1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ڈپٹی صاحب کی پالیسی

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از صدیقی, ‏22 فروری 2012۔

  1. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    ڈپٹی صاحب کی پالیسی
    پولیسیانہ طنزومزاحڈپٹی صاحب کی پالیسیایک پولیس افسر کے شوخ قلم سے اندرون خانہ راز افشا کرنے والاتیراثرشہ پارہذوالفقار احمد چیمہسال پہلے جس ضلع میں میری تعیناتی ہوئی، اس کے ہمسایہ ضلع سے بڑی دلچسپ خبریں آتی ۔اس ضلع سے کئی دانش مند حضرات ملنے آتے تو کہا کرتے کہ اب اس کا نام رشوت نگر رکھ دینا چاہیے کیونکہ ہر سرکاری اور غیرسرکاری دفتر میں رشوت کا راج ہے۔ دونوں اہم ترین محکموں یعنی پولیس اور محکمہ مال کے سربراہ ڈی۔ایس۔پی اور ڈی۔ڈی۔او۔آر عوامی خدمت کے بجائے رشوت خوری اور لوٹ مار میں ایک دوسرے سے بڑھ کر تھے اور اس میدان میں ایک دوسرے کو مات دینے میں کوشاں رہتے۔ ڈی۔ایس۔پی، ڈی۔ڈی۔او۔آر کو کرپشن کا بحرالکاہل اور وہ ڈی۔ایس۔پی کو رشوت کا کوہ ہمالیہ قرار دیتا ۔ عوامی حلقوں میں ہر دو افسران انہی ’’اوصافِ کبیدہ‘‘ کے باعث یکساں بدنام تھے ۔

    یہ کہانی تو سب کو معلوم تھی کہ اپنے کرتوتوں کے باعث جب بھی دونوں افسروں میں سے کسی کا تبادلہ ہوتا تو ان کے بااثر کفیل ( اسمبلیوں کے معزز رکن ) حرکت میں آجاتے اور اوپر جا کریہ ’’اصل حقائق‘‘ بتاتے ’’افسر موصوف ہمارے ساتھ بہت تعاون کر رہا ہے۔ اسی لیے ہمارے مخالفین اس کے خلاف ہیں اور ایک دو صحافیوں کو پیسے دے کرخواہ مخواہ اس کے خلاف خبریں لگوا رہے ہیں۔‘‘ اس’’ وزنی دلیل‘‘ کے بعد تبادلہ منسوخ ہوجاتا۔ ڈی۔ایس۔پی کو عام لوگ ڈپٹی اور اس کے ماتحت کو ڈپٹی صاحب کے نام سے یاد کرتے ۔لیکن ایک بار جب ڈپٹی صاحب کے گناہوں اور لوگوں کی آہوں نے عوامی جذبات میں آگ لگا دی (جس سے ایک تھانہ بھی جل گیا) تو موصوف کا تبادلہ کردیا گیا۔ ’’کفیل‘‘ ان دنوں دُبئی گیا ہوا تھا، اس لیے تبادلہ نہ رک سکا۔ اس کی واپسی پر ڈپٹی صاحب نے اس سے بالمشافہ ملاقات کی، اپنی علانیہ اور خفیہ خدمات گنوائیں جس پر کفیل نے اوپر بات کرکے ڈپٹی صاحب کی نئی تحصیل میں تعیناتی کرا دی۔نئے دفتر میں ڈپٹی ایک روز ملاقاتیوں سے گپ شپ کے دوران سابقہ تحصیل سے اپنے تبادلے کو ملکی سلامتی کے خلاف سازش اور موجودہ تعیناتی کو حکومت کا صحیح اور بروقت اقدام قرار دیتے ہوئے کہنے لگا ’’اگر حاسدین مجھے ایک جگہ سے تبدیل کروائیں تو حکومت ’’میرٹ‘‘ پر مجھے دوسری جگہ لگا دیتی ہے۔ یعنی ایک جگہ ڈوبتا ہوں تو سورج کی طرح دوسری جگہ اُبھر آتا ہوں۔
    کچھ ایسے ہی موقع کے لیے ڈاکٹر اقبال صاحب فرماتے ہیں کہ اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے۔"

    حاضرین میں مقامی کالج کے اُردو کے اُستاد بزمی صاحب بھی موجود تھے ۔وہ ۳؍ ماہ قبل اپنے گھر ہونے والی چوری کا پرچہ درج کروانے نئی درخواست لیے نئے افسر سے ملنے آئے تھے۔ کہن ے لگے’’ حضور! علامہ اقبال نے تو یہ شعر اہلِ ایمان کے بارے میں کہا تھا۔‘‘ ڈپٹی صاحب غصے سے بولے ’’دیکھو مسٹر! انچارج بزمِ ادب! تم کوئی ڈاکٹر صاحب کے کمپوڈر لگے ہوئے تھے کہ تمھیں وہ دل کی ساری باتیں بتا دیتے، آپ لوگوں میں دوسروں پر شک کرنے کی بہت بُری عادت ہے۔ دیکھو اگر ترقی کرنی ہے تو اس عادت پر قابو پائیں اور افسروں سے تعاون کیا کریں۔‘‘ بزمی صاحب سہم کر خاموش ہوگئے۔مختلف آسامیوں سے ’’ماہانہ‘‘ اکٹھے کرنے کے لیے ڈپٹی صاحب کا بڑا منظم نظام تھا۔ ایک ’’کلیکٹر‘‘ دوسروں کے فرائض اور سرگرمیوں سے بے خبر ہوتا۔ تھانے داروں سے ماہانے اور نذرانے اکٹھے کرنے کی ذمے داری ریڈرکرم دین کے سپرد تھی، جسے وہ چھڑی اور گاجر کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے بڑے مؤثرطریقے سے نبھا رہا تھا۔ صاحب کے گھریلو اخراجات اور ثقافتی ضروریات کے علاوہ متعلقہ تھانے میں جرائم کی شرح پیشِ نظر رکھتے ہوئے کرم دین ماہانے کی رقم میں ترمیم و اضافہ کرتا رہتا مگر وہ تھانے داروں کو یہ تاکید کرنا کبھی نہ بھولتا ’’دیکھو!ادائی میں تاخیر صاحب کو سخت ناپسند ہے۔ وہ تاخیری حربے کو تخریبی کارروائی سے کم نہیں سمجھتے۔‘‘

    ماہِ رمضان کے پہلے روز جمعۃ المبارک تھا۔ کرم دین محلے کی جامع مسجد میں رمضان کی فضیلت اور گناہوں سے مغفرت کے متعلق مولانا صاحب کی تقریر سن کر بڑا متاثر ہوا۔ دوسرے ہی روز وہ صبح ہی صبح ڈپٹی صاحب کے کمرے میں گیا اور بولا ’’سرجی! رمضان کا مقدس مہینا شروع ہوگیا ہے۔ مولانا صاحب کی تقریر سن کر ڈر سا آنے لگا ہے۔ سرجی! رمضان میں جناب کی پالیسی کیا ہوگی؟‘‘’’کیا مطلب؟‘‘ ڈپٹی نے اس کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔’’جناب! میں ’’منتھلی‘‘ وغیرہ کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں کہ اس مہینے میں ناغہ ہوگا یا جناب پالیسی کے بارے میں بعد میں بتائیں گے؟‘‘ڈپٹی ذرا پریشان سا ہوا مگر اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے بولا ’’دیکھو کرم دین، مولوی شریف آدمی ہے۔ ہم عید شب برأت پر اس کی مدد بھی کرتے ہیں مگر پولیس اور امن و امان کے مسائل بڑے پیچیدہ جبکہ نکاح اور جنازے کے مسئلے بہت سادہ ہیں۔ مولوی صاحب کا شعبہ بڑا محدود ہے اور امن و امان کا دائرہ کار بڑا وسیع اور کٹھن جس کی مشکلات کا اندازہ مولوی صاحب کو نہیں ہو سکتا۔ یہ اس کا کام نہیں۔ کسی نے صحیح کہا ہے کہ دل کا اپنا کام ہے، گردے کااپنا۔

    تم نے پالیسی کے متعلق پوچھا ہے تو یاد رکھو! کسی بھی محکمے کی ترقی کے لیے پالیسیوں کا تسلسل بہت ضروری ہے۔ تسلسل ٹوٹنے سے ادارے ٹوٹ جاتے اور ناغے تو محکمے کے لیے زہرِقاتل ہوتے ہیں۔ سمجھ گئے نا؟‘‘کرم دین نے پھر رمضان کا لفظ منہ سے نکالا تو جواب ملا ’’دیکھو اخراجات بڑھ گئے ہیں۔ اس بار حج کا بھی ارادہ ہے۔ ڈی۔ڈی۔او۔آر پچھلے سال حج کر آیا ، اب محفلوں میں ہم پر طنز کرتا ہے۔ اس لیے ہمارا جانا بھی ضروری ہے۔ چنانچہ تسلسل کسی صورت نہیں ٹوٹنا چاہیے۔ لہٰذا سابقہ پالیسی جاری رکھو! جائو شاباش محنت کرو بلکہ رمضان میں اور محنت کرو اور حج کے انتظامات بھی شروع کر دو۔‘‘ڈپٹی صاحب نے حج کا قصد کیا تو کرم دین کو ہدایات جاری کر دی گئیں ۔اس نے مالی معاملات سنبھالنے کے لیے’’ کنسورشیم‘‘ کا ہنگامی اجلاس طلب کرلیا۔ شرکاء میں کچھ بڑے تھانوں کے انچارج، کچھ مالدار پارٹیاں (جن کے کیس ابھی زیرِ تفتیش تھے) اور کچھ معطل تھانیدار، جن کی انکوائریاں ڈپٹی صاحب کے پاس تھیں، شامل تھے۔ اب ذمے داریاں تقسیم ہوگئیں۔ ڈپٹی اور بیگم ڈپٹی کے لیے بزنس کلاس کے ٹکٹ لینے کی ذمے داری ایس ایچ او صاحبان کو ملی۔ حرم شریف کے قریب پانچ ستارہ( فائیوسٹا ر)ہوٹل میں قیام و طعام، دھوکا دہی میں ملوث ایک پراپرٹی ڈیلر نے اپنے ذمے لے لیا۔ زیارات کے لیے ٹرانسپورٹ کے انتظام کی ذمے داری ایک بڑے غبن کے ملزمان کے سپرد کر دی گئی۔بوقتِ روانگی ہوائی اڈے پر تھانیداروں اور ملزمان و مشتبہ گان کا ہجوم ہار لیے کھڑا تھا۔ ڈپٹی و بیگم ڈپٹی کو ہاروں سے لاد کر رُخصت کیا گیا۔ سعودی عرب میں بھی ان کے پہنچنے کی اطلاع بجھوا دی گئی تھی لہٰذا کچھ لوگ وہاں بھی گاڑیاں لے کر ہوٹل پہنچ گئے۔ وہ ہر روز صاحب اور بیگم صاحب کو سیر کرانے لے جاتے۔ میزبان روحانی نظاروں کا ذکر کرتے اور مہمان بازاروں اور سناروں کی بابت پوچھتے۔ دونوں مقدس شہروں میں ان کی توجہ زیارات کی نسبت زیورات پر زیادہ مرکوز رہی۔حج کے مراحل طے کرنے کے بعد الوداعی ملاقاتیں ہوئیں۔ میزبانوں اور مہربانوں نے حسبِ روایت کھجوروں کے پیکٹ اور آبِ زم زم کے ڈبے ساتھ لے جانے کے لیے پیش کیے مگر حاجی اور حاجن دونوں غیر مطمئن نظر آئے۔ بالآخر پیمانۂ ہوس چھلک اٹھا اور ڈپٹی صاـحب بول پڑے ’’دیکھیے،واپسی پر دوست اور رشتے دار مبارک باد دینے آئیں گے۔ مجھے اپنی حیثیت کے مطابق تحفے بھی دینے ہوں گے۔ صرف پانی کی بوتلوں سے تو انھیں مطمئن نہیں کیا جا سکتا‘‘

    ۔ ڈپٹی صاحب نے پھر عالمانہ رنگ میں بات جاری رکھتے ہوئے کہا ’’آپ بالِ جبرائیل نکال کر پڑھیے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ جب ایک دوست حج کے بعد ڈاکٹراقبال صاحب کے لیے بطورِ تحفہ صرف آبِ زم زم کی بوتلیں لے گیا تو ان جیسی شخصیت نے بھی برامنایا۔ ناراض ہو کر شعر لکھا کہ کیا حرم کا تحفہ زَم زَم کے سوا کچھ بھی نہیں؟ کیا خوبصورت شعر اور آج کے موقع محل کے بھی مطابق ہے۔‘‘میزبان سمجھ دار تھے اور مالدار بھی، شعر کی ڈپٹیانہ تشریح کے فوراً بعد بڑے بازاروں اور مہنگے سناروں کی جانب روانہ ہوگئے۔ جب وہاں سے خریدے گئے ڈبوں اور پیکٹوں کی ادائی ہوگئی، تب جا کر ڈپٹی صاحب کے حج کی ادائی مکمل ہوئی۔ واپسی کے بارے میں کرم دین کو پھر ہدایات جاری کی گئیں۔ اس نے وضاحت چاہتے ہوئے فون پر پوچھا ’’ جناب! ایک ایک ہار فی تھانیدار کافی ہوگا؟ نیز یہ بھی فرما دیں کہ ہار پھولوں کے ہوں یا نوٹوںکے؟‘‘فون پر ڈپٹی نے جھڑکتے ہوئے کہا ’’دیکھو کرم دین! بے وقوفوں والی بات نہ کرو۔ ہم کوئی جیل سے چھوٹ کر نہیں آرہے جو گلے میں پھول ڈال دو گے۔۲ دن میں مرجھا جانے والے ہار پہنانا حاجیوں کی ہی نہیں، حج کی بھی توہین ہے۔‘‘فون کٹ گیا مگر ایک منٹ بعد کرم دین کے فون پر پھر گھنٹی بجی۔ سعودی عرب سے کال تھی۔ تاکیداً یاد دہانی کرائی گئی ’’کرم دین یہ تو تم جانتے ہی ہو گے کہ اب ۵ ہزار والے نوٹ بھی آچکے ۔ وہ مضبوط اور کڑک دار ہوتے ہیں، اس لیے ہار اِن سے زیادہ سجتے ہیں۔‘‘کرم دین نے کہا ’’تعمیل ہو گی جناب۔‘‘’’اور بعد از حج پالیسی کے بارے میں بھی کچھ پوچھنا ہے؟‘‘’’میں سمجھ گیا جناب، سابقہ پالیسی جاری رہے گی
     

اس صفحے کو مشتہر کریں