جاری ہو ، تو پھر نئے شامل ہوئے لوگ بھی اسی رنگ میں رنگے جاتے ہیں اورخود بخود اسی مزاج کے حامل ہونے لگ جاتے ہیں ۔

    اسکی تازہ مثال آپکے سامنے ہے لیاقت باغ میں ہونے والے تاریخی اجتماع میں شریک لوگوں کا ڈسپلن مثالی رہا ، حتیٰ کہ جب کچھ شرپسند لوگوں نے خواہ مخواہ کی نعرے بازی کے ذریعے گڑبڑ کی کوشش کی تو منہاج القرآن کے کارکنوں نے فوری ان پر قابو پالیا مگر قانون کو خود ہاتھ میں لینے کی بجائے ، ان مٹھی بھر شرپسندوں کو پولیس کے حوالے کردیا۔

    اسلئے آصف بھائی ، آپکے بیان کردہ خدشات میں کوئی وزن نظرآتا ۔ میں پھر یہ بات زور دے کر کہنا چاہتا ہوں کہ اصل مسئلہ یہی ہے دودھ کا جلا چھاچھ کو بھی پھونک کر پیتا ہے کے مصداق ، باربار لٹنے کے بعد اب مخلص اور حقیقی محب وطن قیادت کی پہچان کرنے میں قوم کو ذرا دیر لگ رہی ہے ۔ یوں سمجھیں ، بس جس لمحے کھرے کھوٹے کی پہچان ہوگئی ، تو ان شاءاللہ آپ دیکھیں گے کہ یہی بے ہنگم عوام کا ہجوم ہر طرف سے مایوس ہوکر بالآخر تحریک منہاج القرآن کا رُخ کرے گا اور تسبیح کے دانوں کی طرح ایک لڑی میں پرویا ہوا نظر آئے گا ، پھر دنیا دیکھے گی کہ حقیقی تبدیلی محض خواب نہیں بلکہ ایک حقیقت ثابتہ نظر آئے گی ، ان شاءاللہ عزوجل۔
    اللہ تعالیٰ ہمیں وہ دن دیکھنا جلد نصیب کرے ، آمین !

    آخر میں اتنی گزارش کروں گا کہ ڈور ہلانے کی بے بنیاد بات کرکے خواہ مخواہ اپنا امیج خراب مت کریں ، کیونکہ ایک پیارے دوست کی حیثیت سے آپکی ابھی بھی بہت عزت کرتے ہیں۔ بھلا کامن سینس سے ہی کام لیکر سوچیں کہ جس کی ڈور کہیں اور سے ہل رہی ہو ، وہ اس طرح اپنے آپ کو پارلیمنٹ سے بالکل باہر نہیں کرلیتا ، بلکہ ہرقیمت پر اقتدار میں رہنے کوہی ترجیح دیتا ہے ۔ ذرا اسے بھی سنیں:

    http://www.youtube.com/watch?v=H142WfEfF4k

    اب ایجنسیاں آج کل کس کی ڈور ہلا رہی ہیں ، یہ بات تو کوئی راز نہیں رہی ، بلکہ اسکو تو آپ خود بھی سمجھ رہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو شعور دے۔ آمین۔
     
  13. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کرسیاں ہی کافی ہیں

    آپ دوستوں کی گفتگو سے کافی سیاسی بصیرت حاصل ہو رہی ہے۔:n_TYTYTY:
     
  14. محمداکرم
    آف لائن

    محمداکرم ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مئی 2011
    پیغامات:
    575
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کرسیاں ہی کافی ہیں

    بلال بھائی ، شکریہ ۔ اسی بارے میں کچھ مزید تازہ بتازہ ، ملاحظہ فرمائیے :

    کپتان عمران خان اور انکا سونامی
    تحریک انصاف میں نئے شامل ہونے والے اکثر وبیشتر وہی لوگ ہیں جو تقریباً ہر برسر اقتدار پارٹی میں شامل ہوکر وزیر ہی بنتے رہے ہیں ۔ اس سے پہلے انکے والد ، چچا ، تایا اور دادا وغیرہ بھی وزیر ہی بنتے تھے ، یعنی جنکا آبائی پیشہ ہی حکمرانی ہے۔

    جس تیزی سے یہ جدی پشتی ، پیشہ ور اور پرانےتجربہ کار سیاسی کھلاڑی مختلف پارٹیوں سے نکل نکل کر تحریک انصاف میں آرہے ہیں ، اسکی رفتار دیکھ کر اب تو کافی حد تک یقین ہوچلا ہے کہ یہ سب کچھ غیرفطری اور مصنوعی ہے ، یعنی ان سب کے پیچھے اصل خفیہ قوتِ محرکہ کہیں اور ہے ، جسے کئی دانشور آئی ایس آئی سے تعبیر کرتے ہیں اور کئی لوگ تو یہاں تک کہنے لگے ہیں کہ راولپنڈی کی ڈرائی کلیننگ فیکٹری سے دُھل دُھلا کر پرانے مہروں کو ایک چھتری تلے جمع کیا جارہا ہے۔

    اب قطع نظر اس بات کے کہ اس تاثر میں سچ کتنا ہے اور جھوٹ کتنا ، مگر عمران خان کے اپنے کچھ بیانات اس صورتحال میں عوام کیلئے تشویش کا باعث ہیں ۔ عمران خان صاحب نے اپنے ایک تازہ بیان میں کہا ہے کہ "پاکستان میں فرشتے نہیں رہتے ، معیار سخت رکھا تو پارٹی نہیں بناسکوں گا " جبکہ کچھ ہی دن پہلے انہوں نے کہا تھا کہ "پرانے سیاستدان شامل ضرور ہورہے ہیں مگر ضروری نہیں کہ انکو الیکش لڑنے کیلئے ٹکٹ یا کوئی اہم پارٹی عہدہ بھی دیا جائے ، اس کیلئے ان سب کی سکروٹنی کی جائیگی "۔ ان بیانات سے عوام کے ان خدشات کو تقویت مل رہی ہے کہ ہو نہ ہو ، پرانے مہروں کا اچانک مختلف پارٹیوں سے نکل نکل کر ایک چھتری تلے جمع ہوجانا صرف نظریات کی بنیاد پر نہیں ، بلکہ اقتدار کے لالچ کی بنیاد پر ہے ۔ یہ خدشات کس حد تک درست ثابت ہوتے ہیں ، اسکا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کریگا ۔

    ایک اور خدشہ جو مختلف لوگوں کی جانب سے پیش کیا جارہا ہے ، یہ ہےکہ پرانے کھلاڑیوں کے اس ہجوم میں کپتان عمران خان کا سونامی ، کہیں خود اُن کو ہی نہ لے ڈوبے ، یعنی انکا حال بھی وہی نہ ہو جو پچھلی بار ، مشرف دور میں ، قاف لیگ کے ہاتھوں میاں اظہر کا ہوا تھا !!!

    بہرحال ، پرانے سیاسی کھلاڑی سکروٹنی کی چھلنی میں پھنستے ہیں یا جُل دیکر صاف نکل جاتے ہیں ، تھوڑے ہی عرصہ میں واضح ہوجائیگا،
    آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا
     
  15. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کرسیاں ہی کافی ہیں

    میں کبھی تلقید میں اس حد تک نہیں جاتا کہ سامنے صرف اندھیرہ ہی رہ جائے ، اختلافات ہوتے رہتے ہیں ، اور اس کے لیے دلائل سب سے بہترین ہیں ، اور دلائل محض بحث برائے بحث کے لیے نہیں بلکہ اپنی اصلاح کے لیے ہونے چاہیے ، اور اپنی غلطی تسلیم کرنے اور اس سے رجوع کرنے کا حوصلہ بھی ہونا چاہیے ، جو شاید مجھ مین ہے ، میں کبھی اندھی تلقید کا حامی نہیں رہا مین نے ہمیشہ وآپسی کا ایک در کھلا رکھا ہے ، تحریک انصاف سے میری وابستگی بھی اس معیار کے مطابق ہی ہے ، مین عمران خان کو ایک عام انسان ہی سمجھتا ہوں ، ایک ایسا انسان جس سے غلطیاں بھی ہوتی ہیں اور جو اچھے کام بھی کرتا ہے ، مگر ایک بات پر میں یکسو ہوں کہ عمران خان کی نیت صاف ہے ، جس دن مجھے اس پر ذرہ برابر بھی شک ہوا ، میری وآپسی کا دروازہ اس دن میرے کام آئے گا ۔
    وہ سب باتیں خدشات جو اپ نے اوپر بیان کئے ہیں میرے پاس ان سب کے تفصیلی جوابات دلائل کے ساتھ موجود ہیں مگر جہاں دلائل کے بجائے بات کسی اور سمت چلی جائے وہاں خاموشی بہتر ہے ۔
    میں بہر حال سیاست کو کبھی ذاتی تعلقات پر حاوی نہیں ہونے دیتا ، جہاں مجھے خدشہ ہو کہ میری سیاسی وابستگی کے سبب دوستوں کے بیچ باہمی پیار اور خلوص کم ہو جائے گا تو میں وہاں خاموشی اختیار کر لیتا ہوں ۔
     
  16. محمداکرم
    آف لائن

    محمداکرم ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مئی 2011
    پیغامات:
    575
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:

اس صفحے کو مشتہر کریں