1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کاشفی کی پسندیدہ شاعری

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از مبارز, ‏10 ستمبر 2008۔

  1. مبارز
    آف لائن

    مبارز ممبر

    شمولیت:
    ‏3 اگست 2008
    پیغامات:
    8,835
    موصول پسندیدگیاں:
    26
    غزل
    (فاطمہ سحر)

    دلوں کو ملانے کے دن آرہے ہیں
    چمن کو سجانے کے دن آرہے ہیں

    کہیں بھول جاؤں نہ خود کو خوشی میں
    تیرے پاس آنے کے دن آرہے ہیں

    کھنکنے لگے ہیں یہ کنگن بھی اب تو
    کہ سجنے سجانے کے دن آرہے ہیں

    دُعاؤں نے میری یہ رنگ اب دکھایا
    کہ مہندی رچانے کے دن آرہے ہیں

    نظر آئے ہر سو مجھے تیرا چہرہ
    غزل گنگنانے کے دن آرہے ہیں

    چٹکنے لگے فاطمہ آج گل بھی
    وفا آزمانے کے دن آرہے ہیں
     
  2. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    واہ بہت خوب
    لگتا ھے ارادہ باندھ لیا مبارز جی نے پاکستان جانے کا
     
  3. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    دعا گو ہیں ہم سب اسی دن کی خاطر
    ولیمے کے کھانے کے دن آرہے ہیں

    :khao: :glass::khao::glass:

    کاشفی بھائی ۔ پیشگی مبارک ہو۔
    :hasna: :hasna: :hasna: :hasna: ​
     
  4. مبارز
    آف لائن

    مبارز ممبر

    شمولیت:
    ‏3 اگست 2008
    پیغامات:
    8,835
    موصول پسندیدگیاں:
    26
    شکریہ خوشی جی۔۔
     
  5. مبارز
    آف لائن

    مبارز ممبر

    شمولیت:
    ‏3 اگست 2008
    پیغامات:
    8,835
    موصول پسندیدگیاں:
    26
    شکریہ بہت بہت۔۔۔
     
  6. مبارز
    آف لائن

    مبارز ممبر

    شمولیت:
    ‏3 اگست 2008
    پیغامات:
    8,835
    موصول پسندیدگیاں:
    26
    تین شاعر، ایک زمین، ایک بحر
    غالب، امیر مینائی، داغ


    غزل
    (نانا غالب رحمتہ اللہ علیہ)

    یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
    اگر اور جیتے رہتے، یہی انتظار ہوتا

    ترے وعدے پہ جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
    کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

    تری ناز کی سے جانا کہ بنا تھا عہد بودا
    کبھی تُو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا

    کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیر نیم کش کو
    یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا

    یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
    کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غمگسار ہوتا

    رگِ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا
    جسے غم سمجھ رہے ہو یہ اگر شرار ہوتا

    غم اگرچہ جاں گسِل ہے، پہ کہاں بچیں کہ دل ہے
    غمِ عشق گر نہ ہوتا، غمِ روزگار ہوتا

    کہوں کس سے میں کہ کیا ہے، شب غم بری بلا ہے
    مجھے کیا بُرا تھا مرنا اگر ایک ہوتا

    ہوئے مر کے ہم جو رُسوا، ہوئے کیوں‌ نہ غرقِ دریا
    نہ کبھی جنازہ اُٹھتا، نہ کہیں مزار ہوتا

    اُسے کون دیکھ سکتا کہ یگانہ ہے وہ یکتا
    جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دوچار ہوتا

    یہ مسائلِ تصوف، یہ ترا بیان غالب
    تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا

    --------------------------------------------------------------------
    غزل
    (حضرت امیر مینائی رحمتہ اللہ علیہ)

    میرے بس میں یا تو یارب وہ ستم شعار ہوتا
    یہ نہ تھا تو کاش دل پر مجھے اختیار ہوتا

    پس مرگ کاش یوں ہی مجھے وصل یار ہوتا
    وہ سر مزار ہوتا، میں تہِ مزار ہوتا

    ترا میکدہ سلامت، ترے خم کی خیر ساقی
    مرا نشہ کیوں اُترتا، مجھے کیوں‌ خمار ہوتا

    مرے اتقا کا باعث تو ہے مری ناتوانی
    جو میں توبہ توڑ سکتا تو شراب خوار ہوتا

    میں ہوں‌ نامراد ایسا کہ بلک کے یاس روتی
    کہیں پا کے آسرا کچھ جو امیدوار ہوتا

    نہیں پوچھتا ہے مجھ کو کوئی پھول اس چمن میں
    دلِ داغدار ہوتا ہو گلے کا ہار ہوتا

    وہ مزا دیا تڑپ نے کہ یہ آرزو ہے یارب
    مرے دونوں پہلوؤں میں دل بیقرار ہوتا

    دمِ نزع بھی جو وہ بُت مجھے آکے منہ دکھاتا
    تو خدا کے منہ سے اتنا نہ میں شرمسار ہوتا

    نہ مَلَک سوال کرتے، نہ لحد فِشار دیتی
    سر راہِ کوئے قاتل جو مرا مزار ہوتا

    جو نگاہ کی تھی ظالم تو پھر آنکھ کیوں چُرائی
    وہی تیر کیوں نہ مارا جو جگر کے پار ہوتا

    میں زباں سے تم کو سچا کہوں لاکھ بار کہہ دوں
    اسے کیا کروں کہ دل کو نہیں اعتبار ہوتا

    مری خاک بھی لحد میں نہ رہی امیر باقی
    انہیں مرنے ہی کا اب تک نہیں اعتبار ہوتا

    --------------------------------------------------------------------
    غزل
    (حضرت نواب فصیح الملک داغ رحمتہ اللہ علیہ)

    عجب اپنا حال ہوتا جو وصال یار ہوتا
    کبھی جان صدقے ہوتی، کبھی دل نثار ہوتا

    کوئی فتنہ تاقیامت نہ پھر آشکار ہوتا
    ترے دل پہ کاش ظالم مجھے اختیار ہوتا

    جو تمہاری طرح تم سے کوئی جھوٹے وعدے کرتا
    تمہیں منصفی سے کہہ دو، تمہیں اعتبار ہوتا؟

    غم عشق میں مزہ تھا جو اسے سمجھ کے کھاتے
    یہ وہ زہر ہے کہ آخر مےء خوشگوار ہوتا

    نہ مزہ ہے دشمنی میں، نہ ہے لطف دوستی میں
    کوئی غیر غیر ہوتا، کوئی یار یار ہوتا

    یہ مزہ تھا دل لگی کا کہ برابر آگ لگتی
    نہ تجھے قرار ہوتا نہ مجھے قرار ہوتا

    ترے وعدے پر ستمگر ابھی اور صبر کرتے
    اگر اپنی زندگی کا ہمیں اعتبار ہوتا

    یہ وہ درد دل نہیں ہے کہ ہو چارہ ساز کوئی
    اگر ایک بار ملتا تو ہزار بار ہوتا

    گئے ہوش تیرے زاہد جو وہ چشم مست دیکھی
    مجھے کیا الٹ نہ دیتی جو نہ بادہ خوار ہوتا

    مجھے مانتے سب ایسا کہ عدو بھی سجدے کرتے
    درِ یار کعبہ بنتا جو مرا مزار ہوتا

    تمہیں ناز ہو نہ کیونکر کہ لیا ہے داغ کا دل
    یہ رقم نہ ہاتھ لگتی، نہ یہ افتخار ہوتا
     
  7. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    واہ کاشفی بھائی ۔ کیا عمدہ انتخاب ڈھونڈ کے لائے ۔
    ایک ہی زمین اور ایک ہی بحر میں تین عظیم شعرا کے کلام پڑھ کر مزہ آگیا ۔


    اور ہاں آپکے اوتار میں آپکی پیاری پیاری تصویر کہاں گئی ؟
     
  8. زاہرا
    آف لائن

    زاہرا ---------------

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2006
    پیغامات:
    4,208
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    بہت خوب کاشفی صاحب۔
    اپنے اعلی انتخاب سے آپ نے خوب رونق لگا رکھی ہے۔
     
  9. حسن رضا
    آف لائن

    حسن رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جنوری 2009
    پیغامات:
    28,857
    موصول پسندیدگیاں:
    592
    ملک کا جھنڈا:
    دوست آپ نے بہت خوب شاعری ارسال کی بہت ساری داد قبول کریں:a172:
     
  10. مبارز
    آف لائن

    مبارز ممبر

    شمولیت:
    ‏3 اگست 2008
    پیغامات:
    8,835
    موصول پسندیدگیاں:
    26
    شکریہ------
     
  11. مبارز
    آف لائن

    مبارز ممبر

    شمولیت:
    ‏3 اگست 2008
    پیغامات:
    8,835
    موصول پسندیدگیاں:
    26
    شکریہ------
     
  12. مبارز
    آف لائن

    مبارز ممبر

    شمولیت:
    ‏3 اگست 2008
    پیغامات:
    8,835
    موصول پسندیدگیاں:
    26
    شکریہ------
     
  13. مبارز
    آف لائن

    مبارز ممبر

    شمولیت:
    ‏3 اگست 2008
    پیغامات:
    8,835
    موصول پسندیدگیاں:
    26
    غزل
    (کنور اخلاق محمد خاں شہریار - علیگڑھ، ہندوستان)

    مشعلِ درد پھر اک بار جلا لی جائے
    جشن ہو جائے، ذرا دھوم مچالی جائے

    خون میں جوش نہیں آیا زمانہ گذرا
    دوستو آؤ کوئی بات نکالی جائے

    جان بھی میری چلی جائے تو کچھ بات نہیں
    وار تیرا نہ مگر ایک بھی خالی جائے

    جو بھی ملنا ہے ترے در سے ہی ملنا ہے اسے
    در ترا چھوڑ کے کیسے یہ سوالی جائے

    وصل کی صبح کے ہونے میں ہے کچھ دیر ابھی
    داستاں ہجر کی کچھ اور بڑھا لی جائے
     
  14. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بہت عمدہ اشعار ہیں کاشفی بھائی ۔ بہت خوب۔ :a180:
     
  15. مبارز
    آف لائن

    مبارز ممبر

    شمولیت:
    ‏3 اگست 2008
    پیغامات:
    8,835
    موصول پسندیدگیاں:
    26
    شکریہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     
  16. مبارز
    آف لائن

    مبارز ممبر

    شمولیت:
    ‏3 اگست 2008
    پیغامات:
    8,835
    موصول پسندیدگیاں:
    26
    غزل
    (داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)

    یاں‌ دل میں خیال اور ہے، واں مدنظر اور
    ہے حال طبیعت کا اِدھر اور، اُدھر اور

    ہر وقت ہے چتون تری اے شعبدہ گر اور
    اک دم میں‌مزاج اور ہے، اک پل میں نظر اور

    ناکارہ و نادان کوئی مجھ سا بھی ہوگا
    آیا نہ بجز بے خبری مجھ کو ہنر اور

    ہوں پہلے ہی میں عشق میں غرقاب خجالت
    کیا مجھ کو ڈبوتے ہیں مرے دیدہء تر اور

    ٹھہرا ہے وہاں مشورہء قتل ہمارا
    لو حضرت دل ایک سنو تازہ خبر اور

    بھر بھر کے جو دیتے ہیں‌وہ جام اور کسی کو
    لے لے کے مزے پیتے ہیں‌ یا خون جگر اور

    ہم جانتے ہیں خوب تری طرز نگہ کو
    ہے قہر کی آنکھ اور، محبت کی نظر اور

    اے داغ مئے عشق کو کیا زہر سے نسبت
    ہے اِس میں‌ اثر اور ، وہ رکھتا ہے اثر اور
     
  17. مبارز
    آف لائن

    مبارز ممبر

    شمولیت:
    ‏3 اگست 2008
    پیغامات:
    8,835
    موصول پسندیدگیاں:
    26
    غزل
    (شوکت علی خاں فانی بدایونی)

    یاں ہوش سے بیزار ہوا بھی نہیں‌جاتا
    اُس بزم میں‌ہُشیار ہوا بھی نہیں‌جاتا

    کہتے ہو کہ ہم وعدہ پرسش نہیں‌کرتے
    یہ سن کے تو بیمار ہوا بھی نہیں‌جاتا

    دشواری، انکار سے طالب نہیں‌ڈرتے
    یوں سہل تو اقرار ہوا بھی نہیں‌جاتا

    آتے ہیں عیادت کو تو کرتے ہیں‌نصیحت
    احباب سے غم خوار ہوا بھی نہیں‌جاتا

    جاتے ہوئے کھاتے ہیں مری جان کی قسمیں
    اب جان سے بیزار ہوا بھی نہیں‌جاتا

    غم کیا ہے اگر منزل جاناں ہے بہت دور
    کیا خاکِ رہِ یار ہوا بھی نہیں‌جاتا

    دیکھا نہ گیا اس سے تڑپتے ہوئے دل کو
    ظالم سے جفا کار ہوا بھی نہیں‌ جاتا

    یہ طرفہ ستم ہے کہ ستم بھی ہے کرم بھی
    اب خوگر آزار ہوا بھی نہیں‌جاتا
     
  18. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    واہ بہت خوب مبارز جی
     
  19. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:

    کاشفی بھائی ۔دونوں کلام بہت عمدہ ہیں۔ بہت خوب۔
     
  20. مبارز
    آف لائن

    مبارز ممبر

    شمولیت:
    ‏3 اگست 2008
    پیغامات:
    8,835
    موصول پسندیدگیاں:
    26
    شکریہ جی بہت بہت۔۔۔
     
  21. مبارز
    آف لائن

    مبارز ممبر

    شمولیت:
    ‏3 اگست 2008
    پیغامات:
    8,835
    موصول پسندیدگیاں:
    26
    شکریہ جناب بہت بہت۔۔
     
  22. مبارز
    آف لائن

    مبارز ممبر

    شمولیت:
    ‏3 اگست 2008
    پیغامات:
    8,835
    موصول پسندیدگیاں:
    26
    غزل
    (علی مینائی)

    یوں تو جو مل جائے، ہو جاتے ہیں اس منظر کے لوگ
    آرزوئے عہد نو رکھتے ہیں‌دنیا بھر کے لوگ

    کون دیوانہ ہے ٹکرائے جو سر دیوار سے
    آئینے کے گھر ہیں اسی بستی میں اور پتھر کے لوگ

    یہ بھی اک ترتیب سنگ و خشت و آہن ہی تو ہے
    جانے کیوں‌گرویدہ ہو جاتے ہیں بام و در کے لوگ

    ہاتھ میں تسبیح تھامے، سر پر عمامہ لئے
    محفل جاناں میں آبیٹھے ہیں‌کچھ باہر کے لوگ

    قریہء غم، شہر فرقت، کوچہء خواب و خیال
    بستیاں آباد کر جاتے ہیں کتنی مر کے لوگ

    بے تکلف یوں چلی آتی ہے دل میں‌تیری یاد
    گھر میں آجاتے ہیں جیسے بن پکارے گھر کے لوگ
     
  23. مبارز
    آف لائن

    مبارز ممبر

    شمولیت:
    ‏3 اگست 2008
    پیغامات:
    8,835
    موصول پسندیدگیاں:
    26
    غزل
    (سرور عالم راز سرور)
    نگاہ خود پہ جو ڈالی تو یہ ہُوا معلوم
    نہ ابتدا کی خبر ہے، نہ انتہا معلوم!

    سوائے اس کے نہیں کچھ بھی باخدا معلوم
    ہمیں تو اپنا بھی یارو نہیں پتا معلوم!

    مآل شکوہء غم، حاصلِ دُعا معلوم!
    غریبِ شہرِ وفا کا علاج، لامعلوم!

    خزاں گزیدہ بہاروں نے کیا کہا تجھ سے؟
    مآلِ گل نہیں‌کیا تجھ کو اے صبا معلوم؟

    اک عمر کٹ گئی امید و نامرادی میں
    اب انتظار ہے کل کا، سو وہ بھی کیا معلوم!

    بس اتنا جانتے ہیں دل کسی کو دے آئے
    بھلے برے کی خبر کیا ہمیں بھلا معلوم؟

    نہیں ہے کچھ بھی تلاشِ سکون سے حاصل
    مقام عشق کی ہے ہم کو ہر ادا معلوم!

    بھلے ہی تم کو نہ ہو اپنے عاشقوں کی خبر!
    ہمیں ہے حال تمہارا ذرا ذرا معلوم!

    پڑا ہے سوچ میں سرور مقامِ عبرت میں
    یہ کیا غضب ہے کہ معلوم بھی ہے نا معلوم؟
     
  24. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بہت خوب اشعار ہیں کاشفی بھائی ۔ عمدہ انتخاب ۔
     
  25. حسن رضا
    آف لائن

    حسن رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جنوری 2009
    پیغامات:
    28,857
    موصول پسندیدگیاں:
    592
    ملک کا جھنڈا:
    واہ دوست بہت خوب شاعری ارسال کی ہے آپ نے :bigblink: :101:
     
  26. زاہرا
    آف لائن

    زاہرا ---------------

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2006
    پیغامات:
    4,208
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    کاشفی ! آپ کے ذوقِ وارفتگی کی کیا بات ہے۔ ! بہت عمدہ !!!!
     
  27. مبارز
    آف لائن

    مبارز ممبر

    شمولیت:
    ‏3 اگست 2008
    پیغامات:
    8,835
    موصول پسندیدگیاں:
    26
    بیحد شکریہ۔۔خوش رہیں۔۔
     
  28. مبارز
    آف لائن

    مبارز ممبر

    شمولیت:
    ‏3 اگست 2008
    پیغامات:
    8,835
    موصول پسندیدگیاں:
    26
    شکریہ بہت بہت۔۔خوش رہیں۔۔
     
  29. مبارز
    آف لائن

    مبارز ممبر

    شمولیت:
    ‏3 اگست 2008
    پیغامات:
    8,835
    موصول پسندیدگیاں:
    26
    بیحد شکریہ۔۔خوش و خرم رہیں۔۔۔
     
  30. مبارز
    آف لائن

    مبارز ممبر

    شمولیت:
    ‏3 اگست 2008
    پیغامات:
    8,835
    موصول پسندیدگیاں:
    26
    اہل پاکستان کے نام ایک خوبصورت غزل۔۔۔۔۔

    غزل
    (شکیل سروش)

    زمانے میں‌سروش اپنی یہی پہچان رکھیں گے
    ہم امریکہ میں‌رہ کر دل کو پاکستان رکھیں گے

    تجھے دل میں‌بٹھائیں گے، کبھی لکھیں گے آنکھوں پر
    خیال یار تجھ کو اس طرح‌ مہمان رکھیں‌ گے

    تری آنکھوں کو دے کر روشنی اپنی نگاہوں کی
    ترے بلور سے پیکر میں اپنی جان رکھیں گے

    تمہیں مشکل بنائیں‌ گے ہم اپنے واسطے لیکن
    تمہارے واسطے خود کو بہت آسان رکھیں گے

    اگرچہ جانے والے لوٹ کر آتے نہیں‌ جاناں
    تجھے اک بار پھر ملنے کا اک امکان رکھیں‌ گے
     

اس صفحے کو مشتہر کریں