1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کراچی کا سرینڈر۔۔تاریخ کا ایک صفحہ

Discussion in 'متفرقات' started by احتشام محمود صدیقی, Jun 22, 2013.

  1. احتشام محمود صدیقی
    Offline

    احتشام محمود صدیقی مشیر

    Joined:
    Apr 1, 2011
    Messages:
    4,538
    Likes Received:
    2,739
    ملک کا جھنڈا:
    کراچی کا سرینڈر

    Saturday 22 June 2013
    رافعہ ذکریہ
    [​IMG]
    فائل فوٹو –.
    فروری 1843 کا ابھی آدھا مہینہ ہی گزرا تھا- کراچی میں کافی تناؤ تھا- صدر میں بازار خاموش اور دکانیں بند تھیں-
    تالپور اور برٹش کے درمیان میانی کی جنگ کہیں اور لڑی جا رہی تھی- حیدرآباد،ا جو اس وقت بہت اھم شہر تھا، چھپا ہوا اور بہتر قلعہ بند شہر- کراچی میں بے چینی کسی اور قسم کی تھی-​
    یہاں پر جنگ و جدل کا فوری خطرہ نہ تھا، کھمبوں پر لٹکی لاشیں نہ تھیں نا ہی بارودی توپین، لیکن اس کے بجاۓ ایک نا معلوم بے اطمینانی کی بازگشت صرف مضافاتی مقامات پر محسوس کی جا رہی تھی-​
    اس فروری کو جب نومل ہوتچند، کراچی کا رہائشی اور سوداگر، جب یہ شہر نہیں بنا تھا، تو شہر کی مشکوک سڑکوں سے گزرتے ہوے اس نے، اس کی ابلتی ہوئی دھڑکنوں کو محسوس کیا-​
    یہ خاموشی، برٹش کے خلاف جوابی حملے کی ایک افواہ کی وجہ سے تھی- کراچی میں برٹش فوجیوں کا ایک بڑا کیمپ موجود تھا، اور سندھ کے حکمران نے میانی کے محاظ پر شکست کھانے کے بعد اپنے اتحادیوں سے مدد کے لئے کہا تھا-​
    ان کے آنے کی افواہیں پھیلی ہوئی تھیں اور ممکن تھا کے کراچی میں موجود کیمپ پر بے خبری میں حملہ کیا جاۓ- شہر کے لوگ سوداگر، مچھیرے، بیوپاری اور ہنر مند اس بات سے خوفزدہ تھے کہ وہ اسکی لپیٹ میں آجائیں گے-​
    جیسا کہ سمندر کنارے آباد شہروں کے باسی اکثر کرتے ہیں، وہ لوگ بھی اپنا سامان باندھ رہے تھے، تا کہ جنگ اور ساحل سے دور، کشتیوں میں اور بادبانی جہازوں پر رہ کر اس کے ختم ہونے کا انتظار کریں-​
    نومل ہوتچند نے معاملات اپنے ہاتھ میں لئے- وہ ماضی میں، اب تک کے حکمران تالپوروں اور برٹش کے درمیان عداوت کو اپنے فائدے کے لئے استعمال کرتا رہا تھا اور کافی مثبت طریقے سے برٹش کو استعمال کر رہا تھا-​
    جب تالپوروں نے صدر بازار کے دکانداروں کو انگریزوں کو چیزیں بیچنے سے روکنے کی کوشش کی تو ہوتچند نے مداخلت کی، دکانیں کھل گئیں اور صاحب لوگ اور انکی بیگمات نے وہاں سے خریداری کی- اس نے گوروں کا بھروسہ حاصل کر لیا، کیوں کہ اسے اندازہ تھا کے جلد ہی یہ لوگ اس زمین کے حکمران ہونگے-​
    یہ اس کے پچھلے احسانات کا صلہ تھا جو اسے برٹش کیمپ کے اندر لے گیا- مقامی لوگوں کو بیرک کے اندر جانے کی اجازت نہیں تھی- ان کے مکر و فریب کی وجہ سے سفید فام جنگجو انہیں پسند نہیں کرتے تھے جو کراچی میں پھنس جانے کا ماتم کر رہے تھے-​
    اس کے باوجود نومل ہوتچند نے کپتان پریڈی سے ملاقات کی اجازت مانگی- ایک شخص جس کا نام وہ اپنی گزشتہ کاروبار کی وجہ سے جانتا تھا- جب آخر کار اسے اجازت ملی اور جب وہ بولا اور جب اس نے ایک سرے پر کھڑے حملے کی نشان دہی کی تب اسے سنجیدگی سے لیا گیا-​
    ایک اور پریڈی سے کہیں درجہ سینئر برٹش افسر کی تشریف آواری ہوئی، اس حوالے سے کئے جانے والے فیصلے کا بوجھ انہوں نے ہی اٹھانا تھا- دونوں حضرات اپس میں کانا پھوسی کرتے رہے-​
    نئے آنے والے حضرت، پریڈی سے بھی زیادہ ایک مقامی شخص پر بھروسہ کرنے کے قائل نہیں تھے- کراچی کو بچانے کی انتہائی اھم کانفرنس کا انقعاد کپتان پریڈی کے باتھ روم میں ہوا، جو شہر کی سب سے محفوظ جگہ تھی-​
    معلومات کے تبادلے کے ساتھ، کراچی حوالگی کا حتمی منصوبہ برٹش بیرک کے ایک غسل خانے میں تشکیل دیا گیا- نومل ہوتچند کی یاد داشت کے مطابق، برٹش فوجی بازار میں گۓ، جہاں تالپور فوجی تب تک محافظ پوسٹ پر موجود تھے-​
    جب ان غیر منظم چند فوجیوں کا سامنا برٹش سے ہوا تو انہوں نے آسانی کے ساتھ ہتھیار ڈال دیے- اور اس طرح فروری 1843 کی ایک غیر اھم شام کو، ایک ایسی جنگ جو کہیں اور لڑی گئی تھی، اور ایک ایسے مخبر جس نے اپنا مقدمہ ایک غسل خانے میں پیش کیا، کے بعد کراچی برٹش امپائر کا حصّہ بن گیا-​
    الحاق کا اعلان بازاروں میں لگا دیا گیا اور ہوتچند سے جو برطانوی سلطنت کا نیا ہیرو بن گیا تھا بہت سے انعام کا وعدہ کیا گیا- کراچی کے ایک آدمی نے کراچی ہار دیا تھا، اور اس حوالگی کے ساتھ، لوگ سمندر میں موجود کشتیوں سے اور ساحل کے نزدیک موجود پناہ گاہوں سے واپس شہر آنے لگے-​
    اگلی غدّاری، اگلے معاہدے، اگلے حکمرانوں کے لئے، جو ان کے گھروں کی چھتوں پر اپنا جھنڈا لگانے کے لئے بے چین ہونگے-​
    یہ کراچی کی پہلی دستبرداری تھی- لیکن اس کے ابہام اور واقعات کی بازگشت، آنے والی کئی سپردگیوں کے وضح قطع میں سنائی دیگی- شہر کو اپنے لئے خود ہی کھڑا ہونا ضروری ہے-​
    ایک دوسرے کے مدمقابل طاقتین، جو دونوں ہی دور ہیں اور دونوں کو کوئی دلچسپی نہیں ہے، تا کہ اپنے بقا کے لئے راستہ بنا سکے؟​
    کیا ہمیشہ اس شہر کے باسیوں کو کہیں اور لڑی جانے والی جنگ کے خوف کے ساۓ میں جینا ضروری ہے، اور فتح کے دعویدار ایسے لوگ ہیں جو نہ اس سے وابستہ ہیں، جو سرد مہری اورعملی موقع پرستی کے مزے لے رہے ہیں؟​
    اس کی پہلی سپردگی کے ایک سو ستر سال بعد، کراچی کے لوگ ایک بار پھر، ایسے پرانے حکمران جن کو انکی کوئی پروا نہیں اور ایسے ممکنہ نۓ حکمران جو اس سے بھی کم انکی پروا کرتے ہیں، کے درمیان پھنسے ہوے ہیں-
    شہر کے تھکے ماندے مضافات کی جھلستی پگڈنڈیوں میں، ایسے اپارٹمنٹ میں جن کے معماروں نے پنکھے، روشنی کے بغیر طویل گھنٹوں کے بارے میں کچھ نہیں سوچا، پہلی سپردگی کا سوال موجود ہے-​
    کس طرح ایک نظرانداز کیا گیا شہر اپنی اہمیت منواۓ، کس طرح محبّت سے محروم شہر چاہت کی رسومات سے آشنا ہوگا؟ اور کس طرح اپنی کسی کہانی سے محروم شہر اپنی خود کی تاریخ رقم کرے گا؟
    اگلے سرینڈر کی جب باری آۓ گی تو شاید ان سوالات پر غور کیا جاۓ-
    ترجمہ: ناہید اسرار ڈان نیوز
     
    پاکستانی55 likes this.

Share This Page