1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کبھی تو ہوں گے کم،کروڑوں محنت کشوں کے غم

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏2 مئی 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    کبھی تو ہوں گے کم،کروڑوں محنت کشوں کے غم

    محنت کشوں کا بڑا حصہ زراعت ،ٹریڈ اور ٹرانسپورٹ سیکٹر سے منسلک ہے جہاں سرے سے لیبر قوانین نافذ نہیںمزدوروں میں شوگر کا مرض پھیل رہا ہے، اور شوگر بینائی چھین رہی ہے
    آج دنیا بھر کے محنت کش ’’مزید محنت کر کے ‘‘ اپنا دن منا رہے ہیں ، اس دن کا سوگ منا رہے ہیں جب شکاگو میں 1886ء میںکارپور یٹ سیکٹر کی پولیس نے 8گھنٹے کام کرنے کا مطالبہ کرنے کے جواب میں براہ راست فائرنگ کر کے سڑکیں محنت کشوں کے خون سے سرخ کر دی تھیں۔پولیس کی اندھا دھند فائرنگ سے ایک طویل جدوجہد نے جنم لیا، کارپوریٹ سیکٹر کو بھی آخرکار گھٹنے ٹیکنا پڑ گئے اور 1919 ء میں عالمی ادارہ محنت نے اپنے دستور میں سماجی انصا ف کی اہمیت کو تسلیم کر لیا اور مان لیا کہ اگر سماجی انصاف نہ ملا تو کارپوریٹ سیکٹر بھی نہیں چل سکے گا۔

    بدقسمتی سے دنیا کے اکثر حصوں میں سماجی انصاف کی عمل داری کم ہوتی جا رہی ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیوںکے حوالے سے کہا جا رہاہے کہ انہوں نے ٹریڈ یونینز پر ’’بڑا حملہ‘‘ یا کریک ڈائون کر دیا ہے۔آئی ٹی سے متعلق 12 بڑی کمپنیوں میں چائلڈ لیبر ہے یا نہیں؟ کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ کان کنی کا شعبہ ہو یا فارماسوٹیکل انڈسٹری ، اپنے اداروں میں انہوں نے یونینز کی گردن دبوچ لی ہے ہے اور سرکاری ادارے چپ سادھے بیٹھے ہیں۔

    دنیا بھر میں کم وبیش16.8کروڑ بچے اپنی زندگیاں کام، کام اورکام میں گنوا رہے ہیں، ان میں سے نصف بچے انتہائی بھیانک یعنی کیمیکلز فیکٹریوں وغیرہ سے جڑے ہیںجہاں ان کی صحت اور زندگی کی کوئی ضمانت نہیں۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق سات سات سال کے بچے کان کنی میں زندگیاں گنوا رہے ہیں۔کئی گھنٹے کی شفٹ میں مسلسل کام کرنے کے بعد انہیں1سے 2ڈالر تک ملتے ہیں۔

    محنت کش کتنے سُکھی ہیں؟

    چند ہفتے قبل جمعہ کا دن تھا، شام کے پانچ بج رہے تھے، میں چکن کی ایک دکان پر کھڑا تھا ، اتنے میں ایک بچی آئی،ہاتھ میں شاپر تھامے۔ ایک ٹماٹر اور ایک پیاز اور کچھ ہری مرچیں نظر آرہی تھیں۔’’ایک پائو مرغی دے دو‘‘۔ بچی نے آواز لگائی۔’’ نہیں مل سکتی، میں دکان بند کرنے والا ہوں ‘‘۔ یہ سنتے ہی بچی کا چہرہ اتر گیا ،کہنے لگی ... ’’پیچھے دکانوں پر ختم ہو چکا ہے آپ دے دیں‘‘۔ چکن فروش نے بات دہراتے ہوئے کہا ’’ مجھے پوری مرغی ذبح کرنا پڑے گی ، میں باقی گوشت کہاں لے کر جائوں گا‘‘ ۔

    میں نے پوچھا ....’’کیا بات ہے ؟ ‘‘

    وہ کہنے لگی.....ابو چھت بناتے ہوئے گر گئے ہیں، ڈاکٹر نے سوپ پینے کا کہا ہے‘‘۔

    یکم مئی کا مضمون لکھنا تھا، سوچا کہ میٹرو بس کا سفر کر کے دیکھتا ہوں،کتنے محنت کش اس سے مستفید ہو رہے ہیں،کس حال میں آتے اور جاتے ہیں۔ شملہ پہاڑی سے سپیڈو میں سواری کی۔ایک بھی مزدور دکھائی نہ دیا،کنڈیکٹر کو سو روپے کا نوٹ دیا ، اس نے دس دس کے 8نوٹ لوٹا دیئے۔ پوچھا ،اتنی ریز گاری کیوں، پچاس کا نوٹ کوئی نہیں؟۔اس نے جیب میں ہاتھ مارا اور دس دس کے درجنوں نوٹ دکھاتے ہوئے کہا، ’’صبح سے ایک سواری نے بھی بڑا نوٹ نوٹ نہیں دیا‘‘۔’’اس کا مطلب ہوا کہ لوگوں کے پاس پیسے ختم ہو گئے ہیں۔پانچ پانچ ہزار کے نوٹ خزانوں میں جمع ہیں‘‘۔ میں نے کہا۔

    وہ ہنسا اور کہنے لگا،’’جناب !میٹرو بسیں مزدور کی سواری کہاں ہیں،یہ ان کیلئے عیاشی ہے،وہ تو پیدل ہی کسی چوک پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور رات کو وہیں سو جاتے ہیں، میں چوبرجی کی گرائونڈ میں یہ منظر روزانہ دیکھتا ہوں، سر پر آگ برس رہی ہو یا بجلی کڑک رہی ہو، چوبرجی گرائونڈ کبھی خالی نہیں ہوتی، یہاں مزدوروں کا بسیرا ہوتاہے ‘‘۔ میں بس سے چوبرجی پہنچا۔ کچھ لوگ فرش پر بیٹھے تھے باقی گرائونڈ خالی تھی۔ان سے بات چیت کی ایک آدمی چنیوٹ سے آیا تھا کہنے لگا، ’’ دن بھر مزدوری کے بعد رات کویہیں رہتا ہوں، اب تو سبھی سے جان پہچان ہو گئی ہے بلکہ اگر کوئی مجھے خط لکھے تو وہ بھی یہیں مل جائے گا۔یہ گرائونڈ ہی میری پہچان ہے‘‘۔

    میں نے بتایا کہ حکومتوں نے تو رہائشی سہولتوں کی بھرمار کر دی ہے تم کہاں تھے ؟۔اب بھی لاکھوں مکانات مل رہے ہیں تم یہیں سو رہے ہو؟

    وہ کہنے لگا : جناب !چار ہفتے سے تقریباََ بیروزگار ہوں،یہ فون لیجئے، چیک کیجئے، ابھی12 ہزار روپے کیلئے مطلوبہ نمبر پر ایس ایم ایس کیجئے ، آپ کو آدھے منٹ میں جواب مل جائے گا کہ میں اہل نہیں ہوں‘‘ ۔ اس نے فون دکھاتے ہوئے کہا۔’’یہ کیا معیار ہے انہیں بے روزگار مزدور کا پتہ ہی نہیںہے‘‘۔

    یہاں سے میں واپس مزنگ چونگی پہنچا اور وہاں سے میٹرو میں سوار ہوا۔ رمضان میں 50،60سیڑھیوں والی ایسکلیٹر خراب تھی۔ میٹرو کمپنی کو بھی روزہ داروں کا امتحان مقصود تھا۔ کائونٹر پر میں اکیلا تھا۔ رمضان میں (یا کسی اور وجہ سے ) رش کم ہو گیاتھا ۔ کچھ لوگوں سے بات چیت کی لیکن ایک بھی مزدور نہ مل سکا۔سبھی مڈل کلاس کے لوگ تھے جو اہل سیاست کی ٹھوکریں کھانے کے بعد ’’تھرڈ کلاس‘‘ میں گر چکے تھے۔ کئی افراد روزگار کی تلاش میں بے کار بھٹکتے ہوئے مسافر نکلے ۔یہ سفر کلمہ چوک پر اختتام پذیر ہوا۔

    میں ابھی کسی وزیر سے ملوں گا تو وہ لمبی لمبی کہانیاں سنائے گا، لیکن میں اسے یہ بتا نہیں پائوں گا کہ جناب بہت سے محنت کش صرف اس لئے مر رہے ہیں کہ انکے پاس انسولین خریدنے کے پیسے بھی نہیں ۔ ہمارے بے تحاشا مزدور شوگر کا شکار ہو رہے ہیں۔ ایک محقق ڈاکٹر نے بتایا کہ ’’مزدوروں میں ہیپاٹائٹس اور شوگر کے امراض بہت عام ہیں آپ تصور بھی نہیں کر سکتے اس قدر تیزی سے شوگر کا مرض پھیل رہاہے، انسولین نہ لینے سے آنکھیں، گردے خراب ہو رہے ہیں اور مزدور موت کے منہ میں جا رہے ہیں ۔ میں نے ایسے ہی ایک مزدور سے کہا کہ تم انسولین کیوں نہیں لیتے؟ ’’میرے پاس ہسپتال آنے کو پیسے نہیں ہیں دوائی کہاں سے خریدوں۔بے روزگاری ، ڈپریشن ، بھوک اور بے چینی نے شوگر کا مریض بنا دیا اور شوگر نے بینائی چھین لی۔‘‘ ان سطور کی اشاعت تک معلوم نہیں وہ ،اور اس جیسے بہت سے دوسرے مزدور ناجانے کس حال میں ہوں گے ۔​

     
  2. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:


    محنت کش اور لیبر قوانین

    پاکستان میں لیبر فورس کا بڑا حصہ ، 34.75 فیصد زراعت،جنگلات ،ماہی گیری سے منسلک ہے، جہاں کوئی لیبر قانون نافذ نہیں،اور نہ ہی ان محنت کشوں کو رجسٹر ڈکر کے انہیں حقوق دینے کا کوئی ارادہ ہے ۔ 14.1فیصد لیبر فورس صنعتی شعبے سے منسلک ہے، جہاں مزدورو ںکے حقوق کی بجاآوری کرنے والے اداروں کا عمل دخل بڑھنے کی بجائے گذشتہ 15برسوں میں کم ہوا ہے ۔ قوانین کی عمل داری میں بھی کمی آئی ہے۔ کئی ادارے اب مزدوروں کی شکایت پربراہ راست غور کرنے کی بجائے متعلقہ آجر تنظیموں سے رجوع کرنے کے پابند ہیں، یہ تنظیمیں حکومت کے قابو میں نہیں تو ایک مزدور ان کا کیا بگاڑ سکتا ہے، لہٰذا ورکنگ کنڈیشنز کتنی ہی خراب کیوں نہ ہوں، جاب سے چپکے رہنا ہی مزدوروں کا اہم مشن بن گیا ہے ۔ ہول سیل اور ٹریڈ زکے شعبوں سے 13.72فیصد، ٹرانسپورٹ اور سٹور یج سے 8فیصد، سوشل اور پرسنل سروسز (گھریلو ملازمین وغیرہ ) سے 15فیصداور تعمیر ا ت کے شعبے سے 10.5 فیصد محنت کش منسلک ہیں۔

    محنت کشوں کا زیادہ تر حصہ سروسز سیکٹر سے منسلک ہے ،اس شعبے کی اکثریت یعنی دکانیں اور نجی ٹرانسپورٹ سیکٹر (چنگ چی، بسیں ،ویگنیں، منی بسیں ، کنٹینر ز ) کے مالکان سرکاری قوانین سے بالاتر ہیں، سب کچھ ان مالکان کی ایک دو دن کی ہڑتال کی مار ہے، یہی وجہ ہے کہ ٹریڈزہول سیل ہو یا ریٹیل، اس شعبے نے اپنے زیادہ تر ملازمین کو سوشل سیکیورٹی یا کسی اور ادارے میں رجسٹرڈ ہی نہیں کرایاتاکہ معمولی سی رقم کو بھی بچا لیا جائے لیکن اس بچت کا کارکن کو کس قدر نقصان ہوتا ہے، پیسے کے پجاری یہ سمجھنے سے قاصر ہیں۔

    اب دیکھنا یہ ہے کہ کس شعبے سے کتنی فیصد افراد ی قوت منسلک ہے۔ زیادہ تر کا روزگار تو فصلات سے وابستہ ہے۔ اس شعبے میں مرد محنت کش 22فیصد ہیں جبکہ 13فیصد خواتین بھی اناج ، پھل اور سبزیاں مہیا کرنے کیلئے اپنی جانیں ہلکان کر رہی ہیں۔مینو فیکچرنگ کے شعبے میں کل لیبر فورس کا 3.4 فیصد حصہ خواتین اور 10.7فیصد حصہ مرد ہیں ۔ غربت کا عالم دیکھئے ، جان جوکھوں کاکام کرنے والے تعمیراتی شعبے میںبھی 0.02 فیصد خواتین روزگار کما رہی ہیں۔ بجلی ،گیس اور آبی سپلائی کا شعبہ نہایت ہی کم افراد کو روزگار مہیا کر رہا ہے۔کل لیبر فورس کا صرف 0.65 فیصد حصہ ان شعبوں سے جڑا ہوا ہے۔ ان میں سے 0.03فیصد خواتین ہیں، یعنی اس شعبے سے منسلک کل افرادی قوت کا 10 فیصد ۔

    یہ انفارمیشن اور کمیونیکیشن کا زمانہ ہے۔ یہاں بھی ہم کم پیچھے نہیں ہیں۔ کل لیبر فورس کے صرف 1.14 فیصد حصے کو ان شعبوں سے روزی روٹی مل رہی ہے۔ اب رہ گیا سوشل اور پرسنل سروسز کا اہم شعبہ ۔یعنی گھریلو ملازمین وغیرہ۔ اس شعبے میں بھی مرد خواتین کو پیچھے چھوڑ گئے ہیں ،قبل ازیں اس شعبے سے منسلک خواتین کی تعداد مردوں سے کہیں زیادہ ہوتی تھی، اب نصف رہ گئی ہے۔ کل لیبر فورس میں سے 9.75فیصد مرد اور 5.16 فیصد خواتین گھروں میں کام کاج یا چھوٹے موٹے کام کر کے گزر اوقات کر رہی ہیں۔ سرکاری رپورٹس کے مطابق ان میں سے ا چھی خاصی تعداد کو تنخواہ نہیں ملتی، رہائشی سہولت ، بجلی ،پانی اور گیس کے عوض دن بھر گھرمیں مفت کام کرنا پڑتا ہے ۔محنت کشوں میں 1.65فیصد کلرکس ہیں یہ ذرا طاقت ور طبقہ ہے، گلے پر چھری رکھ کر مطالبات منوانا جانتا ہے،باقیوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ہمارے ملک میں پروفیشنلز صرف 6 فیصد ہیں یعنی مرد 3.5فیصد اور خواتین 2.5فیصد ۔ ا ن کی حالت بھی کورونا نے بگاڑ رکھی ہے۔

    آئین میں کیا لکھا ہے ؟

    عالمی ادارہ محنت کے مطابق ’’پاکستان میں6 کروڑ لیبر فورس کی اکثریت کو کوئی معاشی تحفظ حاصل نہیں ‘‘۔ چین، انڈیا، یورپی یونین، امریکہ، انڈونیشیاء، برازیل، روس ، بنگلہ دیش اور جاپان کے بعد دنیا کی نویں بڑی پاکستانی لیبر فورس کا 73فیصد حصہ ’’انفارمل سیکٹرز‘‘ سے جڑا ہوا ہے۔ ہر 10 میں سے 6 محنت کشوں کو ’’ڈیسنٹ ورک‘‘ کی سہولت دستیاب نہیں۔ جینڈر گیپ کی پیچیدگیاں الگ ہیں کیونکہ مجموعی طور پر 71 فیصد سے زائد مرد ہیں خواتین محدود سا حصہ ہیں وہ بھی دیہات اور شہروں کے انفارمل سیکٹر میں کام کر رہی ہیں جہاں کسی قسم کی سوشل سکیورٹی میسر نہیں ۔ 75 فیصد خواتین (اور 55 فیصد مردوں کو)محفوظ روز گار کی سہولت حاصل نہیں۔ آئین کے آرٹیکلز 25اور 27ہر شہری کو بلا امتیاز تعلیم اور سماجی سہولتوں کی فراہمی کی ضمانت دیتے ہیں لیکن سیاستدانوں کو زیادہ فکر آئین کے ان آرٹیکلز کی ہے جو حکومت گرانے یا بنانے میں مدد دیتے ہیں ۔ آئین کا آرٹیکل 27رنگ، نسل، مذہب، جا ئے پیدائش اور جنس سے بالاتر ہو کر سبھی کو سماجی انسانی حقوق کی فراہمی کی ضمانت دیتا ہے،لیکن اس پر قومی اسمبلی میں بات ہی نہیں ہوئی نہ ہی اس آرٹیکل کی عمل داری کے لئے کبھی کسی رکن نے قومی اسمبلی سے واک آئوٹ کیا۔ آج کے دن ارکان اسمبلی کو بھی یہ عہد کرنا چاہیے کہ وہ اس آرٹیکل کے نفاذکیلئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیںکریں گے۔

    المیہ کیسے جنم لیتا ہے؟

    لیبر فورس بھرتی کرنے والے اداروں کی کمی المیوں کا سبب بنتی ہے ۔ایسا صرف ہمارے ہاں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں ڈالرز کی دوڑاور کمپنیوں کی کم تعداد کی کوکھ سے مزدوروں کیلئے المیوں نے ہی جنم لیا ہے۔ جیف بیزوز نے اجارہ داری حاصل کر لی، اس پلیٹ فارم پر کام کرنے والے بعض اداروں نے تمام لیبر قوانین کو پس پشت ڈال دیا، بلکہ یہ الزام بھی لگایا جا رہا ہے کہ ان کے پلیٹ فارم پر ایسے ادارے بھی سپلائی دے رہے ہیں جہاں کارکنوں سے غلاموں کی طرح کام لیا جا رہاہے، کارکن کیا کریں تمام راستے بند پاتے ہیں۔پاکستان کو بھی کچھ ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے۔ لوگ ایک اعلیٰ افسر سے تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ کر رہے تھے، انہوں نے مثال دی ’’کیا آپ لوگوں نے کبھی دیکھا ہے کہ کراچی کے سائٹ ایریا میں ہر 89ایام کے بعد کیسا منظر ہوتا ہے؟‘‘ سبھی چونک اٹھے کہ معلوم نہیںکیسا منظر ہوتا ہے ، میں نے یہ جانا کہ شاید غروب آفتاب کا ذکر ہو رہا ہوگا۔وہ پھر گویا ہوئے ، ’’ سائٹ ایریا میں ہر 89 دنوں کے بعد کارکنوں کے لیٹرز کی معیاد ختم ہوجا تی ہے، ایک فیکٹری سے دوسری فیکٹری میں جاب تلاش کرنے والوں کی لائنیں لگ جاتی ہیں،کیا آپ یہی ماحول چاہتے ہیں؟۔‘‘جس سے سب کی بولتی بند ہو گئی ۔ ملک میں نجی اداروں کی کمی ہے اس لئے یہ وقت بدلنے کا امکان نہیں ہے۔ کسی بھی شعبے میں آجروں کی تعدادایک فیصد سے زیاد ہ نہیں،اس سے کم ضرور ہے۔لہٰذا مزدور اور محنت کش کو گھوم پھر کرچند ایک آجروں کے پاس ہی واپس آنا پڑتا ہے۔خواتین آجروں کی تعدا تو آٹے میں نمک سے بھی کم ہے۔اس ماحول میں سرکار اپنے کاموں کو سمیٹ رہی ہے، ایک وقت آئے گا جب سیاستدانوں کا کام صرف ’’حکومت کرنا‘‘ رہ جائے گا!باقی سب کام نجی شعبے کے سپرد ہوں گے ورکنگ کنڈیشنز کو بہتر بنانا حکومت کا کام ہے لیکن اس سے یہ بھی نہیں ہو رہا۔

    انسانی دولت کو کچھ سمجھا ہی نہیں گیا

    ہمارا ملک انسانی دولت سے مالا مال ہے۔ جس ملک نے بھی انسانوں کی اہمیت کو تسلیم کر لیا وہ بڑی طاقت بن گیا ، امریکہ ، چین، برطانیہ، آسٹریلیا، دیگر ممالک نے انسان کو مرکز مان کرترقی کی منازل طے کر لیں۔انڈیا میں انسانیت پیچھے رہ گئی ۔ ہمارے ہاں بھی انسان بے وقعت جنس بن کر رہ گیا۔پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ، مارکیٹ میں کوئی قیمت نہیں۔ ساڑھے چھ کروڑ محنت کشوں کی اکثریت کو کورونا نے بے روزگار کر دیا ، کتنے اپنے پیروں پر کھڑے ہو سکے ہیں ؟نئے اعداد و شمار سامنے نہیں آئے۔ البتہ ٹیکسٹائل اور اس سے ملحقہ انڈسٹریز سے منسلک محنت کش نوکریوں پر بحال ہو گئے ہیں،لیکن بزنس اور ٹرانسپورٹ رک رک کر چل رہی ہے اس لئے محنت کشوں کی اکثریت جزوقتی طور پر روزگار سے محروم ہے ۔ کاش پوری دنیا انسانوں کو اپنی دولت سمجھنا شرو ع کر دے تو سبھی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں