1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کاغذ پہ رکھ دیا کلیجہ نکال کے

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از آصف احمد بھٹی, ‏29 ستمبر 2012۔

?

بہترین اور زیادہ بہترین کا انتخاب

رائے شماری ختم ہوگئی ‏28 اکتوبر 2012۔
  1. غوری

    2 ووٹ
    28.6%
  2. محمدداؤدالرحمن علی

    1 ووٹ
    14.3%
  3. آصف احمد بھٹی

    4 ووٹ
    57.1%
موضوع کا سٹیٹس:
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
  1. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:

    السلام علیکم

    کیا خوب برق تو نے دکھایا ہے زورِ طبع
    کاغذ پہ رکھ دیا ہے کلیجہ نکال کے


    ہم جانتے ہیں کہ آپ سب دوستوں کے اندر کسی نہاں خانے میں کوئی ادیب چُھپا بیٹھا ہے ۔
    آئیے ! اور ایک خوبصورت کہانی کے زریعےہم اپنے اندر کے اُس ادیب کو موقع دیں ۔

    آپ یہاں 20 اکتوبر تک اپنی خوبصورت کاوش اپنی کہانی ارسال کر سکتے ہیں اس کے بعد آپ سب کے سامنے رائے شماری کا آپشن رکھا جائے گا آپ لوگ اپنے ووٹس کے زریعے بہتر اور زیادہ بہتر کہانی کا انتخاب کرینگے جو کہ 28 اکتوبر تک ہو گی جس کے بعد 30 یا 31 اکتوبر کو نتائج کا اعلان کیا جائے گا ۔ یاد رہے یہ مقابلہ بہتر اور زیادہ بہتر کے درمیان ہے ۔

    انتظامیہ کے دوست حصہ لے سکتے ہیں


    ہر صارف ایک ہی صرف اپنی کاوش یعنی اپنی لکھی ہوئی کہانی ارسال کر سکے گا ، ایک سے زیادہ بار بھیجنے والے صارف کی بعد والی تمام تحریریں حذف کر دی جائینگی ۔

    ایک گزارش یہ بھی کرنی تھی کہ کوشش کریں کہ غیر ضروری تبصروں کو اس لڑی کا حصہ نہ بنایا جائے کہ اس سے اس لڑی کا مقصد فوت ہو جائے گا ۔ شکریہ ۔



    ایک گزارش یہ بھی کرنی ہے کہ تحریر کو ممکن حد تک غیر ضروری طوالت بچائیں اور تمام احباب کوشش کریں کہ تصویری مواد کا استعمال نہ کیا جائے ۔
     
  2. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کاغذ پہ رکھ دیا کلیجہ نکال کے

    کیا ہم والدین کی قدر و منزلت جانتے ہیں؟؟
    (ایک سبق آموز کہانی)

    ایک نہایت غریب جوڑا پاکستان کےچھوٹے سے گاؤں میں رہتا تھا۔ ان کے پاس پراناگھراورتھوڑا سا زمین کا ٹکڑاتھا جو ان کےگزارے کیلئےکافی تھا۔ دونوں میاں بیوی تعلیم سےنابلدتھے۔ شادی کے ایک سال بعد اللہ سبحانہ و تعالی نے اپنے فضل و کرم سے انھیں اولادنرینہ سے نوازا جسے انھوں نے (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلیل القدرصحابی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ - یار غاربہترین رفیق) کی نسبت سے اس کا نامرفیقمنتخب کیا۔

    میاں بیوی ہنسی خوشی تھے، اکثر اپنے بچے کے مستقبل کے بارےمیں خواب بنتے رہتے۔ بیوی کہتی کہ میں اسےڈاکٹربناؤں گی تاکہ وہ گاؤں میں رہ کر لوگوں کا علاج کرے جبکہ میاں چاہتا تھا کہ وہ اسےانجینئربنائےگا تاکہ وہ ملک میں بڑے بڑے پراجیکٹ بنائے اور ہمارا پاکستان ترقی کرے۔

    وقت کا دھارا بہتا رہا اور چھوٹا ساکنبہ اپنے بچے کی تعلیم کیلئے اچھے سے اچھے سکول کا انتخاب کرتا رہا اور مالی مشکلات کےباوجود بھی ماں باپنے اسکی تمام خواہشوں اور ضرورتوں کو پورا کیا۔ رفیق بہت فرمانبردار بیٹاتھا، بڑوں کی عزت کرتا اور چھوٹوں سے شفقت سے پیش آتا۔ ہر کوئی اسی کے گن گاتا۔گاؤں کے بڑے بوڑھے کہتے کہ رفیق ہمارے گاؤں کا نام روشن کرے گا۔

    پڑھائی سے لگن، محنت اور ماں باپ کی دعاؤں کے نتیجے میں رفیق کامیابی کے زینے طے کرتے ہوئے قریبی شہر میں انجینئرنگ یونیورسٹی میں داخلہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ اس نے اپنےوالد کی خواہش کے مطابق سول انجینئرنگ کے شعبےکا انتخاب کیا۔یونیورسٹی میں قیام کے دوران رفیق نےبہت سی مالی مشکلات کا سامنا کیا ۔ کبھی کتابوں کے لئے پیسے نہیں تو کبھی فیس کےلالے پڑے ہوئے ہیں۔ ماں باپ جیسے تیسے کرکے بچے کے تعلیمی اخراجات اٹھاتے رہے۔ رفیق نے اپنی پڑھائی کے ساتھ ساتھ بچوں کو ٹیوشن بھی پڑھایا تاکہ تعلیم جاری رکھ سکے۔۔۔

    ماں باپ کی دعاؤں اور انتھک محنت سے رفیق نے انجینئرنگ کی ڈگری امتیازی نمبروں سے حاصل کر لی۔تعلیم مکمل ہوتے ہی رفیق کو پاکستان کی بڑی کمپنی میں (جس کےدفاتر مشرق وسطی کے دیگرممالک میں بھی ہیں ) بطور ٹریننگ انجنیئر کی نوکری مل گئی ۔رفیق بہت خوش تھا اور اپنے والدین کے ہمراہ ایک چھت تلے ہنسی خوشی زندگی گزارتا رہا۔ رفیق کی ٹریننگ پوری ہوئی تو کمپنی نے مستقل بنیاد پہ ملازم رکھ لیا۔اس کے علاوہرفیق کو بہتر تنخواہ اور دیگر مراعات و سہولیات کے بہت سے مواقع میسر آئے مگر اس نےوالدین کے ساتھ رہنے کو ترجیح دیا اور تھوڑے میں گزاراکیا۔

    رفیق نے کچے مکان کو پکے گھر میں تبدیل کردیا اور عصر حاضر میں درکار ہر شےسے آراستہ کیا ۔ اور گھر پہ سنگ مرمر کی تختی پہ اپنی ماں کانام)گلشن زرینہ خانم(کندہ کرکے گھر کے ماتھے پہ جڑ دیا۔ اسطرح پورا کنبہ بہت پرسکون زندگی گزارنے لگا۔ رفیق ماں کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور باپ کے سر کا تاج تھا۔ ماں باپ ہردم اسی کی زندگی کی دعائیں کرتے اور ایک چاند سی دلہن کی دعائیں کرتے رہتے۔۔۔

    اللہ سبحانہ و تعالی نے والدین کی دلی دعاء سن لی، اور آخرکار رفیق کےباس کی بیٹی سے شادی خانہ آبادی ہوگئی۔رفیق کی بیوی بہت خوبصورت، پڑھی لکھی اور امیر گھرانے سےتعلق رکھتی تھیں اور گاؤں والے اتنی حسین دلہن دیکھ کے پھولے نہ سمائے اور دھوم دھام سے شادی کی تقریب اختتام کو پہنچی۔شادی کے بعد دلہن رفیق کے ہمراہ گاؤں والے گھر میں ہی رہیں۔ رفیق کیلئے زندگی بہت حسین ہوگئ اور والدین چاند سی دلہن کو باعث افتخارسمجھتے اور ان کے لئے خیروبرکت اور اولادنرینہ کی دعائیں کرتےرہتے۔۔

    گاؤں میں نئی دلہن سے سچ مچ کی رانی کی طرح سلوک ہونے لگا۔نوخیز بچیاں تتلیوں کیطرح دلہن کی ایک جھلک دیکھنے کو بے چین،شادی شدہ خواتین اپنےبچوں کو ساس کے پاس چھوڑ کر رفیق کی دلہن کو خوش آمدید کہنےکیلئے بےقرار اور بڑے بزرگ گاؤں کی دلہن کے سرپہ ہاتھ پھیرنے کے لئے مشاق تھے۔

    اوائل ایام میں دلہن کوگاؤں کی سادہ زندگی اور عزت و تکریم بہت بھلی لگی اور پر فضاماحول جنت نظیر دکھائی دیا۔اور رفیق کاحال تو مت پوچھیئے، اس کے اندر چھپا شرارتی مرد اچک کے باہر آ گیا اور وہ سارا وقت بیگم کو دینےلگا۔۔۔۔

    ماں باپ کی دنیا رفیق کی مسکراہٹ سےشروع ہوتی اور اس کی دلہن کی خوشی پہ منتج ہوتی۔نئی دلہن سسرال میں کچھ دن رہنے کے بعد اپنے ماں باپ آئیں تو بہت اچھا استقبال ہوا۔ رفیق کو ہاتھوں ہاتھ لیاگیا اور نئے جوڑے کو ہنی مون کیلئے ماریشس (براستہ جدہ( چھٹیاں گزارنے کا اعلان ہوا۔ رفیق کے سسرال نےجدہ میں گاڑی، عزیزیہ میں غرفہ مفروشہ، اور مکہ المکرمہ میں حرم کے قریب ہوٹل میں انتظامات کردیئے کہ تاکہ نوبیاہتا جوڑا آرام سے عمرہ اداکرسکے۔۔ اسی طرح ماریشس میں فائیو سٹار ہوٹل میں قیام، طعام اور پھر واپسی پہ جدہ سے شاپنگ وغیرہ وغیرہ۔

    واپسی پہ نئے جوڑے کا انتہائی پرتپاک استقبال ہوا۔ دلہن کے میکہ میں دھوم دھام سے دعوتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ رفیق کو ہر جگہ آنکھوں پہ بٹھایا گیا۔ اورتحائف کی بھرمار ہوگئی۔

    اس کے برعکس گاؤں والوں نے بہت سادگی، مگر عزت و تکریم سے نئے جوڑے کااستقبال کیا اور سب نے مل کر ایک بڑی دعوت کا اہتمام کیا۔ یہ دعوت کھلے میدان میں رنگ برنگے شامیانوں اور دل آویز قناتوں میں برپا ہوئی۔ گرمی سے بچنے کیلئے پنکھوں کا علیحدہ سے انتظام کیا گیا تھا۔گاؤں کے لوگ وہاں کی رسم و رواج کے مطابق بہت سے تحائف بھی ساتھ لائے۔ اس کے علاوہ چند بااثر لوگوں میں سے کوئی گیندے کے پھولوں کا ہار، کوئی گلاب کے پھولوں کا گلدستہ، کوئی موتیے کے پھولوں کی لڑی اور کوئی کوئی گاؤں کے حلوائی سے مٹھائی لے کے آیا ۔

    رفیق بہت خوش تھا اور اس کا حال یہ تھا کہ اس کےپاؤں زمین پہ ٹکتے ہی نا تھے۔بیگم کو روزانہ اپنے سسرال لے جانا، ساس سسر کی بلائیں لینا اورسعادت مندی کا اظہار کرنا۔ اگر یہ کہا جائے کہ سسرال جانے پہ رفیق کا وہی حال ہونےلگا جیسے سعودیہ میں بچے جبیل میں فناتیر کے ساحل پہ واقع النخیل پارک ، جدہ کےساحل پہ واقع فن ٹائم، ینبع کے ہوکیر پارک، دمام کے ڈولفن پارک یا عزیزیہ جدہ کےتہامہ پارک جاکر خوشی سے نہال ہو جاتے ہیں۔

    اور پھر وہی ہوا جس کا ڈرتھا۔ دلہن صاحبہ نےاپنے خاوند نامدار سے شہر میں شفٹ ہونے کیلئے اس نازک معاملے کا سہارا لیا جس پہ کوئی مرد بھی نہ نہیں کرسکتا۔

    رفیق صاحب نے والدین سے بیگم کی صحت کےباعث شہرشفٹ ہونے کی درخواست کی۔فور ی طور پر تو دونوں کےپاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔رفیق نے وہ سوال کردیا جس کے بارے میں اس کے والدین سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ان کی کل دنیا توان کی آنکھوں کا تارا رفیق ہی تھا۔۔۔۔

    رفیق کی بیگم صاحبہ مثبت جواب نہ پاکر پریشان ہوگئیں مگر اب انھیں آنے والی نئی نسل کی فکر تھی ۔ وہ چاہتی تھیں کہ ان کے بچے شہر کے ماحول میں پروان چڑھیں،جہاں تعلیم و تربیت کے بہتر مواقع میسر ہیں۔

    اس فرمائش کی وجہ سے پورے گھرمیں کشیدگی کاماحول ہو گیا۔ سبھی ایک دوسرے سے ناراض اورنالاں دکھائی دیئے۔

    اللہ سبحانہ و تعالی نے انسان کے اندر نجانے کیسے کیسے جذبے ودیعت کیے کہ انسان اپنی اولاد کے لئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہوجاتا ہے اور وہ یہ بھول جاتاہے کہ وہ خود بھی کسی کی اولاد ہے۔۔۔۔۔

    ممتا کی ماری ماں اور پدری شفقت کا مجسمہ باپ دونوں ایسےدکھائی دینے لگے جیسے کوئی انسان زندگی کی بازی ہار جائے۔ اپنی عزت اور ساری زندگی کی کمائی کو نیلامی سے بچانے کیلئے انسانیت کے درخشندہ ستارے زرینہ خانم اور ان کےمجازی خدا )اللہ دادخان صاحب(نے بادل ناخواستہ اپنے جگر کے ٹکڑے اور اپنے ارمانوں کی رانی کو شہر میں سکونت اختیار کرنےکی اجازت دی اور بھرے دل اور نم دار آنکھوں سے الوداع کیا۔

    اسکے بعد رفیق اور اس کی شریک حیات شبنم نے نئی زندگی کا آغاز کیا۔ جہاں وہ اپنی دنیا میں اپنےانداز سےرہنے لگے۔ دوسری طرف زرینہ خانم اور خان صاحب کو ایسا لگا کہ ان کی دنیا ہی اجڑ گئی!!

    ایک طرف نئی راہوں کے متلاشی پھولے نا سماتے اور دوسری طرف چاند تارے جن کی روشنی میں رفیق نے اپنا بچپن، لڑکپن اور جوانی تک فیض حاصل کیا مگرامیر گھرانے کی حسین بیگم کے آتے ہی اسے چاند تاروں کی روشنی مدہم محسوس ہونے لگی اور شہر کی چکا چوند روشنی اچھی لگنے لگی۔ آہستہ آہستہ اس نے گھپ اندھیروں میں ٹمٹماتے ہوئے دیے والے گاؤں کو خیر باد کہہ دیا۔

    اسےشومئی قسمت، رفیق کی تربیت میں خامی یا حسن و جمال کی قیمت چکانا کہیں گے؟؟؟

    گاؤں کے مقابلے میں شہر کی زندگی ہنگامہ خیز اور گراں ہوتی ہے۔ گھر کا کرایہ، بجلی پانی کے بل، ٹرانسپورٹ کا خرچہ، مہمان داری اور ویک اینڈز پہ باہر کے کھانے، بچوں کے موبائیل، انٹرنیٹ کا بار، اور جھاڑو پوچھا کیلئے مائی نورا اور سودا سلف کیلئے مائی نورا کا خاوند الہی بخش۔۔۔ ان گھروں میں اخراجات اور بہت بڑھ جاتے ہیں جہاں جوائنٹ فیملی سسٹم نہ ہو۔ اس کے علاوہ رفیق خان اپنے ماں باپ کو ہر مہینے ان کا خرچہ بھیجتا اور کبھی کبھار گاؤں بھی چلا جاتا ۔

    محبت کیلئے ضروری ہے کہ اپنے پیاروں کو اپنی نظروں کے سامنے رکھو۔ جہاں فاصلے آجائیں وہاں محبت کی ڈوری میں کاٹ آ جاتی ہے اور ٹوٹنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ رفیق اور اس کے ماں باپ کے درمیان بھی رشتوں میں وہ چاشنی اور محبت نہ رہی جیسے ہمیشہ ہوا کرتی تھی۔ ماں گلہ کرتی کہ ان کی طبعیت اچھی نہیں رہتی اور باپ کی مشکلات بھی کچھ کم نہ تھیں۔ دونوں ہمیشہ یہی فرمائش کرتے کہ بچے کیوں نہیں لاتے اپنے ساتھ؟

    یہاں رفیق کی حالت اس سے مختلف نہ ہوتی جو اس مضمون کو پڑھنے والوں میں سے کچھ حضرات کو درپیش ہورہی ہے۔ انسان آگے بڑھنے کے چکر میں کیاکچھ پس پشت ڈال دیتا ہے، جو بالآخر اسی کے سامنے آتا ہے۔اور یہ بھی انسان کا المیہ ہے کہ بہت سے امور اسے اس وقت سمجھ آتے ہیں جب بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے،جب انسان کے اختیار میں کچھ نہیں رہتا۔۔۔

    اللہ نے رفیق کو تین لڑکے اور دو لڑکیوں سے نوازا۔۔۔ بچے سبھی بہت خوبصورت اور خوب سیرت تھے۔ مہنگائی نے جہاں سب کی کمر توڑ کے رکھ دی وہاں رفیق کی فیملی بھی متاثر ہوئی۔ پاکستان میں رہتے ہوئے گھر بنانا ایک خواب ہے اور خصوصا ملازم پیشہ تو تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اگرچہ گاؤں میں اچھا گھر بنانے کیلئے رفیق کے پاس زمین تھی مگر کون رہے گا، ایک بڑا سوالیہ نشان؟

    ایک ویک اینڈ پہ رفیق خان نے اپنی بیگم اور تمام بچوں کوگاؤں میں دادا اور دادی سے ملنے کیلئے کہا تو ، گھر کا کوئی فرد بھی تیار نہ تھا۔ کسی بچے کو ہوم ورک یاد آگیا، کوئی ٹیسٹ کی تیاری کا ذکر کرنے لگا، کسی کو کرکٹ میچ پہ جانا تھا وغیرہ وغیرہ۔ قصہ کوتاہ، رفیق صاحب نے کسی طرح سب کو راضی کرلیا اور یہ طے ہوا کہ ہفتے کی شام کی بجائے اتورا کی صبح سب نکلیں گے اور شام کو واپسی۔۔۔۔

    شبنم نے سب بچوں کے کپڑے ہفتے کی رات میں ہی نکال لیئے تھے اور ایک ایک جوڑا اضافی طور پر بھی رکھا۔ اور رات بھر بچوں کو سمجھاتی رہیں کہ دادا اور دادی کی عزت کرنا اور ان کی کسی بات کا برا نہ منانا وغیرہ وغیرہ۔۔۔

    بچے چونکہ معصوم ہوتے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ خون کو دیکھ کر خون جوش مارتا ہے۔ بچے اپنے دادا اور داری کو ملنے خوشی خوشی تیار ہوئے ، ناشتہ کیا اور سفر کیلئے کمر بستہ ہوگئے۔ رفیق کا گاؤں شہر سے تقریبا چالیس منٹ کی ڈرائیو پہ تھا۔ صبح کے وقت اور چھٹی کے دن شہروں میں سڑکیں نسبتا خالی ہوتی ہیں اس لئے شہر سے نکلنے میں کوئی دقت نہیں ہوئی۔

    باتوں باتوں میں گاؤں کا چھوٹا سا بورڈ دکھائی دیا اور عنبر نے کہا لو ابو کا گاؤں آ گیا۔ اور ہر طرف ہریالی کا سماں۔ بچے خوشی سے پھولے نا سمائے، اور ویسے بھی گاؤں کی صبح بے حد حسین ہوتی ہے۔ ہر طرف تازگی کا احساس، کہیں کھیتوں میں کام کرنے والے سر اٹھا اٹھا کر ٹویوٹا کرولا کو دیکھ رہے ہیں اور چہ مہ گوئیاں کر رہے ہیں کس کی گاڑی ہوگی ؟ کوئی مسافر ہے یا گاؤں میں رہنے والوں کا کوئی رشتہ دار۔ کہیں چڑیا چوں چوں کر رہی تھیں اور ایک درخت سے دوسرے پہ بیٹھنا اور پھر اڑنا۔ کہیں مرغیاں چھوٹے چھوٹے چوزوں کے آگے آگے چل رہیں تھیں۔ کہیں گائے اور بھینسیں بڑے بڑے سینگوں کے ساتھ دم کو لہراتی رک گئیں۔۔

    تھوڑی ہی دیر میں رفیق کی گاڑی اپنے گھر کے سامنےجا رکی۔ ایک لمحے کیلئے اس کے ذہن میں ماضی کی تمام باتیں گھوم گئیں اور فوری خیال آیا کہ اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ نئی گاڑی خریدے گا اور عین گھر کے سامنے یوں پارک کرے گا۔ اور اتنی سلجھی ہوئی بیگم اور بہترین لہجے میں اردو بولنے اور فر فر انگریزی جملے کہنے والے بچے اس کے ساتھ ہوں گے۔ ایک لمحے تو اسے خواب لگا پھر فخر سے گھرکی بیٹھک کی طرف بڑھا کہ اس دوران سب سے چھوٹے بچے شہریار نے پوچھا ابو دادا دادی کا گھر کہاں ہے۔ رفیق نے کہا کہ ہم وہیں تو کھڑے ہیں ۔ شہریار نے اپنے کاندھے اچکائے، ہونٹ باہر کئے اور بڑے بہن بھائیوں کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ بڑی بیٹی نے شہریار کو کہا بھائی یہاں ایسی ویسی بات نہ کرنا۔

    رفیق خان نے بیٹھک کے دروازے کی کنڈی کھٹکھٹائی اور زور سے آواز دی ماں میں پھیکا باہر انتظار کررہا ہوں۔ دروازہ کھولیں۔ بچے حیرانی سے ابو کیطرف دیکھ رہے تھے کہ ابو کس زبان میں بات کررہے ہیں اور ان کا لہجہ بھی گنواروں جیسا ہوگیا۔ شہریار نے کہا ابو تو نورا مائی کے خاوند بخشو کی طرح گفتگو کرنے لگے۔ شبنم نے غضب ناک نظروں سے شہریار کو گھورا اور دوسرے بچوں نے بمشکل تمام اپنی ہنسی روکی۔ شبنم نے بھانپ لیا کہ بچے کوئی نیا گل کھلائیں گے، اس لئے سایے کی طرح ہر بچے کے اردگرد رہیں۔

    تھوڑی دیر بعد ایک نحیف سے شخص نے اپنا چشمہ ناک پہ ٹکاتے ہوئے پوچھا کون ہے بھئی صبح سویرے کیا کام ہے۔ رفیق نے کہا ابا جی میں پھیکا آپ کا بیٹا اور یہ میرا کنبہ آپ سے ملنے آئے ہیں۔ بوڑھے باپ کا ڈھانچہ تن گیا اور چہرے پہ رونق امڈ آئی اور کہا وعلیکم سلام اور پیار سے اپنے جگر کے ٹکڑے کو سینے سے لگایا اور ایک ایک کرکے تمام بچوں کو پیار کیا اور بہو کو دعائیں دیں اور کہا کہ آنے سے پہلے اطلاع کی ہوتی تو بہت اچھا ہوتا۔

    ذرا ایک لمحے کو سوچئے کہ تمام زندگی تگ و دو میں گزر جانے کے بعد بڑھاپے میں یہ خیال ہوتا ہے کہ بچے ہماری دیکھ بھال کریں گے اور ہم ہر ے بھرے گھر میں حاکم کی طرح معزز اور رعب دار شخصیت بن کے اپنے گھر پہ حکمرانی کریں گے۔ اور اپنے بچوں کے بچوں کو دنیا میں کامیاب ہونے کے گر سکھائیں گے۔ مگر افسوس کہ بچوں کو دور کی سوجھتی ہے۔ اتنے دور کی کہ سب کچھ ہی دور سے دور ہوتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ انسان خود بھی دور کا راہی ہوجاتا ہے۔
    اندر گئے تو رفیق کی ماں سو رہیں تھیں ، باپ نے کہا کہ دیکھو کون آیا ہے؟ ماں نے جھٹ سے پوچھا کیا پھیکا آیا ہے ؟ ( ماں باپ کو کیسے علم ہوجاتا ہے کہ ان کی اولاد کس حال میں اورکہاں ہے ، یہ بھی قدرت کا کرشمہ ہے)باپ نے اثبات میں سر ہلایا اور کہا ہاں پھیکےکے ساتھ اس کے بال بچے بھی ہیں۔ماں خوشی سے پھولی نہ سمائی۔ اس کے لئے تو اس سے بڑی کوئی خوش خبری نہیں ہوسکتی تھی۔ کمزور اور بیمار دکھائی دینے والی ماں نے ٹٹولتے ہوئے رفیق کا ہاتھ تھاما اور فرط جذبات سے بہت برا بھلا کہا اور گلے شکوے کرتے ہوئے سینے سے لگایا اور بہت دیر تک ممتا کی تسکین کرتی رہیں اور پھر شبنم کا حال پوچھا اور ان سے بھی شکوے شکایت کیں پھر ہر ایک بچے کو چومتی رہیں اور بڑبڑاتی رہیں۔۔۔۔

    رفیق کے والد نے پڑوسیوں کو خبر دی، انھوں نے چارپائیوں اور کرسیوں کا انتظام کیا اور ایک پڑوسی کھانے پینے کے سامان کیلئے شہر کی طرف روانہ ہوگیا۔ آہستہ آہستہ گاؤں کے دیگر لوگوں کو بھی خبر مل گئی اور سبھی رفیق کی فیملی سے ملنے چلے آئے۔ بچے اس طرح کی گرم جوشی کو دیکھ کر بہت فخر محسوس کرنے لگے اور شہریار تو پورے گاؤں والا کا پیارا کہلانے لگا۔ شہریار کو لگا سارے لوگ اسے ہی دیکھنے آئے ہیں اور اسطرح وہ ہرایک کے ساتھ ہولیا اور گاؤں کا ایک ایک انچ چھان مارا۔ اس کی ننھی شرارتیں اور معصوم سی خواہشیں ایسی تھیں کہ سبھی پوری کرسکتے تھے۔

    گاؤں میں کوئی سپر مارکیٹ نہیں، اور نہ ہی کوئی رسٹورنٹ یا کھانے پینے کی جگہ ماسوائے مین روڈ کے کنارے گنے کا جوس بیچنے والا، برف کے گولے بنانے والا، آلو چھولے والا۔ جب رفیق کے بچے دوسرے بچوں میں گھل مل گئے تو گاؤں کے بچے اور بچیاں مہمان بچوں کی خاطر مدارت کے لئے ان کیلئے پکوڑے، دہی بڑھے، اور برف کے گولے لائے جسے سب نے پسند کیا۔ اس کے علاوہ گاؤں میں ہر کام چل پھر کرکرنا ہوتا ہے جو رفیق کے بچوں کو بہت اچھا لگا۔

    الحمد للہ سارا دن بخیر وخوبی تمام ہوا اور رفیق نے ماں باپ سے رخصت چاہی تو دونوں پھر سے غمگین ہوگئے اور بادل نا خواستہ اجازت دینا پڑی ۔ دل کی بات تو چھپائی نہیں جاسکتی، بیٹا سب کچھ سمجھتے ہوئے بھی نادان بنا رہا اور بیوی بچوں کو خوابوں کے دیس لےآیا۔ دادا دادی نے بچوں کو پیار کیا اور بہت زیادہ دعائیں دیں۔
    گاؤں سےلوٹنے کے کچھ دن بعد رفیق نے اخبارمیں جدہ سعودی عرب کیلئےانجنیئر کی ضرورت کا اشتہار دیکھا ۔ جس میں پر کشش تنخواہ، دیگر مراعات اور فیملی سٹیٹس وغیرہ درج تھا۔۔۔۔رفیق نے اپنا بائیوڈاٹا ای میل کیا اور بفضل اللہ تعالی کامیاب ہوگیا اور جدہ میں بمع اہل و عیال کئی برس رہا۔ اس دوران وہ باقاعدگی سے اپنے ماں باپ کو خرچہ بھیجتا رہا۔

    کہتے ہیں سعودی عرب میں بہت پیسہ ہے اور جو بھی وہاں گیا، مالا مال ہوکر لوٹا۔۔۔۔ مگر حقیقت کچھ اور ہی ہے۔ یہاں کمائی کے ساتھ ساتھ اخراجات بھی زیادہ ہوتےہیں۔ ہر شےمہنگی ہے۔ اور مہنگائی کسی تناسب سے نہیں۔ اسی طرح گھر کے کرایے ہیں کہ سرو کے درخت کی طرح ہر سال بڑھتے ہی جاتے ہیں۔ اور سالانہ تنخواہ میں اضافہ آٹے میں نمک کے برابر تو نہیں بلکہ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مصداق ہوتا ہے۔

    پھر وہ زمانے کی مصروفیات میں ایسا گم ہوا کہ آہستہ آہستہ ماں باپ کو پیسے بھیجنے سے ہاتھ روک لیا۔اور والدین کو ایسا فراموش کردیا جیسے ان کا کبھی وجود بھی نہ تھا۔

    مالی مشکلات اور وسائل کی تنگی کے دور میں بندگی خالصتا رضائے الہی کے حصول کیلئے ہوتی ہے جس میں ریاکاری کا شائبہ نہیں ہوتا۔ اس دور میں اطاعت اور منکسر مزاجی کے اسلوب سیکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ زمانے کے تند و تیز تپھیڑے بخوبی تمام قواعد و ضوابط سکھا دیتے ہیں۔

    صبر آذما اور مشکل گھڑی میں ہمارے لئے اللہ سبحانہ و تعالی کے فضل و کرم اور رحمت کے دروازے ہر وقت کھلے ہوتے ہیں۔ ہم اٹھتے بیٹھتے گڑگڑا کر اپنے رب کے حضور سر بسجود ہو کر نہایت ادب و احترام سے رقت انگیز الفاظ میں ملتمس ہوتے ہیں کہ یا اللہ ہمیں مالی مشکلات سے نجات دلائیے اور اپنے غیبی خزانوں سے ہماری مالی مدد فرمائیے تاکہ ہم اپنی جائز ضروریات پوری کرسکیں۔

    اگرچہ مال کی فراوانی نہیں ہوتی پھر بھی ہم سائل کو خالی ہاتھ نہیں جانے دیتے۔ رقم پیسہ نہیں تو کیا ہم اناج اور دوسری اجناس خوردنی سے ہی اس کی مدد کرکے نیکی اور اپنے رب کی رضا چاہتے ہیں اور غربت میں ہمارے پاس عبادت اور دوسروں کی فلاح و بہبود کیلئے وافر وقت میسر ہوتا ہے۔

    مال اس لئے کمایا جاتا ہے کہ اپنی جائز ضروریات کو پورا کیا جائے۔ اگر ہم مال برائے مال بنا رہے ہیں تو مال و دولت کا حصول ہمیں خسارے کی اتھاہ گہرائیوں میں لے جاتا ہے۔ روپے پیسے کی ریل پیل شروع ہوجانے سے انسان کے پاس وقت کی قلت شروع ہوجاتی ہے۔ اور اس کے پاس اپنے پیاروں کیلئے کوئی وقت نہیں ہوتا جبکہ کاروباری شخصیات اور کاروباری اجتماعات کیلئے ہمہ وقت تیار رہنا اس کا وطیرہ بن جاتا ہے۔

    سعودی عرب میں قیام کے دوران عمرے کی سعادت حاصل کرنا نہایت آسان اور سہل ہے جبکہ حج کیلئے محکمہ پاسپورٹ سے اجازت نامہ درکار ہوتا ہے اور قانونی طور پر یہاں مقیمین ہر 5 سال میں ایک مرتبہ حج کرسکتے ہیں۔

    اہل ثروت کیلئے ہر سال حج کرنا کوئی مشکل نہیں۔ رفیق بھی کئی سالوں سے ہرسال حج کا فریضہ ادا کرتا اور ادائیگی کے فورا بعد اسے خواب میں ایک شخص بتاتا کہ تمھارا حج اقبال کا درجہ حاصل نہیں کرسکا۔

    ایک دن رفیق نے بہت پہنچے ہوئے عالم سے اس پر اسرار خواب کے بارے میں دریافت کیاتو انھوں نے رفیق کو مشورہ دیا کہ پاکستان لوٹ جاؤ۔

    رفیق پاکستان چلاگیا اور جیسے ہی گاؤں کی حدود کو چھوا تو کیا دیکھتا ہے کہ ہر شے بدل گئی ہے۔ اور وہ اپنا گھر نہ تلاش کرسکا۔ اس نے ایک بچے سے کہا کہ فلاں فلاں گھر کہاں ہیں؛ چھوٹے لڑکے نے ایک مکان کی طرف اشارہ کیا اور کہا:-

    کہ اس مکان میں ایک بوڑھی اور اندھی عورت رہتی ہے اور چند ماہ پہلے ہی اس کا خاوند اسے چھوڑ کر اللہ کو پیارا ہوگیا۔ اس عورت کا ایک بیٹا ہے جو کئ برس پہلے سعودی عرب چلا گیا اور پھر دوبارہ کبھی نا لوٹا۔ بےچارہ بد نصیب آدمی؟

    رفیق گھر میں داخل ہوا تو دیکھا اس کی ماں بستر پہ لیٹی ہے۔ اس نے آہستہ آہستہ قدم اٹھائے تاکہ اس کی ماں نیند سے جاگ نہ جائے۔ اس نے سنا کہ اس کی ماں کچھ کہنا چاہ رہی ہے۔رفیق اپنی ماں کے قریب ہوا تاکہ آواز سن سکے۔ اور اس نے سنا کہ اس کی ماں کیا کہہ رہی تھی:-

    یا اللہ اب میں بہت ضعیف ہوگئی اور آنکھوں سے اندھی بھی ہوں، میرا خاوند بھی فوت ہوچکا ہے۔ اور اگر میں مر جاؤں تو کوئی محرم نہیں جو مجھے قبر میں اتارے۔اس لئے میرے بیٹے کو یہاں بھیج دے تاکہ وہ میری آخری خواہش پوری کردے۔اسی لمحے اللہ سبحانہ و تعالی ماں کی دعاء قبول فرماتے ہیں اور روح پرواز کرجاتی ہے۔
    * * * *
    مجھے نہیں معلوم یہ بات کہاں تک صحیح ہے کہ انسانی جسم پینتالیس درجے ڈیل درد کی شدت برداشت کرسکتا ہے جبکہ بچے کی ولادت کے وقت ایک ماں ستاون درجے ڈیل ، درد کی تکلیف سے گزرتی ہے۔ یہ درد اتنا شدید ہوتا ہے جیسے ایک ہی وقت میں اکٹھی بیس ہڈیاں چٹخ جائیں۔

    یہ تشریح صرف آپ کو بتانے کیلئے ہے تاکہ آپ کو معلوم ہوسکے کہ ایک ماں اپنے بچے کو کتنا پیار کرتی ہے۔

    ماں سے زندگی کے آخری لمحے تک محبت کرو۔وہ عظیم ہستی جس سے آپ تقریبا ہر روز جھگڑا اور ضد کرتے ہو ، انھوں نے آپ کو خوبصورت زندگی دینے میں بہت تکلیفیں برداشت کیں۔
    میں اپنی ماں کو دل کی گہرائیوں سے چاہتا ہوں۔۔
    ختم شد۔۔۔۔۔۔
     
  3. محمدداؤدالرحمن علی
    آف لائن

    محمدداؤدالرحمن علی سپیکر

    شمولیت:
    ‏29 فروری 2012
    پیغامات:
    16,600
    موصول پسندیدگیاں:
    1,534
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کاغذ پہ رکھ دیا کلیجہ نکال کے

    بھت سے لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا ھے کہ محبت کی کوئ حد نہیں ہوتی،محبت پر حدود وقیود نہیں لگائ جاسکتی،جیسی چاہے محبت کرو،جس سے مرضی محبت کرو،اس چارحرفی لفظ محبت کوبھت خوبصورتی سے ایک ہی رخ دےدیاگیاھےاور پہرکیا شاعر اور کیا افسانہ نگار،اکثر نے اسی رخ پر افسانے اور ناول لکھ ڈالے،غزلیں اور دیوان کہ ڈالےـ
    آئیے دیکھتے ہیں محبت کیاھے؟محبت رب کائنات کا وہ وصف ھے جس کاکچھ حصہ اس نے انسانوں کے دلوں بھی اتار دیا،سو یہ احساس کی صورت میں دل میں ابھرتی ھےاور خوشبو کی طرح ادھر اُدھر بکھرجاتی ھےـرب کائنات نے اس کائینات کی بنیاد محبت پر ہی رکھی ۔۔۔۔اس دنیامیں بے شک بھت کچھ محبت کے قابل ھےـسو محبت کے جو پیمانےاس ذات بابرکات نے بنائے ہیں ،دراصل اس جزبےکو انہیں پیمانوں پرتولاجاسکتاھے ـ اس دنیامیں محبت تقسیم کرتے وقت اللہ نے ماں کاسئہ دل کومحبت سے لباب بھردیا ـ سو ماں وہ ہستی ھے جس کے پاس یہ جذبہ سب سے زیادہ ھے،لیکن اللہ تعالی اپنے بارے میں فرماتے ہیں کہ میں ستر ماؤں سے بڑھ کر پیار کرنے والا ہوں ـ پہرہم جب دیکھیں جب ایک ماں محبت کے اس درجے پر کھڑی ھے تو اللہ تعالی کی کیا محبت ہوگی؟
    لہزااسی مالک کائینات کی محبت کا شہکار نبی کریم:drood: کی ذات مبارکہ ھےـ نبی کریم:saw: کی ذات گرامی قیامت تک کی انسانیت کےلئے رحمت ھےـ آپ:saw: اپنی امت کی محبت میں ان کی نجات کاملہ کی خاطر راتوں کوپہروں روتے اور سجدوں میں گڑگڑاتے تھےـ

    لیکن افسوس کہ لفظ محبت کی توہین کرتے ہوئے آج ہم اس کو محض عورت اور مرد کی نفسانی خواہشات تک محدود کردیتے ہیں ـ آج محبت کو یہی رنگ دیا گیاھےـ لڑکے اور لڑکی کی محبت اور پہراس نفسانی محبت کو مزہبی و اخلاقی حدود و قیود سےآزاد سمجھ لیاگیاھےـ
    اگر محبت کی کوئ حد نہیں تو مزہبی حدود تو ھے ناں؟اخلاق تو حد رکھتاھے ناں ۔۔۔۔۔اخلاقی حدود کی پاسداری کرنی پڑتی ھےـ معاشرہ تو حد رکھتاھے ناں،معاشرتی قدروں سے نکل کرانسان آوارہ پتوں کی طرح ہوجاتا ھےـوفا حد رکھتی ھے کسی ایک کے ہوکر رہوـ سو اگر عورت اور مرد کی محبت کودیکھاجائے تو یہ محبت کے بحربےکراں کا ایک قطرہ ھےـاس قطرے کی لذت کو اللہ تعالی نے نکاح کے حصار میں قید کرلیاھے،سومردوں اور عورتوں کواس محبت سے آشناہونے کے لیے نکاح کا دروازہ رکھاگیاـ
    محبت کا پہلا اصول،پہلی سیڑھی ادب ھےـبقول علامہ اقبال کہ ۔۔۔۔

    ادب پہلا قرینہ ھے محبت کے قرینوں میں ​

    محبت میں ادب اور احترام ہوتا ھےـ ادب اور احترام والی محبت دوسرے کے دل میں جگہ بناتی ھےاور قدر کرواتی ھےـادب اور احترام پورے جسم میں چھلکتاھے،آنکھیں جھکیں ہوں اور دل احترام سے لبریز ہو،محبوب کی بے ادبی نہ ہو،اسے سوچوں اور آنکھوں سے بھی آلود نہ کیا جائےـسو نکاح کرکے اپنی محبت کو معاشرتی،شرعی، اوراخلاقی طور پر جائزکیاجاتاھےـمردوعورت کے مابین اصل محبت میاں بیوی کی محبت ہوتی ھے،جس کو اللہ بھی محبت سے دیکھتے ہیں ـ
    خفیہ تعلقات اورملاقاتیں کسی طور پر جائز نہیں،چھپی ہوئ دوستیاں اس ناجائز اولاد کی طرح ہوتی ہیں،جنہیں کوئ نام نہیں دے سکتے جنہیں معاشرے میں کوئ مقام نہیں دے سکتے۔جسے دوسروں کے سامنے نہیں لاسکتےـ
    کچھ لوگ یہ کہتے ہیں ہمیں بس فلاں (لڑکی یا لڑکے)سے سچی محبت ھے،ہمیں جسمانی قرب کی خواہش نہیں ہوتی،لیکن یہ در اصل نفس و شیطان کاایک جال ھے جسے یاتو وہ بھی نہیں سمجھتے یا جان بوجھ کر دوسروں کو گمراہ کرتے ہیں ـدر اصل کسی صنف مخالف سے محبت میں قرب کی خواہش ہوتی ھے جب ہی تو اللہ تعالی نے نکاح فرض کیا ھےـ جو اپنی اس خواہش کو راہبانہ رنگ دے تے ہیں وہ فطرت سے بغاوت کرتے ہیں ـ سوہم عام انسانوں کی محبت وہی ھے جس کا رنگ عام ساھےکچھ خاص نہیں ـ ہاں"خاص" تو اس جزبے کو وہ رنگ بناتے ہیں جو اللہ نے اس کو عطا کیے ہیں،جیسےآسمان سے پانی کے چند قطرے پھیکے پھیکے برستے ہیں لیکن سورج جب ایک خاص زاویے سے ان پر اپنا عکس ڈالتاھے تو یہی قطرے قوس و قزح کے رنگ بکھیرنے لگتے ہیں ـ
    واللہ!محبت کا اصل اور حقیقی رنگ تو رب تعالی کی ذات کو چاہئےاور مقصود بنانے کے بعدنکھرکر سامنے آتاھےـسو اپنی محبتوں کو اسی کے پیمانوں میں تو لیں‌ ـ جب اس خالص محبت کے رنگوں سے دل کا نگارخانہ دہک اٹھے گا توہم اس قابل ہوں گےکہ خود سے وابستہ رشتوں اور عالم انسانیت کو وہ محبت دیں جو انکا حق ھےـ تو آئیے کیوں نہ اس رب کی محبت کی طرف پلٹیں ۔۔۔۔۔

    محبت بھی عجب شے بنائ ھے تونے یا رب
    تیرے ہی در پہ تیرے ہی بندوں کوغیر کے لیے روتے دیکھاھے ​
     
  4. ہادیہ
    آف لائن

    ہادیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2011
    پیغامات:
    17,730
    موصول پسندیدگیاں:
    136
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کاغذ پہ رکھ دیا کلیجہ نکال کے

    ایک وضاحت چاہتی ہوں آصف بھائی
    کیا ہم اپنی کوئی مختصر تحریر بھی اس لڑی میں شامل کر سکتے ہیں یا پھر صرف کہانی ہی پوسٹ کرنی ہے
     
  5. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کاغذ پہ رکھ دیا کلیجہ نکال کے

    ہادیہ ! ہمارا مقصد صرف آپ سب کے اندر کے اُس ادیب کو موقع دینا ہے ، جو کچھ خاموش ہے ، کوئی کہانی ہو تو زیادہ اچھی بات ہے ورنہ ہر تحریر کو خوش آمدید کہا جائے گا ، کیونکہ ہر تحریر کو اپنی پسندگی کی سند بھی صارفین نے ہی دینی ہے ۔
     
  6. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کاغذ پہ رکھ دیا کلیجہ نکال کے

    برائے مہربانی ! آپ احباب سے گزارش ہے کہ باہمی رابطوں کے لیے ذاتی پیغامات کی سہولت کا استعمال کیا جائے ۔ شکریہ ۔
     
  7. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کاغذ پہ رکھ دیا کلیجہ نکال کے


    عرضداشت
    آصف احمد بھٹی
    " مجھے کچھ کہنا ہے " حالانکہ میں یہ بھی جانتا ہوں میری بات کوئی نہیں سنے گا ، لوگ یا تو مجھ پر ہنسیں گے یا پھر مجھ پر سنگ بار ہو جائینگے ، اور اگر یہ سب نہ بھی کیا تو مجھ پر انگلیاں تو اُٹھیں گی ہی ، میری انگلیاں تراش لینے کے حکم صادر ہونگے اور پھر کچھ مہذب وحشی اپنی کمانیں تان کر میرے سینے پر چاند ماری کی مشق کرینگے ، مجھ پر تلواروں اور خنجروں کی دھاریں آزمائی جائینگی ، مگر پھر بھی مجھے کوئی خوف نہیں ہے ۔
    اَن سب اندیشوں کے باوجود "مجھے کچھ کہنا ہے " کہ اگر اب نہ کہونگا تو شاید میرے اندر بستے انسان کی موت ہوجائیگی ، کہ میرے اندر کا آدمی اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے ، ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اُس کا دم گھٹتا جا رہا ہے ، اُس کی نبضیں ڈوب رہی ہیں ، زندگی کی اُمید لمحہ بہ لمحہ دم توڑ رہی ہے ، اور شاید " اِسی لیے مجھے کچھ کہنا ہے " مجھے کیا کہنا ہے؟ یہ تو خود میں بھی نہیں جانتا ، بس ایک احساس ہے کہ مجھے کچھ کہنا ہے شاید کوئی فریاد ہے جو سینے میں اُبل رہی ہے ، یا پھر کوئی دکھ ہے جو رسنے کے لیے روزن تلاش رہا ہے ، مگر شاید نہیں ! یہ تو فقط کچھ جملے ہیں جو میرے حلق میں کہیں اٹک اٹک جاتے ہیں ، عجب سی پھانس بنے جا رہے ہیں ، کچھ لفظ ہیں جو زبان کی نوک تلے آتے آتے رہ جاتے ہیں ، ایک عجیب سا خوف ہے جو بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے ، ہر پل مہین تر ہوا جاتا ہے ، اب تو مجھے اپنے بدن کے زخم شمار کرنا مشکل ہوا جا رہا ہے ، اور روح کے زخم ؟ " مجھے کچھ کہنا ہے " کچھ ایسا جو مجھ پہلے کسی نے نہ کہا ہو ، جو کسی نے نہ سنا ہو ، جو کسی نے نہ لکھا ہو ، اور کسی نے نہ سمجھا ہو ، اور جو ہر زبان کی لغت سے عاری ہو ، مگر ! میرے کہتے ہی سب لوگ سمجھ جائیں ، اسی لیے اپنی بات کہنے کے لیئے ، اپنی بات کو سمجھانے کے لیے اُسے آسان تر بنانے کے لیے میں دنیا کی ہر قدیم و جدید زبان اور ہر بولی کی لغت دیکھ چکا ہوں ، میں ہر لغت سے ایسے لفظ ڈھونڈھ رہا ہوں ، جو میرا عرضِ حال بیان کر سکیں جو میں کہنا چاہتا ہوں ، اُسے عام فہم بنا دیں ، اور عام لوگ و سردار سب میری بات سمجھ سکیں ، مجھے پھر سے باغی نہ سمجھا جائیے ، دیواروں پر میری تصویریں نہ چسپاں کر دی جائیں ، میرے نام کے ڈھول نہ پیٹے جائیں اور نہ ہی آنے والوں کے لیے مجھے ہول بنایا جائے ، اِسی لیے میں کچھ کہنا چاہتا ہوں شاید اپنی صفائی دینا چاہتا ہوں یا پھر شاید اِس بار بھی میں حق پر گواہی دینا چاہتا ہوں " مجھے کچھ کہنا ہے " مجھے کہنا ہے مجھے تمام زبانوں کی لغات سے ایسے الفاظ چننے ہیں جو لوگوں کو میری بے بسی دیکھا سکیں ، جو دنیا کے عظیم سرداروں کو خود اُن کے اپنے دامن پہ لگے میرے لہو کے چھینٹے دکھا سکیں میں ایک ایسی عرضداشت لکھنا چاہتا ہوں جو سرداران عالم کو جو اقوامِ عالم کو میری میری حالت بتا سکیں جس میں میں ! جب کبھی بوسنیا کا ذکر کروں تو وہ سب بھی میرے لفظوں کی کسک محسوس کریں ، جب میں چیچینا لکھوں تو وہ سرخ ریچھ سے جواب چاہیں ، میں چاہتا ہوں میرے الفاظ آئینہ ہوں جس میں میرے کابل کا پانی لہو بنا دکھائی دے ، میرا قندوز ، میری پنج شیر ، ننک ہار ، میرا غزنی خون اُگلتا دکھائی دے ، جس میں سب لوگ بغداد ، بصرا اور میرے فرات کے کناروں سے اُٹھتا دھواں دیکھ سکیں ، جس میں کشمیر کے لہو رنگ چنار جلتے ہوئے ، صاف نظر آئیں ، گجرات کے مہان دیوتا اپنی خون آشام اور لپکتی زبانوں سمیت صاف نظر آئیں اور لبنان کا ہر ذرہ ! وہ میرا قانا اور اُس سے اُٹھتی جلتے جسموں کی بو سب سونگ سکیں اور پھر میرے فلسطینی بچے ! ہائے ! میرے جگر کے ٹکڑے ، ٹکڑے ٹکڑے ہوتے صاف نظر آئیں !‌ اور تب میں اُن سب سے پوچھوں گا ؟ بتاؤ ! میں اتنا بے وقعت کیوں ہوں‌ ؟ بتاؤ ! میرا لہو اتنا ازراں کیوں ہے ؟ مگر ! میں سردارانِ عالم سے یہ سب کیوں پوچھوں ؟ میں اقوامِ عالم سے یہ سب کیوں کہوں ؟ یہ تو میرے سردار کا کام ہے ؟ اورمیرے سردار کو یہ سب کون بتائےگا ؟ میرے سردار کو کون جگائے گا ؟ " مجھے کچھ کہنا ہے " میرے سرداروں ! " مجھے کچھ کہنا ہے "
    آصف احمد بھٹی​
     
  8. یزغان
    آف لائن

    یزغان ممبر

    شمولیت:
    ‏9 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کاغذ پہ رکھ دیا کلیجہ نکال کے

    اسلام علیکم
    بلکل ایسا ہوگا جیسا آپ نے کہا
     
  9. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کاغذ پہ رکھ دیا کلیجہ نکال کے


    السلام علیکم
    مقابلہ برائے کاغذ پہ رکھ دیا کلیجہ نکال کے میں
    محترم آصف احمد بھٹی صاحب
    سخت مقابلے کے بعد کامیاب قرار پائی ہیں ۔
    آئیے ہم سب مل کر اُنہیں مبارک باد دیں ۔

    آصف احمد بھٹی صاحب
    آپ کو ہماری اردو پیاری اردو کی انتظامیہ کی طرف سے بہت بہت مبارک ہو ۔

    انتظامیہ ہماری اردو پیاری اردو
     
موضوع کا سٹیٹس:
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

اس صفحے کو مشتہر کریں