1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ڈرون حملے ہماری خودمختاری کیخلاف لیکن موثر ہیں: پاشا

'خبریں' میں موضوعات آغاز کردہ از آصف احمد بھٹی, ‏10 جولائی 2013۔

  1. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ + اے ایف پی + بی بی سی) ایبٹ آباد کمشن رپورٹ کے مطابق سابق ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی جنرل پاشا نے کہا کہ ڈرون حملوں کے حوالے سے امریکہ کو شروع میں انکار کرنا آسان تھا لیکن اب ایسا کرنا بہت مشکل ہے۔ انہوں نے کہا ڈرون حملوں میں عام شہریوں کی ہلاکتوں کے باعث امریکہ کو بہت پہلے ہی روک دینا بہتر تھا۔ انہوں نے کہا ڈرون حملوں کے حوالے سے پاکستان اور امریکہ میں سیاسی مفاہمت موجود ہے جبکہ اس حوالے سے کوئی تحریری معاہدہ نہیں۔ انہوں نے کہا امریکی قانون کے مطابق ڈرون حملے قانونی ہیں لیکن عالمی قانون کے مطابق یہ غیر قانونی ہیں۔ جنرل پاشا نے کہا امریکہ بہت مغرور ہے اس کے تکبر کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ بی بی سی کے مطابق کمشن کی اس رپورٹ کے مطابق پاکستانی انٹیلی جنس کے ایک سابق سربراہ نے کہا اس بات کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا کہ اسامہ بن لادن کے بعد القاعدہ کے سربراہ بننے والے ایمن الظواہری بھی پاکستان میں تھے۔ این جی اوز کے بارے میں جنرل پاشا نے کہا بہت کم این جی اوز کا کردار اس حوالے سے صاف ہے کہ وہ بیرون سراغ رساں ایجنسیوں کو رسائی دیتی ہیں۔ سی آئی اے پریشان تھی این جی اوز کے ساتھ اس کا تعلق دوسروں کو پتہ نہ چل جائے۔ ڈائریکٹر سی آئی اے نے ڈی جی آئی ایس آئی سے درخواست کہ "Save the Childern's" این جی او کے کردار کو پاکستان میں بے نقاب نہ کیا جائے۔ پاشا کے مطابق امریکہ نہیں چاہتا تھا آئی ایس آئی کامیابی سے اسامہ بن لادن کو پکڑ سکے کیونکہ اس سے عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ بہتر ہو سکتی ہے۔ پاشا نے یہ بھی بتایا ایک امریکی انٹیلی جنس افسر نے کہا تھا پاکستانی اتنے سستے ہیں انہیں ایک ویزا، امریکہ کا دورہ یا ایک کھانے کے عوض خریدا جا سکتا ہے اور حتیٰ کہ کسی کو بھی۔ ایبٹ آباد کمشن نے امریکی حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا امریکہ کا یہ جنگی اقدام تھا اور فوج کو بہت تیزی سے جواب دینا چاہئے تھا کہ یہ واقعہ ہماری حدود کے 100 کلومیٹر اندر ہوا۔ رپورٹ کے مطابق 1971ءکے سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد یہ پاکستان کی بڑی تذلیل تھی۔ اے پی اے کے مطابق احمد شجاع پاشا نے کہا پاکستان اور امریکہ کے درمیان ڈرون حملوں کے ذریعے دہشت گردوں کو ہدف بنانے کے حوالے سے مکمل ہم آہنگی تھی۔ الجزیرہ نیوز نیٹ ورک کی جانب سے منظر عام پر آنے والی ایبٹ آباد کمشن کی رپورٹ میں سابق آئی ایس آئی سربراہ کے کچھ اہم انکشافات سامنے آئے ہیں جو انہوں نے دوران انٹرویو تحقیقاتی کمیٹی سے کئے، احمد شجاع پاشا کا کہنا تھا ڈرون حملوں سے متعلق پاکستان اور امریکہ کے درمیان کوئی معاہدہ نہیں بلکہ مفاہمتی طور پر دونوں ممالک کی متفقہ رائے تھی ان حملوں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مثبت نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ احمد شجاع پاشا نے کہا ڈرون حملے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے مو¿ثر تھے لیکن یہ بھی سچ ہے ان سے پاکستانی حدود کی خلاف ورزی ہوتی تھی اور یہ بین الاقوامی قوانین کے بھی خلاف ہیں، سابق آئی ایس آئی کے سربراہ نے مزید کہا ڈرون حملوں میں معصوم جانوں کے ضیاع پر پاکستان نے کئی بار امریکہ کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن امریکہ اپنی ضد پر اڑا رہا۔ انہوں نے کہا ڈرون حملوں سے امریکہ کو بہت پہلے ہی روک دینا بہتر تھا لیکن اب یہ کام انتہائی مشکل ہو چکا ہے۔ رپورٹ میں سابق آئی ایس آئی کے سربراہ نے اس بات کی تصدیق کی ڈرون حملے پاکستان کی شمسی ایئر بیس سے ہی کئے جاتے تھے لیکن نومبر 2011ءمیں امریکہ کی جانب سے سلالہ چیک پوسٹ پر کئے گئے حملے میں 24 پاکستانی فوجیوں کی شہادت کے بعد پاکستان نے امریکہ سے شمسی ایئر بیس خالی کرا لیا تھا۔ شجاع پاشا نے کہا پاکستان اور امریکہ کے تعلقات اس وقت مزید کشیدہ ہوئے جب 2011ءمیں امریکہ نے ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کو مارنے کے لئے آپریشن کیا اور سی آئی اے کے اہلکار ریمنڈ ڈیوس نے لاہور میں 2 نہتے پاکستانیوں کو گولیاں مار کر قتل کر دیا۔ ان کا کہنا تھا امریکہ کے غرور کی کوئی انتہا نہیں تھی، امریکہ نے طالبان کے رہنما ملا عمر اور القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کے بارے میں پتہ لگانے کے لئے پاکستان پر اعصابی دباو¿ ڈالنا شروع کر دیا تھا۔نوائے وقت رپورٹ کے مطابق سابق ڈی آئی جی آئی ایس آئی احمد شجاع پاشا نے ایبٹ آباد کمشن کو بیان میں کہا تھا یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے ڈرون حملے سود مند ہیں لیکن ڈرون حملے پاکستان کی خودمختاری کے خلاف ہیں۔ بی بی سی کے مطابق ایبٹ آباد کمشن نے ا±سامہ بن لادن کا سراغ لگانے میں امریکہ کی مدد کرنے کے الزام کا سامنے کرنے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو قبائلی انتظامیہ کے ذریعے ایک اور مقدمے میں مجرم قرار دینے پر تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ یہ ممکن ہے کہ انہیں امریکہ کے سپیشل آپریشنز مشن اور اس کے مطلوبہ ہدف (بن لادن) کا علم ہی نہ ہو۔ الجزیرہ کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے ’ہوسکتا ہے انہیں (شکیل آفریدی) شک ہوا ہو مگر سچ یہ ہے انہیں امریکی کارروائی کے تین ہفتوں بعد گرفتار کیا گیا۔ اس دوران سی آئی اے انہیں ملک سے باہر لے جاسکتی تھی۔‘ کمشن کہتا ہے حسب قانون ایک غیرجانبدارانہ سماعت کے ذریعے ہی یہ ثابت کیا جا سکتا ہے ڈاکٹر شکیل آفریدی کس حد تک اور کس طرح سے ملوث تھے۔ ان پر شفاف انداز میں مقدمہ چلنا چاہئے مگر حکومت کے حمایت یافتہ قبائلی جرگے کے ذریعے خودساختہ الزامات میں انہیں مجرم قرار دے کر مناسب قانونی طریقہ نہیں۔کمشن کہتا ہے ڈاکٹر آفریدی کے خلاف اس کارروائی سے پاکستان اور اس کے عدالتی عمل کی ساکھ کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔ ’یہ انصاف کے ساتھ مذاق تھا جس سے ناقدین کو یہ کہنے کا موقع ملا کہ حکومت کے پاس ڈاکٹر آفریدی کے خلاف کوئی حقیقی مقدمہ نہیں۔ اس کے برعکس کمشن کو حتمی طور پر یقین ہے آفریدی پر درحقیقت ایک مقدمہ بنتا ہے جس میں انہیں جواب دینا ہے۔‘ کمشن کی رپورٹ میں ڈاکٹر شکیل سے ہونے والی تفصیلی بات چیت رقم کی گئی ہے۔​
    اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی تحقیقات کرنے کیلئے قائم کردہ ایبٹ آباد کمشن کے چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاو ید اقبال نے کہا ہے کمشن کی رپورٹ میں کسی کو کلین چٹ نہیں دی گئی۔ حکومت کو پیش کردہ رپورٹ میں ذمہ داروں کا مکمل تعین کر دیا ہے۔ ایبٹ آباد کمشن کی رپورٹ کے بار ے میں شائع اور براڈکاسٹ ہونے والی خبروں کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا ایبٹ آباد کمشن نے 100 سے زائد سفارشات پر مبنی رپورٹ 2 جنوری 2013ءکو حکومت کو پیش کر دی ہے، اس رپورٹ کو شائع کرنا حکومت کا کام ہے۔ انہوں نے کہا یہ کہنا غلط ہے ٹی اے، ڈی اے کی وجہ سے رپورٹ میں دیر ہوئی، کمشن کو دیئے گئے 5 کروڑ حکومت کو واپس کر دیئے ہیں۔ انہوں نے کہا کمشن نے 7 ہزار عربی دستاویزات اور ایک ڈائری کا بھی جائزہ لیا ہے۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا ذمے داروں میں ادارے اور افراد دونوں شامل ہیں۔ کمشن کے ارکان کا رپورٹ تحریر کرنے کا سٹائل مختلف تھا تاہم کمشن کی رپورٹ میں کوئی بڑا اختلاف موجود نہیں، تمام ارکان اپنی رائے میں آزاد تھے، کمشن نے اپنے مینڈیٹ کے اندر رہ کر کام کیا ہے۔ انہوں نے کہا کمشن نے اپنی سفارشات تیار کر کے دیدی ہیں تاہم ایک بات واضح ہے ایبٹ آباد کمشن کی رپورٹ میں کسی کو بری الذمہ قرار نہیں دیا گیا۔ ایسا ہوتا تو کب کی رپورٹ شائع ہو چکی ہوتی، جزا اور سزا کا کام حکومت کا ہے، کسی ادارے نے کمشن کے سامنے پیش ہونے سے انکار نہیں کیا۔ مزید براں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید نے کہا ہے ایبٹ آباد کمشن کی افشاءہونے والی رپورٹ کا جائزہ لے رہے ہیں کہ کیا یہ حقیقی رپورٹ ہے یا نہیں اور یہ حقیقی رپورٹ ہوئی تو تحقیقات کی جائیگی ریاست کی اہم دستاویز کیوں کر افشاءہوئی۔ پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ میں وفاقی وزارت اطلاعات کی کوریج کرنے والے صحافیوں سے غیررسمی بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے ایبٹ آباد کمشن رپورٹ کے حالے سے سوال پر کہا پہلے یہ دیکھنا ہو گا کیا یہ واقعی وہی رپورٹ ہے، اس کی تصدیق کا تعین ہونا ابھی باقی ہے، یہ ریاست کی ایک اہم دستاویز ہے اور اس کے تمام پہلوﺅں کا جائزہ لیا جائے گا۔​
     

    منسلک کردہ فائلیں:

    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں