1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کتے کا مقبرہ (سند ھ کی ایک لوک کہانی)

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از تانیہ, ‏4 دسمبر 2011۔

  1. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جنہوں نے الف لیلیٰ پڑھی ہے انہوں نے یقینا ً “خواجہ سگ پر ست “ کا قصہ پڑھا ہو گا ۔ اور نہیں پڑھی ہے تو مختصرا ً کہانی یہ ہے کہ ایک بہت مالدار شخص تھا جس نے ایک کتا پالا ہوا تھا جو کہ پہلے کبھی وہ صرف کتا تھا دن میں زنجیر سے بندھا رہتا اور رات کو چوکیداری کے لیئے کے لیئے کھولدیا جاتا تھا اور صبح کو دکان کے سامنے پھر باندھ دیتے تھے، مگر اب وہ مسہری پر آرام فر ما تا تھا اور سونے کے برتنوں میں اس کے لیئے کھاناآتا تھا !مگر وہ کھاتااور کتوں کی طر ح خود چپڑ چپڑ کر کے نہیں کھا تھا، بلکہ اس کا مالک جو کہ ً خواجہ سگ پر ست ً (کتے کے پجا ری کے نام سے ) شہر میں پہچانا جا تا تھا وہ اسے اپنے ہاتھ اس سونے کے خوان میں سے پہلے اس پرسے سر پوش ہٹا تا پھرچھوٹے چھوٹے نوالے بنا کر اس کے منہ میں دیتا ۔ جبکہ با ئیں طرف اس کی دکان میں ہی ایک قدِ آدم پنجرہ رکھا ہوا تھا جس میں کتے کے بجا ئے ایک جیتا جاگتا انسان بند تھا!جو بھی اس کی دکان پر آتا تووہ حیرت سے مجبور ہو کر اس کا سبب پو چھتا ،تو وہ اصل وجہ بتا تا جس سے کتا قابل ِ پرستش قرار پایا اور انسان نے خود کو پنجرے میں قید کر نے کے قابل بنایا۔
    کہانی تو طویل ہے لیکن وہ ہما رے آج کے عنوان کا مو ضوع نہیں ہے اس لیئے مختصرا ً ہم اس کوپیش کر دیتے ہیں کہ جس نے کتے کی جگہ لیئے تھی وہ اس کا بھا ئی تھااور اس کے مرشد یا بچے کی جگہ جس نے لی وہ کتااس کا محسن تھا ،کہ اس نے اس کی اس وقت جان بچا ئی تھی جبکہ اس کا یہ ہی بھائی اس کی دولت کو ہتھیا نے کے لیئے اس کی جان لینا چا ہتا تھا۔ اس پورے قصہ میں جو سبق ہے وہ یہ ہے کہ انسان اپنے کردار سے بڑا بنتا ہے اور غلط کاری اس کو کتے کے درجہ سے بھی نیچی گرا دیتی ہے۔ اس پر ہم نے آج سے کوئی دس پندرہ سال پہلے ایک غزل کہی تھی جس کا ایک شعر ہم پیش کر رہے ہیں ، جبکہ ہم نے پہلی دفعہ معا شرہ کو تغیر پزیر ہو تے ہوئے محسوس کیا تھا ۔ وہ شعر یہ تھا
    ع “سب کو حالات ہی بنا تے ہیں کو ئی پیدا برا نہیں ہو تا “
    یہ تو تھی کہانی اس مشہورِ زمانہ کتاب کی جس کے بارے میں لوگ اچھی را ئے نہیں رکھتے ہیں اور اگر کو ئی کھینچنا شروع کر دے تو لوگ ازراہ تمسخر کہتے ہیں کہ یہ کیا تم الف لیلیٰ لے بیٹھ گئے؟
    لیکن ہم جو آپ کو سنانے جا رہے ہیں ۔ وہ سندھی تہذیب کے عروج کے زمانے کی کہانی ہے۔ جس کو زیادہ عرصہ نہیں گذرا، جبکہ سندھ اپنے اصولوں اور مہمان نوازی کے لیئے مشہور تھا۔ اسکا ہلکا سا پر تو ہم نے بھی پاکستان آنے کے بعد دیکھا اور لاکھوں مہاجروں سے سنا بھی۔ کہ جو ٹرین ہندوستان کے ریلوے اسٹیشن منا با و سے پاکستان کے پہلے اسٹیشن کھوکرا پار میں داخل ہوتی لوگ کھانالیئے کھڑے ہو تے اور یہ سلسلہ ایک دو دن نہیں بلکہ سالوں چلتا رہا کےوہاں کے مقامی باشندے ہر اسٹیشن پر کھڑے رہتے تھے۔ کیونکہ مغربی پا کستان کی سر حد تو سر کاری تبا دلہ آبادی کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم جناب لیا قت خان مرحوم نے بند کر دی تھی ۔جس کی سرکاری وجہ تو یہ تھی کہ وہ غیر محفوظ ہوگئی تھی ،جو کہ حقیقت بھی تھی مگردرون ِ سینہ وجہ یہ تھی کہ پاکستانی پنجاب میں جن کے آبا ئی حلقہ انتخابات تھے وہ متا ثر ہو رہے اور سر کا ری پا رٹی کے وہ ہی ممبر تھے لہذا وہ نہیں چا ہتے کہ لو گ واہگہ وغیرہ سے آئیں اور وہیں ٹھہر جا ئیں اور وہ آئندہ انتخابات میں اپنی ضما نتیں ضبط کرا لیں۔ جبکہ حکومت بھی نہیں چا ہتی کہ وہ اپنے ممبران ِ دستور ساز اسمبلی کو نا راض کرے جن پر کہ حکمرانی کا دارو مدار تھا ۔ پھر خرچہ بھی دہرا ہو تا تھا کہ وہ پہلے پنجاب میں آئیں ، پھر ان کو زبر دستی بھا ول پو ر اور سندھ کی طر ف ڈھکیلا جا ئے ؟ وہ ذرا مشکل کام تھا ، جبکہ یہ آسان تھا کہ بوتل کو بجا ئے پیندی کی طرف سے بھرنے کے منہ کی طرف سے بھرا جا ئے اسی لیئےکھوپرا پار کا راستہ سالوں تک کھلا رہا۔
    پھر مہاجر وں میں احتجاج کی عادت بھی بہت بڑھی ہو ئی تھی ،ایک مرتبہ تو حد کردی کہ سندھ جانے والی سپیشل ٹریں میں بیٹھنے سے انکار کردیا ؟حکومت کو مجبورا ً انہیں ٹرین میں بٹھا نے کے لیئے ملتان مہاجر کیمپ پرگولی چلا نا پڑی ۔ جبکہ سندھی خوش آمدید کہہ رہے تھے ۔ جیسے کہ بنگالی کہہ رہے تھے ؟ کیونکہ دونوں کے مسا ئل ایک جیسے تھے۔ ان کا مسئلہ بھی یہ تھا کہ وہ ١٩٠٥میں مشرقی بنگا ل حاصل کر چکے تھے جس میں مسلم اکثریت تھی ،لہذا نظریہ ضرورت کے تحت انہوں نے ہی مسلم لیگ بنائی ، کیونکہ انہیں اکثریت کے دباو کے توڑ کے لیئے مسلم تنظیم کی چا ہیئے تھی۔ لیکن انگریزوں نے اکثریت کے دبا و میں آکر ١٩١١ وہ تقسیم ختم کر دی۔ جبکہ انہوں نے اپنی تحریک جاری رکھی جو پاکستان بننے تک جا ری رہی ؟
    سندھ کا مقدمہ یہ تھا کہ یہ بھی اکثریت کے استحصال سے پریشان ہو کر بمبئی سے علا حدہ ہو ئے تھے، لہذا دونوں چا ہتے تھے کہ ہما رے مسلمان بھا ئی آئیں اور ہما ری مدد کر یں ۔ جی ایم سید مرحوم اس وقت سندھ مسلم لیگ کے صدر اور سندھ کے لیڈر تھے ۔لہذا انہوں نے ہندوستان کے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ آئیں اور ان کے ترقیاتی کاموں میں ان کی مدد کریں ؟ ادھر ہندو ستان میں پاکستان کے مطالبے کی بنا پر فسادات ہو رہے تھے ۔لہذا انہوں نے فساد زدہ علا قے کے لوگو ں کو دعوت دی اور بہا ر کا لونی سن ١٩٤٦میں پاکستا ن بنے سے پہلے ہی بہار کاکونی بنا دی تھی ۔لیکن ان میں خرابی یہ تھی کہ وہ درمیانہ طبقہ سے تعلق رکھتے تھے۔ اور سند کے سروں اور خا ن بہادروں نےجب پاکستان بنتے دیکھا تو انہوں نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیا ر کرلی اور مسلم لیگ کےٹکٹ کے لیئے امیدواروں میں شامل ہوگئے۔ جبکہ الیکشن میں جی ایم سید نے اپنے جیسوں کو ٹکٹ دیئے ہو ئے تھے، وہ مرکزی پا لیمانی بورڈ نے اپیل میں زیادہ تر تبدیل کر دیئے ؟ جب جی ایم سید نے احتجاج کیا تو وہ راندہ در گاہ ہو گئے۔
    لیکن مشرقی پاکستاں کی قیادت اور پارٹی شروع سے ہی درمیانہ طبقہ کے ہاتھ میں تھی ،وہاں ہمیشہ درمیانہ طبقہ ہی آیا جو مرکزی قیادت کو تنگ کر تا رہا؟ اور نتیجہ یہ ہوا کہ قراردادِ پاکستان کے پہلے محرک اے کے ایم فضل الحق مرحوم اور سن چھیالیس کی دوسری قرارداد کےمحرک جناب حسین شہید سہروروری غدار قرار پا ئے اور جیل آتے جا تے رہے ۔ جبکہ ان دونوں قرار دادوں کے موید اپنی خدادا صلا حیتوں کی بنا پر جناب چودھری خلیق الزماں مرحوم ناپسندیدہ شخصیت ہی رہے مگر انہیں جیل نہ بھیجا جاسکا۔اس قصے میں سبق یہ ہے کہ ہما ری قوم اپنے محسنوں کو یاد نہیں رکھتی؟ وجہ معقول ہے کہ صدیوں ،با دشاہی کر نے کی وجہ سے ہمارا مزاج شا ہانہ بن گیا ہے لہذا ہم کام کرنے والوں کو نہیں، ہمدردوں کو نہیں، چاپلو سوں کو پسند کر تے ہیں ۔
    اب ہم اصل عنوان کی طرف آتے ہیں تاکہ آپ کو یہ سمجھنے میں آسانی ہو۔ کہ موجودہ حالات کے ہم خود ذمہ دار ہیں ۔ ایک زمانہ تھا کہ سندھ کی خالص اپنی تہذیب تھی جوکہ عرب کی قدیم تہذیب سے جڑی ہو ئی تھی۔ اس وقت یہ عالم تھا کہ جان پہچان ہو یانہ ہو، آپ جس کے بھی دروازے پر چلے جا ئیں ،گھر میں مرد ہو ں یا نہ ہوں؟اگر دروازے پر جاکر صدا لگا دیں کہ میں مسافر ہوں اور بھوکا ہوں؟ تو خاتون ِ خانہ کی ذمہ داری تھی کہ وہ ایک طرف ہو جا ئے اور کہے کہ میں ناشتہ یا کھانا تیا ر کرتی ہوں آپ کھٹ( چارپا ئی) با ہر لے جاکر کسی درخت کے نیچے ڈال لیں اور انتظار کریں ۔ لوگ بڑ ی محبت کر نے والے اور بڑے روادار اور با غیرت تھے۔؟اس وقت سب سے بڑا ہتھیار سندھ میں ً بجھا ً ہوا کر تا تھا؟ یہ دونوں ہاتھوں کی پانچوں انگلیاں دکھانے کا نام تھے۔ جب کو ئی شخص کسی برے کام پرکسی کو “بجھا “دکھا تا اور ساتھ میں لکھ لعنت کہتا تو وہ غیرت سے مر جا تا؟ دوسرا دستور یہ تھا کہ کسی بر ے آدمی کا کوئی نام لیتا تو پہلے وہ ناک اور کانوں کو ہاتھ لگاتا اور پہلے وہ خود توباں تو باں (توبہ، توبہ ) کہتا پھر سبب حا ضرین، تو باں ، توباں کر تے اورناک بھوئیں چڑھا تے ۔اس کی وجہ سے کسی کو کسی کے ساتھ برا ئی کر نے کی ہمت نہیں ہو تی تھی ۔ جبکہ ہر ایک کمزور کی مدد پر آمادہ رہتا۔ اور سب بھا ئیوں کی طرح رہتے تھے؟ جبکہ اب صورت حال یہ ہے کہ اگر کوئی گھر میں آنے کے لیئے ترس کھا کر مسافر کو کہد ے تو آنے والا، اس کے سینے پر کلا شن کوف رکھدیتا ہے اور اس کی ساری مال و متا ع لوٹ لیتا، اور اگر کوئی مزاحمت کرے تو جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے؟
    تو آپ نے دیکھا کہ ما حول نے کیا سے کیا بنا دیا اب ہر ایک دوسرے سے خوف کھاتا ہے کوئی بھی کہیں محفوظ نہیں ہے ۔ یہ سب کچھ کیوں بدلا؟ یہ ہم سب کے سوچنے کی بات ہے میں کچھ نہیں کہونگا؟ کہ اب اسی سرزمین میں لوگ اتنے بدل گئے کہ کو ئی بھی برا ئی پر شر ما تا نہیں آنے والوں کی تو بات چھوڑ ئیے کہ وہ مختلف جگہاہوں سے مختلف کلچر لے کر آئے تھے ۔ اب تو ایک فرزند ِ زمین یہاں تک چلا گیا کہ رشوت ہما را حق ہے۔ ہم نہین لینگے تو کوئی اور لے گا اور +ئندہ الیکشن لڑنے کے لیئے پیسہ کہاںسے آئے گا؟
    اب آئیے کتے کی کہانی کی طرف یہ اس دور بات ہے کہ جب سندھی تہذیب اپنے عروج پر تھی، ان کی دیکھا دیکھی ،جانور تک اس پر عامل تھے۔ ایک شخص کسی مصیبت میں پھنس گیا اس نے کسی مہاجن سے پانچ سوروپیہ ادھار لیا اور ضمانت میں اس کے پاس اس نے اپنا کتاچھوڑ دیا ؟ اس مہاجن کے ہاں ڈاکو آگئے ،کتے نے ان ڈاکووں سے اس کی جان بچا ئی اس نے خوش ہو کر اس کو آزاد کر دیا اور کہا کہ با با ونجھ (جاو)، کتا خوشی سے دوڑتا ہوا جا رہا تھا ابھی وہ شہر سے نکلا ہی تھا۔ کہ سامنے سے مالک، رقم کا بندوبست کر کے اسے چھڑانے آرہا تھا وہ یہ سمجھا کہ یہ بھاگ کر آگیا ہے اور اس نے اسکو “ بجھا “دکھا دیا بیچارا، جانور تھا اچھی نسل کا غیرت سے اس کی حرکت قلب بند ہو گئی ۔پھر مالک اس مہاجن کے پاس پہونچا کہ یہ اپنی رقم لیلو ۔اور معذرت کرنے لگا کہ مجھے پتہ نہیں تھا کہ کتا میرے قول کا پالن نہیں کریگا، بڑا بے غیرت نکلا؟اس نے کہا کہ اس نے تو میری جان بچا ئی تھی اور میں نے اس کے عیوض اس کو آزاد کر دیا تھا کیا تمہارے پاس نہیںپہونچا ؟اس نے اس سے روتے ہو ئے سارا ما جرا بیان کیا اور رقم دینا چاہی تو اس نے لینے سے انکار دیا کہ میں تو معاف کر چکا ہوں ۔ لہذا اس نے اس رقم اس سے کتے کا مقبرہ بنوادیا چونکہ اس زمانے میں اتنی رقم سنڈوچ کی قیمت سے ہزروں گنا زیادہ تھی اس نے اککا مقبرہ بنواکر کتے کو زندہ و جاوید کر دیا۔ اور وہ مقبرہ آج تک “ کتے جو کبو “ کے نام سے مشہور ہے جو کہ سندھ کے ضلع سانگھڑ میں واقع ہے۔ ۔چونکہ عربی میں ( قبہ) گنبد کو کہتے ہیں، لہذا وہ بگڑ کر قبہ سے “ کبو “ہو گیا جبکہ کتا اپنی جگہ رہا ۔ میں اپنا مضمون ان اشعار پر ختم کر تا ہوں۔
    جب تلک غیرت رہی “بجھے “سے مرجاتے تھے لوگ
    جب سے غیرت ہے گئی ڈرتے نہیں مرتے نہیں
    ٹل تو جا ئیں سب بلا ئیں، ہم اگر توبہ کریں
    جس سے راضی ہو خدا ، وہ کام ہم کرتے نہیں


    از......... شمس جیلانی
     
  2. الکرم
    آف لائن

    الکرم ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جون 2011
    پیغامات:
    3,090
    موصول پسندیدگیاں:
    1,180
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کتے کا مقبرہ (سند ھ کی ایک لوک کہانی)

    واہ جی واہ اب تو ساری کسر ہی نکال دی
     

اس صفحے کو مشتہر کریں