1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کاکارستان کا بادشاہ (پہلی - دوسری قسط) ۔۔۔ عاطر شاہین

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏13 دسمبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    کاکارستان کا بادشاہ (پہلی - دوسری قسط) ۔۔۔ عاطر شاہین

    ملک کاکارستان کا بادشاہ بہت ہی ظالم اور لالچی انسان تھا۔ کاکارستان کی ساری عوام اس سے تنگ تھی۔ گائوں کا کوئی بھی شخص اس سے خوش نہیں تھا۔ لوگوں سے ظلم و زیادتی کرنا اور ان کے حقوق چھیننا بادشاہ کی عادت تھی۔
    یہاں تک کہ اس نے کھانے پینے کی ساری اشیاء مہنگی کر رکھی تھیں۔ لوگ سستی سے سستی چیز بھی نہیں خرید سکتے تھے۔ غریب عوام بڑی مشکل سے دو وقت کا کھانا کھا سکتی تھی۔ عوام میں سے جو بھی بادشاہ کے خلاف بولتا وہ اسے بیدردی سے قتل کروا دیتا۔

    بادشاہ کا ظلم صرف انسانوں تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ جانور اور پرندے بھی اس کے ظلم و ستم کا نشانہ بنتے۔ بادشاہ بہت بڑا شکاری بھی تھا۔ وہ روز شام کو معصوم پرندوں اور جانوروں کے شکار کے لیے نکلتا۔ جو جانور و پرندہ اسے نظر آتا وہ اسے وہیں مار دیتا۔ محض اپنا شوق پورا کرنے کے لیے ان معصوموں کی جانیں لیتا ۔وہ یہ نہیں سوچتا تھا کہ ان معصوموں کو بھی اپنی زندگی پیاری ہے۔

    وقت یوں ہی گزرتا گیا۔ ایک دن بادشاہ نے حسبِ معمول اپنے وزیر سے کہا’’ ہماری سواری تیار کی جائے ہم سیر و تفریح اور شکار کے لیے جانا چاہتے ہیں۔‘‘

    وزیر نے حکم سنتے ہی اس پر عمل کیا۔ بادشاہ چار پہیوں والی تانگا گاڑی پر بیٹھ کر سیر کے لیے نکلا۔ اس کے ساتھ چار سپاہی بھی تھے۔ بادشاہ حسبِ معمول پرندوں اور جانوروں کا شکار کرتا گیا۔ وہ سیر و شکار کرتے کرتے بہت دور نکل گئے۔ شام ہو گئی وزیر بھی بادشاہ کے ساتھ تھا۔ اس نے کہا

    ’’ بادشاہ سلامت اندھیرا ہو گیا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ رات ہو جائے ہمیں واپس چلنا چاہیے۔‘‘

    بادشاہ نے کہا’’ ٹھیک ہے۔‘‘

    وہ سب واپس مڑے تو دور سے بادشاہ کو دو شیر آتے دکھائی دیئے۔ بادشاہ نے خوش ہو کر وزیر سے کہا

    ’’آج تو شکار میں مزہ آئے گا۔ دو شیر اور وہ بھی ایک ساتھ۔‘‘

    شیر جب قریب آگئے تو بادشاہ نے ترکش میں ہاتھ ڈال کر تیر نکالنا چاہا لیکن اس کے پاس ایک تیر بھی نہیں بچا تھا۔ شکار کرتے کرتے اس کے سارے تیر ختم ہو گئے تھے۔ بادشاہ پریشان ہو گیا، تاہم اس نے سپاہیوں سے کہا

    ’’جلدی سے اپنی تلواریں نکالو۔‘‘

    سارے سپاہیوں نے اپنی تلواریں نکالیں لیکن شیر اتنے قریب آگئے تھے کہ ان میں سے کوئی ایک بھی تلوار نہیں چلا سکا۔ شیروں کی دہشت سے ان کے ہاتھ پائوں کانپنے لگے۔ ان کے ہاتھوں سے تلواریں گر گئیں۔ بادشاہ تو دور سے صرف تیروں سے ہی شیر وغیرہ کا شکار کرتا تھا لیکن جب یہ شیر قریب آگئے تو اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ شیروں نے قریب آکر بڑے زور سے ان پر حملہ کر دیا اور بادشاہ اپنی جان بچانے کے لیے بھاگ نکلا البتہ سپاہی اور وزیر وہیں شیروں کا نوالہ بن گئے۔ شیر انہیں کھا کر بادشاہ کی طرف لپکے۔ بادشاہ اپنی جان بچانے کے لیے بھاگ رہا تھا۔ اس کی سانس پھول گئی تھی۔ وہ کبھی زندگی میں اس طرح اپنی جان بچانے کے لیے نہیں بھاگا تھا۔ جنگل میں سناٹا چھایا ہوا تھااورہر طرف اندھیرا تھا۔ چرند و پرند سب اپنے اپنے ٹھکانوں میں سوگئے تھے صرف اس کے اور شیروں کے بھاگنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔بھاگتے بھاگتے بادشاہ کا پائوں پھسلا اور وہ بہت گہرے اور بڑے گڑھے میں جا گرا۔ شیر بھی اس کے پیچھے تھے۔ وہ بھی اس گڑھے میں جا گرے۔ گڑھے میں گرنے کی وجہ سے بادشاہ کو چوٹ لگی۔ وہ اپنے کپڑے صاف کرتے ہوئے اٹھا تو سامنے ان شیروں کو پایا۔ اس گڑھے سے اکیلے اپنے آپ نکلنا ناممکن تھا،اس لیے وہ بے حد گھبرا گیا ۔اس کے ہاتھ پائوں پھول گئے اور اس پر کپکپی سی طاری ہو گئی۔اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ اس کے ساتھ ایسا ہو گا۔

    ’’مم…مم… مجھے چھوڑ دو… مجھے کھانے سے تمہیں کیا ملے گا؟‘‘ بادشاہ نے ہکلاتے ہوئے ان شیروں سے کہا لیکن شیربھلا کہاں اس کی بات سمجھ سکتے تھے۔ ان کی دھاڑوں سے جنگل کی فضا گونج رہی تھی۔بادشاہ اور شیروں کے درمیان صرف چند فٹ کا فاصلہ تھا۔ دونوں شیر غراتے ہوئے اس کے قریب آتے جا رہے تھے اور بادشاہ پیچھے ہٹتا جا رہا تھا۔ بادشاہ نے اپنے قریب ایک لکڑی پڑی دیکھی تو اس نے وہ اٹھا لی، لیکن وہ شیروں کو مارنے کے لیے بالکل ہلکی تھی۔ خوش قسمتی سے بادشاہ کے لباس کی جیب میں ماچس موجود تھی۔(جاری ہے)

     
    ساتواں انسان نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    کاکارستان کا بادشاہ (آخری قسط) ۔۔۔ عاطر شاہین

    اس نے ماچس نکالی اور اپنی قمیض اتار کر اس کو آگ لگا دی، پھر وہ جلتی قمیض کو اس لکڑی پر لپیٹ کر شیروں کے سامنے لہرانے لگا۔ شیر ڈر سے پیچھے ہٹ گئے۔ بادشاہ شیروں کو بھگانے کے لیے قمیض کو لہرانے لگا۔
    اس کے ساتھ ساتھ وہ گڑھے کا جائزہ بھی لینے لگا کہ کہیں نکلنے کے لیے راستہ مل جائے۔ ایک سائیڈ پر گھاس پڑی تھی اس نے وہ ہٹائی تو دیکھا کہ ایک بڑی اندھیری سرنگ ہے۔ بادشاہ حیرت زدہ بھی ہوا اور خوش بھی کہ اسے راستہ مل گیا ہے۔ بادشاہ شیروں کو آگ سے ڈراتے ہوئے سرنگ کی سمت چلنے لگا۔

    سرنگ بہت پرانی معلوم ہوتی تھی ایسے لگتا تھا جیسے کئی سال پہلے کھودی گئی ہو۔ چلتے چلتے وہ اچانک رک گیا،اور اسے کسی کی آواز سنائی دی۔ اس نے غور کیا تو وہ انسانی آواز تھی۔ وہ پریشان ہو گیا کہ اتنی رات کو کون ہوسکتا ہے۔ جیسے جیسے وہ آگے بڑھتا جا رہا تھا آواز بھی قریب ہوتی جا رہی تھی۔ وہ آواز اسی سرنگ سے آرہی تھی۔ چند لوگ اسی سرنگ کی سمت آ رہے تھے۔ چلتے چلتے وہ بادشاہ کے قریب آگئے اور بادشاہ کو دیکھ کر وہ لوگ حیران رہ گئے۔ وہ پانچ لوگ تھے انہوں نے منہ ڈھانپ رکھے تھے ایسے لگتا تھا جیسے وہ چور ہوں۔

    ’’یہ شخص یہاں کیسے آ گیا، پکڑلو اسے۔‘‘ ان میں سے ایک شخص نے سختی سے کہا۔ دو آدمی بادشاہ کی طرف بڑھے اور انہوں نے بادشاہ کو دبوچ لیا اس کے دونوں ہاتھ رسی سے باندھ دئیے اور منہ پر کپڑا باندھ دیا۔ منہ بند ہونے کی وجہ سے بادشاہ کچھ نہیں بول سکا۔

    انہوں نے دونوں شیروں کو بھی تیر مار کر زخمی کردیا اور انہیں بھی رسی سے باندھنے کے بعد وہ بادشاہ اور شیروں کو لے کر اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گئے۔

    وہ دراصل اسمگلر تھے جو جانوروں جیسے ہرن، ہاتھی اور شیر وغیرہ کی اسمگلنگ کرتے تھے۔ انہوں نے جنگل میں جگہ جگہ گڑھے بنا رکھے تھے تاکہ جانور ان گڑھوں میں پھنسیں اور وہ آسانی سے انہیں پکڑ کر لے جا سکیں۔ وہ اپنی منزل پر پہنچ گئے۔ یہ ایک بلند اور پرانی دو منزلہ عمارت تھی۔ وہ بادشاہ اور شیروں کو لے کر عمارت میں آ گئے۔

    ’’اس آدمی کو لے جائو اور کمرے میں بند کر دو۔‘‘ اسمگلروں کے سردار نے کہا۔ ایک آدمی بادشاہ کو لے کرگیا اور اس کے ہاتھ کھول کر ایک کمرے میں بند کردیا۔

    ’’مجھے چھوڑ دو۔ میں کسی کو کچھ نہیں بتائوں گا مہربانی کرکے مجھے چھوڑ دو۔‘‘ بادشاہ نے گڑگڑا کر ان سے کہا۔ ایک آدمی نے جا کر سردار کو یہ باتیں بتا دیں۔ ان کے سردار نے کہا۔

    ’’رہنے دو اسے، یہ جا کر بادشاہ کو بتا دے گا کہ ہم جانوروں کی اسمگلنگ کرتے ہیں ویسے بھی بادشاہ خود جانور مارنے کا شوقین ہے اگر یہ بادشاہ کو بتا دے گا تو بادشاہ یہی سمجھے گا کہ ہم اس کے شوق کو مات دے رہے ہیں۔ کیا خبر وہ ہمیں مار ہی دے۔‘‘ ان کے سردار نے کہا۔

    وہ لوگ نہیں جانتے تھے کہ جسے انہوں نے پکڑا ہے وہی بادشاہ ہے۔ بادشاہ بری طرح پھنس چکا تھا۔ اس نے جانوروں اور انسانوں کو ستانے اور ان کی جانیں لینے سے توبہ کرلی۔ اسے آج پتہ چلا کہ جانوروں کو بھی اپنی زندگی پیاری ہوتی ہے۔ اسے اس کمرے میں گھٹن ہو رہی تھی۔ وہ تو عالیشان محل میں رہتا تھا لیکن آج اس کی حالت فقیر سے بھی بدتر ہو گئی تھی۔

    ’’آج رات یہیں رہنے دو صبح ہوتے ہی اس کا کام تمام کر دینا۔‘‘ اسمگلروں کے سردار نے ایک شخص سے کہا۔

    آواز سن کر بادشاہ کے اوسان خطاہو گئے۔ اس نے وہاں سے نکلنے کے منصوبے بنانا شروع کردئیے۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا تو اسے کھڑکیاں نظر آئیں جو اندر سے بند تھیں۔ اس نے کھڑکیاں کھول کر نیچے دیکھا تو چکرا گیا۔ وہ دوسری منزل میں بند تھا۔ وہاں سے کود کر نکل جانا ناممکن تھا ۔اس نے کمرے کے اندر چھان مارا بہت ڈھونڈنے کے بعد آخر اسے ایک پرانی رسی مل گئی۔ اس نے وہ رسی مضبوطی سے کھڑکی میں باندھ دی اور خود رسی کو پکڑ کر اس کے سہارے نیچے اترنے لگا۔ وہ اتر ہی چکا تھا کہ رسی ٹوٹنا شروع ہو گئی۔ آخر ساری رسی ٹوٹ گئی اور وہ دھڑام سے نیچے گر گیا۔ وہ تقریباً اتر ہی چکا تھا اس لیے اسے زیادہ چوٹ نہ آئی۔نیچے اتر کر اس نے بھاگنا شروع کردیا۔

    رات کا ایک بج رہا تھا۔ ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ بادشاہ تھکن سے چُور ہوچکا تھا لیکن اپنی جان بچانے کے لیے بھاگ رہا تھا۔ وہ اس عمارت سے دور پہنچ چکا تھا اس لیے اب اپنے آپ کو محفوط سمجھنے لگا جیسے تیسے کرکے وہ اپنے محل پہنچ ہی گیا۔ جب اس کے سپاہیوں نے اسے دیکھا تو حیران رہ گئے۔ وہ اپنے بادشاہ کو اس کے کمرے تک لے گئے۔ سب سپاہی ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ بادشاہ کہاں گیا تھا۔ بادشاہ شام کو دیر سے اٹھا۔ اب اس کی کافی حد تک طبیعت بحال ہو چکی تھی۔ سب سپاہی ڈر کی وجہ سے یہ نہ پوچھ سکے کہ اس کا حال ایسے کس طرح ہوا۔ بادشاہ اب بدل چکا تھا۔ اب بادشاہ وہ بادشاہ نہ تھا جو ظلم کرتا تھا۔اس نے اپنی کہانی خود ہی محل کے سارے لوگوں کو سنائی۔ یہ سن کر سب حیران رہ گئے پھر بادشاہ نے اپنی ساری عوام کو بلایا اور کہا۔

    ’’میری پیاری رعایا!میں نے آپ کے ساتھ بہت ظلم کیا۔ ہوسکے تو مجھے معاف کردینا۔ میں اس بادشاہی کے قابل نہیں میں بادشاہی کے تخت کو آج چھوڑتا ہوں اب کوئی نیا ایماندار آدمی بادشاہ بنے گا اور وہ آپ میں سے ہو گا۔ مجھے معاف کردینا میں آپ کی امیدوں پر پورا نہ اتر سکا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ چپ ہوگیا اس واقعے کے بعد وہ عام لوگوں کی زندگی گزارنے لگا،پھر اس گائوں میں ایک ایماندار آدمی بادشاہ بن گیا جو لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے لگا۔ لوگ ہنسی خوشی زندگی گزارنے لگے۔ جانور بھی محفوظ تھے کیونکہ اب کوئی ان کا بلاوجہ شکار نہ کرتا تھا۔
     
    ساتواں انسان نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں